شادی بیاہ میں بڑھتی بے حیائی

456

ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ میں فضول قسم کی رسم و رواج تو پہلے سے ہی چلی آرہی تھیں مگر بے حیائی اور بے ہودگی کا عنصر بہت کم تھا بلکہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ شادی کی تقاریب میں خوشیوں کے نام پہ بے حیائی کس طرح بتدریج داخل ہوئی، آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں۔

اپنے بچپن میں گلی محلوں میں ہونے والی شادیوں کے طور طریقوں اور واقعات کی تصاویر آج بھی ذہن کے پردے پر محفوظ ہیں۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو ان دنوں شادی بیاہ کے موقعوں پر گراموفون سے اونچی آواز میں گانے چلائے جانے کا رواج عام تھا۔ کچھ دین دار اور پڑھے لکھے گھرانے اس چیز کو سخت ناپسند کرتے تھے چنانچہ وہ ان سے دور تھے۔ گراموفون کی آواز لاؤڈ اسپیکر پر بجانے کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی محلے کے دیگر لوگوں کو بھی گانوں اور موسیقی کا شور برداشت کرنا پڑتا تھا۔ شاید بے ہودگی کی یہ ابتدا تھی۔ بعض ان پڑھ طبقے کے لوگ جن کے پاس کچھ پیسہ ہوتا وہ گلی میں اسٹیج پر رقص کی محفل بھی سجاتے جس کے لیے باہر سے پیسے دے کر رقاصہ بلوائی جاتی۔ مگر اس کا رواج خال خال ہی تھا۔

اسی کے ساتھ ہی شادی میں بلیک اینڈ وائٹ کیمروں سے فوٹو کھینچنے کا رواج بھی شامل ہوا۔ کچھ عرصے بعد ہی اس کی جگہ رنگین کیمروں نے لے لی۔ ادھر شادی بیاہ پر لوگوں کے گھر چھوٹے پڑنے لگے اور ہم نے مادی ترقی اور ماڈرن بننے میں ایک قدم آگے بڑھایا تو شادی ہال بننے شروع ہوئے اور شادی کی تقریبات جدید قسم کے روشنیوں سے جگمگاتے ہال میں انجام پانے لگیں۔ اس طرح شادی میں نام و نمود کا عنصر بھی شامل ہوگیا۔

پہلے دلہنوں کو گھر پر ہی سجایا اور سنوارا جاتا تھا۔ اس دور میں میک اَپ کے نام پہ جو بھی اشیا دستیاب تھیں حسب استطاعت وہی استعمال ہوتیں اور دلہن کا میک اَپ ہو جایا کرتا تھا۔ میک اَپ کے سامان میں اہم اشیا سرخی، پاؤڈر، لپ اسٹک، رنگ گورا کرنے والی کریم وغیرہ نمایاں تھیں۔ زیورات کی سجاوٹ بھی کوئی خاص نہیں تھی۔ کلائیوں میں چوڑیاں، ماتھے پہ جھومر، ناک میں نتھ، کان میں جھمکا‘ گلے میں ہار اور ہاتھوں پر مہندی۔ دلہن کے سنورنے کا یہ کل سامان تھا۔ مگر جب ہم پر روشن خیالی کا بھوت سوار ہوا اور کچھ دولت کی ریل پیل ہوئی تو بیوٹی پارلرز وجود میں آئے۔ ان بیوٹی پارلرز سے دلہنوں کے بننے سنورنے کا انداز ہی بدل گیا۔ سولہ سنگھار کی جگہ سولہ سو سنگھار نے لے لی۔ شادی والے دن دلہن کا بیوٹی پارلر جا کر فل میک اپ کرانا شادی کا ایک اہم جزو بن گیا جو بدستور جاری ہے بلکہ اب تو یہ اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ عورت بیوٹی پارلر سے جب بن سنور کر نکلتی ہے تو اس کا نقشہ ہی بدلا ہوا ہوتا ہے۔ ایسی حَسین و جمیل کہ پَری بھی شرما جائے۔ یہ الگ بات کہ اگلے روز میک اپ اترنے کے بعد دلہن کا چہرہ دیکھ کر دلھا بھی اسے اپنی دلہن ماننے سے انکار کردے۔

