رفعتوں کا سفر

359

رحمت الہیٰ کی مظہر ایک سچی کہانی

اس دن بھی مسجدِ حرام کا صحن طواف کرنے والوں سے ہمیشہ کی طرح پُر تھا۔ آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا جس کی وجہ سے موسم کافی خوش گوار تھا۔ حرم کی فضائیں حسبِ معمول لبیک کی جانفزا صداؤں سے معمور تھیں۔ بیت اللہ کی زیارت کرنے والے دلوں پر اللّٰہ کی رحمت و فضل کے نزول کے عجیب مشاہدات کر رہے تھے۔ دل کی سختیاں زائل ہو رہی تھیں۔ قساوت، زنگ اور غفلت دور ہو رہی تھی۔ قلوب پر سکینت طاری ہو رہی تھی اور گناہوں کی تپش سے بے چین نفوس اپنے رب کے گھر میں چین اور سکون کی ایک الگ ہی دنیا سے متعارف ہو رہے تھے۔ ہر کچھ دیر بعد ابابیلوں کا نیا غول آتا اور غوطہ لگا کر کعبتہ اللّٰہ کے گرد ایک چکر لگا کر دوبارہ فضاؤں کی وسعتوں میں گم ہو جاتا۔ ایسے میں عمرے سے فارغ ہو کر دو شخص واپسی کے لیے مطاف سے باب الاسلام کی طرف جا رہے تھے۔ آگے چلنے والا شخص چہرے مہرے سے نوجوان نظر آرہا تھا۔ خوب صورت نورانی چہرہ، سنت نبوی سے مزین اور چال اپنے ساتھی کی بنسبت تیزتھی اور اس چال میں جیسے کسی فریضے یا ذمہ داری کی ادائی کے بعد پائی جانے والی طمانیت اور خوشی اور سرشاری کی آمیزش جھلکتی تھی۔ جب کہ اس کے پیچھے آنے والا شخص بھاری قدموں سے مضمحل سی چال چلے آرہا تھا۔ وہ شخص دو قدم کے بعد رکتا، نمناک آنکھوں سے مڑ کر کعبتہ اللّٰہ کو دیکھتا، ایک سرد سی آہ بھرتا اور پھر اپنے ساتھی کے پیچھے چلنے لگتا۔ دونوں ساتھیوں کے مابین فاصلہ بڑھتا جا رہا تھا۔ ایسے میں پچھلے ساتھی سے چپ نہ رہا گیا تو اس نے بڑی گلوگیر آواز میں اپنے ساتھی کو آواز دی ”اے دوست ،بات سنو!“ اس کی آواز میں ایسا درد اور بے چارگی پنہاں تھی کہ اس کے ساتھی کے تیزی سے بڑھتے قدم وہیں تھم کر رہ گے۔

آج جمعتہ المبارک کا دن تھا۔ جمعہ کی نماز ہو چکی تھی۔ بیوہ عورت کے گھر آج سارے معصوم بچے بڑی خوشی سے دوڑتے پھر رہے تھے۔ انھیں امید تھی کہ ہر جمعہ کی طرح آج بھی ان کو مزے مزے کےکھانے، ڈھیر سارا پھل، جوس، دودھ اور کھجوروں کے بڑے بڑے پیکٹ ملیں گے اور ان یتیم بچوں کی ماں کو اس بات کا انتظار تھا کہ آج ماہ کا پہلا جمعہ ہونے کی وجہ سے پورے ماہ کا راشن ملے گا۔ آج اس نے دوپہر کا کھانا نہیں بنایا تھا کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ ابھی تھوڑی دیر بعد بہترین عربی چکن پلاؤ، بوتلیں اور چکن بروسٹ کے کئی پیکٹ حسب معمول انھیں ملنے والے ہیں۔ اس نے سکون سے نماز پڑھی۔ اس کے بچے بھی اتنے میں مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کر کے آگئے۔ ہمیشہ کی طرح عین دوپہر کے دو بجےدروازہ کھٹکا۔ بیوہ اور اس کے یتیم بچوں کے چہروں پر ایک اطمینان بھری مسکان آگئی۔ وہ شخص آج بھی اپنے وقت پر آیا تھا۔

”میرا شوہر؟ میرا شوہر بے حد برا آدمی تھا۔ بے حد برا“ یہ کہہ کر اس بیوہ عورت نے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ فون لائن پر دوسری طرف ریسور تھامے شخص کی آنکھوں میں بھی آنسوؤں کے موتی جھلک رہے تھے۔

