تلاوت قرآن کے آداب

662

-1 قرآن مجید کی تلاوت ذوق و شوق کے ساتھ دل لگا کر کیجیے اور یہ یقین رکھیے کہ قرآن مجید سے شغف اللہ سے شغف ہے، نبیؐ نے فرمایا: ’’میری امت کے لیے سب سے بہتر عبادت قرآن کی تلاوت ہے‘‘۔

-2 اکثر و بیشتر وقت تلاوت میں مشغول رہیے اور کبھی تلاوت سے نہ اکتایئے۔ نبیؐ نے فرمایا اللہ کا ارشاد ہے: جو بندہ قرآن کی تلاوت میں اس قدر مشغول ہو کہ وہ مجھ سے دعا مانگنے کا موقع نہ پاسکے تو میں اس کو بغیر مانگے ہی مانگنے والوں سے زیادہ دوں گا۔ (ترمذی)

اور نبیؐ نے فرمایا۔ بندہ تلاوت قرآن ہی کے ذریعہ اللہ کا سب سے زیادہ قرب حاصل کرتا ہے۔ (ترمذی) اور آپؐ نے تلاوت قرآن کی ترغیب دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا۔ جس شخص نے قران پڑھا اور وہ روزانہ اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے مشک سے بھری ہوئی زنبیل کہ اس کی خوشبو ہرسو مہک رہی ہے اور جس شخص نے قران پڑھا لیکن وہ اس کی تلاوت نہیں کرتا تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے مشک سے بھری ہوئی بوتل کہ اس کو ڈاٹ لگاکر بند کردیا گیا ہے۔ (ترمذی)

-3قرآن پاک کی تلاوت محض طلب ہدایت کے لیے کیجیے۔ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے، اپنی خوش الحانی کا سکہ جمانے اور اپنی دین داری کی دھاک بٹھانے سے سختی کے ساتھ پرہیز کیجیے۔ یہ انتہائی گھٹیا مقاصد ہیں اور ان اغراض سے قرآن کی تلاوت کرنے والا قرآن کی ہدایت سے محروم رہتا ہے۔

-4 تلاوت سے پہلے طہارت اور نظافت کا پورا اہتمام کیجیے۔ بغیر وضو قرآن مجید چھونے سے پرہیز کیجیے اور پاک و صاف جگہ پر بیٹھ کر تلاوت کیجیے۔ تلاوت کے لیے بعد قبلہ رخ دوزانو ہوکر بیٹھیے اور گردن جھکا کر انتہائی توجہ یکسوئی دل کی آمادگی اور سلیقے سے تلاوت کیجیے۔ اللہ کا ارشاد ہے:

’’کتاب جو ہم نے آپ کی طرف بھیجی برکت والی ہے تاکہ وہ اس میں غور و فکر کریں اور عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں‘‘۔ (ص: 29/38)

-6تجوید اور ترتیل کا بھی جہاں تک ہوسکے لحاظ رکھیے، حروف ٹھیک ٹھیک ادا کیجیے اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے، اپنی آواز اور اپنے لہجے سے قرآن کو آراستہ کرو۔(ابودائود)

نبیؐ ایک ایک حرف واضح کرکے اور ایک ایک آیت کو الگ الگ کرکے پڑھا کرتے تھے اور نبیؐ کا ارشاد ہے، قرآن پڑھنے والے سے قیامت کے روز کہا جائے گا جس ٹھہرائو اور خوش الحانی کے ساتھ تم دنیا میں بنا سنوار کر قرآن پڑھا کرتے تھے، اسی طرح قرآن پڑھو اور ہر آیت کے صلہ میں ایک درجہ بلند ہوتے جائو، تمہارا ٹھکانہ تمہاری تلاوت کی آیت کے قریب ہے۔ (ترمذی)

-7 نہ زیادہ زور سے پڑھے اور نہ بالکل ہی آہستہ بلکہ درمیانی آواز میں پڑھیے۔ اللہ کی ہدایت ہے:

’’اور اپنی نماز میں نہ تو زیادہ زور سے پڑھیے اور نہ ہی بالکل دھیرے دھیرے بلکہ دونوں کے درمیان کا طریقہ اختیار کیجیے‘‘۔

-8 یوں تو جب بھی موقع ملے تلاوت کیجیے لیکن سحر کے وقت تہجد کی نماز میں بھی قرآن پڑھنے کی کوشش کیجیے۔

