پربت کی رانی قسط11

155

مسئلہ یہ تھا کہ وہ یہاں لینڈ نہیں کر سکتے تھے۔ ایک ہیلی کاپٹر کچھ فاصلے پر ہوا میں معلق ہو گیا اور دوسرے نے ان کے سروں پر معلق ہو کر ایک مضبوط رسے کی مدد سے کافی بڑی کیبن زمین تک لٹکادی اور میگا فون سے کہا گیا کہ اس میں آدھے لوگ سوار ہو جائیں۔ حیدر علی ہچکچائے تو جمال اور کمال نے کہا کہ انکل دوست ہی لگتے ہیں، گھبرائیں نہیں، وہ دیکھ رہے ہیں کہ آپ مسلح ہیں لیکن پھر بھی انہوں نے اگر آپ سے ہتھیار ڈالنے کو نہیں کہا تو یقیناً یہ ہمارے دوست ہیں۔ یہ بات سن کر جیسے انسپکٹر حیدر علی اور سبطین کے تنے ہوئے اعضا ڈھیلے پڑ گئے اور نہوں نے آدھے افراد، جس میں غل غپاڑہ کرنے والی خاتون بھی تھیں، انھیں کیبن میں سوار کیا۔ کیبن ہیلی کواپٹر کے ساتھ اٹیچ ہو گیا تو ہیلی کواپٹر وہاں سے دور چلا گیا۔ دوسرے ہیلی کواپٹر نے قریب آکر اسی طرح کا ایک کیبن نیچے لٹکا دیا اور اس طرح باقی سارے افراد بھی اپنے اپنے سامان کے ساتھ اس میں سوار ہو گئے۔ یہ ہیلی کواپٹر اپنے اپنے کیبنوں کو لے کر چند کلو میٹر دور ایک روایتی شاہراہ کے قریب ایک چھوٹے سے میدان میں اترے۔ سب جب نیچے اترے تو یہ دیکھ کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کیا کہ یہاں ادارے کی مضبوط اور تیز رفتار گاڑیاں کھڑی تھیں اور درجن بھر جوان ان کے استقبال کے لیے کھڑے تھے جن کے ہاتھ میں بہت ہی خوش ذائقہ مشروبات اور پھلوں کے علاوہ دیگر ہلکی پھلکی کھانے کی چیزیں بھی موجود تھیں۔
غل مچانے والی خاتون آہستہ آہستہ پُر سکون ہوتی جا رہی تھیں شاید مہک کا اثر دم توڑتا جا رہا تھا۔ وہاں موجود عملے نے جمال اور کمال کے والدین سمیت تمام خواتین اور دیگر افراد کو گاڑیوں میں بٹھا کر اپنے اپنے گھروں کی جانب روانہ کر دیا تھا۔ روکے جانے افراد میں انسپکٹر حیدر علی، انسپکٹر سبطین، جمال اور کمال شامل تھے جب سب جیپیں دیگر افراد کو لے کر روانہ ہو گئیں تو ان سب کو ایک ہیلی کواپٹر میں سوار کرکے جس مقام پر لایا گیا اس کا علم انسپکٹر حیدر علی یا سبطین یا جمال اور کمال، کسی کو بھی نہ تھا۔ ان سب کو جس درمیانے درجے کے ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا وہاں فی الحال ان کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ اچانک دیوار میں نصب اسکرین روشن ہوا اور اس پر جو شکل ابھری وہ بھی ان سب کے لیے بالکل اجنبی تھی لیکن اس کی وردی اسے ایک بڑا آفیسر ثابت کر رہی تھی۔ اس کے منہ نکلنے والا پہلا لفظ ہے “ویلڈن” کا تھا۔ میں ساری ٹیم کو بہت بہت مبارک باد پیش کرتا ہوں جنھوں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ایک بہت عظیم کارنامہ انجام دیا۔ ہم آپ سب لوگوں کی جانب سے بالکل بھی غافل نہیں تھے۔ ہم نے اپنے ایک عظیم سائنسدان، جس کا نام ہم فی الحال نہیں بتانا چاہتے، کی مدد سے اپنی جیپوں کی چھتوں کے پینٹ میں ایسے ہزاروں چپس نما ذرات شامل کر دیئے تھے جس کی مدد سے ہمیں ان کی موجودگی اور ایک ایک موومنٹ کا علم ہوتا جارہا تھا۔ یہ ہم نے اس لیے کیا تھا کہ ہمارے پڑوس کے ایک ترقی یافتہ ملک نے آگاہ کر دیا تھا کہ آپ کے سرحدی علاقے جو ہمارے اور آپ کے ایک اور ملک کی سرحدوں سے جڑے ہوئے ہیں، ایک علاقے پر کچھ مشکوک سر گرمیاں جاری کی ہوئی ہیں اور کچھ ایسی ایجادات ہمارے ہی ملک سے چراکر اپنے علاقے کو بہت سارے لحاظ سے کافی محفوظ کر لیا ہے۔ کیونکہ یہ سرگرمیاں آپ کی سرحد کے اندر ہو رہی ہیں اس لیے ہم آپ کو آگاہ کر رہے کہ آپ ان کا جائزہ لیں۔ وہاں جو بھی گروہ ہے وہ مذہب کا سہارا لیکر ایک عجیب و غریب فتنہ برپا کرنا چاہتا ہے۔ اس کے پاس ہر قسم کی سٹلائٹ یا وائرلیس کمیونی کیشن کو جام کرنے کی بھر پور صلاحیت ہے۔ اس لیے جس مشن کو بھی وہاں کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا جائے اپنے رسک پر بھیجا جائے کیونکہ ان کے سسٹم کا توڑ ہمارے پاس بھی نہیں۔ ان سارے خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے آپ سب کو وہاں بھیجنے سے قبل ہمارے سائنسدان نے کافی تحقیق کے بعد ایک ایسا پینٹ ایجاد کیا جس میں ایسے ذرات شامل تھے جو ہر قسم کے جیمرز کی موجودگی میں بھی اپنی ریزز فضا میں نشر کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے جن سے ان جیپوں کی موجودگی کے ساتھ وہاں کی پوری منظر کشی بھی دکھی جا سکتی تھی۔ اسی لیے ہم اس قابل ہوئے تھے کہ آپ کی واپسی کو مسلسل دیکھ سکیں۔ ہمارے لیے تشویش ناک صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب باقی کاروان کو چھوڑ کر کچھ افراد تین جیپوں میں سوار ہو کر اس مقام تک پہنچے جو پربت کی رانی کی مکمل دسترس میں ہے۔ جیسے ہی تینوں جیپیں ابر نما حصار میں داخل ہوئیں تو ہماری اسکرینوں پر ہر منظر غائب ہو گیا یہاں تک کہ جب تک آپ سب لوگ اس حصار سے باہر نہیں آ گئے اس وقت تک ہم تشویش میں مبتلا ہی رہے۔ باہر آکر واپسی کے سارے مراحل کا ہم جائزہ لیتے رہے کیونکہ جو گروہ اتنا ایڈوانس ہو جو کسی ملک کے ہر سسٹم کو نابینا بنا سکتا ہو اس پر اس شک کا جانا بہر حال بنتا ہی ہے کہ واپس آنے والے دوست بن کر آ رہے ہیں یا دشمنوں کے حصار میں گرفتار ہونے کی وجہ سے انھیں واپسی کی اجازت ملی ہے لیکن جب ہم نے ایک خاتون کی واپسی جانے کی ضد سنی اور اس کا شور ہمارے کانوں تک پہنچا تو ہم نے اس بات کا یقین کر لیا کہ وہاں جو کچھ بھی ہوا ہوگا اس کی متاثر ایک یہی خاتون ہے باقی افراد اپنی کسی نہ کسی حکمت عملی سے اپنے آپ کو ان کی سائنسی ایجادات کے حملے سے کسی نہ کسی ترکیب سے بچائے رکھا ہوگا۔ ہمارے لیے یہ بات بھی بڑی حیرت انگیز اور غور طلب تھی کہ کافی فاصلہ گزر جانے کے باوجود نیچے بنائے گئے عارضی کیمپ میں جہاں باقی افراد اور جیپیں روک دی گئیں تھیں، وہاں سے ایک خاتون کی جانے کی ضد کی صدائیں پربت کی رانی تک کیسے پہنچیں۔ جانے کی ضد اور فریاد تو وہ راستے بھر کرتی رہی تھی تو وہاں پر جانے والی گاڑیوں کو کیوں روکا نہیں گیا۔ اس سے ہم نے یہ نتیجہ نکالا کہ ہمارے عملے میں یقیناً کوئی کالی بھیڑ ضرور شامل ہے۔ جب آپ سب لوگ اپنے عارضی کیمپ کے قریب پہنچے تو تب پربت کی رانی تک یہاں کے حالات کمیونی کیٹ ہونے لگے۔ اب رہی یہ بات کہ پربت کی رانی کی آواز آپ سب تک کہاں سے آ رہی تھی، اس کی تحقیقات جاری ہیں۔ آپ سب کا یہ فیصلہ کہ جس اہل کار کی وساطت سے پربت کی رانی بات کر رہی تھی اسے خاص ترکیب سے اپنے راستے سے ہٹا دیا جائے، بہت ہی دانشمندانہ تھا اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس اہل کار کو راستے سے ہٹا دینے کا دانشمندانہ مشورہ جمال اور کمال ہی نے دیا تھا۔ جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اب ہم اس بات کا جائزہ لے رہے تھے کہ آخر پربت کی رانی اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے مزید کیا کرتی ہے۔ جب ہم نے آپ کی راہوں میں بڑی بڑی چٹانوں کو حائل ہوتے دیکھا تو اب ہم مزید کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ آپ سب افراد کو بحفاظت وہاں سے نکال لانے میں ہی بہتری ہے۔
(جاری ہے)

حصہ