مجاہد کی اذاں

314

نمازِ عصر کا وقت قریب آ رہا تھا۔ آسمان گہرےبادلوں سے ڈھکا ہوا تھا اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں بارش کی جلد آمد کی خوش خبری دے رہی تھیں۔ کالونی کی مسجد کی راہ میں لگے درخت، پودے، اور پھول خوشی سے جھوم رہے تھے اور پرندے خوشی سے سرشار فضا میں غوطے لگانے مں مصروف دکھائی دے رہے تھے۔ گراونڈ میں بچے کھلتے ہوئے خوب شور و غل اور اودھم مچائے ہوئے تھے۔ ایسے خوش گوار موسم کے باوجود آج میں اداس اور غمگین دل کے ساتھ مسجد کی طرف پیدل جا رہا تھا۔ دل تھا کہ جیسے بے چینی اور اضطراب سے پھٹے جا رہا ہو۔ کسی طور قرار نہ آرہا تھا۔ آج بات ہی کچھ ایسی تھی۔ عالمی مڈیا اور جرائد ایک مرتبہ پھر قبلۂ اول مسجد اقصیٰ کی مجروح اور خونچکاں تصاویر سے پُر تھے۔

میں مضمحل سے انداز میں آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتے وضو خانے میں پہنچا۔ وضو خانہ مسجد سے متصل کھلی فضا میں واقع تھا۔ میں وضو کرنے بیٹھا۔ بسم اللہ پڑھی اور ٹونٹی کھول دی۔ اسی اثنا میں مسجد کے مائیک کھلنے کی آواز آئی۔ چند ثانیہ کا وقفہ ہوا اور پھر یکدم فضا چہار سو اذان کی مسحور کن آواز سے معطر ہو گئ ساتھ ہی میرے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ در آئی۔ میں آواز پہچان گیا تھا۔ یہ آواز میرے انتہائی قریبی دوست اور جی جان سے پیارے ایمان کے ساتھی مصطفیٰ کی تھی۔ یہ اس کی پرانی عادت ہے۔ اسے معلوم ہےکہ مجھے اس کی اذان بے حد پسند ہے۔ لہٰذا اس نے مجھے اپنی آمد کی اطلاع دینے کا ایک انوکھا طریقہ وضع کر رکھا ہے۔ وہ میر ے گھر آنے کے بجائے سیدھا مسجد آجاتا ہے اور اپنی میٹھی آواز کے ذریعے مجھے اپنی آمد کی خبر دیتا ہے۔

اللہ اکبر اللہ اکبر۔ اشھد ان لاالہ الااللہ اشھد ان لا الہ الااللہ۔ فضا میں ایک بارعب سناٹا چھا گیا جیسےہر شے اپنی اپنی جگہ یکلخت جامد ہوگئی ہو۔ سن ہو کر تھرا گئی ہو اور کُل کائنات سراپا ”کان“ بن گئی ہو۔ اللہ رب العالمین کی کبریائی کا اعلان ہو رہا تھا۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ خشتِ الٰہی کی مجسم تصویر بنے اس امانتِ گراں بار کے عظیم کلمات دم سادھے سن رہا تھا۔

اذان… ایک مکمل دعوت ہے۔ واضح پیغامِ ربانی ہے، اللہ کی کبریائی کا اعلان ہے۔ اللہ کی توحید اور محمد رسول اللہﷺ کی رسالت کی گواہی ہے۔ نماز اور کامیابی کی طرف دعوت ہے۔ محشر میں رب کے حضور جمع ہونے کی یاد دلانے اور اس کی تیاری کی بار بار یاددہانی کراتی دعوت ہے۔

میں نے ٹونٹی بند کی اور گراؤنڈ کی طرف دیکھا تو سب بچے اپنے اپنے کھیل روک کر اکٹھے مسجد کی طرف آرہے تھے۔ آگے آگے مصعب اور فاتح تھے اور ان کے پیچھے پیچھے فرطِ جذبات اور خوشی کی تمازت لے باقی بچے بھی آرہے تھے۔ مصعب اور فاتح میرے پاس سے گزرے، جلدی جلدی مجھے سلام کیا۔ ان کی خوشی اور جلد بازی دیدنی تھی۔ ان کو اپنے محبوب مصطفیٰ چچا سے ملنے کی جلدی تھی۔ انھوں نےحسب ِمعمول اذان کے اختتام پر چچا کےمڑتے ہی ان سے بغل گیر ہو جانا تھا۔

