جمادی الثانی کے اہم واقعات

1890

تمام عربی مہینے مذکر ہیں، سوائے جمادی الاوّل اور جمادی الآخرکے ، جو مونث ہیں ۔ الجمادیان کو یہ نام 412 عیسوی کے لگ بھگ پیغمبر اسلام کے پانچویں دادا کلاب ابن مرہ کے دور میں دیا گیا تھا۔ روایات میں بتایا گیا ہے کہ اس مہینے کو اس نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا نام جمادی الاولی کے ساتھ ہی رکھا گیا تھا کہ سسکیوں کی شدت کی وجہ سے ان میں پانی جم گیا تھا۔ یعنی شدید سردی میں ۔

عربوں میں وہ بھی تھے جو سردیوں کے پورے موسم کو جمادہ کہتے تھے ۔ ایسا لگتا ہے کہ جمادیان کے وقت موسم سرما میں موسم بہت سرد تھی، خاص طور پر جزیرہ نما عرب کے شمال میں، یہاں تک کہ لوگ سردی میں مر رہے تھے ۔ ہوا یہ کہ ملک تیما نے 226 ہجری کے جمادی الاولی میں سفید رنگ کے اولوں کی بارش کی جس سے ان کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہو گئی۔

مختصراً یہ کہ اسلامی سال کے ان مہینہ جمادی الاولی اور جمادی الثانی ’ کی وجہ تسمیہ یہ یہی ہے کہ اس مہینے میں پانی جامد ہوگیا تھا۔ جمادی کی جمع عربی زبان میں ’’جمادیات‘‘ آتی ہے، جیسے کہ ’’حباری‘‘ کی جمع ’’حباریات‘‘ آتی ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عربی زبان میں ’’جمادی‘‘ کا لفظ مذکر اور مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ۔

جمادی الآخرہ 4 ہجر ی : ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات وہ ابو سلمہ عبداللہ بن عبدالاسد المخزومی ہیں، جن کا انتقال جمادی الآخرہ4 ہجری میں ہوا، وہ بدر کے اصحاب میں سے تھے، سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں میں سے تھے اور ان کی والدہ براء بنت عبدالمطلب خالہ تھیں۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دودھ شریک بھائی تھے۔ انہوں نے حبشہ کی طرف دو ہجرتیں کیں اور مدینہ کی طرف ہجرت کی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور سعد بن خیثمہ الانصاری رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ پیدا کیا۔ وہ ام سلمہ کے شوہر تھے۔

٭سریہ حضرت زید بن حارثہ: 6 ھ ’ بنی فزارہ کی طرف وادی القری بھیجا گیا،چنانچہ وہ بعض کفار کو قتل اور بعض کو قید کر لائے۔قیدیوں میں ا’م قرضہ جس کا نام فاطمہ بنت ربیعہ کو بھی قید کر لائے۔یہ اپنی قوم میں عزت واحترام میں ضرب المثل تھی ،یہ اپنے گھر میں ہمیشہ پچاس شمشیر زن رکھتی تھی جو تمام اس کے محرم تھے۔

غزوۃ ذی القرد (6 ہجری) اور رسول اللہ ؐ نے اس دن خوف کی نماز پڑھی۔

غط السلسل کی جنگ (8 ہجری) جس کی وجہ یہ تھی کہ بلع اور قضاہ کے لوگوں کا ایک گروہ شہر کے مضافات میں جمع ہوا۔ چنانچہ رسول اللہؐ عمرو بن العاص کے لیے ایک جھنڈا بھی مقرر کیا اور مہاجرین اور انصار کے تین سو سپاہیوں کے پاس بھیجا۔ سو دن ڈھلنے لگا اور رات گزر گئی۔ ان کے ساتھ تیس گھوڑے تھے ۔ یہاں تک کہ وہ ان کے قریب پہنچا اور کوڑھ کی زمین میں پانی پر اترا جسے زنجیروں کا نام دیا جاتا ہے ۔

خلیفہ ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کا سفر ذوالقصہ تک جو ان کے اور مدینہ کے درمیان ایک مقام ہے ، چوبیس راتیں، مرتدوں سے لڑنے اور سنان الدماری کو جانشین مقرر کرنے کے لیے ۔ (11 ہجری)