یہ تلاوت قرآن کی فضیلت کا سب سے اونچا درجہ ہے اور مومن کی یہ تمنا ہونی چاہیے کہ وہ تلاوت کا اونچے سے اونچا مرتبہ حاصل کرے۔

-9 تین دن سے کم میں قرآن شریف ختم کرے کی کوشش نہ کیجیے۔ نبیؐ نے فرمایا، جس نے تین دن سے کم میں قرآن پڑھا ا سنے قطعاً قرآن کو نہیں سمجھا۔

-10 قرآن کی عظمت و وقعت کا احساس رکھیے اور جس طرح ظاہری طہارت و پاکی کا لحاظ کیا ہے اسی طرح دل کو بھی گندے خیالات، برے جذبات اور ناپاک مقاصد سے پاک کیجیے۔ جو دل گندے اور نجس خیالات سے آلودہ ہے اس میں نہ قرآن پاک کی عطمت و وقعت بیٹھ سکتی ہے اور نہ وہ قرآن کے معارف و حقائق ہی کو سمجھ سکتا ہے۔ حضرت عکرمہؓ جب قرآن مجید کھولتے تو اکثر بے ہوش ہوجاتے اور فرماتے یہ میرے جلال و عظمت والے پروردگار کا کلام ہے۔

-11یہ سمجھ کر تلاوت کیجیے کہ روئے زمین پر انسان کو اگر ہدایت مل سکتی ہے تو صرف اسی کتاب سے اور اسی تصور کے ساتھ اس میں تفکر اور تدبر کیجیے اور اس کے حقائق اور حکمتوں کو سمجھنے کی کوشش کیجیے، فر فر تلاوت نہ کیجیے بلکہ سمجھ سمجھ کر پڑھنے کی عادت ڈالیے اور اس میں غور و فکر کرنے کی کوشش کیجیے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرمایا کرتے تھے کہ القارعہ اور القدر جیسے چھوٹی سورتوں کو سوچ سمجھ کر پڑھنا اس سے زیادہ بہتر سمجھتا ہوں کہ البقرہ اور آل عمران جیسی بڑی بڑی سورتیں فر فر پڑھ جائوں اور کچھ نہ سمجھوں۔ نبیؐ ایک مرتبہ ساری رات ایک ہی آیت کو دھراتے رہے۔

’’اے اللہ اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو انتہائی زبردست حکمت والا ہے‘‘ ۔ (المائدۃ: 118/5)

-12 اس عزم کے ساتھ تلاوت کیجیے کہ مجھے اس کے احکام کے مطابق اپنی زندگی بدلنا ہے اور اس کی ہدایت کی روشنی میں اپنی زندگی بنانا ہے اور پھر جو ہدایات ملیں اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے اور کوتاہیوں سے زندگی کو پاک کرنے کی مسلسل کوشش کیجیے۔ قرآن آئینے کی طرح آپ کا ہر ہر داغ اور ہر ہر دھبہ آپ کے سامنے نمایاں کرکے پیش کردے گا۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ آپ ان داغ دھبوں سے اپنی زندگی کو پاک کریں۔

-13 تلاوت کے دوران قرآن کی آیات سے اثر لینے کی بھی کوشش کیجیے۔ جب رحمت، مغفرت اور جنت کی لازوال نعمتوں کے تذکرے پڑھیں تو خوشی اور مسرت سے جھوم اٹھیے، اور جب اللہ کے غیظ و غضب اور عذاب جہنم کی ہولناکیوں کا تذکرہ پڑھیں تو بدن کانپنے لگے۔ آنکھیں بے اختیار بہہ پڑیں اور دل توبہ اور ندامت کی کیفیت سے رونے لگے۔ جب مومنین صالحین کی کامرانیوں کا حال پڑھیں تو چہرہ دمکنے لگے اور جب قوموں کی تباہی کا حال پڑھیں تو غم سے نڈھال نظر آئیں۔ وعید اور ڈراوے کی آیات پڑھ کر کانپ اٹھیں اور بشارت کی آیات پڑھ کر روح شکر کے جذبات سے سرشار ہوجائے۔

-14 تلاوت کے بعد دعا فرمایئے، حضرت عمرؓ کی ایک دعا کے الفاظ یہ ہیں:

’’الٰہی! میری زبان تیری کتاب میں سے جو کچھ تلاوت کرے، مجھے توفیق دے کہ میں اس میں غور و فکر کروں، الٰہی! مجھے اس کی سمجھ دے۔ مجھے اس کے مفہوم و معانی کی معرفت بخش اور اس کے عجائبات کو پانے کی نظر عطا کر اور جب تک زندہ رہوں مجھے توفیق دے کہ میں اس پر عمل کرتا رہوں، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔

