جن کہاں گیا ؟

254

بہادر بنٹی ، چست چنٹو اور شرارتی شینا ، گندے گاؤں میں رہتے ہیں ۔ جس طرح ان تینوں کے نام کے ساتھ ان کے القاب لگتے ہیں جو کہ ان کی شخصیت کی خوبیوں کی وجہ سے لگے ہیں اسی طرح گندا گاؤں اس گاؤں کے صاف ستھرا نہ ہونے کی وجہ سے اس کا نام ہے ۔
یہاں کے رہنے والے لوگ یوں تو بہت سمجھدار ہیں ، اپنا گھر صاف ستھرا رکھتے ہیں، خود بھی نہا دھو کر صاف ستھرے کپڑوں میں اپنے گھروں میں رہتے یا گھروں سے باہر نکلتے ہیں لیکن گاؤں کی گلیاں، سڑکیں ، کچرے میں اٹی رہتی ہیں ، مٹی تو خیر ہوا چلنے کی وجہ سے آ جاتی ہے لیکن کوڑا کرکٹ بھی بہت ہوتا ہے اور جب لوگ اپنے گھروں کو دھوتے ہیں اور گھر کے باہر چبوترا بھی صاف کرتے ہیں تو پانی سارا باہر گلی میں جمع ہو جاتا ہے اور چونکہ پھیلایا نہیں جاتا تو خشک بھی نہیں ہوتا اور مٹی کے ساتھ مل کر کیچڑ بن جاتا ہے ، گزرنے والوں کو اپنے کپڑے بچا کر چلنا پڑتا ہے تاکہ چھینٹے نہ پڑیں اور تو اور جب بچے یا بڑے گلیوں میں مل بیٹھتے ہیں تو کچھ نہ کچھ کھاتے پیتے ضرور ہیں اور پھر اس کھانے کی باقیات یعنی تھیلیاں، گوشت کی ہڈیاں یا پھلوں کے چھلکے باہر گلی میں ہی پھینک دیتے ہیں۔
ان تینوں بہن بھائیوں کے علاوہ اور کسی کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ہمیں اس طرح کوڑا کرکٹ نہیں پھینکنا چاہیے اور اپنے گاؤں کو صاف ستھرا رکھنا چاہیے ۔
بنٹی،چنٹو اور شینا نے اپنے طور پہ اس کی روک تھام کے لیے کوشش کی ہے، انہوں نے کوڑا دان خرید کر اپنی گلی اور آگے کی بھی ایک دو گلیوں میں رکھے تھے تاکہ لوگ اس میں کچرا ڈالیں اور پھر وہ کوڑا دان اٹھا کر وہاں خالی کیا جائے جہاں گاؤں سے سارا کچرا اٹھا کر جمع کیا جاتا ہے لیکن ہوا کچھ یوں کہ گلی میں کھیلنے والے بچوں نے ان کوڑا دانوں کو کھیل کھیلنے کی وکٹ بنا لیا ، اور ایک گلی سے تو کوڑا دان غائب ہوگیا۔
یہ گاؤں چھوٹا سا ہے، یہاں بس پانچ گلیاں ہیں اور دو سڑکیں ، جہاں اشیاء ضرورت کی دکانیں ہوتی ہیں۔ یہاں سب لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور آپس میں مل کر بھی رہتے ہیں ، بس ایک یہ کچرا پھیلانے والی عادت ہی غلط ہے اور پھر جب صفائی کروانی ہو تو اس وقت سب ساتھ نہیں دیتے بلکہ ایک دوسرے پر یہ ذمہ داری ڈال دیتے ہیں۔
پیارے بچوں آپ تو جانتے ہی ہیں کہ صفائی کتنی ضروری ہے اور ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہیے۔
ایک دن کیا ہوا کہ روز کی طرح گاؤں کے لوگ مل کر بیٹھے تھے ، ایک طرف بچے تو ایک طرف بڑے ۔ “ارے وہ دیکھو شرارتی شینا! ادھر کچھ ہے؟”سادی سونیا نے شینا کی توجہ ایک جانب دلائی۔
کیا ؟ کدھر ؟” شینا نے پوچھا ۔
ادھر کوئی تھا ، کالے رنگ کے لباس میں”سونیا نے ڈرے ہوئے انداز میں کہا۔ “کچھ نہیں ہے تمہارا وہم ہوگا۔” “ہاں بالکل! سادی ہونے کے ساتھ ساتھ اب تم ڈرپوک بھی ہوگئی ہو”باتونی ببلی نے سونیا سے کہا ۔ ان دونوں کی باتوں کی طرف سب متوجہ ہوگئے تھے۔
