تیاری

302

وہ مسلسل دوڑے جا رہا تھا، دوڑےجا رہا تھا۔ اس کے ماتھے سے پسینوں کی لکیریں کنپٹیوں سے پھسلتی، اس کے کانوں سے ہوتیں، شرٹ پر جذب ہو رہی تھیں۔ گراونڈ میں اس کے دوست کرکٹ کھیلتے ہوئے بھی اس کی موجودگی سے غافل نہیں تھے۔ مگر وہ ہر ایک کی موجودگی سے بے نیاز دوڑےجا رہا تھا۔ پھر وہ یکدم ایک طرف زمین پر لیٹ گیا اور کرالنگ شروع کر دی۔ گراونڈ میں موجود واک کرنے والے حضرات بھی رک گئے اور ٹک ٹکی باندھ کر اسے دیکھنے لگ گئے۔ انہی واک کرنے والے حضرات میں سے ایک میواتی صاحب نے اپنے ساتھی کو دیکھتے ہوئے کہا:

” باحئی! اے کچھ کرو ہو (یہ کچھ کرے گا!!)“ اور رک کر اس لڑکے کو جوش و خروش سے ورزش کرتے ہوئے دیکھنے لگے۔

”یار! یقین جانو جب سے فاتح نے کرکٹ چھوڑی ہےقسم سے گیم کا مزا ہی ختم ہو گیا ہے۔ ہم مسلسل ہارے ہی جا رہے ہیں۔“ طارق نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا ۔ ”پتا نہیں اسے ہوا کیا ہے آخر۔ بس یکدم حضرت کے ذہن میں معلوم نہیں کیا آیا ،کہاں سے آیا اور کہنے لگامیں کرکٹ نہیں کھیل سکتا۔ اب میں اس ٹائم ایکسرسائز کروں گا اور ہمارے پوچھنے پر بھی وجہ نہیں بتائی۔ “ سلیم بولا۔

”خیر!چند دنوں کی بات ہے۔ اس نے کہاں جانا ہے۔ ہمارا دوست ہے جلد ہی واپس ٹیم میں آجائے گا۔ کرکٹ کھیلے بغیر وہ کہاں رہ سکتا ہے۔“

”چلو! دیکھتے ہیں کب بدھو کی واپسی ہوتی ہے۔“ سلیم نے مزاحیہ لہجہ پیدا کرتے ہوئے کہا تو دونوں دوستوں نے ایک پھیکا سا قہقہہ لگایا اور گراؤنڈ سے نکل گئے۔

فاتح کو کرکٹ چھوڑے اور ایکسرسائز شروع کیے یہ دسواں دن تھا۔ وہ حسبِ معمول صبح سورج نکلنے تک مسجد ہی رہا اور پھر گراونڈ میں آکر گراؤنڈ کے چاروں طرف بنے جاگنگ ٹریک پر جاگنگ شروع کر دی۔ پہلا چکر اس نے آہستہ آہستہ دوڑتے ہوئے لگایا۔ اس کے بعد اس نے دھیرے دھیرے اپنی رفتار بڑھا دی۔ اس نے دائیں بازو پر گھڑی باندھ رکھی تھی۔ ہر پانچ منٹ بعد رک کر وہ پش اپس کا ایک منٹ لگاتا۔اللہ اکبر!کہہ کر اٹھتا اور پھر دوڑنا شروع کر دیتا۔

اس کے دوست اس سے نالاں تھے کیونکہ اس نے کرکٹ چھوڑ نے کی وجہ نہیں بتائی تھی۔وہ اپنی ناراضگی کا اظہار اس پر جملے کس کر کرتے تھے۔اور ایک طرح سے ان کو شغل کے لیے ایک نیا موضوع ہاتھ آگیا تھا ۔جیسے ہی وہ گراؤنڈ میں داخل ہوتا،کوئی ایک ہانک لگاتا:

”سائڈ پر ہو جاؤ بچو!ڈان آگیا ہے۔“

دوسرا کہتا:”ارے بھئی!ڈان نہیں ڈان بریڈ کہو“اور سب ہنسنے لگتے۔

تیسرا سنجیدہ سا منہ بنا کر کہتا:”ارے نادانو!تمیز سے!یہ ہمارے مستقبل کے مسٹر ورلڈہیں۔“اور سب کی ہنسی قہقہے میں بدل جاتی ۔ کیا باؤلر کیا بیٹسمین سب کھیل بھول کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوجاتے۔