میں ادھر وضو گاہ میں بیٹھا اذان کا جواب دینے لگا… الله اکبر الله اکبر… آج مصطفیٰ کی آواز میں ایک خاص درد جھلک رہا تھا۔ یقیناً وہ القدس کی تازہ صورت حال سے آگاہ تھا۔ اس کی آواز میں ہمیشہ کی طرح ایسا سوز و گداز تھا جس کی پھیلتی لہروں سےاخلاص و صدق و صفا کے، اپنے رب الودود کی محبتِ شدیدہ کے ساغر چھلکتے تھے۔ مجھے ایسا لگا کہ جیسے فضا میں دور دور تک پھیلتی ”اذانِ مومن“ کی یہ مسحور کن آواز آج مجھے کہیں دور لے جانا چاہتی ہے۔ جیسے یہ مجھے صدیوں پرانی کسی سچی داستان کے حسین مناظر دکھانا چاہتی ہے۔ جیسے یہ اذان سراپا دعوت میرا ہاتھ تھامے وقت کی قیود سے آزاد کرکے، الم ناک حاضر و موجود سے نکال کر، لمحے بھر میں صدیوں پرانے خوش کن لمحات میں داخل کرنا چاہتی ہے۔

اذان جاری تھی… دل کی تاروں میں سمندر کے مدوجزر جیسا ایسا ارتعاش طاری تھا جو چاند کی چودھویں شب کو پیدا ہوتا ہے۔ دل کسی طور آج قابو میں آنے سے انکاری تھا۔ میرے ایمان کے ساتھی، میرے ہم سفر اور ہم رکاب ساتھی نے جب اشہدان محمد رسول اللہ کہا تو اس میں ایسا درد تھا کہ سنگلاخ پہاڑوں پر ازل سے جمی چٹانیں بھی اگر سنتیں تو سہار نہ پاتیں اور بے ساختہ گر پڑتیں۔

میرا زخمی دل پہلے ہی غم سے بھرا پڑا تھا۔ اب جیسے ان فضائوں میں تیرتی اور پھیلتی ایمانی صداؤں کے ساتھ ساتھ اڑے جا رہا تھا۔ میرے تخیل کی لگاموں کو اس سچی اذان نے یکدم تھام لیا اور مجھے ایک ہی لمحے میں صدیوں پرانے ایک انتہائی پُرنور، روح پرور اور جان افزا حسین منظر میں لے گئی۔ اللہ اللہ! یہ میں کہاں پہنچ گیا؟ چشمِ تصور سے میں بے قابو دل کو تھامے چودہ سو سال پرانی مسجدِ اقصیٰ میں داخل ہو رہا تھا اور حسرت سے آنکھوں کو ملتا ایک عجیب منظر اپنے سامنے کھلا دیکھ رہا تھا۔

سبحان اللہ وبحمدہ ،سبحان اللہ العظیم۔ مسجدِ اقصیٰ اصحابِ محمد سے بھری ہوئی تھی۔ بیت المقدس صحابہ کرام کے ہاتھوں فتح ہو چکی تھی اور آج امیر المومنین ابو حفص عمر الفاروق رضی اللہ عنہ بھی صحابہ کے درمیان مسجدِ اقصیٰ میں تشریف فرما تھے۔ قبلۂ اول کی فتح کی خوشی ہر صحابی، ہر تابعی کے چہرے سے عیاں تھی۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ ان قدوسی نفوس کی تو ہر خوشی اور غم بس ایک اسلام ہی تو سے منسلک تھی۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ مؤذنِ رسول بھی اس مبارک فاتح جماعت میں موجود تھے۔ نماز کا وقت قریب آچکا تھا۔

’’اذان کون دے گا؟‘‘ امیر المومنین عمر بن خطاب فرماتے ہیں،”اے بلال! آج تم اذان دے کر رسول اللہﷺ کے مبارک دور کی یاد دلاؤ۔“

