آمنہ اور تین بھالو

166

ایک جنگل میں بھالوؤں کا ایک گھر آباد تھا۔اس گھر میں تین بھالو تھے۔سب سے بڑا ڈیڈی بھالو تھا۔اس سے چھوٹا ممی بھالو جبکہ سب سے چھوٹا منا بھالو تھا۔
ایک روز صبح سویرے بھالو سو کر اُٹھے تو انہیں سخت بھوک لگی ہوئی تھی۔ڈیڈی بھالو کھیر بڑی مزیدار بناتے تھے اسی لیے منے بھالو نے فرمائش کی کہ آج ڈیڈی بھالو کھیر پکا کر کھلائیں۔
ڈیڈی بھالو نے شہد،بادام اور میوہ ڈال کر بہت مزیدار کھیر تیار کی لیکن جب تینوں بھالو کھیر کھانے لگے تو یہ بہت زیادہ گرم تھی۔ممی بھالو نے تجویز پیش کی کہ جب تک کھیر ٹھنڈی ہو کیوں نہ ہم لوگ صبح کی سیر کر آئیں۔منے بھالو نے کہا’’مجھے بہت بھوک لگی ہے میں سیر کرنے نہیں جاؤں گا۔مجھے کھیر ٹھنڈی کرکے کھانے کے لیے دو‘‘ ممی بھالو نے سمجھایا’’بیٹا!ضد نہیں کرتے بڑوں کا کہنا مانتے ہیں۔آؤ شاباش جلدی چلو ہم صبح کی سیر بھی کریں گے اور ساتھ ہی کچھ پھل بھی توڑ کر لائیں گے۔‘‘
تینوں بھالو جنگل میں سیر کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ممی بھالو نے آواز دے کر کہا منے بھالو اندر سے ایک ٹوکری لیتے آنا تاکہ پھل لانے میں آسانی رہے اور ہاں…گھر کا دروازہ بند کر دینا۔منا بھالو آخر میں گھر سے ٹوکری لے کر نکلا تو اپنے پیچھے گھر کا دروازہ بند کرنا بھول گیا۔
آج جنگل میں موسم بہت خوشگوار تھا۔ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے۔مسحور کن ہوا چل رہی تھی۔آمنہ اپنے گھر کے قریب واقع اس جنگل میں سیر کے لیے آئی ہوئی تھی۔جنگل میں گھومتے پھرتے آمنہ جب بھالوؤں کے قریب آئی تو اسے اندر سے مزیدار کھیر کی خوشبو آئی۔
اس بچی کا نام آمنہ تھا۔آمنہ نے گھر کے اندر جھانک کر دیکھا تو اندر کوئی نظر نہ آیا۔
وہ گھر کے اندر چلی آئی۔اس نے دیکھا گھر کے اندر ایک میز کے گرد تین کرسیاں رکھی تھیں اور میز پر کھیر سے بھرے تین پیالے رکھے تھے۔آمنہ نے بڑے پیالے میں سے کھیر چکھی تو یہ بہت گرم تھی اس نے کہا’’یہ تو بہت گرم ہے۔‘‘
پھر اس نے دوسرے پیالے میں سے کھیر کا چمچہ بھر کر منہ میں رکھا اور خود سے بولی’’افوہ…یہ بہت زیادہ میٹھی ہے۔‘‘اب اس نے تیسرے پیالے میں سے کھیر کھا کر دیکھی اور کہنے لگی’’واؤ…یہ تو بہت مزیدار ہے۔‘‘
اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے کھیر کا پیالہ خالی کر دیا۔آمنہ کیونکہ کافی دیر سے جنگل میں سیر کر رہی تھی اس لیے کھیر کھانے کے بعد آمنہ نے سوچا کچھ دیر آرام کر لیا جائے۔یہ سوچ کر وہ ڈیڈی بھالو کی کرسی پر بیٹھی لیکن یہ کافی سخت تھی۔آمنہ نے سوچا یہ تو آرام دہ نہیں ہے اس لیے ممی بھالو کی کرسی پر بیٹھ کر دیکھا جائے۔جب وہ ممی بھالو کی کرسی پر بیٹھی تو وہ اندر دھنس گئی۔