آج فاتح معمول سے زیادہ چاک وچوبند نظر آرہا تھا۔ اس نے ورزش مکمل کرنے کے بعد گراؤنڈ کا ایک کونہ تلاش کیا جہاں رش نہ تھا اور کراٹے کی پریکٹس کرنا شروع کر دی ۔پہلے اس نے ہلکے پھلکے انداز میں مکوں کی پریکٹس کی اور پھر تیز رفتاری کے ساتھ مکوں اور لاتوں کی مشق انتہائی مشتاقی سے شروع کردی ۔اس کے قریبی دوستوں کو تو معلوم ہی تھاکہ فاتح کراٹے کی قسم ‘کیوکشن (kyokushin)میں بلیک بیلٹ رکھتا ہے۔ مگر گراؤنڈ کی دوسری جانب کھیلتے اکثر چھوٹے بچوں کو یہ بات معلوم نہ تھی۔ لمحہ بھر میں اس کے گرد ایک جمگھٹا لگ گیا اور چھوٹے بچے تحیر آنکھوں میں لیے بجلی کی سی تیزی سے کراٹے کی مشق کرتے فاتح کو دیکھنے لگے ۔فاتح اپنے ارد گرد سے بے نیاز مشق میں برابر مصروف تھا۔

فاتح کی روٹین بدلے پندرہ دن گزر چکے تھے۔پہلے پہل تو اس کے دوستوں نے اس تبدیلی کو وقتی ابال اور وقتی جوش وجذبہ سمجھا۔ لیکن جب دو ہفتے گزر گئے تو اس کے دوستوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اس وقت تک گراؤنڈ کا سب سے اہم اور سب سے زیادہ زیرِ بحث موضوع یہی تھا کہ کیا وجہ ہے کہ فاتح نے کرکٹ چھوڑ دی ہے اور اس کی جگہ اس قدر سخت ایکسرسائز کرنے لگا ہے۔

چھوٹے بچے تو سادہ ہوتے ہیں۔ ان کی رائے تھی کہ فاتح بھائی یقیناً جلد آرمی جوائن کرنے لگے ہیں۔ فاتح کے ہم عمر دوستوں کی آراء کافی مختلف تھیں۔ کوئی کہتا کہ فاتح ہم سب میں ممتاز نظر آنا چاہتا ہے، تبھی اس نے یہ ڈراما شروع کردیا ہے، کوئی کہتا کہ شاید فاتح فلموں میں ہیرو بننا چاہتا ہے۔ مگر یہ رائے دینے والا رائے دے کر پچھتاتا کیوں کہ باقی سارے شدت سے اس رائے کی مخالفت کرتے ۔

”جس نے فلموں میں جانا ہوتا ہے وہ پنج وقتہ نماز باجماعت تکبیر اولیٰ سے پڑھنے والا نہیں ہوتا۔“

ہاں! یہ ہے کہ جو بڑی عمر کے حضرات گراؤنڈ میں واک کرنے آتے تھے وہ اب کافی مشکوک اور متفکر نظروں سے فاتح کو ایکسرسائز کرتے دیکھتے ان کی رائے قریب قریب ایک نکتے پر جمع ہوتی نظر آتی تھی۔ خیر جب فاتح میاں کو لوگوں کی آراء کی ذرہ برابر بھی پروا نہ تھی تو ہم کیوں ان آراء کو سوچتے ہوئے ہلکان ہوئے جارہے ہیں ۔

آج فاتح گراؤنڈ میں آیا اور باآواز بلند سب کو سلام کیا اور جاگنگ شروع کر دی۔ پھر معمول کے مطابق جاگنگ، پش اپس اور دیگر ورزشوں سے فارغ ہونے کے بعد اس نے ایک کونے میں کراٹے کی مشق شروع کر دی۔ چھوٹے بچے تو جیسے اسی لمحے کے منتظر تھے۔ سب نے کھیل چھوڑ چھاڑ، بال پھینک فورا سے فاتح کے گرد دائرہ بنا لیا اور کراٹے کا دل چسپ مظاہرہ ذوق و شوق سے دیکھنے لگ گئے۔ اب تک بچوں کو بہت سی کِکوں (لاتوں) اور مکوں کے نام اور مختلف انداز کے بارے میں معلوم ہو گیا تھا۔ فاتح مشق کرتا جاتا اور ساتھ ساتھ بچوں کو معلومات بھی دیتا جاتا تھا۔

”فاتح بھائی! ماشی (ایک کِک کا نام) دوبارہ مار کے دکھائیں!“ ننھا ہاشم کہتا تو پاس کھڑے بزرگ حضرات جو خود بھی اس دل چسپ مظاہرہ سے لطف اندوز ہونے کے لیے کھڑے ہوتے، مسکرانے لگ جاتے ۔

