شہزادوں کا قصور؟

282

آج جمعہ کا دن تھا، صبح میاں کے کام پر جانے کے کپڑے استری کیے تو ساتھ ہی اپنے شہزادے کی قمیص شلوار پر بھی استری کردی۔ جلدی جلدی گھر کے کاموں کو نمٹایا اور شیرو (یعنی شاہ ویر)کو قمیص شلوار پہناکر تیار کیا، پھر اپنے شہزادے کو بازوؤں میں سموکر ایک تصویر لی اور میاں جی کو بھیجی۔ قمیص شلوار اور ٹوپی میں ملبوس وہ واقعی نظر اتارنے کے لائق تھا، لہٰذا جلدی سے اپنے جگر کے ٹکڑے کی نظر اتاری اور بہت سارا پیار کرکے صاحب جی کو سلانے لگی۔ شاہ ویر کو سلاتے ہوئے سوشل میڈیا دیکھتے ہوئے ایک تصویر پر نظر پڑی اور نظر اٹک ہی گئی۔ تصویر میں نظر آنے والا بچہ ہو بہو میرے شیرو جیسا تھا، مٹی میں اَٹا ہوا اور اپنے کپڑوں پر خون کے بہت سے نشان لیے ہوئے کسی رضاکار کی گود میں مسکرا رہا تھا۔ اُس کی مسکان بھی میرے شیرو جیسی تھی، بالکل معصوم اور ہر فکر سے آزاد… ایک لمحہ تو شکر کیا کہ یہ شیرو نہیں، مگر اگلے ہی لمحے دل لرز گیا کہ یہ بھی کسی ماں کے جگر کا گوشہ ہوگا، یہ بھی کسی ماں کے دل کا ٹکڑا ہوگا، اس کی چمکتی آنکھوں سے بھی کسی کی دنیا روشن ہوتی ہوگی، اس کے رخسار پر بھی کوئی یوں صبح شام بوسہ دیتا ہوگا، مگر… اور اس مگر کے آگے گہری فکرمندی تھی۔ اس ماں کی بھلا کیا غلطی تھی، کیا قصور تھا جو وہ اپنے بچے کی خوشی نہ دیکھ سکی، جس سے اس کی ممتا چھین لی گئی۔ اس بچے اور ان ہزاروں بچوں کا، ماؤں کے شہزادوں کا کیا قصور تھا جن سے ان کی مائیں چھین لی گئیں!

اپنے شیرو پر ہاتھ پھیرتے میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ ایک لمحے کے لیے بھی جب تصور کرو تو اس خوشی پر جو اُس ننھے کے چہرے پر عیاں تھی میرا دل رو رہا تھا۔ کیا واقعی یہ جوابی کارروائی ہے؟ کیا جوابی کارروائی میں عورتوں اور بچوں کے حقوق کو یوں فراموش کرتے ہیں؟ کیا یہی اسلوب ہیں جنگوں کے؟ کیا یہی طریقہ کار ہیں یہودی مذہب کے ماننے والوں کے؟

ستّر سال سے ظلم سہتے فلسطینیوں نے جو جوابی کارروائی کی تو اس میں عورتوں، بچوں کا خیال رکھا۔ یہ خود اسرائیلی عورتیں کہہ رہی ہیں، وہ مجاہدین کی تعریفیں کررہی ہیں۔

ادھر یہ اسرائیلی… غزہ پر ہزاروں ٹن بارود برسانے والے یہودی… یہ انسانی حقوق کے جھوٹے علَم بردار… انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں ہیں۔

حصہ