قیصروکسریٰقسط(129)

383

’’تمہیں کیا معلوم ہے؟‘‘

’’یہی کہ آپ کسی دن وہاں ضرور جائیں گے اور میں یہ نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے آپ اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ترک کردیں‘‘۔

’’میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ وہاں جانا میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے‘‘۔

فسطینہ نے جواب دیا۔ ’’آپ کو کہنے کی ضرورت نہیں۔ میں آپ کے دل کا حال جانتی ہوں۔ اور میرے متعلق آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ میں آپ کا انتظار کرسکوں گی۔ بڑھاپے میں یہ انتظار میرے لیے زیادہ صبر آزما ہوگا۔ اس لیے میں یہ چاہتی ہوں کہ آپ جلد جائیں اور جلد واپس آجائیں‘‘۔

’’لیکن میں وہاں جا کر کیا کروں گا؟‘‘

’’مجھے معلوم نہیں۔ میں صرف یہ جانتی ہوں کہ کسی دن آپ اچانک وہاں جانے کا فیصلہ کریں گے اور میری التجائیں اور آنسو آپ کا راستہ نہیں روک سکیں گے۔ لیکن میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ میں اپنی محبت کو آپ کے پائوں کی زنجیر نہیں بننے دوں گی۔ میں زندگی کے سفر میں آپ کی رفیق ہوں۔ لیکن اس سفر کی منازل متعین کرنا آپ کا کام ہے‘‘۔

عاصم نے پیار سے فسطینہ کی ٹھوڑی پکڑ کر اُسے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن اس وقت میری منزل میری نگاہوں کے سامنے ہے۔ اور اس وقت میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ میں اِن خوب صورت آنکھوں کی گہرائیوں میں گم ہوجائوں اور کسی اور طرف نہ دیکھوں‘‘۔

فسطینہ نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ ’’اور میری آنکھوں کی گہرائیوں میں بھی شاید آپ وہ صحرا اور نخلستان دیکھ سکیں جو آپ کو ساری دنیا سے زیادہ عزیز ہیں‘‘۔

عاصم نے جواب دیا۔ ’’میں ان صحرائوں اور نخلستانوں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ چکا ہوں۔ اب اگر میں وہاں گیا بھی تو وہاں مجھے ماضی کی تلخ یادوں کے سوا کیا حاصل ہوسکتا ہے؟‘‘

’’آپ نے جس وطن کو چھوڑا تھا وہ اب درندوں کی شکارگاہ نہیں بلکہ انسانیت کی بلند ترین امیدوں کا مرکز بن چکا ہے۔ کلاڈیوس کے اس خط کے بعد میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ جس زمین کے کانٹوں سے آپ کے پائوں زخمی ہوئے تھے وہاں پھولوں کی مسکراہٹیں آپ کا انتظار کررہی ہیں۔ جب آپ وہاں سے ہو کر واپس آئیں گے تو میں آپ کے منہ سے صرف یہ سننا پسند کروں گی کہ آپ نے کوئی ایسی جگہ تلاش کرلی ہے جہاں شہنشاہوں کی قبائیں محکوموں کے خون سے داغدار نہیں ہوتیں۔ جہاں ایک انسان کے ہاتھ دوسرے انسان کی شاہرگ تک نہیں پہنچتے۔ اور جہاں ہمارے بیٹے کا مستقبل شام سے زیادہ محفوظ ہے۔ میں آپ کے لیے یہ سفر اس لیے بھی ضروری سمجھتی ہوں کہ اگر عرب کے نبیؐ اور اس پر ایمان لانے والوں کو قریب سے دیکھ کر آپ کی توقعات پوری نہ ہوئیں تو ہم اپنی زندگی کے باقی دن نسبتاً اطمینان کے ساتھ گزار سکیں گے۔ اور مستقبل کے متعلق موہوم امیدیں آپ کو پریشان نہیں کریں گی۔ عاصم! رات کی تاریکی صرف ان مسافروں کے لیے صبر آزما ہوسکتی ہے جنہیں طلوعِ سحر کی اُمید ہو۔ مجھے یقین ہے کہ اگر عرب کا انقلاب آپ کو نئی روشنی دکھانے سے قاصر رہا تو ہمارے لیے زندگی کی ان راحتوں پر قناعت کرلینا مشکل نہیں ہوگا جو ہمیں اس گھر کی چار دیواری کے اندر میسر ہیں۔ پھر میں صبح و شام آپ کی مغموم نگاہوں کو خلا میں بھٹکے ہوئے نہیں دیکھوں گی پھر مجھے رات کے پچھلے پہر اس بات کا احساس پریشان نہیں کرے گا کہ میرا شوہر آرام کی نیند سونے کی بجائے کرب کی حالت میں کمرے سے باہر ٹہل رہا ہے‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’فسطینہ تم زندگی کا سب سے بڑا انعام ہو۔ اور اگر تم نے کبھی میری نگاہوں کو فضا میں بھٹکتے یا مجھے رات کے پچھلے پہر بے چین اور مضطرب دیکھا ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ میں اس دنیا کو تمہارے لیے زیادہ مکمل، زیادہ پرامن اور زیادہ خوشحال دیکھنا چاہتا ہوں… میں نے ماضی میں بے گناہوں کے خون کی ندیاں دیکھی ہیں۔ میں نے مظلوموں کے آنسوئوں کو خاک میں جذب ہوتے دیکھا ہے۔ میں نے بے بسوں کی چیخوں کے جواب میں ظالموں کے قہقہے سنے ہیں۔ میں نے غلاموں کی ہڈیوں پر حکمرانوں کو اپنے عشرت کدے تعمیر کرتے دیکھا ہے۔ میں نے محبت کے پھولوں کو نفرت اور غرور کے جہنم کا ایندھن بنتے دیکھا ہے۔ اور میری زندگی میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب میں یہ سب کچھ برداشت کرسکتا تھا۔ لیکن یونس کی دُنیا کو میں اپنی دنیا سے مختلف دیکھنا چاہتا ہوں… کاش میں یونس کے لیے ایسی دنیا تلاش کرسکوں جہاں ایک بے بس، کمزور اور مظلوم کے آنسوئوں سے پوری انسانیت کا ضمیر لرز اُٹھے جہاں ناداروں کی زبان فریاد کے لیے نہیں بلکہ تشکر کے لیے کھلتی ہو… کاش عرب میں ایسی دنیا تعمیر ہورہی ہو‘‘۔