رنگین کیمروں کی آمد کے بعد پروفیشنل فوٹو گرافرز کی خدمات حاصل کی جانے لگیں۔ مردانہ حصہ کی تصاویر لینے کے بعد فوٹو گرافرز عورتوں والے حصے میں بلوائے جاتے۔ اس سے پہلے کے فوٹو گرافرز عورتوں کے حصے میں جاتے میزبان خواتین اعلان کرتیں کہ تصویر کھینچنے والے آرہے ہیں جن جن کو پردہ کرنا ہے وہ برقع پہن لیں۔ گویا شریعت میں پردے کا حکم صرف مخصوص طبقے کی عورتوں کو ہے دیگر مسلمان عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ خیر فوٹو گرافرز اندر جاتے اور دلہا دلہن کے پوز لیے جاتے۔ یہاں تک بھی شرافت کچھ نہ کچھ لبادہ اوڑھے رہی۔

بات کچھ اور آگے بڑھی۔ وڈیو گرافی کا دور آیا، وڈیو پلئیرز اور وڈیو کیسٹ ایجاد ہوئے اور اس کے ساتھ ہی ایک نیا مشغلہ لوگوں کے ہاتھ آگیا۔ ہرتقریب اور ہر موقع کی وڈیو بنانا عام ہوگیا۔ شروع شروع میں ہر ایک کے پاس وڈیو کیمرے کی سہولت نہیں تھی۔ اس مقصد کے لیے اسٹوڈیوز سے خصوصی طور پر وڈیو گرافرز بلوائے جاتے جن کے ساتھ دو یا تین افراد اور بھی ہوتے جو فوٹو گرافر کے ساتھ چلنے والے کیمرے کے تاروں اور اس کی بھاری بھرکم لائٹ کو سنبھالتے۔ اس طرح وہ بھی عورتوں کے حصے میں جاتے۔ دلہنیں جو رخصتی سے قبل کبھی چہرہ نہ کھولتیں شادی کے لمحات کو کیمرے میں قید کرنے کے لیے نامحرموں کے سامنے وڈیوز بنوائی جاتیں، مختلف رسومات، نکاح اور رخصتی کے لمحات کی عکس بندی ہوتی۔ یہاں آکر بے حیائی نے ایک قدم اور بڑھایا۔

شادی کی تقریبات شادی ہال میں رواج پا جانے کے باوجود مردوں اور عورتوں کی نشستیں الگ الگ ہوا کرتی تھیں۔ وہ اس طرح کہ عورتوں اور مردوں کے درمیان ایک قنات لگی ہوتی، ایک طرف مرد اور دوسری طرف عورتیں۔ یوں مکمل نہ سہی مگر کچھ نہ کچھ پردے کا اہتمام ہو جایا کرتا تھا۔ مگر پھر ہمارے اندر روشن خیالی اور مغرب کی نقالی کا بخار کچھ اور چڑھا تو درمیانی پردے کو دقیانوسی سمجھ کر گرا دیا گیا اور یوں برسوں پرانی روایت کو یکدم اکھاڑ پھینک دیا گیا۔ اس کے بعد مخلوط بیٹھک نے اپنا رنگ جمانا شروع کیا۔ اول اول شرفا کچھ جھجکے مگر پھر یہ تکلف بھی ختم ہوا اور سلسلہ عام ہوگیا۔ یہاں تک کہ بعض ایسے گھرانوں کی شادیوں میں بھی مخلوط بیٹھک دیکھی گئیں اور دیکھی جا رہی ہیں جو بظاہر دین دار ہیں۔ اور اب حال یہ ہے کہ ماسوا چند بہت زیادہ دین دار اور پردے دار گھرانوں کے سبھی نے مخلوط بیٹھک کو ہی اپنا لیا ہے۔ برائے نام ہی سہی جو تھوڑی بہت پردہ داری تھی وہ بھی گئی۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ معاشرے میں اسے اب کوئی معیوب ہی نہیں سمجھ رہا۔

