جب سے انسانی معاشرے نے منظم اور مربوط شکل اختیار کی، ملک اور اقوام علاقائی، لسانی، نسلی، قبائلی اعتبار سے قائم ہوئے اور لوگوں نے پڑھنا لکھنا سیکھا اُس وقت سے تاریخِ اقوام نے تحریری شکل اختیار کی۔ تاریخ کیا ہے؟ دراصل یہ قوموں کی تہذیب، ثقافت، مذہب، بزدلی اور بہادری کے عروج و زوال کی داستانیں ہیں۔ ہر قوم اپنی آنے والی نسل کو تاریخ منتقل کرتی ہے۔ جو نسل اپنی تاریخ سے واقف نہیں اور اس سے سبق نہیں سیکھتی اُس کا حال بے سمت اور مستقبل غیر یقینی ہوتا ہے۔ ہر قوم کی تاریخ عروج و زوال سے عبارت ہے۔ وہ قومیں غیرت مند اور حمیت والی ہوتی ہیں جو اپنے حال و مستقبل کو سنوارنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں، جو اپنی تاریخ کو گلے سے لگا کر رکھتی ہیں۔ وہ اپنے اجداد کے زمانۂ عروج کی حکمت و تدبر اور علمی صلاحیتوں کو زمانۂ حال کے مطابق استعمال کرتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ وہ زمانۂ زوال کے اسباب کو سامنے رکھ کر اس کے برے نتائج سے اپنے آپ کو اور آنے والی نسلوں کو خبردار کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ تمہارا حقیقی دشمن کون ہے اور اس نے کس طرح تم کو اور تمہاری آزادی کو غلامی میں تبدیل کیا۔ اس جان جوکھوں والے کام کے ذریعے بچوں کو بچپن سے ہی ذہنی طور پر تیار کیا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سرب عیسائیوں نے مسلمانوں کے خلاف اپنی نسل میں نفرت ڈالنے کے لیے ترکی کی خلافت کے دوران مسلمان فوج کے جھوٹے مظالم کی داستانیں پتھروں پر کندہ کرکے رکھی تھیں، یہی وجہ ہے کہ جب بوسنیا کے مسلمانوں سے جنگ شروع ہوئی تو سربیا کے عیسائیوں نے وہ مظالم ڈھائے کہ چنگیز و ہلاکو کی روحیں بھی کانپ گئیں۔
میرا موضوعِ تحریر اقوام عالم کی تاریخ کو بیان کرنا نہیں، اور نہ ہی تاریخِ اقوام کا تحقیقی مقالہ پیش کرنا ہے۔ اس کے لیے تو زمانے بھر میں مؤرخین کی کتابوں سے لائبریریاں بھری پڑی ہیں۔ میرا مقصد تو بس اتنا ہے کہ عالمِ اسلام کے ساتھ جو سانحات اور دل دوز سقوطِ ممالک ہوئے ہیں اس کا ایک مختصر اور اجمالی جائزہ پیش کرتے ہوئے قارئین کو باور کراؤں کہ ماضیِ بعید، ماضیِ قریب اور حال کے سانحات میں کتنی مماثلت ہے اور ان سب کے وقوع پذیر ہونے میں ایک ہی جیسے عوامل کارفرما رہے ہیں۔
حضرت عمر فاروقؓ کی خلافت کے بعد حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ کی شہادت اور جنگِ جمل، جنگِ صفین و نجران میں انتشار و نااتفاقی کی وجوہات سامنے رکھ کر تاریخ کے صفحات پر نظر ڈالیں تو یہی حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ خاندانی بالادستی کا نظریہ نظامِ خلافت کے معیار اور شورائی طریقۂ انتخاب پر غالب آگیا۔ نتیجے میں سانحۂ کربلا اور بعد کے ادوار میں بنوامیہ اور بنوعباس کی نہ رکنے والی چپقلشوں نے امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا، اور آج تک یہ امت پیاز کے چھلکوں کی طرح بکھرتی چلی جارہی ہے۔ اسی انتشار اور نااتفاقی کو اسلام دشمن قوتوں نے ہر دور میں استعمال کرکے مسلمان ملکوں کو پامال کیا اور ان کو غلام بنانے میں کامیاب ہوئیں۔ اس ضمن میں عالم اسلام کے دل دوز سقوط اور سانحات کا مختصر جائزہ پیش کروں گا۔
سانحۂ کربلا کے بعد امت کا انتشار اپنی جگہ، مگر اسلامی فتوحات کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری رہا۔ مسلمانوں کی تلوار اور یلغار کے سامنے اُس وقت کی عیسائی اور دیگر اقوام کی ریاستیں خس و خاشاک کی طرح بکھرتی جارہی تھیں۔ مگر یہ نااتفاقی گھن کی طرح اندر داخل ہوکر ایک طرف مسلم بادشاہوں اور خوش حال عوام کو عیش و عشرت میں مبتلا کرچکی تھی تو دوسری طرف سازشوں کا جال پھیلتا جارہا تھا۔ چنگیز خان کی سربراہی میں تاتاری آندھی بن کر وسط ایشیا کے مسلم ممالک کو ایک کے بعد ایک روندتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے اور ہر مسلمان ملک اپنی باری کا انتظار کررہا تھا۔
