معیار زندگی میں افراط وتفریط کے اثرات

557

اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں تخلیقی تنوع رکھا ہے۔ ساخت، خصوصیات سب کی الگ الگ ہیں۔ نباتات، جمادات، حیوانات، جن و انس، حتیٰ کہ ملائیکہ… سب کو مختلف النوع بنایا۔ پھلوں اور میوہ جات کو دیکھیں تو ایک ہی پھل ذائقے کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔

مگر میرا موضوع انسان اور اس کے معیارِ زندگی میں افراط و تفریط کے اثرات کے تعلق سے ہے۔ معیارِ زندگی کا تعلق انسانوں کے مجموعی معاشی حالات سے ہے۔

اللہ تعالیٰ نے دنیا کے ہر خطے میں رہنے والے انسانوں کو جسامت، طاقت، ذہنی صلاحیتوں، رنگ و نسل، زبان کے اعتبار سے مختلف بنایا ہے۔ پہاڑ، جنگل، صحرا، میدان اور برفانی علاقوں کے رہنے والے لوگ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ جغرافیائی محلِ وقوع اور تغیرات کے حوالے بھی مختلف ہیں اور ان ممالک میں معدنیات اور قدرتی وسائل بھی کہیں کم کہیں زیادہ ہیں۔ آج کی دنیا عالمی گاؤں کی صورت میں تبدیل ہوچکی ہے اور جدید سائنسی ترقی کا عالم یہ ہے کہ پل بھر میں مشرق کا رہنے والا مغرب کے حالات سے باخبر ہوتا رہتا ہے۔

جن ملکوں کے حکمران عوام دوست، باصلاحیت اور ایمان دار ہیں وہاں کے عوام کو مجموعی طور پر روزمرہ زندگی کے بنیادی وسائل بہتر انداز میں میسر ہے۔ امریکا، یورپ، جاپان، ملائشیا، انڈونیشیا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اتنی زیادہ افراط و تفریط نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ G7 اور G20 کے ممالک عالمی معیشت میں اپنا اونچا مقام رکھتے ہیں بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ انہی کا سکہ چلتا ہے۔ یہاں کے عوام کی فی کس آمدنی بھی تیسری دنیا مثلاً افریقہ اور ایشیا کے غریب ممالک سے بہتر ہے۔ معیارِ زندگی کا تعلق معاشی خوش حالی سے ہے، اور معاشی خوش حالی کا دارومدار بہتر حکمرانی، ملکی وسائل کے منصفانہ استعمال اور مساوی تقسیم سے ہے۔ عرب دنیا میں جب سے تیل کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں ان ممالک کی معاشی حالت میں ایسی بہتری آئی ہے کہ عوام کو ہر طرح کی سہولیات آسانی سے میسر ہیں۔ صحرا کے رہنے والے بھی اب فلک بوس عمارتوں میں دنیا کی جدید ترین آسائشوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں بلکہ امریکا اور یورپ کی معیشت میں یہاں کی دولت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ گو کہ یہاں تعلیم، صحت اور روزمرہ زندگی کی تمام سہولیات عوام کو ریاست کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے دولت کی ریل پیل نے ایک ایسا معاشرہ جنم دیا ہے جس نے نہ صرف عرب عوام کو محنت، مشقت سے دور کردیا ہے بلکہ ان کی ذہنی اور تخلیقی صلاحیتوں کو بھی گھن لگا دیا ہے۔ باہر سے درآمد شدہ عوامی خدمت اور دیگر کاموں کے لیے ہندوستان، پاکستان، فلپائن اور غریب افریقی ممالک کے افراد یہاں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ حتیٰ کہ پولیس اور فوج میں بھی درآمد شدہ افراد موجود ہیں۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کے جس فتنے سے اپنی امت کو ڈرایا تھا وہ عرب اقوام کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ اسرائیل گزشتہ سات دہائیوں سے عربوں کی عزت و آبرو سے کھیل رہا ہے، وہ 1973ء سے مسجد اقصیٰ پر قابض ہے ات مند طبقے کے معیارِ زندگی میں اگر زمین و آسمان کا فرق ہوجائے تو طبقاتی خلیج بڑھ جاتی ہے اور ور فی الحال غزہ کے نہتے عوام پر قیامت ڈھا رہا ہے، جب کہ سعودی دارالحکومت ریاض میں رقص و سرود کی محفلیں برپا ہیں اور سرزمینِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے۔ یہ دولت کی افراط اور سیلاب ہے جس نے عربوں کو موت سے خوف زدہ کرکے بزدل و بے حمیت بنادیا ہے۔

عام آدمی اور حکمرانوں، تاجروں، صنعت کاروں، جاگیر داروں اور دولملک میں غربت و افلاس اور ہر طرح کے جرائم میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

بیسویں صدی کے آغاز میں روس، چین، مشرقی یورپ اور جنوب مشرقی ایشیا میں جو خونیں کمیونسٹ انقلابات آئے وہ اسی معیارِ زندگی میں افراط و تفریط کا نتیجہ تھے۔ کارل مارکس کا نظریہ تو یہی ہے کہ دنیا میں صرف دو طبقات ہیں، ایک بورژوا جو ظالم اور استحصال کرنے والا طبقہ ہے، اور دوسرا پرولتا، یعنی مزدور اور غریبوں کا طبقہ جس پر بورژوا ظلم کرتا ہے۔ اسی افراط و تفریط کا نتیجہ خونیں انقلاب کی صورت میں برپا ہوا جس میں لاکھوں انسان مارے گئے۔