خلیفہ ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی وفات : 13 ہجری میں آٹھویں جمادی الآخر بروز پیر کو پندرہ دن تک بیماری کے بعد وفات پائی۔ ان کی عمر تریسٹھ برس تھی اور ان کی خلافت دو سال تین مہینے اور دس راتیں تھیں- اسی مہینے میں خلیفہِ حق ابوبکر الصدیق کا انتقال ہوا۔وہ ابوبکر عبداللہ بن ابی قحافہ عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی ہیں اور اس لوئی میں ان کا سلسلہ نسب رسول اللہؐسے جا ملتا ہے ۔ابوبکر ؓ تاریخ کی ان عظیم شخصیات میں سے ایک تھے جن میں انہوں نے پیغمبر اسلام ؐ کی منفرد خصوصیات اور ان خصوصیات کو یکجا کیا تھا جو عزم و ہمت کے عظیم لوگوں کی جیسی نظیر پہلے نہیں تھیں۔ وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے اپنا نام محمد کی امت میں درج کروایا، خدا ان پر رحم کرے ۔انھوں نے محمد ؐ کے مشن کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں ساتھ وابستہ رہنے کا اعزاز حاصل کیا جو کسی اور کو حاصل نہیں ہوا۔وہ ہجرت میں ان کے ساتھی تھے ، آپؓ کا وصال پیر کے دن یعنی منگل کی رات 22 جمادی الثانی 13 ہجری کو 63 سال کی عمر میں ہوا۔ خدا ان سے راضی ہو اور قوم کی طرف سے اسے بہترین اجر سے نوازے ۔

عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے خلافت کی بیعت لی (13ھ۔634ء) محمد بن سعد سے روایت ہے وہ عمر بن الخطاب بن نفیل بن عبد العزی بن ریاح بن عبداللہ بن قرط بن رضا بن عدی بن کعب ہیں۔ رسول اللہؐ نے ان کی کنیت ابو حفص اور آپ کی لقب الفاروق رکھا تھا ، عمر ؓ نے چھبیس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ حجاب، اسیری، مقام ابراہیم اور دیگر چیزوں کے بارے میں عمرؓ کی رائے قرآن سے متفق تھی۔

رومیوں کے درمیان یرموک کی جنگ (13ھ) زبیر بن العوام ، المقداد بن الاسود ، عبادہ بن الصامت اور مسلمہ بن مخلد کی قیادت میں اسلامی امداد کی آمد مصر کے کمانڈر کے حکم سے۔ وفادار، عمر بن الخطاب، 20 ہجری میں عمرو بن العاص کی مدد کے لیے ۔

عراق کی سرزمین میں بصرہ کے باہر اونٹوں کی جنگ: امیر وفادار علی ابن ابی طالب اور ان کے چچا عمار بن یاسراور متعدد صحابہ کے درمیان (10 جمادی الثانی 36 ہجری)

جمادی الآخرۃ (17ھ) میںہجری تاریخ کو اپنانا : اس مہینے میں امیر المومنین عمر بن الخطاب نے (622 ء ) قمری مہینوں کی بنیاد پر ہجری کیلنڈر کو اپنایا اور محرم کے مہینے سے ہجری سال کا آغاز کیا۔قمری مہینوں کا مسلمانوں کی عبادات سے گہرا تعلق ہے ، جیسے روزے ، حج، زکوٰۃ، دنوں کی تعداد اور قرآن وغیرہ۔

خلیفہ ہارون الرشید کی وفات :ہارون الرشید کی وفات تیسری جمادی الآخرہ 193 ہجری کو ہوئی۔وہ ہارون الرشید بن محمد المہدی ہیں، جو 145 ہجری میں پیدا ہوئے اور اس دن خلافت کی بیعت کی جب ان کے بھائی الہادی کی وفات 14 ربیع الاول 170 ہجری کو ہوئی تھی۔آپ کی عمر 25 سال تھی اور آپ کی خلافت کی مدت 23 سال دو ماہ اور 18 دن تھی۔ہارون الرشید بہت پرہیزگار اور پرہیزگار تھے‘وہ ہر سال حج کرتے تھے۔ ان کے دور حکومت میں بغداد اپنی شان و شوکت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔الرشید عباسی خلفاء میں سب سے زیادہ عقلمند تھا اور اس کے خزانے بہت زیادہ اور بھرے ہوئے تھے اور وہ بادل کو دیکھتے ہی کہتے تھے : جہاں چاہو بارش برسائو کیوں کہ تمہارا ٹیکس مجھ پر آئے گا۔وہ اڑتالیس سال زندہ رہے ، اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے ‘آمین۔

عبداللہ بن عبدالمطلب کی آمنہ بنت وہب سے شادی: عربوںکی تاریخ میں پڑھا ہے کہ یہ واقعہ ’ ایک حساب و کتاب سے یہ واقعہ بھی قمری حساب سے جمادی الآخرۃ ہی پڑتا ہے – عبداللہ بن عبدالمطلب نے آمنہ بنت وہب الزہریہ سے شادی کی۔اس مبارک شادی کی تقریبات کا آغاز عبدالمطلب کے اپنی قوم کے آقا وھب بن عبدالمناف الزہری القرشی کے پاس چلنے سے ہوا اور وہیں مبارک جوڑے کے درمیان نکاح کی تکمیل ہوئی۔یہ شادی محض ایک شادی اور دعوت نہیں تھی، بلکہ یہ تاریخ کے وجود اور ایک قوم کے ظہور کا آغاز تھا، اس مبارک شادی سے آقا و مولا محمد ؐ کی ولادت ہویٔی اور سچائی کی روشنی ایک ایسے پیغام کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل گئی ۔ یہ دنیا کی اب تک کی سب سے خوب صورت شادی تھی ۔

حصہ