جلال الدین خوارزمی کی دلیرانہ مزاحمت کا ساتھ کسی نے نہیں دیا، حالانکہ اُس وقت ہندوستان پر شمس الدین التمش کی عظیم الشان حکومت اور فوج موجود تھی، بغداد کی خلافت بھی تماشا دیکھ رہی تھی اور خلیفہ مستعصم باللہ عیش و عشرت میں ڈوبا اپنی فوج کو ہزاروں کی تعداد میں یحییٰ علقمی کے کہنے پر فارغ کرچکا تھا۔ یہی یحییٰ علقمی ہے جو فرقہ وارانہ تعصب کی وجہ سے تاتاریوں سے ملا ہوا تھا۔ جلال الدین خوارزمی کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے 1258ء میں بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور 22 لاکھ مسلمانوں میں سے چند لاکھ کو ہی زندہ چھوڑا۔
اس کے بعد غرناطہ جو مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی بے مثال نشانی ہے، آٹھ سو سالہ حکومتِ بربر اور عرب قبائل کے باہمی اختلافات اور رسّاکشی کی وجہ سے ایسا پامال ہوا کہ مسجد الحمرا کے در و دیوار آج تک ہمارا انتظار کررہے ہیں۔ جتنی قتل و غارت گری عیسائی درندوں نے کی اس کی مثال نہیں ملتی۔ جس وقت اندلس کی گلیاں رات کے وقت زیتون کے تیل کے چراغوں سے روشن ہوا کرتی تھیں اُس وقت لندن اور پیرس کی سڑکوں پر کیچڑ ہوا کرتی تھی۔ یورپی اقوام نے مسلمانوں سے سائنس اور ہنر سیکھ کر مسلمانوں کے علاقائی، نسلی، لسانی، مذہبی اختلافات کو ہوا دے کر انہیں غلام بنایا۔
1757ء میں ہونے والی جنگِ پلاسی میں سراج الدولہ کے لیے میر جعفر اور جگت سیٹھ نے مارِ آستین کا کردار ادا کیا۔ ان کی غداری نے پورے ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی فتح کا دروازہ کھول دیا۔ حالانکہ سراج الدولہ کی فوج عددی اور عسکری اعتبار سے انگریزوں پر بھاری تھی اور انگریز فوج فرار کے لیے رات کا انتظار کررہی تھی۔
انگریز یہ سمجھتے تھے کہ جب تک ریاست میسور کے فرماں روا ٹیپو سلطان کو شکست نہیں ہوگی اُس وقت تک پورے ہندوستان پر قبضہ ناممکن ہے۔ لہٰذا یہاں بھی انہوں نے ایک غدارِ ملّت میر صادق کو اپنا ہم نوا بنایا۔ یہ شخص اتنا بااثر تھا کہ ٹیپو سلطان تک رعایا کی بات کو پہنچنے ہی نہیں دیتا تھا۔ یہ سرنگاپٹم کی تیسری جنگ میں ٹیپو سلطان کی ہر حرکت کی خبر انگریزوں تک پہنچاتا تھا اور شیرِ میسور جس کے ڈر سے انگریز کانپتے تھے، جب قلعے سے باہر نکلے تو میر صادق نے قلعے کا دروازہ بند کرا دیا۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے باوجود انگریز ان کی نعش کے قریب جانے سے گھبرا رہے تھے۔ شہادت کے باوجود ٹیپو سلطان کے ہاتھ میں ان کی تلوار موجود تھی۔
’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ ٹیپو سلطان کا یہ مشہور قول آج بھی زبان زدِ عام اور تاریخ کے اوراق میں درج ہے۔ علامہ اقبال نے اسی پر کہا کہ
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگِ ملّت، ننگِ دیں، ننگ وطن
ٹیپو سلطان کی شکست کی ایک بڑی وجہ حیدرآباد دکن کے نواب کی عدم حمایت تھی۔ جب پرتگالیوں کا بحری بیڑہ ٹیپو سلطان کی مدد کو آرہا تھا تو حیدرآباد دکن کے نواب نے اسے اپنے بحری راستے سے گزرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تقسیم ہند کے بعد 1948ء میں ہندوستان نے حیدرآباد دکن کے خلاف پولیس ایکشن کے ذریعے ہزاروں مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا اور پوری ریاست پر قبضہ کرکے اس کی دولت کو لوٹ کر اسے ہندوستان کا ایک صوبہ بنا لیا۔