یوم جمعہ کے آداب
-1 جمعہ کے دن صفائی ستھرائی، نہانے دھونے اور آرائش و زیبائش کرنے کا پورا پورا اہتمام کیجیے۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’ہر مسلمان پر اللہ کا یہ حق ہے کہ ہر ہفتہ میں غسل کرے، اور سر اور بدن کو دھوئے‘‘۔

اور حضرت سعیدؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’جمعہ کے دن ہر بالغ جوان کے لیے غسل کرنا لازمی ہے اور مسواک کرنا اور خوشبو لگانا بھی، اگر میسر ہو‘‘۔ (بخاری، مسلم)

اور حضرت سلیمانؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا:

’’جو شخص جمعہ کے دن نہایا دھویا اور اپنے بس بھر اس نے طہارت و نظافت کاپورا پورا اہتمام کیا، پھر اس نے تیل لگایا، خوشبو ملی، پھر دوپہر ڈھلے مسجد میں جاپہنچا اور (مسجد جاکر صف میں بیٹھے ہوئے) دو آدمیوں کو ایک دوسرے سے نہیں ہٹایا، پھر اس نے نماز پڑھی جو اس کے لیے مقدر تھی، پھر جب امام (منبر کی طرف) نکلا تو چپ چاپ (بیٹھا خطبہ سنتا) رہا تو اس شخص کے سارے گناہ بخش دیئے گئے جو ایک جمعہ تک اس سے سرزد ہوئے تھے‘‘۔ (بخاری)

-2جمعہ کے دن زیادہ سے زیادہ ذکر کرو تسبیح، تلاوت قرآن اور دعا، صدقہ و خیرات، مریضوں کی عیادت، جنازے کی شرکت، گوستان کی سیر اور دوسرے نیک کام کرنے کا اہتمام کیجیے۔

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا:

’’افضل ترین دن جس پر سورج طلوع ہوا وہ جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدمؑ پیدا ہوئے اور اسی دن وہ جنت میں داخل کیے گئے اور اسی دن وہاں سے نکالے گئے (اور اللہ کے خلیفہ بنالیے گئے) اور اسی دن قیامت قائم ہوگئی‘‘۔ (مسلم)

حضرت سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’پانچ عمل ایسے ہیں کہ جو شخص ان کو ایک دن میں کرے گا اللہ اس کو جنت والوں میں لکھ دے گا۔

(1) بیمار کی عیادت، (2) جنازے مین شریک ہونا، (3)روزہ رکھنا، (4)نماز جمعہ پڑھنا، (5) غلام کو آزاد کرنا۔ (ابن حبان)۔ ظاہر ہے پانچواں اعمال کا بجالانا اسی وقت ممکن ہے جب جمعہ کا دن ہو۔

حضرت سعید خدریؓ ہی کی ایک روایت اور ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’جو شخص جمعہ کے دن سورۂ کہف پڑھے گا تو اس کے لیے دونوں جمعوں کے درمیان ایک نور چمکتا رہے گا‘‘ (نسائی)

اور حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’جو شخص جمعہ کی شب سورۂ دخان کی تلاوت کرے اس کے لیے ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور اس کے سارے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں‘‘(ترمذی)

اور نبیؐ نے فرمایا: ’’جمعہ کے دن ایک ایسی مبارک ساعت ہے کہ بندہ اس میں جو بھی دعا مانگتا ہے وہ قبول ہوتی ہے‘‘(بخاری)

یہ ساعت کون سی ساعت ہے، اس میں علما کے درمیان اختلاف ہے، اس لیے کہ روایات میں مختلف اوقات کا ذکر ہے۔البتہ علما نے کہا ہے کہ دو قول ان میں صحیح ہیں: ایک یہ کہ جس وقت خطیب خطبے کے لیے منبر پر آتا ہے، اس وقت سے لے کر نماز ختم ہونے تک کا وقت ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ وہ گھڑی جمعہ کے دن کے آخری گھڑی ہے، جب سورج غروب ہونے لگے۔ مناسب یہ ہے کہ آپ دونوں ہی اوقات نہایت ادب اور عاجزی کے ساتھ دعا و فریاد میں گزاریں۔ اپنی اور دعائوں کے ساتھ یہ دعا بھی مانگیے تو اچھا ہے:

