ـ16 دسمبر : یوم سوگ یا تجدید انتقام۔۔۔۔؟

336

سمندر کی یہ فطرت ہے کہ جس زمین سے وہ نیچے اترتا ہے اسے دوبارہ حاصل کرلیتا ہے۔ اسی طرح غیرت مند قوموں کی یہ تاریخ ہے کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی زمین اور علاقے لازمی حاصل کرتی ہیں، بلکہ جی دار اور بہادر قومیں اپنی آزادی، وقار اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی جغرافیائی سرحدوں کو وسعت دیتی ہیں تاکہ دشمن کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رہ سکیں۔ روم کی سلطنت کی وسعت ہو یا ایران کی، یونانی ہوں یا روسی، صحرائے گوبی سے نکلنے والے تاتاریوں کی عظیم الشان فتوحات ہوں یا برطانوی سامراجی سلطنت جس کے ممالک میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، تین براعظموں میں پھیلی ہوئی 6 سو سالہ عثمانی خلافت، امریکا کی بین الاقوامی جارحیت… سب طاقتور اور زندہ قوموں کی نشانی ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا سے رخصت ہوئے تو مدینہ کا حدودِ اربع صرف 33 مربع کلومیٹر تھا، مگر پچاس سال کے اندر اسلامی ریاست کا حدودِ اربع شرق تا غرب ساڑھے 33 لاکھ مربع میل تک پھیل گیا۔ اس ابتدائیہ کے بعد برصغیر ہند و پاک پر مسلمانوں نے ہزار سال تک حکمرانی کی۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں سے یہ ملک چھین لیا، مگر آزادی کے متوالوں نے ایک دن کے لیے بھی انگریز حکومت کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا اور بالآخر 1947ء میں ہندوستان اور پاکستان آزاد ہوئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پورا ہندوستان مسلمانوں کے حوالے کیا جاتا، مگر دورِ غلامی میں مسلمان بالکل تباہ و برباد ہوچکے تھے لہٰذا پاکستان ناگزیر تھا۔ میں نے اختصار سے کام لیتے ہوئے موجودہ زخم جو 16 دسمبر 1971ء کو بھارت نے پاکستان کو دیا اور ہمارے ایک بازو مشرقی پاکستان کو کاٹ کر بنگلہ دیش بنا دیا جسے بچانے کے لیے لاکھوں محب وطن اردو بولنے والوں اور محب وطن بنگالیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور اسلامی تاریخ میں مسلم فوج کی عبرت ناک شکست کا داغ لگا، جس کا جشن بھارت اور بنگلہ دیش میں 16 دسمبر کو منایا جاتا ہے اور ہم سوگ منانے اور اپنے شہدا کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ کیا یہ کسی زندہ اور غیرت مند قوم کی نشانی ہے؟ ہرگز نہیں۔ اس سلسلے میں کچھ مثالیں دوں گا تاکہ راکھ میں چھپی چنگاری شعلہ بن جائے۔

اورنگ زیب عالمگیر نے سکھوں کے گرو تیغ بہادر اور اس کے بیٹوں کو دورانِ لڑائی قتل کیا اور ہزاروں سکھ اس لڑائی میں مارے گئے لیکن سکھ قوم آج تک اس کو بھول نہیں پائی۔ آج بھی سکھوں کے بڑے گردوارے گولڈن ٹیمپل میں ایک بہت بڑی گیلری ہے جہاں اورنگزیب عالمگیر کے سپاہیوں کے جھوٹے مظالم کی تصاویر دیواروں پر آویزاں ہیں اور سکھ یاتریوں کو یہ لازمی دکھائی جاتی ہے تاکہ ان میں مسلمانوں سے انتقام لینے کا جذبہ پیدا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مشرقی پنجاب میں سکھوں نے بٹوارے کے وقت مسلمانوں کا قتل عام کیا جب کہ قطب مینار کے پاس مہرولی کی مسلمان آبادی کا مکمل صفایا کردیا۔

سرب عیسائیوں نے پتھروں پر عثمانی خلافت کے فرضی مظالم کی داستانیں کندہ کرکے رکھی تھیں، اور اس کا مقصد بھی اپنی نسل کے دل ودماغ میں مسلمانوں کے خلاف انتقام کا زہر بھرنا تھا۔ دنیا نے دیکھا کہ جب چیکو سلواکیہ تقسیم ہوا اور بوسنیائی مسلمانوں نے آزاد ریاست کا مطالبہ کیا تو سرب درندے نہتے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور بدترین قتلِ عام کیا۔ ظلم کی صرف ایک داستان ہی ایسی ہے جسے سن کر انسانی دماغ ماؤف ہوجاتا ہے۔ سرب درندے ایک بڑے میدان میں ہزاروں مسلمان بیٹیوں کی عزتیں اُس وقت تک تار تار کرتے رہے جب تک وہ حاملہ نہ ہوگئیں۔

کس کو یاد نہیں کہ مکتی باہنی کے بھیس میں بھارتی فوجیوں نے سانتاہار اور دیناج پور میں محب وطن پاکستانیوں کا بے دردی سے قتل عام کیا۔ حتیٰ کہ 1972ء میں جب بنگلہ دیش وجود میں آچکا تھا 10 مارچ کو کھلنا کے دس ہزار بہاریوں کو ذبح کردیا گیا۔ 16 دسمبر 1971ء کی رات اندرا گاندھی فتح کا جشن مناتے ہوئے لال قلعہ کے برجوں سے اعلان کررہی تھی کہ ’’ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کرکے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا۔‘‘