سب صحابہ و تابعین اور حاضرینِ مجلس اس حکمِ فاروقی کو سن کر سراپا اشتیاق ہیں۔ سب کی نظریں مؤذنِ رسول بلال رضی اللہ عنہ پر مرکوز ہیں اور بزبانِ حال ملتجی ہیں۔ اے ہمارے سردار بلال! اپنی ایمان و اخلاص سے گندھی آواز میں اذان دیجیے اور ہمارے پیارے نبیﷺ کے مبارک دور کی ہمیں یاد دلا دیجیے۔

مؤذنِ رسول اپنی جگہ سے اٹھتے ہیں۔ آج کئی سال بعد بلال رضی اللہ عنہ اذان دینے لگے ہیں کہ وہ پیارے نبیﷺ کی رحلت کے بعد اذان دینا چھوڑ چکے تھے۔ بلال رضی اللہ عنہ اٹھتے ہیں اور مسجدِ اقصیٰ کے در و دیوار میں، آس پاس کی فضاؤں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ زہے نصیب موذنِ رسول اذان دینے لگے ہیں! قبلۂ اول کا ذرہ ذرہ سراپا سماعت بنے اذانِ بلالی اپنے اندر جذب کرنے کے لیے تڑپ رہا ہے، مچل رہا ہے۔

بلال رضی اللہ عنہ کو آج اپنے خلیلﷺ کی یاد ماہئ بے آب کی طرح تڑپا رہی ہے۔ مسجد میں موجود سب صحابہ یادِ حبیبﷺ میں محو ہیں۔ ادھر اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی ہے اور ادھر صحابہ کی نظروں میں نبوی دور کے روح پرور حسین مناظر دوڑنے شروع ہو جاتے ہیں۔ سب سر جھکائے دل میں برپا جذبات کے طوفان کو قابو رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے اذان کا جواب دے رہے ہیں۔ موذن ِ رسول کی کیفیت بھی دیدنی ہے۔ بمشکل اذان دے پا رہے ہیں۔ بار بار دل بھر آتا ہے اور آنسو چھلکنے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ بلال رضی اللہ عنہ کی مبارک زبان سے اپنے مخصوص حبّ نبی میں گندھے لہجے میں اشھد ان محمد رسول اللہ کی صدا نکلتی ہے تو بس پھر… پھر تو برداشت اور ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں، اور مسجد سسکیوں اور آہوں سے گونجنے لگتی ہے۔ خود بلال رضی اللہ عنہ آنسوؤں اور سسکیوں میں بمشکل ہی اذان مکمل کرتے ہیں، اور مسجدِ اقصیٰ کے درودیوار حنّانہ (وہ چبوترہ جس پر ٹیک لگا کر نبیﷺ خطبہ دیا کرتے تھے) کے مثل رونا شروع کر دیتے ہیں۔ سسکیاں بھرنا شروع کردیتے ہیں۔ اور میں چشم تصور سے یہ سارا منظر دیکھتے ہوئے صدیوں پہلے فتح بیت المقدس کے موقع پر دی گئی اذانِ بلالی کی تاثیر اپنے دل میں محسوس کر رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ یہ اذانِ بلالی تو ایک قدمِ مسلسل اور دعوت و عزیمت کی راہوں میں آگے سے آگے بڑھتے چلےجانے کا نام ہے۔

’’رکو نہیں ، تھمو نہیں کہ معرکے ہیں تیز تر!‘‘

یہ اذان تو جھوٹے خدا کی خدائی اور کبریائی سے ببانگِ دہل اور ڈنکے کی چوٹ پر انکار کی دلِ مومن میں ہمت وجرات پیدا کرتی ہے۔ یہی اذان تو آزمائش اور ابتلا کے دور میں مکہ کی سنگلاخ چٹانوں اور تپتے صحرا میں ننگی پیٹھ لٹائے جانے اور بھاری پتھر سینے پر رکھے جانے پر بھی ”احد، احد“ کی صدائیں بلند کرنے کے لازوال جذبے پیدا کرتی ہے۔ اور پھر ہجرت کی راہوں سے لے کر القدس کی فتح تک، قدم قدم پر برپا معرکۂ حق و باطل میں، حق پر ثبات پیدا کرنے کے لیے دلوں میں سکینت بن کر اترتی ہے۔ ہر لمحے اذان اور اذان میں پنہاں دعوت ِ کاملہ کے پیغام پر ڈٹے رہنے کا نام ہی تو اسلام ہے۔