حرم کے صحن میں ایک جگہ غیر معمولی رش دکھائی دے رہا تھا۔ انتظامیہ کے افراد لوگوں کے اژدھام کو سنبھالنے میں ناکام دکھائی دے رہے تھے۔ جیسے جیسے یہ خبر حرم میں پھیل رہی تھی، ویسے ویسے لوگوں کا ریلہ اسی ایک سمت کی طرف بہتا چلا آرہا تھا۔ ہر آنکھ نمناک تھی اور ہر دمکتا چہرہ فرطِ جذبات کا عکاس تھا۔ ایسے میں حرم کے بلند آہنگ اسپیکروں سے مخصوص اعلانات فضا میں گونجنے لگے۔

آج پھر عبداللہ نے وہی خواب دیکھا جو اس نے پچھلی رات کو دیکھا تھا۔ اس نے دیکھا تھا کہ ایک خوب صورت نوجوان اجنبی، جس کے چہرے سے نا آشنا ہونے کے باوجود انسیت محسوس ہوتی تھی، اسے ایک کاغذ تھما رہا تھا اور کہہ رہا تھا ”یہ موبائل نمبر نوٹ کرلو اور جن کا یہ نمبر ہے اسے عمرہ کراؤ“۔ عبداللہ سعودیہ عرب کے ایک شہر میں رہنے والا ایک صالح نوجوان تھا جسے دین کی اور مسلمانوں کی خدمت کا بہت شوق تھا۔ ہر ماہ عمرے پر جاتا اور کسی سال حج کا ناغہ نہ کرتا۔ دعوت اور ابلاغِ دین کے کاموں میں بھی آگے آگے رہتا۔ اخلاق میں بھی اللّٰہ تعالیٰ نے اسےحظ وافر نصیب کیا تھا جس کی وجہ سے جو ایک مرتبہ اس سے مل لیتا ،وہ اس کا گرویدہ ہو جاتا۔ وہ اٹھا، تہجد کے لیے وضو کیا اور اپنے رب کے حضور قیام و سجود، مناجات و استغفار میں مشغول ہو گیا۔ رات کے تیسرے پہر عبداللہ کا یہ دائمی معمول تھا۔

”یا شیخ! دو راتوں سے ایک ہی خواب دیکھ رہا ہوں۔ بڑا عجیب وغریب خواب ہے۔ آپ ہی اس کی تعبیر دیجیے اور بتائیے کہ میں کیا کروں۔“ خواب پورے اہتمام اور سنجیدگی سے شیخ عثمان غنی (امام مسجد) نےسن کر سر اٹھایا۔ اُن کے چہرے پر بڑی مسحور کن مسکراہٹ سجی تھی۔

”عبداللہ ! مبارک ہو اللہ تعالیٰ آپ سے کوئی خاص کام لینا چاہتے ہیں۔ اگر دوبارہ یہ خواب دیکھو تو فون نمبر یاد کر لو اور اس بندے سے رابطہ کر کے لازمی اسے عمرہ کرواؤ۔ یقینًا اللّٰہ تعالیٰ نے تمھیں کسی خاص کام کے لیے چن لیا ہے۔“

”یا اخی عبد الکریم! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ “

”وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! آپ کون جناب؟“ (اکھڑے لہجے میں جواب ملا)

”یا اخی! میرا نام عبداللہ ہےمیں طائف کا رہنے والا ہوں۔ میں نے دراصل (جھجکتے ہوئے) خواب دیکھا ہے۔ اس میں مجھے یہ موبائل نمبر دیا گیا ہے جس پر میں آپ سے ابھی ہم کلام ہوں اور مجھے کہا گیا ہے کہ میں آپ کو عمرہ کراؤں۔“ یہ کہہ کر عبداللہ خاموش ہو گیا اور جواب کا انتظار کرنے لگا۔

لائن پر تھوڑی دیر خاموشی طاری ہو گئی، جیسے دوسرا شخص جواب دینے سے پہلے الفاظ تول رہا ہو۔ پھر یکدم اس نے ایک زوردار قہقہہ سنا۔

” ہا ہا ہا۔۔۔ عمرہ؟ میںؐ…؟سچی…؟ ہاہا…ہا۔‘‘ (ہنسی کے مارے اس سے بات ہی نہیں کی جا رہی تھی)۔ ’’یا اخی! کیوں مجھ سے مذاق کرتے ہو؟ کوئی نہیں کرنا میں نے عمرہ۔ کیا سمجھے تم؟ دوبارہ کال مت کرنا۔“ اور اس نے کال بند کر دی۔

