امت کا درد اور مسلمان

357

ایک نشست میں شرکت کا موقع ملا جہاں برن لے کونسل میں لیبر پارٹی کے قائد ایوان افراسیاب انور موجود تھے۔ اس نشست کا اہتمام Stop war collation نے کیا تھا جس میں مسلمان، عیسائی، یہودی اور کسی مذہب نہ مانے والے سب شامل تھے۔

افراسیاب انور اور ان کے ساتھ 10 کونسلرز نے گذشتہ دنوں لیبر پارٹی سے اس وجہ سے استعفیٰ دیا کہ لیبر پارٹی نے جنگ بندی کی حمایت نہیں کی۔

اپنے مختصر خطاب میں افرسیاب انور نے بتایا کہ کچھ عرصے قبل ان کو مسجد اقصی جانے کا موقع ملا جب وہ قضہ الصخرۃ کے پاس کھڑے تھے تو ان کی ملاقات امام مسجد الاقصیٰ سے ہوئی۔ افراسیاب نے ان سے سوال کیا کہ ہم برطانوی مسلمان مسجد اقصیٰ کے لیے کیا کرسکتے ہیں تو امام صاحب نے جواب دیا کہ

1- آپ برطانیہ کے لوگوں کو یہاں کا دورہ کروائیں ان کو کہیں کہ یہاں آئیں اور خود حالات دیکھیں

2- اگر لوگ یہاں نہیں آسکتے ہیں تو پھر جو بھی یہاں آیا ہے وہ لوگوں کو یہاں کے حالات کے بارے میں بتائے

3- اگر آپ یہ بھی نہیں کرسکتے تو پھر بس ہمارے لیے دعا کریں

افراسیاب انور نے کہا کہ غزہ پر بمباری کے بعد سے وہ بے چین تھے اور وہ پہلے فرد تھے کہ جنہوں نے لیبر پارٹی کے قائد کیئر اسٹارمر سے مطالبہ کیا کہ ان کی پالیسی پارٹی کے بنیادی نظریات سے مطابقت نہیں رکھتی لہذا وہ بطور پارٹی سربراہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں۔

کیونکہ پارٹی سربراہ نے استعفیٰ نہیں دیا لہذا وہ امام مسجد اقصیٰ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے پارٹی پالیسی سے اختلاف کے بعد اپنے پورے گروپ کے ساتھ مستعفی ہوگئے۔

اس بات کا برملا اظہار انہوں نے ایک ایسی نشست میں کیا کہ جہاں صرف مسلمان نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی اکثریت تھی۔

انہوں نے کہا کہ کل میں اپنی آئندہ آنے والی نسل کو کیا منہ دکھاؤں گا کہ غزہ میں نسل کشی کے وقت میں کس کے ساتھ تھا؟

برطانیہ میں پیدا ہونے، تعلیم حاصل کرنے اور اس معاشرے کا حصہ بننے کے باوجود بھی مسلمانوں کے جذبات کی یہ کیفیت ایک امت کا احساس تازہ کردیتی ہے

اقبال نے کہا تھا

اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیر و جواں بیتاب ہوجائے

مغرب میں اس وقت جو جذبات مسلمانوں کے ہیں اس کا اظہار اس ہر ھفتے سڑکوں پر نظر آتا ہے۔ گذشتہ دنوں لندن کے اسکول کے بچوں نے غزہ کے بچوں کے قتل عام پر عظیم الشان ریلی نکالی اور اپنے جذبات کا اظہار کیا۔

آج ہر مسجد، اسکول اور مدرسے میں غزہ کے قتل عام کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ ایسے جذبات اور ان کا اظہار شاید مغرب میں عراق جنگ میں بھی نہیں دیکھا گیا۔

مغرب میں ایک بیداری ہے غزہ و فلسطین کا معاملہ اب ہر زبان پر ہے۔ اسرائیلی اشیاء کا بائیکاٹ ہورہا ہے۔ ممبران پارلیمان کو فون کالز کی جارہی ہیں اور خطوط لکھے جارہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 650 کے ایوان میں جنگ کے حق میں صرف 295 ووٹ آسکے 125 نے مخالفت کی گوکہ جنگ بندی کی قرارداد مسترد تو ہوگئی لیکن 355 کا جنگ بندی کے حق میں بولنا یا خاموش اکثریت کا جنگ بندی نہ چاھنے والوں سے اظہار لاتعلق برطانوی سیاست میں ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔

7 اکتوبر کے بعد صرف مشرق وسطی کی ہی نہیں بلکہ پورے مغرب کی سیاست تبدیل ہوچکی ہے۔ یہ اسرائیل کی نہ صرف جنگی بلکہ سفارتی اور بدترین سیاسی ناکامی ہے۔ فلسطین کے تیرہ ہزار بے گناہوں کا خون آج مغرب کی سڑکوں پر سوال کررہا ہے کہ

کیا انسانی کی جان کی کوئی وقعت ہے یا نہیں؟

کیا مغرب اور غزہ کے بچوں میں کوئی قدر مشترک ہے یا نہیں؟

بے گناہوں کو حصار میں لیکر قتل کرنے والوں کے پشت پناہ عالمی طاقتوں کو اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ عالمی عدالت انصاف میں کیوں نہ انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے؟

غزہ اور مسجد اقصیٰ اب صرف مسلمانوں کا معاملہ نہیں بلکہ اسرائیل کی بدترین جارحیت نے اس کو انسانیت کا معاملہ بنادیا ہے۔ مغرب و مشرق میں صرف ایک آواز ہے کہیں بلند آہنگ اور کہیں پست آہنگ اور وہ آواز ہے کہ اسرائیل کا دور ختم ہوچکا ہے اور یہی آج کی حقیقت ہے۔

حصہ