1857ء میں جب مجاہدین دہلی تک پہنچ چکے تھے اور انگریزوں کو شکست ہونے ہی والی تھی کہ بہادر شاہ ظفر جیسے سہل پسند اور بزدل بادشاہ نے باغیوں کا ساتھ دینے کے بجائے ہتھیار ڈالنے کو ترجیح دی اور انگریزوں نے ان کے چار بیٹوں کا سر کاٹ کر ان کے سامنے پیش کیا، اور یہ سر دہلی کے خونی دروازے پر لٹکا دیے۔ مغلیہ دور کی بہت سی پُرشکوہ عمارتیں بوسیدہ ہوچکی ہیں مگر آج بھی بھارتی حکومت تازیانے کے طور پر خونی دروازے پر رنگ و روغن کراتی ہے۔
1923ء میں خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ایک عظیم سانحہ تھا جب برطانوی جاسوس لارنس آف عربیہ کی قیادت میں عربوں نے ترکوں کے خلاف بغاوت کی اور حجاز ریلوے لائن کو جو بیسویں صدی کا ایک عجوبہ تھی‘ برباد کیا اور صحنِ کعبہ میں ترک فوجیوں کو ذبح کیا۔ آج 22 عرب ریاستیں ملّت کے اسی انتشار کا نتیجہ ہیں جن کی اسرائیل کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے۔ مگر ہر دور میں شکست نے مجاہدین کے حوصلوں کو پست نہیں ہونے دیا، سقوطِ غرناطہ کے بعد بھی بدر بن مغیرہ اور اس کے جانشینوں نے جہاد جاری رکھا۔ اسی طرح 1857ء کے انقلاب کی ناکامی کے بعد ’’ریشمی رومال‘‘ تحریک چلی، تیتومیر اور دودھو بھائی نے انگریزوں کے خلاف مسلح جہاد جاری رکھا، حتیٰ کہ ترکی کی خلافت کے خاتمے کے بعد مسلمانانِ ہند نے مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر کی سربراہی میں خلافت کی بحالی کی تحریک چلائی اور ہزاروں کی تعداد میں ہندوستان کے مسلمانوں نے ہجرت کی۔ بالآخر دوسری جنگِ عظیم کے بعد برطانوی سامراج کا سورج غروب ہونے لگا اور ایک کے بعد ایک مسلم ممالک برطانوی غلامی سے آزاد ہوتے گئے، ہندوستان بھی طویل جدوجہد کے بعد آزاد ہوا اور مسلمانوں کو ایک کلمے کی بنیاد پر بننے والا پاکستان نصیب ہوا جس کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے لاکھوں جانوں کی قربانی دی۔ قیام پاکستان اتحادِ امت کی وجہ سے ہوا کیونکہ ایک ہی نعرہ گونجا تھا ’’پاکستان کا مطلب کیا… لاالٰہ الااللہ‘‘۔ مگر ایک بار پھر اسلام اور پاکستان کے ازلی دشمنوں نے وہی چال لسانی اور علاقائی تفرقے والی چلی اور مشرقی پاکستان 16دسمبر 1971ء کو بنگلہ دیش بن گیا۔ اس دن کو ہم ’’سقوطِ ڈھاکہ‘‘ کے نام سے یاد کرکے مشرقی پاکستان کے دفاع میں قربان ہونے والے لاکھوں شہدا کی یاد مناتے ہیں۔
ان تمام سانحات سے جن میں لاکھوں مسلمانوں کی جانیں گئیں‘ یہی سبق ملتا ہے کہ مسلمانوں کا انتشار ہی اسلام دشمن قوتوں کو موقع فراہم کرتا ہے۔ گزشتہ نصف صدی کے اندر عالمی طاغوتی طاقتوں نے بوسنیا، شام، عراق، افغانستان، کشمیر، مشرق ومغرب میں 40 تا 50 لاکھ مسلمانوں کا قتلِ عام کیا ہے اور اس میں مسلمانوں کے منافق حکمرانوں نے کلہاڑی میں لکڑی کے دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ فلسطین اور غزہ کے مسلمانوں کے خلاف جاری سفاکانہ اور دردناک جارحیت اور عالم اسلام کے حکمرانوں کی بے حسی اور کفار کی کاسہ لیسی سابقہ تاریخی سانحات کو دہرا رہی ہے۔
مسلماں آج بھی دنیا میں بے پندار ہے آقا
ذلیل وخوار ہے مست مئے اغیار ہے آقا
جو دیکھو مرد عیسائی تو عورت ہندوانی سی
یہ اپنی وضع بے حیا بے زار ہے آقا
بھلا کر نص قرآنی یہودی و نصرانی
شیاطینِ زمانہ کا یہ پیروکار ہے آقا
نہ جانے کتنی ذات و مسلک و فرقوں گروہوں میں
یہ منقسم منتشر ناہنجار ہے آقا
بھلا کر آپ کی بخشی ہوئی تیغ ہلالی کو
یہ دشمنوں سے مانگتا تلوار ہے آقا
نماز روز و قربانی حج
یہ سب باقی ہیں مگر تو باقی نہیں ہے