اس دن اس کے سب دوست، طارق، سلیم اور باقی سب بھی چھوٹے بچوں اور بزرگوں کے ہمراہ کراٹے کے داؤ پیچ دیکھ رہے تھے اور حیران ہوتے جاتے کہ اس لڑکے میں کیسی بجلیاں بھری ہوئی ہیں۔ بالآخر جب فاتح نے اپنی مشق ختم کی تو یکدم اس کا دوست سلیم آگے بڑھا اور اسے گلے لگایا اور گزشتہ دنوں میں اس کے دوستوں نے جو اسے تنگ کیا تھا، اس پر سب کی طرف سے معذرت کی۔ سلیم کے اس اقدام نے گراؤنڈ میں خوش گوار اور اپنائیت بھرا ماحول بنا دیا۔ فاتح جو کہ ان دوستوں کی باتوں سے آزردہ خاطر تھا، اب اپنی طبیعت میں بڑی بشاشت محسوس کررہا تھا۔ فاتح کے چہرے پر بشاشت کے اثرات دیکھ کر طارق نےہمت پکڑی اور کہنے لگا:

”یار فاتح! آج ہم سب نے تمھیں سمجھ لو گرفتار کر لیا ہے۔ تمھیں رہائی اسی وقت ملے گی جب تم کرکٹ چھوڑنے اور یوں ایکسرسائز کرنے کی وجہ بتاؤ گے۔“ اس پر فاتح کے چہرے پر اداس سی مسکراہٹ آگئی۔

”کیا واقعی وجہ جاننا چاہتے ہیں آپ سب؟“ وہ آہستگی سے بولا۔

سب نے جلدی جلدی اثبات میں سر ہلایا مبادا وہ اپنا ارادہ نہ بدل دے۔

”اچھا سلیم تم یہ بتاؤ مجھے کرکٹ چھوڑے کتنے دن ہو گئے ہیں؟“

”یار! یہ میں کیسے بھول سکتا ہوں۔ آج پندرہواں دن ہے۔“ سلیم نے اپنی طرف سے ڈائیلاگ بولنے کی کوشش کی۔

” یہ بتاؤ سلیم کہ اسرائیل کو فلسطین کے علاقے غزہ پر حملہ شروع کیے کتنے دن ہو گئے ہیں؟“ یہ سوال کرتے ہوئے فاتح کے لب و لہجے میں ایسا کرب جھلکتا تھا کہ گراؤنڈ میں یکسر سناٹا چھا گیا، جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ سلیم کی حالت بھی دیدنی تھی۔ اس نے مدد طلب نگاہوں سے پاس کھڑے طارق اور آدم دیکھا۔ مگر ان کے چہرے بتا رہے تھےکہ وہ خود لا علم ہیں ۔

”یار! وہ ایسا ہےکہ تمھیں معلوم ہی تو ہے کہ میں ٹی وی پر صرف اسپورٹس چینل دیکھتا ہوں۔ مجھے ان خبروں وبروں کا کچھ پتا نہیں ہوتا۔“ سلیم نے کھسیانہ ہو تے ہوئے جواب دیا۔

”بھائی جان! بھائی جان! مجھے پتا ہے “ ننھے ہاشم میاں جلدی سے بولے مبادا کوئی اور جواب نہ دے دے۔ ”بھائی جان! اسرائیل نے سولہ دن پہلے حملہ کیا تھا اور اب تک ہزاروں فلسطینی مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔ میں ان کے لیے ہر نماز کے بعد دعا بھی کرتا ہوں۔”

ننھے ہاشم کے اس جواب پر فاتح کی آنکھوں میں چمک ابھری اور اس نے ہاشم کو شاباش دی۔ پھر وہ گویا ہوا:

”کتنے افسوس کی بات ہے سولہ دن سے ہمارے بھائیوں پر آگ اور لوہے کی برسات جاری ہے اور ہمیں خبر تک نہیں۔ کیا ہم نے اللّٰہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا ’’جس کو مسلمانوں کے مسائل و معاملات کی فکر نہ ہو وہ ان میں سے نہیں‘‘ اور کیا ہم نے وہ حدیث مبارکہ نہیں پڑھی کہ ’’سب مسلمان ایک جسدِ واحد کی کی طرح ہیں۔ اگر اس کی آنکھ دکھے تو سارا جسم درد محسوس کرتا ہے۔‘‘ اسی طرح اگر سر میں تکلیف ہو تو سارا جسم تکلیف میں شریک ہوتا ہے۔“

فاتح کی درد بھری آواز اب اونچی ہوتی جا رہی تھی۔ اس کی آواز کے ارتعاش میں جذبوں اور ولولوں کی حدت تھی اور اس کے منہ سے نکلے الفاظ سامعین کے کانوں سے ٹکراتے سیدھے دل میں تیر کی طرح اترتے جا رہے تھے اور وہاں ایک طوفان برپا کر رہے تھے۔