’’الٰہی! تو ہی میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو نے مجھے پیدا فرمایا، میں تیرا بندہ ہوں اور اپنے امکان بھر تجھ سے کیے ہوئے عہد و پیمان پر قائم ہوں۔ میں تیری نعمتوں اور تیرے احسانات کا اقرار کرتا ہوں جو تو نے مجھ پر کیے ہیں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں، پس تو میری مغفرت فرما، کیونکہ تیرے سوا کوئی نہیں جو گناہوں کو بخشنے والا ہو اور اپنے کرتوت کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں‘‘۔

-3 جمعہ کی نماز کا پورا پورا اہتمام کیجیے، جمعہ کی نماز ہر بالغ، صحت مند مقیم اور ہوش مند مسلمان مرد پر فرض ہے۔ اگر کسی مقام پر امام کے علاوہ دو آدمی بھی ہوں تو جمعہ کی نماز ضرور پڑھیں۔ نبیؐ نے فرمایا:

’’لوگوں کو چاہیے کہ نماز جمعہ ہرگز ترک نہ کریں ورنہ اللہ ان کے دلوں پر مہر لگادے گا پھر (ہدایت سے محروم ہوکر) وہ غافلوں میں سے ہوجائیں گے‘‘۔ (مسلم)

حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایاکہ:’’جو شخص نہا دھوکر جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں آیا پھر اس نے سنت ادا کی جو اس کے لیے اللہ نے مقرر کردی تھی، پھر خاموش بیٹھا (خطبہ سنتا) رہا، یہاں تک کہ خطبہ سے فراغت ہوئی۔ پھر امام کے ساتھ فرض ادا کیے تو اس کے ایک جمعہ سے لے کر دوسرے جمعے تک کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور تین دن کے مزید‘‘۔

حضرت یزید بن مریمؓ فرماتے ہیں کہ میں جمعہ کی نماز کے لیے جارہا تھا کہ راستہ میں حضرت عبایہ بن رفاعہؓ سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہاں جارہے ہو؟ میں نے کہا نماز پڑھنے جارہا ہوں۔ فرمایا مبارک ہو تمہارا یہ چلنا اللہ کی راہ میں چلنا ہے۔ نبیؐ نے فرمایا: ’’جس بندے کے پائوں اللہ کی راہ میں گرد آلود ہوئے اس پر آگ حرام ہے‘‘۔

-4 جمعہ کے اذان سنتے ہی مسجد کی طرف دوڑ پڑیئے۔کاروبار اور دوسری تمام مشغولیت یک دم بند کردیجیے اور پوری یکسوئی کے ساتھ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے میں مشغول ہوجایئے اور جمعہ سے فارغ ہوجائیں تو پھر کاروبار میں لگ جائیں۔ قرآن میں ہے:

’’مومنو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو جلد ازجلد اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ اگر تمہاری سمجھ میں آجائے تو تمہاری حق میں یہی بہتر ہے، پھر جب نماز ہوچکے تو زمین میں (اپنی اپنی مصروفیتوں کے لیے) پھیل جائو اور اللہ کے فضل میں سے اپنا حصہ ڈھونڈ لینے میں لگ جائو اور اللہ کو خخوب یاد کرو تاکہ فلاح پائو‘‘۔(الجمعہ: 9/62، 10)

ان آیات سے مومن کو جو ہدایتیں ملتی ہیں وہ یہ ہیں:

٭مومن کو پورے شعور اور فکر کے ساتھ نماز جمعہ کا اہتمام کرنا چاہیے اور اذان کی آواز سنتے ہیں سب کچھ چھوڑ کر مسجد کی طرف دوڑ پڑنا چاہیے۔

٭اذان سننے کے بعد مومن کے لیے جائز نہیں کہ وہ کاروبار کرے یا کسی اوردنیوی مشغولیت میں پھنسا رہے اور اللہ سے غافل دنیادار بن جائے۔

٭ مومن کی بھلائی کا راز یہ ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کا بندہ اور غلام بن کر رہے او
ر جب بھی اللہ کی طرف سے پکار آئے تو وہ وفادار اور اطاعت شعار غلام کی طرح اپنی ساری دلچسپیوں سے منہ موڑ کر اور سارے دنیوی مفادات کو ٹھکر کر اللہ کی پکار پر دوڑ پڑے اور اپنے عمل سے یہ اعلان کرے کہ تباہی اور ناکامی یہ نہیں کہ دین کے تقاضوں پر دنیوی مفاد کو قربان کردے بلکہ ناکامی یہ ہے کہ آدمی دنیا بنانے کی دھن میں دین کو تباہ کر ڈالے۔

