ایک بزرگ کے پاس ایک طالب علم آیا جو دینی علوم سیکھتا رہا۔ پڑھنے کے بعد جب وہ وطن واپس جانے لگا تو وہ بزرگ اس سے کہنے لگے ’’یہ بتاؤ کیا تمھارے یہاں شیطان بھی ہوتا ہے؟‘‘
وہ کہنے لگا ’’حضور! شیطان کہاں نہیں ہوتا! یہ تو ہر جگہ ہوتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا ’’اچھا جب تم خدا سے دوستی لگانا چاہو اور تمہیں شیطان ورغلائے تو کیا کرو گے؟‘‘
اس نے کہا ’’میں شیطان کا مقابلہ کروں گا۔‘‘
کہنے لگے ’’فرض کرو تم نے شیطان کا مقابلہ کیا اور وہ بھاگ گیا لیکن پھر تم
نے اللہ کے قرب کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور پھر اُس نے روک لیا تو کیا کرو گے؟‘‘
اس نے کہا ’’پھر مقابلہ کروں گا۔‘‘
’’اچھا مان لیا تم نے دوسری دفعہ بھی اسے بھگا دیا، لیکن اگر تیسری دفعہ وہ پھر حملہ آور ہوگیا تو کیا کرو گے؟‘‘
وہ کچھ حیران سا ہوگیا ’’میرے پاس سوائے اس کے کیا علاج ہے کہ میں پھر اُس کا مقابلہ کروں۔‘‘
بزرگ کہنے لگے ’’اگر ساری عمر تم شیطان سے مقابلہ ہی کرتے رہو گے تو خدا تک کب پہنچو گے؟‘‘
وہ لاجواب ہوکر خاموش ہوگیا۔
اِس پر بزرگ نے کہا کہ ’’اچھا یہ تو بتاؤ اگر تم اپنے کسی دوست سے ملنے جاؤ اور اُس نے ایک کتا بطور پہرہ دار رکھا ہوا ہو اور جب تم اُس کے دروازے پر پہنچنے لگو اور وہ تمہاری ایڑی پکڑ لے تو کیا کرو گے؟‘‘
’’میں اسے ماروں گا۔‘‘
’’تم نے اسے مارا اور وہ ہٹ گیا لیکن اگر دوبارہ پھر اس نے آ پکڑا تو…؟‘‘
وہ کہنے لگا ’’اگر وہ کسی طرح باز نہ آیا تو میں اپنے دوست کو آواز دوں گا کہ تمھارا کتا مجھے آگے بڑھنے نہیں دیتا اسے سنبھالو۔‘‘
وہ کہنے لگے ’’بس یہی گُر شیطان سے مقابلے میں بھی اختیار کرنا۔ جب تم اس کی تدابیر سے بچ نہ سکو تو خدا سے یہی کہنا کہ وہ کتے کو روکے اور تمہیں اپنے قرب میں بڑھنے دے۔ تم اُس کا ہاتھ کیوں نہیں پکڑ لیتے جس کے قبضۂ قدرت میں یہ تمام چیزیں ہیں۔ اگر اس سے دوستی لگا لو تو ان چیزوں کا کوئی خطرہ نہ رہے اور ہر تباہی اور مصیبت سے بچے رہو۔‘‘
یہ علاج ہے جو قرآن کریم نے بتایا ہے۔ اللہ سے دُعا اور وہ دعا جو قرآن میں ہمیں بتائی گئی ہے: ’’اے رب! میں شیطان کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور میں اس سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔‘‘