”کل قیامت کے دن جب میرا رب مجھ سے پوچھے گا کہ تم نے اپنے بھائیوں پر ظلم ہوتا دیکھا تو تم نے کیا کیا؟ میں اتنا تو کہہ سکوں گا کہ ’’اے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والے میرے رب! مجھے اور کچھ نہ سمجھ آیا تو اس نیت سے تیاری شروع کر دی کہ میرا رب جب مجھے راتوں کو مصلے پر بیٹھے دعا کرتے اور پورے عزم و ہمت کے ساتھ تیاری کرتے دیکھے گا تو ضرور مجھے اسلام کی عظمت و غلبے کی خاطر اور مظلوم مسلمانوں کی مدد و نصرت کرنے کے لیے گھر سے قدم نکالنے اور رزم گاہوں میں شرکت کی توفیق بھی دے گا۔“ فاتح کی آواز اب جیسے آنسوؤں میں بھیگتی جارہی تھی۔

”دوستو! میرا بس نہیں چلتا کہ میں پَر لگا کر، اُڑ کر وہاں پہنچ جاؤں… اور انتقاضا کے ہر اول دستے میں شامل ہو کر یہودیوں کو خیبر کی یاد دلانے والوں میں شامل ہو جاؤں۔“ یہ کہتے ہوئے فاتح نے امید و رجا سے پُر نگاہوں سے آسمان کی طرف دیکھا اور پھر کہنے لگا ”بھائیو! قرآن کریم میں اللہ کریم نے فرمایا ہے کہّّ او راگر وہ نکلنے کا ارادہ رکھتے تو ضرور اس کی کچھ تیاری کرتے۔‘‘اگر ہم ارادوں میں سچے ہیں تو استطاعت کے مطابق تیاری کرنی ہوگی۔ بس اسی لیے یہ ٹوٹی پھوٹی سی ایکسرسائز کرتا ہوں۔اللہ قبول فرما لے۔“

یہ کہہ کر فاتح نے گفتگوختم کی اور سلام کرکے گھر کی طرف چل پڑا۔اگر وہ پیچھے مڑ کر دیکھتا تو اسے معلوم ہوتا کہ اس کے دوست ،بچے اور بزرگ وہیں دم بخود کھڑے اسی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

اگلے دن جب فاتح اپنے مقررہ وقت پر گراؤنڈ پہنچا تو اس کے آگے جو منظر کھلا اس نے اسے ششدر کر دیا۔ آج کرکٹ نہیں کھیلی جا رہی تھی اور اس کے سارے دوست اسی کے منتظر تھے اور تو اور بزرگ حضرات بھی آج باقاعدہ ٹریک سوٹ پہن کر آئے تھے۔ سب سے پہلے طارق آگے بڑھا۔ وہی اس گراؤنڈ کا کرتا دھرتا مانا جاتا تھا۔ اس نے فاتح کو سلام کیا اور بولا:

” فاتح!آج سے کرکٹ ختم۔ ایکسر سائز شروع اور ہم یہاں کراٹے کلب بھی شروع کر رہے ہیں جس میں استاد تم ہوگے…ایک گھنٹے کی روانہ کلا س کافی ہو گی۔ ٹھیک ہے نا؟“طارق نے پُر اشتیاق لہجے میں یک مشت ہی سارا پروگرام سنا ڈالا۔سارے چھوٹے بچے بھی شور مچا رہے تھے۔

”ہم بھی کراٹے سیکھیں گے!ہم بھی ایکسرسائز کریں گے!“

اتنے میں میواتی صاحب آگے بڑھے۔آج وہ بھی ‘تیاری ‘ کرنے کے لیے تیار ہو کر آئے تھے۔ انہوں نے آگے بڑھ کر فاتح کا ماتھا چوما اور کہنے لگے:

” میں کہتا تھا نا!یہ لڑکا کچھ کرو ہو۔فاتح میاں گو کہ میں ستر سال کا ہوں مگر میں بھی تم لوگوں کے شانہ بشانہ تیاری کے فریضے میں شریک ہوں گا۔اور ہاں!آج سے اس گراؤنڈ کا نام ہی تیاری یعنی ”اعدادگراؤنڈ “ہے۔ اور بچو! میرا مشورہ ہے کہ کرکٹ کی جگہ فٹ بال کھیل لیا کرو کہ اس میں ہمہ وقت ورزش ہوتی ہے۔“

فاتح نے اس تجویز پر مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور شکر سے لبریز دل اور جھلمل موتیوں سے پر نم آنکھوں کے ساتھ اپنے مہربان رب کے حضور سجدۂ شکر میں گر گیا۔

حصہ