آج بھی یہ آواز کان کے پردوں کو پھاڑ دیتی ہے جب ایل کے ایڈوانی بابری مسجد کو شہید کرکے کہہ رہا تھا کہ ’’ہم نے سومناتھ کو توڑنے کا بدلہ لے لیا۔‘‘

ہندوتوا کا نظریہ اکھنڈ بھارت ہے، اور ہندوستان کا ہر ہندو لیڈر بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ 1947ء کے بعد بھارت کی جغرافیائی سرحدیں کشمیر، گوا، حیدرآباد دکن، سکم، دمن اور دیو کے تمام جزائر تک وسیع ہوچکی ہیں۔ اس کی نظر پاکستان کو ہڑپ کرنے پر ہے، جو کہ ممکن نہیں۔

پہلی جنگِ عظیم میں فتح کے بعد جب فرانسیسی جرنیل شام پہنچا تو اس نے صلاح الدین ایوبیؒ کی قبر پر ٹھوکر ماری اور چلاّ کر کہا ’’اُٹھ صلاح الدین! ہم دوبارہ آگئے۔‘‘ اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم سرکاری طور پر 16 دسمبر اور سقوطِ ڈھاکہ کو بھلا بیٹھے ہیں۔

آپؐ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ گئے، وہیں آرام فرما رہے ہیں۔ مگر آپؐ نے دس سال کے بعد مکہ فتح کرکے اللہ کے گھر کو بتوں سے پاک کردیا۔ آج بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت اور مودی علی الاعلان پاکستان کو تباہ کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ آر ایس ایس کے پرچم میں برما سے لے کر کابل تک کے علاقے شامل ہیں۔ قیام پاکستان کو 76 سال ہوگئے مگر کسی ایک فوجی سربراہ اور وزیراعظم نے لال قلعہ پر اسلامی پرچم لہرانے کی بات تو کجا، نجی محفلوں میں اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ سات دہائیوں سے کشمیری لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر تکمیلِ پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہم نے ان کو بھی بھلا دیا۔ اب تو مودی سرکار نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے اپنا صوبہ بنا لیا اور ہم صرف زبانی احتجاج کرکے رہ گئے۔

صدا دے رہی ہے چناروں کی بیٹی
حسیں وادیوں کوہساروں کی بیٹی
کہاں ہیں کہاں، ابنِ قاسم کہاں ہیں

ہزاروں رضیہ رنجیتا کور بن گئیں اور آج بھی منتظر ہیں کہ ہمارے بھائی آکر ہمیں آزادی دلوائیں گے اور ہم اپنے ایمان کی تجدید کرکے رب کے حضور پیش ہوں گے۔ لیکن انہیں کیا معلوم کہ 40 سال تک لاہور سے پشاور تک مسلمانوں کی عزت پامال کرنے والے راجا رنجیت سنگھ کی قدآدم تصویر لاہور کے شاہی قلعہ میں آویزاں کرکے ’’ہیرو آف پنجاب‘‘ لکھنے والے کتنے بے غیرت ہیں۔

مجھ کو تو ابھی تک وہ زمانہ یاد ہے
قافلے جب لٹ رہے تھے رہبروں کے درمیاں
قریہ قریہ چیخ تھی ماتم بپا تھا کو بہ کو
بیٹیاں جب جل رہی تھیں چلمنوں کے درمیاں

ہم نے اپنے تمام میزائلوں کے نام فاتحین ِہندوستان کے نام پر رکھے ہیں یا مشہورِ زمانہ مسلمان سالاروں کے نام پر، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور ہیں۔

بے حسی کا زہر پی کر حکمراں سب سو چکے
پتھروں کے اس نگر میں بہادری مت ڈھونڈیے

ہمارے حکمرانوں اور جرنیلوں کو آخرت میں اللہ کی پکڑ سے ڈرنا چاہیے جب لال قلعہ کے برجوں سے برہنہ اچھالی گئی بیٹیاں، پٹنہ کے اندھے کنویں میں کود کر جان دینے والی عزت مآب بہنیں رب سے فریاد کرکے ان کا دامن پکڑیں گی۔

یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ 16 دسمبر 1971ء کی رات جب پاکستان کے ہر گھر میں ماتم بپا تھا اور عالم اسلام کے مسلمان دل گرفتہ تھے، اس شب اسلام آباد کے ایوانِ اقتدار میں غدارانِ وطن شراب نوشی کرکے خوشی کا اظہار کررہے تھے کہ ’’چلو بنگالیوں سے جان چھوٹی۔‘‘

جنگِ عظیم دوئم میں جرمنی تقسیم ہوا مگر آج وہ پھر ایک ہوگئے۔ مجیب الرحمن کے قتل کے بعد مشتاق احمد خوند کر نے فیڈریشن کا پیغام بھیجا، مگر یہ کیسے ممکن تھا کہ جنہوں نے اس کو بھارت کے حوالے کیا تھا دوبارہ اس کو پاکستان کا حصہ بناتے!

آج ایک بار پھر پاکستان اپنی سلامتی کے حوالے سے سخت ترین آزمائشوں سے گزر رہا ہے۔ لہٰذا ایک ایک در پر دستک دینے کی ضرورت ہے۔

اے اہلِ خرد ہوش میں آؤ گے کب بھلا
کہ زیر زمین زلزلے کروٹ بدل رہے ہیں

غزوۂ ہند کی تیاری کرو، جنت ہماری منتظر ہے۔

حصہ