٭دنیا کے بارے میں یہ نقطہ نظر صحیح نہیں ہے کہ آدمی اس کی طرف سے آنکھیں بند کرلے اور ایسا دیندار بن جائے کہ دنیا کے لیے بالکل ناکارہ ثابت ہو بلکہ قرآن ہدایت کرتا ہے کہ نماز سے فارغ ہوتے ہی اللہ کی زمین میں پھیل جائو اور اللہ نے اپنی زمین میں رزق رسائی کے جو ذرائع اور وسائل فراہم کر رکھے ہیں، ان سے پورا پورا فائدہ اٹھائو اور اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح کھپا کر اپنے حصہ کو روزی تلاش کرو۔ اس لیے کہ مومن کے لیے نہ یہ صحیح ہے کہ وہ اپنی ضرورتوں کے لیے دوسروں کا محتاج رہے اور نہ یہ صحیح ہے کہ وہ اپنے متعلقین کی ضرورتیں پوری کرنے میں کوتاہی کرے اور وہ پریشانی اور مایوسی کا شکار ہوں۔

٭ آخری ہدایت یہ ہے کہ مومن دنیا کے دھندوں اور کاموں میں اس طرح نہ پھنس جائے کہ وہ اپنے اللہ سے غافل ہوجائے۔ اسے ہر حال میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی زندگی کا اصل سرمایہ اور حقیقی جوہر اللہ کا ذکر ہے۔ حضرت سعید بن جبیرؓ فرماتے ہیں: ’’اللہ کا ذکر صرف یہی نہیں کہ زبان سے تسبیح و تحمید اور تکبیر و تہلیل کے بول ادا کیے جائیں بلکہ ہر وہ شخص ذکر الٰہی میں مصروف ہے جو اللہ کی اطاعت کے تحت اپنی زندگی کا نظام قائم کرنے میں لگا ہوا ہے۔

-5 جمعہ کی نماز کے لیے جلد سے جلد مسجد میں پہنچنے کی کوشش کیجیے اور اول وقت جاکر پہلی صف میں جگہ حاصل کرنے کا اہتمام کیجیے۔ حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ نبیؐ نے فرمایا:

’’جو شخص جمعہ کے روز نہایت اہتمام کے ساتھ اس طرح نہایا جیسے پاکی حاصل کرنے کے لیے غسل کرتے ہیں (یعنی اہتمام کے ساتھ پورے جسم پر پانی پہنچا کر خوب اچھی طرح بدن کو صاف کیا) پھر اول وقت مسجد میں جاپہنچا تو گویا اس نے ایک اونٹ کی قربانی کی اور جو اس کے بعد دوسری ساعت میں پہنچا تو اس نے گویا گائے (یا بھینس) کی قربانی کی۔ اور اس کے بعد تیسری ساعت میں پہنچا تو گویا اس نے سینگ والا مینڈھا قربان کیا اور جو اس کے بعد چوتھی ساعت میں پہنچا تو گویا اس نے اللہ کی راہم یں ایک انڈا عطا کیا۔ پھر جب خطیب خطبہ پڑھنے کے لیے نکل آیا تو فرشتے مسجد کا دروازہ چھوڑ کر خطبہ سننے اور نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں آبیٹھتے ہیں‘‘ (بخاری، مسلم)

اور حضرت عرباض بن ساریہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیؐ پہلی صف والوں کے لیے تین بار استغفار فرماتے تھے اور دوسری صف والوں کے لیے ایک بار‘‘ (ابن ماجہ، نسائی)

حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ لوگوں کی پہلی صف کا اجرو ثواب معلوم نہیں ہے اگر پہلی صف کا اجر و ثواب معلوم ہوجائے تو لوگ پہلی صف کے لیے قرعہ اندازی کرنے لگیں۔ (بخاری، مسلم)

-6 جمعہ کی نماز جامع مسجد میں پڑھیے اور جہاں جگہ مل جائے وہیں بیٹھ جایئے۔ لوگوں کے سروں اور کندھوں پر سے پھاند پھاند کر جانے کی کوشش نہ کیجیے۔ اس سے لوگوں کو جسمانی تکلیف بھی ہوتی ہے اور قلبی کوفت بھی اور ان کے سکون، یکسوئی اور توجہ میں بھی خلل پڑتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان فرماتے ہیں کہ نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’جو شخص پہلی صف کو چھوڑ کر دوسری صف میں اس لیے کھڑا ہوا کہ اس کے بھائی مسلمان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے تو اللہ تعالیٰ اس کو پہلی صف والوں سے دو گنا اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔ (طبرانی)