قانونِ فطرت یہ نہیں کہ ہر شخص کو یکساں رزق نصیب ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کسی کو کم، کسی کو نپا تلا اور کسی کو وافر دیتا ہے۔

آپؐ نے جو اسلامی حکومت اور معاشرہ قائم کیا اس میں معیار زندگی میں افراط و تفریط کا دور دور تک پتا نہیں تھا۔ دولت مند غریب کی سرپرستی کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ دولت مند صحابہ اور عام لوگوں کے معیار زندگی میں کوئی فرق نہ تھا۔ سادگی کے ساتھ زندگی گزارنے کا چلن عام تھا۔ لہٰذا غریبوں اور ناداروں میں احساسِ محرومی نہیں تھا۔ حتیٰ کہ خلفائے راشدین تو پیوند لگے کپڑے پہنتے تھے۔ مگر جب وقت گزرنے کے ساتھ دورِ خلافت کا خاتمہ ہوا اور مسلمانوں کی سلطنت مشرق تا مغرب پھیلی، خوش حالی قدم چومنے لگی، دولت کی ریل پیل ہوگئی تو بادشاہوں اور عام رعایا کی زندگی میں کوئی مماثلت نہ رہی۔ محلات کے آثار آج بھی دیکھنے کے بعد آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ اسی عیش پرستی اور تن آسانی نے مسلمانوں کی صدیوں پر محیط حکومت کا دھڑن تختہ کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل میں فضول خرچی کرنے والے کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔

ہندوستان، پاکستان اور بنگلادیش میں دو ارب کے لگ بھگ انسان آباد ہیں لیکن ان ممالک میں غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے اور امیروں اور حکمرانوں کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے۔ ان ممالک میں آبادی کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے رہنے پر مجبور کردی گئی ہے۔ شہری اور دیہی زندگی میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ روٹی،کپڑا، مکان، روزگار، تعلیم اور صحت کا حصول غریبوں کے لیے مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ Slum areas and villagesکی بھرمار ہے جہاں زندگی گزاری نہیں جاتی بلکہ زندگی سسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں ہر طرح کے جرائم کی بھرمار ہے۔ جہاں اشرافیہ کے پالتو جانور منرل واٹر پیتے ہوں اور غریب دیہاتی جوہڑ کا پانی پی کر وقت سے پہلے مر جاتا ہو۔ ان کا علاج عوام کی لوٹی ہوئی دولت سے لندن اور پیرس میں ہو اور غریب کو سرکاری اسپتالوں میں درد دور کرنے والی پیناڈول کی گولی تک میسر نہ ہو اس ملک میں نفرت اور جرائم نہیں تو اور کیا پروان چڑھے گا! علامہ اقبال نے درست کہا کہ:

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

اسلام دینِ فطرت ہے۔ اس میں سادگی، قناعت، رواداری اور ترحم سے زندگی گزارنے کا حکم ہے۔ بڑے بوڑھوں نے فرمایا ’’رہے سادہ کہ نبھے باپ دادا۔‘‘ خلقِ خدا کی خدمت کو اسلام میں نیکیوں میں سے بہترین نیکی قرار دیا گیا ہے۔

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

لیکن افسوس کے ساتھ یہ حقیقت بیان کرنا پڑرہی ہے کہ مملکت ِ خداداد پاکستان میں امیر و غریب کے درمیان ایک ایسا طبقاتی معاشرہ وجود میں آگیا کہ جس نے شہری آبادیوں میں رہنے والے لوگوں میں بھی طبقاتی تعصب اور عدم رواداری کا زہر بھر دیا ہے۔ پوش اور امیر لوگ غریب رہائشی علاقے کے لوگوں کو کچھ گردانتے ہی نہیں اِلاّ یہ کہ دیہی آبادیوں میں رہنے والے لوگوں سے ملنا جلنا اور رشتے کرنا گوارا کریں، اجتماعی معاشرتی زندگی کا تصور تو دور کی بات ہے۔ حتیٰ کہ پوش علاقوں کے رہائشی تو اپنے پڑوسیوں سے بھی کم راہ و رسم رکھتے ہیں۔ کسی گھر میں اگر میت ہو جائے تو غریب آبادیوں کی طرح جنازوں میں شرکت بھی کم کم ہوتی ہے۔ غریب علاقوں میں اگر رات گئے بھی کوئی حادثہ ہو جائے تو پڑوسی اکٹھے ہو جاتے ہیں۔

سب کچھ تو ہے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں نگاہیں
کیا بات ہے میں وقت پہ گھر کیوں نہیں جاتا

( ندا فاضلی)

آسائشِ حیات تو مل ہی جائے گی کہیں
لیکن سکونِ دل تو مقدر کی بات ہے

اجتماعی خاندانی نظام بھی اب خال خال باقی رہ گیا ہے جس میں برکت ،غم گساری اور باہمی محبت و روا داری تھی۔

یہ شہر کراچی ہے دستور نبھاتے رہیے
دل ملے نہ ملے ہاتھ ملاتے رہیے

حصہ