میں انہی سوچوں میں غلطاں، صدیوں پرانے اس حسین منظر کو اپنے ایمان کے ساتھی کی اذان کے پسِ منظر میں جرعہ جرعہ، گھونٹ گھونٹ اپنے اندر اتار رہا تھا اور آج کے دور کی مظلوم و مقہور مسجدِ اقصیٰ کے در و دیوار سے اٹھتی دلدوز پکار کو سن رہا تھا۔ وہ پکار رہی تھی، سسک رہی تھی۔ کون ہے جو آج ہمارے پیاسے وجود کو ایک بار پھر اذانِ بلالی سے سیراب کردے؟ کوئی ہے جو ہماری پکار سنے اور ہماری مدد کو آئے؟ مسجدِ اقصیٰ سے ابھرتی اذان میں مسجد کے زخمی در و دیوار کی صدائیں مدغم ہوئیں اور اپنے انصار کو ڈھونڈنے، زخمی، غمگین فضاؤں میں چہار جانب پھیل گئیں۔ ایسے میں مجھے محسوس ہوا، مجھے لگا کہ جیسے آج کی مسجدِ اقصیٰ سے اٹھتی درد بھری اذان کو آگے بڑھ کر جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم کے قالب میں ڈھلی، سوز و اخلاص سے پُر، امت کے درد سے بھری ہوئی مصطفیٰ کی اذان نے آگے بڑھ کر گلے سے لگا لیا ہے۔ اب اسے سینے سے لگائے تھپکی دے رہی ہے۔ اس کے آنسو پیار سے اپنی انگلیوں کے پوروں پر لے کر اسے دلاسہ دے رہی ہے کہ اے قدس الحبیب سے اٹھنے والی پیاری اذان! بس کچھ صبر کہ سب قافلے اب تیری ہی طرف رواں دواں ہیں۔ بس کچھ صبر اور پھر طلوعِ سحر ہونے کو ہے۔

اٹھائیں لاکھ دیواریں طلوعِ سحر تو ہو گا
یہ شب کے پاسباں کب تک نہ ہم کو راستہ دیں گے

میں یہی امید افزا منظر چشمِ تصور سے دیکھ کر، اپنے غم کا مداوا کر رہا تھا اور غم آہستہ آہستہ عزم و ہمت اور جوش و جنوں کے پیکر میں ڈھلتا جارہا تھا۔ سکینت طاری ہو رہی تھی اور غم دور ہوتا جا رہا تھا۔ غم کمزوری بننے کے بجائے طاقت بنتا جارہا تھا۔ اور یوں بالآخر میرے ایمان کے ساتھی کی اذان نے میرے غم کو عزم و عمل کے قالب میں ڈھال دیا۔

”ہاں بھیا! کیا ارادے ہیں؟ اب وضو کر بھی لو، صرف دو منٹ رہ گئے ہیں جماعت کے کھڑے ہونے میں۔“ میں نے چونک کر دیکھا تو میرے پیچھے مصطفیٰ کھڑا مسکرا رہا تھا۔ مصطفیٰ کی پلکوں کے کناروں پر چمکتے موتی دل میں امڈتے سچے ایمانی جذبوں کی کہانی سنا رہے تھے۔ میں اٹھا اور اپنےد وست کے گلے لگ گیا اور آہستہ سے اس کے کان میں کہا ۔

اذان دے کر ہی سو نہ جانا
ابھی فلسطین تک ہے جانا

مصطفیٰ نے مجھے پیار سے الگ کیا اور اپنے مخصوص شرارتی لہجے میں سرگوشی کی ”نماز پڑھ لیں یا اس سے بھی پہلے نکلنا ہے؟“ اور پھر فولادی عزم کو اپنے لہجے میں سمو کر اس نے ایمانی سرشاری میں کہا ”نکلنا تو ہے… ہلکے ہوں یا بوجھل، جلد نکلنا ہے ان شاء اللہ، بہت جلد!“ اور میں دل میں مصمم ارادے کے بعد ہونے والے اطمینانِ قلب کو سینے میں محسوس کرتے ہوئے دوبارہ بیٹھ کر جلدی جلدی وضو کرنے لگا ۔

یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز
نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا

حصہ