انسانی عظمت اور آزادی کا شاعر حسن’والہام‘ علامہ محمد اقبال غلام

452

[ ملک کے آزادی کے لیے لڑتے لوگوں کےلیےعطیہءخداوندی تھے اور آج بھی ہیں ان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ بچوں اور نوجوانوں کے شاعر تھے درست لیکن یہ کہہ کر ان کی حیثیت کو بہت محدود کردیا گیا ،پھر ایک بات بالکل سچ کہ مسلمانان ھند کی بیداری کے شاعر ہیںبلاشبہ شکوہ جواب شکوہ ،طلوع اسلام، خضرراہ اس کی غمازی کرتی ہیں لیکن وہ اس سے آگے ہیں امت کے نباض حکیم یہ زیادہ بہتر ہے بےشک

سناہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش ولذت نمود میں ہے
نہیں ہے زمانہ جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش تیرے وجود میں ہے
تیری دوانہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہء یہود میں ہے
دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کاچارہ

خضرراہ کی ذیلی نظم…دنیائے’’اسلام‘‘
اس کی ترجمان ہے کہ ابتلاء آزمائش کے غلام دور میں محض ایک شعر ہی کی مثال لے لیں۔

آگ ہے، اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے
کسی کو پھرکسی کا امتحان مقصود ہے

اس فقط اس ایک شعر میں جو تڑپ جو دردامت پنہاں ہے وہ حکیم الامت نہیں تو اور کیا ہوں گے مگر مغربی شعرا نے ان کی جو پذیرائی کی فارسی اور اردو کلام میں خودی کے ذریعے جو تعمیر انسانی کرتے رہے اس کی دوسری اقوام بھی آج تک معترف ہیں یہ فن اور الہام کی وہ یکجائی ہے جو بہت کم مفکرین اور فنکاروں کے نصیب میں آتی ہیں یہی وہ اعجاز ہے جو ہر طبقے میں انھیں ہردلعزیز کرتا ہے۔

آپ پڑھیں سمجھیں اور جذب کریں تو محسوس کریں گے کہ اس سے اگے وہ انسانی آزادی اور عظمت کے شاعر ہیں جن کے یہاں الہام حسن کی آفاقی رعنائیوں کے ساتھ بہت کچھ عطا کرتا ہے۔شرف انسانی کا کمال کیوں اور کیسے ممکن ہے وہ مرحلہ وار بتاتے ہوئے آپ کو سفر کرواتے ہیں ۔کائنات کاحسن بیان کرتے ہوئے انسانی عظمت کم نہیں ہوتی بلکہ یہ احساس دلاتے ہیں کہ ہرشے انسان کے لیے مسخر کردی گئی ہے۔

بزم انجم سیرفلک ،چاندتارے چاند نامی نظمیں پڑھیں
نظم چاند کے دو اشعار

جس میں پہلے تو چاند کے جمال کی بہت تعریف کی
پھر آگے بڑی اہم بات کہہ دی
پھر بھی اے ماہ مبین میں اور ہوں تو اور ہے
دردجس پہلو سے اٹھتا ہے وہ پہلو اور ہے
جو میری ہستی کا مقصد ہے مجھے معلوم ہے
یہ چمک وہ ہے جبیں جس سے تیری محروم ہے
پھر علم نجوم کو ٹھکراتے ہوئے کہتے ہیں

ستارہ کیا میری تقدیر کی خبر دے گا
کہ وہ خود فراخی افلاک میں ہے خواروزبوں

بنتے ہیں میری کارگہہ فکر میں انجم
لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان
کائنات کاحسن متاثرتو کرتا ہے مگر
انسان سب سے اہم ہے
حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انسان میں وہ سخن ہے،غنچے میں وہ چٹک ہے
کثرت میں ہوگیا ہے وحدت کاراز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے،وہ پھول میں مہک ہے

تحریک اسلامی کے بڑے شاعر اور ادیب محترم نعیم صدیقی مرحوم اپنی تصنیف ’’اقبال کاشعلۂ نوا‘‘ میں رقم طراز ہیں ‘‘اقبال نے شاعری کاآغاز رومانس کی وادیوں سے کیا ہے،ان وادیوں کی پری وہی ہے کہ کبھی۔۔۔۔۔کی گود میں بلی دیکھ کر کبھی سلیمے کے شاعرانہ سانچے میں ڈھال کر اقبال اس سے متاثر ہوتا ہے آگے چل کر یہ پری حسن ازل کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے اور اقبال اس کے پیچھے کبھی دریائے نیکر کے کنارے دوڑتا ہوا ملتا ہے کبھی چاند تاروں کی طرف پرواز کرتا ہوا ملتا ہے ہے اس طرح رومان جمال فطرت کی طرف تحویل اختیار کر لیتا ہے اور یہ جمال فطرت کے معصوم ترذوق میں دھلا ہوا رومانس ان کے ساتھ بہت دور تک چلتا ہے بلکہ کہا جاسکتا ہے کی آخرتک‘‘دیکھیے۔

خاموش ہے چاندنی قمر کی
شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی
وادی کے نوا فروش خاموش
کہسارکے سبز پوش خاموش
فطرت بے ہوش ہو گئی ہے
آغوش میں شب کے سو گئی ہے