فسطینہ نے اچانک سوال کیا۔ ’’آپ کب جانا چاہتے ہیں؟‘‘

عاصم نے جواب دیا۔ ’’ابھی میں نے جانے کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ لیکن اگر تم خوشی سے اجازت دے رہی ہو تو میں تمہارا شکر گزار ہوں‘‘۔

اگلی صبح عاصم گھوڑے پر سوار ہو کر سیر کے لیے نکلا لیکن جلد ہی واپس آگیا۔ فسطینہ نے اُسے دیکھتے ہی پوچھا۔ ’’آپ اتنی جلدی واپس کیوں آگئے؟‘‘

عاصم نے جواب دیا۔ ’’میں نے گھر سے نکلتے ہی ایک ناقابل یقین خبر سنی ہے… مسلمانوں کی ایک فوج نے اچانک دومتہ الجندل پر حملہ کرکے وہاں کے سردار (رسول اکرمؐ نے تبوک پہنچ کر حضرت خالد بن ولیدؓ کو دومہ کی مہم پر روانہ کردیا تھا۔ حضرت خالدؓ کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ وہ رومی لشکر کے حرکت میں آنے سے قبل اس مہم سے فارغ ہو کر واپس جاچکے تھے) اکیدربن عبدالملک کو گرفتار اور اس کے بھائی کو قتل کردیا ہے‘‘۔

’’یہ ناممکن ہے‘‘۔

’’میں فوج کے ایک ذمہ دار افسر سے اس خبر کی تصدیق کرچکا ہوں‘‘۔

’’یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ کیا مسلمانوں کی فوج اتنی زیادہ تھی کہ ہمارا لشکر ان کا راستہ نہیں روک سکا‘‘۔

’’ان کی تعداد چار پانچ سو سواروں سے زیادہ نہیں تھی۔ اور رومیوں کی کمک پہنچنے سے پہلے وہ اکیدر کو گرفتار کرکے واپس جاچکے تھے‘‘۔ ایک رومی یہ کہہ رہا ہے کہ اگر یہ خبر درست ہے تو ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ مسلمان ہوا میں اُڑ کر دُومہ پہنچے تھے‘‘۔

’’اب کیا ہوگا۔‘‘ فسطینہ نے سوال کیا۔

’’کچھ نہیں۔ رومیوں کا خیال تھا کہ ان کی فوجی نقل و حرکت مسلمانوں کو مرعوب کردے گی۔ لیکن اب مسلمانوں نے عملاً یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ جب چاہیں شام کے کسی بھی شہر پر حملہ کرسکتے ہیں‘‘۔