چلیے آگے بڑھتے ہیں۔ بے غیرتی اور بے حیائی تھوڑی سی اور بڑھی کہ شرم و حیا کی چادر ابھی پوری طرح تار تار نہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد یہ دور آیا کہ کیمرہ مینوں سے دلہا دلہن کے فلمی انداز کے پوز بنوانے شروع ہوئے۔ ہر ہر انداز اور ہر ہر زاویے سے تصاویر کھینچنے اور ویڈیوز بنوائے جانے لگے۔ ایسے ایسے پوز کہ جنھیں دیکھ کر شریف آدمی شرما جائے مگر قریب ہی کھڑے باپ اور بھائی کو غیرت نہ آئے۔ بعد ازاں ان تصاویر کو بڑے اسکرین پر دوسروں کو دکھانے کا بھی اہتمام ہوتا۔ ’’حمیت نام تھا جس کا، گئی تیمور کے گھر سے‘‘

اب سننے میں آرہا ہے کہ نکاح کے بعد دلہن کا تقریب میں رقص کرنا بھی مارکیٹ میں آگیا ہے۔ لیجیے غیرت کچھ اور ختم ہوئی۔ گو رقص ابھی عام نہیں ہوا ہے مگر برائی پھیلتے دیر نہیں لگتی۔ ناچ گانا پہلے بھی کسی نہ کسی شکل میں ہوتا تھا مگر اس انداز کا نہیں جیسا اب ہے۔ محلے کی کچھ عورتیں گھروں کے اندر ڈھولک کی تھاپ پہ ہلکا پھلکا رقص کر لیا کرتی تھیں اور وہ بھی اس طرح کہ ان پر مردوں کی نظر نہ پڑے۔ اُن دنوں مردوں کا عورتوں کے حصے میں جانا ہی سخت ممنوع تھا اور عیب سمجھا جاتا تھا۔

یہ تو تھی اب تک کی صورت حال۔ ہمارا معاشرہ تیزی سے غیر مذاہب کی نقالی کے سبب بے حیائی میں آگے بڑھ رہا ہے۔، کل کلاں کو شادی کی رسومات میں شاید اور آگے بڑھ جائے اور کوئی بھی معیوب حرکت ‘ معیوب نہ لگے بلکہ ہم اسے شادی بیاہ کی رسومات تصور کرنے لگیں۔ ’’محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی‘‘

یہ تمام امور وہ ہیں جو فحاشی اور بے حیائی پھیلانے کے زمرے میں آتے ہیں۔ اور فحاشی پھیلانے کے بارے میں قرآن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت وعید آئی ہے۔ یہ وہ گناہ ہے جس کا دنیا میں بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔ سورۃ نور کی ایک آیت ہے جس کا ترجمہ ہے ’’یاد رکھو کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے، اُن کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ اور اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے۔‘‘ (سورۃ نور، آیت 19)

سوچنے والی بات ہے جب عملی زندگی کی ابتدا ہی فحاشی اور بے حیائی کے کاموں سے ہوگی تو شادی کے بعد اس کے اثراتِ بد پڑنے لازمی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں آج ہمارے معاشرے میں نو بیاہتا جوڑوں میں ناچاقی، بات بات پہ لڑائی جھگڑا، توتکار یہاں تک کہ شادی کے کچھ ہی عرصے میں طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔ اولاد بھی نافرمان ہورہی ہے۔ پہلے شادیوں میں اتنی خرافات نہیں ہوتی تھیں تو میاں بیوی کے تعلقات بھی مضبوط ہوتے تھے، گھرانے اتنی جلدی نہیں ٹوٹتے تھے۔

ہمیں سوچنا ہوگا اور جائزہ لینا ہوگا کہ جن امور سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع فرمایا ہے کہیں ہم بھی شادی بیاہ کے مواقع پر خوشیوں کے نام پہ بے ہودہ اور بے حیائی کے امور کو انجام نہیں دے رہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر ہم بھی اللہ کے غضب کا شکار ہو رہے ہیں۔

حصہ