عبداللہ اسی طرح کان پر موبائل لگائے حیران و ششدر رہ گیا۔ ایسا تو اس کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آیا تھا کہ اس کی پُر خلوص پیش کش کو ٹھکرا دیا جائے گا۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ ایسے بے قدرے کی کیا منت کی جائے لیکن اسے یاد آیا کہ اسے لگاتار تین راتوں میں ایک جیسا خواب آیا تھا اور پھر اس کے امام مسجد نے کہا تھا کہ لازمی یہ کام کرو، اللہ تعالیٰ تم سے خصوصی کام لینا چاہتا ہے۔ اس نے یہ سوچتے ہی فوراً دوبارہ فون ملایا لیاؓ

”ہاں جناب اب آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟“ دوسری طرف لہجے کی سرد مہری ہنوز نہیں پگھلی تھی۔

”یا اخی عبد الکریم! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ۔ ایک مرتبہ میری بات تو سن لیں، اللہ تعالیٰ کی رحمتیں آپ کی طرف متوجہ ہیں اور آپ ہیں کہ مسلسل بے اعتنائی برت رہے ہیں۔“

”عبداللہ! بات یہ ہے کہ مجھے تو برسوں گزر گئے نماز پڑھے ہوئے اور روزے رکھے ہوئے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ مجھے عمرہ کروانا چاہتے ہیں۔“

پھر عبداللہ کوئی بیس پچیس منٹ اسے مختلف حوالوں سے مناتا گیا اور منتیں کرتا رہا اور عبدالکریم بالآخر اس بات پر رضا مند ہوا کہ عبداللہ اپنی گاڑی پر طائف سے پہلے ریاض آئے گا، عبدالکریم کو لے گا، راستے کے طعام و قیام کے سارےخرچ برداشت کرے گا اور عمرے کے بعد واپس بھی چھوڑے گا۔

فون بند کرنے کے بعد عبداللہ نے سکون کا سانس لیا۔ الحمدللہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات پڑھا اور سوچنے لگا کہ اس کے رب ارحم الراحمین ،ذوالجلا ل والاکرام کی کیسی شان ِرحیمی وکریمی ہے کہ اپنے روٹھے ہوئے بندے پر اپنی رحمت نچھاور کرنے کے لیے ایسی بہترین اور مربوط ترتیب بنا رہا ہے۔ یہی سوچتے سوچتے وہ صلاۃ الشکر پڑھنے کے لیےمصلے پر کھڑا ہو گیا۔

عبداللہ گاڑی چلا رہا تھا اور عبدالکریم ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ریاض سے مکۃ المکرمہ کا سفر گاڑی پر آٹھ گھنٹے کا تھا اور یہ وقت انھوں نے گپ شپ اور ذکر و اذکار میں گزارا تھا۔

”یااخی عبداللہ! میں اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت گردانتا ہوں۔ میں تقریباً 20 سال غفلت کی زندگی گزار رہا تھا۔ میرا رب کیسا کریم ہے کہ مجھ جیسے غیر مستحق کو کیسی شان سے اپنے گھر بلا رہا ہے۔ بس ایسی ہی ایمانی حلاوت دل میں پیدا کرتی باتیں کرتے کرتے یہ دو مسافر سوئے حرم محوِ سفر تھے۔

”اے دوست! بات تو سنو۔ پتا نہیں پھر توفیق ملتی ہے یا نہیں۔ میں دو رکعت پڑھ لوں۔“ عبدالکریم کی آواز میں کچھ ایسا درد پنہاں تھا کہ عبداللہ چلتے چلتے رک گیا۔ واپس مڑا، عبدالکریم کے پاس گیا اور اس کا ہاتھ تھام کر بڑے پیار سے بولا ”جتنی مرضی نمازیں پڑھو اللہ تم پر رحم کرے۔“

عبدالکریم نے کعبۃاللہ کی طرف رخ کیا۔ مقامِ ابراھیم کو اپنے اور کعبۃ اللہ کے درمیان رکھا اور نماز شروع کر دی۔ اللّٰہ اکبر… مختصر قیام کیا۔ رکوع قدرے طویل کیا۔ عبداللہ ساتھ کھڑا اس مجسمِ کایا پلٹ کو مبہوت ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اسے صاف بصیرت کی آنکھوں سے دکھائی دے رہا تھا کہ بندے کا اپنے رب سے تعلق مضبوطی کے ساتھ استوار ہو چکا ہے اور نفس کی کثافتیں دھل چکی ہیں۔ عبدالکریم سجدے میں گیا تو اس کی دھیمی دھیمی ہچکیاں ساتھ کھڑے عبداللہ کو سنائی دے رہی تھیں۔ سجدہ طویل سے طویل ہوتا گیایہاں تک کہ عبداللہ بے چین ہوگیا ۔ جب اس کے ساتھی کو سجدے میں پڑے ہوئے 10 منٹ گزر گئے تو عبداللہ سے رہا نہ گیا اور اس نے اپنے ساتھی کو نرمی سے جھنجھوڑا تو عبدالکریم اپنے پہلو کی طرف لڑھک گیا۔ اللہ اکبر! عبداللہ کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اس کا ہم سفر عبدالکریم اس دنیائے فانی سے اپنے ربِ رحمٰن کی رحمتوں کی طرف جا چکا تھا۔ یا اللہ! یہ کیا ماجرا ہے؟ ایسا بہترین خاتمہ جس کی تمنا بڑے بڑے اولیاء اور اتقیاء کرتے ہیں۔ عمرے کی ادائی کے بعد سجدے کی حالت میں وفات۔ عبداللہ کی حیرانی اور استعجاب کی کوئی انتہا نہ رہی ۔

