والد کے فوت ہو جانے کے بعد ایک دن حسن نے والدہ سے کہا:”امی!اب ہم کیا کریں گے۔ابو ہمیں اکیلا چھوڑ گئے۔میں پڑھ لکھ کر بڑا آدمی کیسے بنوں گا۔“
”ایسا نہیں کہتے بیٹا!میں ہوں نا میں…“دروازے کی ٹھک ٹھک سے امی کی بات ادھوری رہ گئی۔”ابو کے نام پارسل آیا ہے امی!“حسن نے لفافہ ہاتھ میں پکڑے اندر آتے ہوئے کہا۔
”بیٹا!اس پر نام کس کا ہے؟“
”نہیں امی!اس پر کسی کا نام نہیں۔“حسن نے لفافہ اُلٹ پلٹ کر دیکھا۔
”یہ کیا امی اتنے سارے پیسے…“امی نے بھی حیرت سے دیکھا۔
دوسرے دن حسن اسکول گیا تو استاد نے پوچھا:”اے حسن بیٹا!آج تو آپ بہت خوش ہیں کیا بات ہے؟“
”جی سر!میں آج بہت خوش ہوں۔“
حسن نے اپنے استاد کو بتایا:”استاد جی!ابو کے بعد میں اور میری امی بہت پریشان تھے،مگر پتا نہیں کون اللہ کا نیک بندہ ہمارے دروازے پر پیسوں سے بھرا لفافہ چھوڑ گیا۔“
حسن نے تفصیل بتائی تو شاہد صاحب مسکرا دیے۔پھر یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا،جب تک حسن پڑھ لکھ کر آرمی میں ملازم نہ ہوا۔ایک دن استاد کے ہاتھ میں بہت سی کتابیں تھیں جن میں سے ایک زمین پر گر گئی۔اس میں سے ایک خاکی لفافہ بھی وہیں گر گیا۔حسن قریب ہی کھڑا تھا۔اس نے دیکھ لیا کہ لفافے پر اس کے ابو کا نام اور گھر کا پتا لکھا تھا۔اب وہ جان چکا تھا کہ ہر مہینے پیسے کون بھیجتا ہے۔
حسن نے اپنے استاد سے رابطہ نہ توڑا،کیونکہ وہ ان کا احسان مند تھا اور ان کی وجہ سے ہی اسے نوکری ملی۔کچھ مہینوں سے اسے چھٹی نہیں مل رہی تھی اور نہ استاد شاہد سے رابطہ ہو رہا تھا۔چھٹی ملتے ہی حسن گھر پہنچا۔شام میں جب وہ استاد شاہد کے گھر گیا تو پتا چلا کہ وہ کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔وہ چند ماہ سے بیمار تھے۔کرایہ نہ دے سکے تو مالک مکان نے گھر سے نکال دیا۔
حسن پریشان تھا،مگر جلد ہی اس نے استاد شاہد کا دوسرا گھر ڈھونڈ لیا،مگر دیر ہو گئی،کیونکہ شاہد استاد کا انتقال ہو چکا تھا۔گھر میں بوڑھی ماں اور بیوی تھی۔بیٹی کی شادی ہو گئی۔حسن نے ایک لفافہ بوڑھی اماں کے ہاتھوں میں تھمایا اور تفصیل بتا کر گھر واپس آ گیا۔
اب حسن کو جب تنخواہ ملتی تو وہ ہر ماہ ایک معقول رقم لفافے میں ڈالتا اور مرحوم استاد کے گھر کی چوکھٹ پر گھنٹی بجا کر رکھ آتا۔