آمنہ بولی ’’نہیں یہ کرسی بھی میرے لیے مناسب نہیں۔‘‘یہ کہتے ہوئے اس نے منے بھالو کی کرسی پر بیٹھنے کی کوشش کی لیکن یہ کرسی کیونکہ بہت چھوٹی تھی اس لیے آمنہ کا وزن نہ سہار سکی اور ٹوٹ گئی۔آمنہ نے منے بھالو کی کرسی جوڑنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکی۔آخر کافی تگ و دو کے بعد اس نے ٹوٹی ہوئی کرسی کے ٹکڑے وہیں چھوڑے اور اُٹھ کھڑی ہوئی۔
آمنہ کو کھیر کھانے کے بعد نیند آنے لگی تھی۔اس نے اوپر کی منزل پر جا کر دیکھا تو وہاں تین بستر بچھے ہوئے تھے۔آمنہ نے سب سے بڑے بستر پر لیٹنے کی کوشش کی۔یہ بستر ڈیڈی بھالو کا تھا۔آمنہ اس پر چڑھنے میں کامیاب نہ ہو سکی کیونکہ بستر کافی اونچا تھا۔پھر اس نے ممی بھالو کے بستر پر لیٹنے کی کوشش کی تو یہ بھی اس کے لیے مناسب نہ تھا۔آخر میں آمنہ منے بھالو کے بستر پر لیٹ کر سو گئی۔
کافی دیر بعد جب تینوں بھالو سیر کرکے گھر واپس آئے تو انہیں گھر میں کچھ عجیب عجیب سا محسوس ہوا۔ڈیڈی بھالو نے کہا’’ارے دیکھو کسی نے میری کرسی پر بیٹھنے کی کوشش کی ہے اور شاید میرے پیالے سے کھیر کھانے کی بھی کوشش کی ہے۔‘‘
ممی بھالو نے کہا’’ہاں…دیکھو میری کرسی بھی اپنی جگہ سے ہٹی ہوئی ہے اور میرے پیالے سے بھی لگتا ہے کسی نے کھیر کھانے کی کوشش کی ہے۔‘‘
آخر میں منا بھالو بولا’’یہ دیکھو کسی نے میرے پیالے میں سے ساری کھیر کھا لی ہے اور میری کرسی بھی توڑ دی ہے۔‘‘
ابھی یہ تینوں باتیں کر ہی رہے تھے کہ انہیں اوپر اپنے بیڈ روم سے کچھ نا مانوس سی آوازیں سنائیں دیں۔آوازیں سن کر بھالو بہت پریشان ہوئے۔پھر ڈیڈی بھالو نے کہا میرا خیال ہے ہمیں اوپر جا کر دیکھنا چاہیے شاید کوئی ابھی تک ہمارے گھر میں موجود ہے۔
ڈیڈی بھالو کی بات سن کر ممی اور منا بھالو ڈیڈی کے پیچھے پیچھے آہستہ قدموں سے چلتے اوپر والے کمرے میں پہنچے۔ڈیڈی بھالو نے کہا’’دیکھو کسی نے میرے بستر پر لیٹنے کی کوشش کی ہے۔اس کی چادر اپنی جگہ سے ہٹی ہوئی ہے۔‘‘ممی بھالو نے کہا’’کسی نے میرے بستر پر بھی لیٹنے کی کوشش کی ہے‘‘ منا بھالو بولا’’کوئی میرے بستر پر لیٹا تھا۔نہیں نہیں بلکہ ابھی تک لیٹا ہے اور سو رہا ہے۔‘‘
منے بھالو کی بات سن کر ممی اور ڈیڈی بھالو بھی آ گئے،وہ اس کے بستر میں سو رہی تھی۔اسے دیکھ کر بھالو آپس میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ وہ کون ہے۔بھالوؤں کی آوازیں سن کر آمنہ کی آنکھ کھل گئی وہ اپنے اردگرد بھالوؤں کو دیکھ کر پریشان ہو گئی اور جلدی سے بستر سے نکل کر باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔اپنے گھر پہنچنے تک آمنہ نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا اور آئندہ کبھی جنگل کے اس حصے میں نہ گئی۔

حصہ