پھر یہ روز روز ہونے لگا ۔ کبھی کسی کو تو کبھی کسی کو سیاہ رنگ کے لباس میں دور کھڑا کوئی نظر آتا اور سب ڈر جاتے، کوئی پاس جا کر دیکھنے کی ہمت نہ کرتا ۔
آہستہ آہستہ گاؤں کے افراد کا گلیوں میں بیٹھنا بہت کم ہونے لگا۔ لیکن کسی نے اس بات پہ توجہ نہ کی کہ جب یہ سایہ نظر آتا تو کبھی بنٹی تو کبھی چنٹو تو کبھی شینا غائب ہوتی ۔
بہرحال باہر کم بیٹھنے کی وجہ سے سڑکوں پہ کوڑا کچھ کم ہونے لگا لیکن بالکل صفائی اب بھی نہ تھی ۔
ایک دن بہادر بنٹی نے سب سے کہا ’’کیا آپ سب کو معلوم ہے کہ ہمارا جو پڑوسی گاؤں ہے محنتی گاؤں جہاں ہر فرد محنتی ہے وہاں پہ ایک بابا رہتے ہیں‘‘ ،’’ہاں ! تو پھر ؟‘‘ ہنستے ہادی نے پوچھا ’’تو پھر یہ کہ وہ بابا ہمیں بتا سکتے ہیں کہ ہمارے گاؤں میں وہ سیاہ لباس والا انسان کون ہوتا ہے جس سے ہم سب ڈر جاتے ہیں” “مجھے تو وہ کوئی جن لگتا ہے‘‘،’’سادی سونیا نے کہا ‘‘،’’تو ٹھیک ہے پھر ہم ان بابا کو بلائیں گے اور وہ اس جن کو بھگا دیں گے تاکہ ہم دوبارہ سے مل کر بیٹھ سکیں۔‘‘ چست چنٹو نے سب کو مشورہ دیا۔
ٹھیک ہے تو پھر آپ تینوں بہن بھائی یہ کام کرو “بوڑھے باقر نے یہ کام ان تینوں کو ہی سونپ دیا اور وہ تینوں بھی یہی چاہتے تھے۔
اف کتنا کچرا ہے یہاں، یہ کیسا گندا گاؤں ہے، میں نے اس سے پہلے اتنا کوڑا کہیں نہیں دیکھا’’ محنتی گاؤں کے بابا نے وہاں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا اور اپنی ناک پہ ہاتھ رکھ لیا۔ کتنی بدبو آرہی ہے یہاں پر، کیا صفائی کا کوئی انتظام نہیں ہے ؟‘‘ بابا کی بات سن کر گندے گاؤں کے سب لوگوں کو شرمندگی ہوئی۔ ’’اچھے بابا آپ ہمیں بتائیں کہ ہم اس جن کا کیا کریں جو ہمیں ڈراتا ہے آ کر؟‘‘ شرارتی شینا نے ان کا دھیان کچرے پر سے ہٹایا ۔
صفائی، صفائی ہی حل ہے اس مسئلے کا ، آپ سب کو مل کر اپنا گاؤں صاف کرنا اور صاف ستھرا رکھنا پڑے گا تب ہی اس جن سے چھٹکارا ملے گا ۔’’بابا نے کہا اور واپس جانے لگے ۔‘‘
ارے !آپ ایسے کیسے جاسکتے ہیں،ہم آپ کی مہمان نوازی کرنا چاہتے ہیں، آپ ہمارے گھر چلیں’’ چست چنٹو نے ان کو روکا۔ نہیں نہیں ! ابھی تو بالکل بھی میں یہاں ٹھہرنا نہیں چاہتا ، جب یہ گندا گاؤں صاف ستھرا گاؤں بن جائے گا تب ہی میں یہاں آؤں گا، ابھی مجھے اپنے گاؤں جانا ہے۔‘‘ بابا یہ کہہ کر چلے گئے لیکن گاؤں کے لوگوں کو یہ احساس دلا گئے کہ ان کے گاؤں کو صفائی کی ضرورت ہے۔
اس کے بعد سب نے مل کر اپنے گاؤں کی گلیوں اور سڑکوں کی صفائی کی، کوڑا دان دوبارہ ان کی جگہ یعنی گلیوں کے نکڑ پہ رکھے اور عہد کیا کہ جس طرح وہ اپنے گھر کو صاف رکھتے ہیں اسی طرح اپنے گاؤں کو بھی صاف رکھیں گے ، سب مل کر صفائی کریں گے اور کوڑا کرکٹ باہر نہیں پھینکے گے بلکہ کوڑا دان (ڈسٹ بن) میں ڈالیں گے اور اس کام کے لیے سب نے آپس میں کام بانٹ لیا۔ کچھ عرصے بعد یہ گاؤں صاف ستھرا گاؤں بن گیا ۔
سب صفائی میں اتنا مگن ہوگئے ہیں کہ کسی کو یاد ہی نہیں کہ وہ جن کہاں گیا جو سب کو ڈراتا تھا۔’’ شرارتی شینا نے اپنے بھائیوں سے کہا تو وہ ہنسنے لگے۔‘‘

حصہ