’’لیکن یہ قیصر کی توہین ہے اور رومی اسے برداشت نہیں کریں گے‘‘۔

عاصم نے جواب دیا۔ ’’یہ بھی ممکن ہے کہ اِن واقعات کے بعد مسلمانوں کی قوت کے متعلق قیصر کے اندازے بدل جائیں اور وہ فوری جنگ کا ارادہ بدل دے‘‘۔

فسطینہ نے کہا۔ ’’نہیں قیصر کو کلیسا کی خواہشات کا احترام کرنا پڑے گا۔ اور کلیسا کی خواہش یہ نہیں ہوسکتی کہ اہل عرب ایک کمزور ہمسایہ کی بجائے ایک طاقتور حریف کی حیثیت اختیار کرلیں۔ مجھے یقین ہے کہ قیصر جوابی کارروائی میں زیادہ تاخیر سے کام نہیں لے گا۔ میں آپ سے صرف یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟‘‘

عاصم نے جواب دیا۔ ’’اگر تم سفر کے متعلق پوچھ رہی ہو تو میں نے ابھی کوئی ارادہ نہیں کیا۔ اور میرا خیال ہے کہ اگر عرب اور روم کے درمیان باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی تو میں وہاں نہیں جاسکوں گا۔ اور کلاڈیوس بھی مجھے وہاں جانے کا مشورہ نہیں دے گا‘‘۔

چند دن بعد اہل دمشق یہ خبر سن رہے تھے کہ لشکر اسلام تبوک سے واپس لوٹ گیا ہے۔ اس کے بعد عاصم یروشلم جانے کے ارادے کو اگلے دن، اگلے ہفتے اور اگلے مہینے پر ٹالتا رہا۔ اور کلاڈیوس نے بھی اُسے دوبارہ لکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ قریباً ایک سال گزر گیا اور اس عرصہ میں شام کی مشرقی سرحد سے کوئی ایسی خبر نہ آئی جو رومیوں کے لیے کسی تشویش کا باعث ہوسکتی ہے۔ تاہم اسلام ایک حیرت انگیز رفتار کے ساتھ جزیرہ نمائے عرب کی وسعتوں کو اپنے آغوش میں لے رہا تھا۔ اور رومی جن کے نزدیک فرزندانِ صحرا کا اتحاد عرب کی تاریخ کا ایک ناقابل یقین واقعہ تھا۔ اس صورت حال سے غافل نہ تھے۔

ایک شام عاصم دمشق کے بازار میں گھومنے کے بعد گھر واپس آیا۔ تو نوکر نے اُسے بتایا کہ اندر ایک مہمان آپ کا انتظار کررہا ہے۔ وہ جلدی سے آگے بڑھا اور ایک کشادہ اور روشن کمرے کے قریب پہنچ کر اُسے ایک مانوس آواز سنائی دی اور وہ ’’کلاڈیوس! کلاڈیوس!! کہتا ہوا اندر داخل ہوا۔

کلاڈیوس یونس کو اپنی گود سے اُتار کر اُٹھا۔ اور دونوں ایک ’’سرے سے بغل گیر ہوگئے۔

’’تم کب آئے۔ تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی۔ انطونیہ کیسی ہے؟ تمہارے بچے کیسے ہیں؟ تم انہیں ساتھ کیوں نہیں لائے؟‘‘۔ عاصم نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کردیے۔

’’وہ سب ٹھیک ہیں۔ اگر یہاں ٹھہرنے کا ارادہ ہوتا تو انہیں ضرور لاتا۔ لیکن میں علی الصباح انطاکیہ جارہا ہوں‘‘۔

’’میں نے سنا ہے کہ قیصر وہاں آرہاہے؟‘‘

’’ہاں۔ عرب کے حالات نے انہیں پھر ایک بار اپنے مشرقی علاقوں کی دیکھ بھال پر مجبور کردیا ہے‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’مجھے افسوس ہے کہ تمہاری دعوت پر یروشلم نہ آسکا۔ میں نے کئی بار سفر کا ارادہ کیا۔ لیکن اب شاید میں عمر کے اس حصے میں پہنچ چکا ہوں جب کہ ایک انسان کی قوتِ عمل اس کے ارادوں کا ساتھ نہیں دیتی۔ آپ کہتے ہیں کہ عرب کے حالات نے قیصر کو انطاکیہ آنے پر مجبور کردیا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ تبوک سے واپسی کے بعد مسلمانوں کے ارادے بدل گئے ہیں۔ میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ اگر موتہ کا حاکم محمدؐ کے ایلچی کو قتل کرنے کی غلطی کرتا تو وہ شام کی سرحدوں کی طرف کبھی نہ دیکھتے‘‘۔

(جاری ہے)

حصہ