آہستہ آہستہ لوگ ان دونوں کے ارد گرد جمع ہو تے جا رہے تھے۔ جو بھی رحمت ِالٰہی کے مظہر اس واقعے کا سنتا اس کی آنکھیں چھلک پڑتیں اور رحمت ِ ربانی کی وسعتوں پراس کا یقین سوا ہوجاتا اور وہ تمنا کرتا کہ کاش اس کی جگہ آج میں ہوتا۔ پھر اس خوش نصیب معتمر کو زم زم کے مبارک پانی سے غسل دیا گیا۔ لاکھوں فرزندانِ اسلام نے مسجد الحرام میں اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ اس کے بعد عبداللہ اپنے وعدے کے مطابق عبدالکریم کی میت اس کے گھر ریاض لے آیا۔ کفن دفن میں شامل ہوا۔ گھر والوں کا نمبر لے کر واپس گھر چلا گیا۔

”ہاں میرا شوہر بے حد برا آدمی تھا۔ نماز روزہ تو سالوں سال گزر گئے چھوڑ گیا تھا اور شراب کا بے انتہا دل دادہ تھا۔ ہر وقت شراب کی بوتل اس کے پاس ہوتی تھی۔ دوستوں کے پاس بھی جاتا تو بوتل ساتھ لے کر جاتا کہ کہیں شراب کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔“ آنسو آنکھوں میں لیےسسکیوں میں عبدالکریم کی بیوہ فون پر عبداللہ کواپنے شوہر کے بارے میں بتا رہی تھی۔

” پھر میری بہن! آخر کوئی تو ایسا عمل ہو گا جس کی وجہ سے اس کو ایسا نوازا گیا کہ حرم میں موجود ہر کوئی اس پر رشک کر رہا تھا۔“

”یا اخی عبداللہ! میرے شوہر میں کوئی خیر کی بات نہ تھی۔ ہاں یہ تھا محلے میں ایک بیوہ عورت اپنے یتیم بچوں کے ساتھ نہایت غربت و کسمپرسی کی حالت میں رہتی تھی۔ میرا شوہر اس کو ماہانہ راشن دیتا تھا اور ہر جمعہ کے دن جب اپنے بچوں کے لیے بہترین کھانا لاتا تھا وہاں اس بیوہ اور بچوں کے لیے بھی بڑی مقدار میں وہی کھانا لاتا اور دروازہ کھٹکھٹا کر کھانے کے شاپر دہلیز پر رکھ کر کہتا ”کھانا لے لو“ اور واپس مڑ آتا۔اس وقت وہ بیوہ بڑی آہ و زاری سے بآواز بلند اسے ایک دعا مسلسل دیتی ’’اللہ تیرا خاتمہ اچھا کرے ،اللّٰہ تیرا خاتمہ اچھا کرے ۔‘‘بس میرا یقین ہے کہ اس بیوہ کی دعا قبولیت کا درجہ حاصل کر گئی ہے۔“

یہ کہہ کر عبدالکریم کی بیوہ تو خاموش ہوگئی جب کہ اپنے کریم رب کی رحمت سے مسحور عبداللہ اس ان دیکھی دکھوں کی ماری بیوہ کی تشکر سے لبریز آنکھوں سے امنڈتے ان آنسوؤں کا تصور کرنے لگاجو اپنے ننھے سے وجود میں نجانے کتنی ہی بلندیوں اور رفعتوں کی درخشاں منازل سمیٹے ہوئے تھی۔

(یہ ایک سچے واقعے پر مبنی کہانی ہے جو میں نے ’’دعائیں کیسے قبول ہوئیں؟‘‘ (خواتین کا اسلام -دعا نمبر)میں پڑھا اور پھر اسے کہانی کے قالب میں ڈھالاہے۔)

حصہ