یا

تنہائی شب میں ہے حزیں کیا
انجم نہیں تیرے ہم نشیں کیا
کس شے کی تجھے ہوس ہے اے دل
قدرت تری ہم نفس ہے اے دل

ایک اور جگہ پر تبصرہ کرتے ہیں کہ ’’اس نے اپنے شعر کے لیے زیادہ سے زیادہ سرمایہ حسن فطرت کی رنگینیوں سے لیا مگر وہ بھی اس طرح کے حسن کو حسن ازل کی روشنی میں دیکھا حسن کی متفرق صورتوں کو ایک ہی اصل سے وابستہ کردیا اور یہ نظریہ پیش کر دیا کہ ہر چیز کو جہاں میں میں قدرت نے دلبری دی یوں ساری کائنات ایک کائنات حسن نظر آنے لگی‘‘

یہ کیفیت ہے مری جان ناشکیبا کی
میری مثال ہے طفل صغیر تنہا کی
اندھیری رات میں کرتا ہے وہ سرود آغاز
صدا کو اپنی سمجھتا ہے غیر کی آواز
یوں ہی میں دل کو پیام شکیب دیتا ہوں
شب فراق کو گویا فریب دیتا ہوں
حق کو حسن کے ساتھ مربوط

کردینا اور یوں کہ کوئی ٹانکہ نظر نہ آئے اس کا گمان نہ گزرے کمال سا کمال ہے اقبال کی نظموں کی طرح غزلیں بھی معمولی درجہ کی نہیں بلکہ بڑی قابل قدر جوہر ہے ندرت فکر ان کی ۔اقبال انسان کی آزادی کے لئے اسے جگاتے ہوئے پہلے تو دل کی زمین کو نرم اور ہموار کرتے ہیں۔

جس روز دل کی رمز مغنی سمجھ گیا
سمجھو تمام مرحلہ ء ہائے ہنر ہیں طے
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑدے

ان کے یہاں دل بہت اہم ہے اور اس میں ابھرنے والی آرزو میں زندگی ہے یہ وہ الگ راستہ ہے فکر ہے جو اقبال نے قلندری میں بھی اپنے ہم عصر یا پیشرو شعراء اور صوفیاء سے گریز کرتے ہوئے اپنایا وہ کہتے تھے کہ نجات ترک آرزو میں ہے سارا جھگڑا دل کا ہے غموں کا علاج ہی اس کو

خاموش کرانے میں ہے مگر
اقبال نے آرزو کی بلندی پاکیزگی
اور حسن کمال سے اسے زندگی کا جوہر کہا

پھر اس کا رشتہ اپنے خالق سے سے بڑے حسن کے ساتھ جوڑتے ہوئے اس میں آرزو کی کاشت کرتے ہیں۔پھر تصور خودی کی فصل اگاتے ہیں شعور اورجمال کے امتزاج کے ساتھ تصور عشق کے سدابہار گلستاں اگاتے جاتے ہیں

عظمت انسانی کی مدھم بارش سے سیراب کرتے ہیں۔ باطن مصفا اور روشن ہوتا جاتا ہے اور ذھن ودل آزاد امید اس کی حفاظت کرتی ہے ۔یہ کمال الہام اور حسن کو یکجا کرنے ہوئے اسے بےمثال شاعر بناتا ہے۔

شیطان نے برائیوں کو خوشنما بنایا بھٹکانے کے لیے، اقبال نے ’’حق وصداقت‘‘ اور انسانی آزادی کو حسن ازل سے مربوط کرتے ہوئےزندگی پائندگی اور کشش دے دی۔زمیں زرخیز ہوئی تو تصور عشق اور تصور خودی نے لافانی معطر اور منور فضا عطاکردی۔خودی کے سلسلے میں بہت سے ماہرین نے بہت کچھ کہا ہے۔لیکن یہ دولت دل کو مصفی کیے بنا نہیں حاصل ہوتی۔

یہ موج نفس کیا ہے؟ تلوار ہے
خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے؟ رازدرون حیات
خودی کیا ہے؟ بیداریٔ کائنات

اور

ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر
ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر
خودی کا نشیمن تیرے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے

مگر بس یہ خیال و حروف تازہ ورعنا صداقت کے ساتھ ہیں۔

خودی کی موت سے مغرب کا اندروں بے نور
خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذام
خودی کی موت سے پیر حرم ہوا مجبور
کہ بیچ کھائے مسلماں کا جامہء احرام

انسانی عظمت آزادی سے مشروط ہے اور آزادی الہ واحد کی بندگی سے جڑی ہے

آزاد کی رگ سخت ہے مانند رگ سنگ
محکوم کی رگ نرم ہے مانند رگ تاک
آزاد کی دولت دل روشن نفس گرم
محکوم کا سرمایہ فقط دیدہ نم ناک
ممکن نہیں محکوم ہو آزاد کا ہمدوش
وہ بندہء افلاک ہے یہ خواجہء افلاک

وہ غلام ملک کے مرد آزاد تھے جوکل بھی آزادی کے لیے کوشاں تھے اور فکراقبال کی صورت میں صدی بعد بھی حسن کے ساتھ ازادی وبیداری کے لیے سرگرم ہیں ۔ان کے لیے انہی کا یہ شعر صادق آتا ہے

وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے
یا نغمہ جبرئیل ہے یا بانگ سرافیل

حصہ