حضرت سلمانؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص جمعے کے دن نہایا دھویا اور اپنے بس بھر اس نے پاکی و صفائی کا بھی اہتمام کیا۔ پھر تیل لگایا، خوشبو لگائی اور دوپہر ڈھلتے ہی مسجد میں جا پہنچا اور دو آدمیوں کو ایک دوسرے سے نہیں ہٹایا (یعنی اس نے ان کے سروں اور کندھوں پر سے پھاندنے، صفوں کو چیر کر گزرنے یا دو بیٹھے ہوئے نمازیوں کے بیچ میں جاکر بیٹھنے کی غلطی نہیںکی) بلکہ جہاں جگہ ملی وہیں خاموشی سے نماز سنت وغیرہ ادا کی جو بھی اللہ نے اس کے حصہ میں لکھ دی تھی۔ پھر جب خطیب منبر پر آیا تو خاموش (بیٹھا خطبہ سنتا) رہا تو ایسے شخص کے وہ سارے گناہ بخش دیئے گئے جو ایک جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک اس سے سرزد ہوئے۔(بخاری)

-7خطبہ نماز کے مقابلے میں ہمیشہ مختصر پڑھیے۔ اس لیے کہ خطبہ اصلاً تذکیر ہے جس میں آپ لوگوں کو اللہ کی بندگی اور عبادت پر ابھارتے ہیں اور نماز نہ صرف عبادت ہے بلکہ سب سے افضل عبادت ہے، اس لیے یہ کسی طرح صحیح نہیں کہ خطبہ تو لمبا چوڑا دیا جائے اور نماز جلدی جلدی مختصر پڑھ لی جائے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:

نماز کو طول دینا اور خطبے کو مختصر کرنا اس بات کی علامت ہے کہ خطیب سوجھ بوجھ والا ہے پس تم نامز لمبی پڑھو اور خطبہ مختصر دو۔ (مسلم)

-8 خطبہ نہایت خاموشی، توجہ، یکسوئی، آمادگی اور جذبہ قبولیت کے ساتھ سنیے اور اللہ اور رسولؐ کے جو احکام معلوم ہوں ان پر سچے دل سے عمل کرنے کا ارادہ کیجیے، نبیؐ کا ارشاد ہے:

جس شخص نے غسل کیا پھر نماز جمعہ پڑھنے آیا اور آکر اپنے مقدر کی نماز پڑھی، پھر خاموش (بیٹھ کر نہایت توجہ اور یکسوئی کے ساتھ خطبہ سنتا) رہا یہاں تک کہ خطیب خطبے سے فارغ ہوا پھر اس نے امام کے ساتھ فرض نماز ادا کی تو اس کے وہ سارے گناہ بخش دیئے گئے جو اس سے ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک سرزد ہوئے بلکہ تین دن کے مزید گناہ بھی بخش دیئے گئے۔ (مسلم)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب خطیب خطبہ دینے کے لیے نکل آیا تو پھر نہ کوئی نماز پڑھنا درست ہے اور نہ بات کرنا درست ہے۔

-9 دوسرا خطبہ عربی میں پڑھیے۔ البتہ پہلے خطبے میں مقتدیوں کو کچھ خدا، رسولؐ اللہ کے احکام، ضرورت کے مطابق کچھ نصیحت و ہدایت اور تذکیر کا اہتمام اپنی زبان میں کیجیے۔ نبیؐ نے جمعہ میں جو خطبے دیئے ہیں ان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ خطیب حالات کے مطابق مسلمانوں کو کچھ نصیحت و ہدایت فرمائے اور یہ مقصد اسی وقت پورا ہوسکتا ہے جب خطیب سامعین کی زبان میں ان سے خطاب کرے۔

-10 جمعہ کے فرضوں میں سورۃ الاعلی اور الغاشیہ پڑھنا یا سورہ منافقون اور سورہ جمعہ پڑھنا افضل اور مسنون ہے۔ نبیؐ اکثر یہی سورتیں جمعہ میں پڑھا کرتے تھے۔

-11 جمعہ کے دن کثرت سے نبیؐ پر درود و سلام بھیجنے کا خصوصی اہتمام کیجیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:

’’جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، اس روز درود میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ درود میرے حضور میں پیش کیا جاتا ہے۔ (ابن ماجہ)

حصہ