”طارق بھائی! کیا زمانہ آ گیا ہے، بقول الیکشن کمیشن فروری کے درمیانی ہفتے میں انتخابات کروا دیئے جائیں گے، لیکن کوئی ماننے کو تیار نہیں۔ ایک دور تھا جب انتخابات کے انعقاد کا اشارہ ملتا توتمام سیاسی جماعتیں عوامی رابطہ مہم چلانے لگتیں، میرا مطلب ہے کہ ایسے سیاسی رہنما بھی جنہیں عوام کے مسائل سے کوئی غرض نہیں، ووٹ مانگنے گلی محلّوں کا رخ کر لیا کرتے، لیکن اب ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں آج ہونے والے انتخابات کی نسبت ماضی میں ہونے والے انتخابات میں خاصی گہما گہمی ہوتی تھی، ہماری کیفیت بھی ”بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ“ کی سی ہوتی تھی، اسی بنا پر زندہ باد زندہ باد اورجیتے گا بھئی جیتے گا جیسے نعرے لگا لگا کر ہمارے گلے بیٹھ جاتے تھے۔اب سوچتے ہیں شاید وہ کم عمری تھی اس لیے ہمارے مزاج میں بھی کوئی سیاسی روح آن بسی ہو، یا شاید کم عقلی کی بنا پر اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ جو کچھ بھی ہم کررہے ہیں اس کے کیا نتائج مرتب ہوں گے۔ بس جو بھی من میں آئے، کیے چلے جاتے تھے۔اب سوچتے ہیں کہ اسی کا نام بے وقوفی ہے۔ جو بھی ہو لیکن یہ بات اپنی جگہ سو فیصد درست ہے کہ جب جب ہمیں ووٹ ڈالنے کا موقع ملا ،یا ہم نے انتخابات میں جس جماعت کی بھی حمایت کی، پڑھے لکھے امیدوار ہونے کے باوجود وہ جماعتہمیشہ ہی ہاری۔انتخابات لڑنا اور لڑانا نہ جانے کون سا فلسفہ یا راکٹ سائنس ہے جو ہمارے بھیجے میں آج تک نہیں بیٹھی!“
”یار عارف! اس بات کو یوں سمجھ، ایک زمانہ تھا جب ہم کرکٹ کھیلا کرتے تھے، یہ وہ دور تھا جب ٹیپ بال کرکٹ کو نیا نیا عروج حاصل ہوا..نائٹ میچ ہو یا علاقائی بنیادوں پر ہونے والے ٹورنامنٹ… ہر جگہ کرکٹ ہی دیکھنے کو ملتی۔ دوستوں میں سے جس کے پاس بھی پیسے ہوتے وہی کرکٹ ٹیم کا کپتان ہوتا، یعنی ایک عدد گیند اوربلا ّخریدنے کی سکت رکھنے والا شخص ہی ٹیم کا کپتان بنایا جاتا۔ظاہر ہے گیند بلّے کے بغیر کرکٹ کھیلنا تو درکنار اس کا تصور کرنا بھی دیوانگی سے کم نہ تھا،لہٰذا ساری ہی ٹیم گیند اور بےّد کے مالک کو اپنا لیڈر تسلیم کرلیتی۔ کرکٹ سے ہمیں جنون کی حد تک محبت تھی،یہی وجہ تھی کہ ہم آئے دن کسی نہ کسی حوالے سے کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کراتے رہتے تھے۔ ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی آٹھ ٹیموں کودو گروپوں میں تقسیم کیا جاتا،فائنل جیتنے والی ٹیم کو کیش کی صورت بڑی رقم ملتی۔ہر ٹیم کو رجسٹریشن فیس ادا کرنا ہوتی، اسی لیے ٹورنامنٹس کا انعقاد ہمارے لیے نفع کا سودا ہوا کرتا۔گھر میدان سے قریب ہونے کی وجہ سے ہمیں نہ صرف زیادہ ٹورنامنٹ کرانے کا اعزاز حاصل رہا بلکہ زیادہ تر فاتح بھی ہم ہی رہتے۔ہماری ٹیم کی کامیابی کے پیچھے تحریر کردہ اس ضابطہ اخلاق کا بڑا اہم کردار ہوتا جس کے ذریعےدوسری ٹیموں کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے جاتے،مثلاًٹورنامنٹ کے ضابطہ اخلاق کے مطابق کسی بھی ٹیم کو ٹورنامنٹ آرگنائزنگ کمیٹی سے بحث یا اختلاف کرنے کی اجازت نہ ہوتی، ایمپائر کا فیصلہ آخری اور حتمی ہوتا،میدان میں پندرہ منٹ دیر سے آنے والی ٹیم کومیچ کھیلنے کی اجازت نہ ہو تی،جبکہ اس کے مدمقابل ٹیم میچ کھیلے بغیر ہی فاتح قرار دے دی جاتی۔ہماری کامیابی کا دوسرا ہتھیار یہ ہوتا کہ ہم علاقے کے سارے ہی نامور کھلاڑیوں کو پیسے کا لالچ دے کر اپنی ٹیم میں شامل کر لیتے۔ جب ٹورنامنٹ کمیٹی اپنی ہو اور کھیل کا ضابطہ اخلاق بھی اپنی مرضی اور منشا کے مطابق بنایا گیا ہو اور اس پرایمپائر بھی کمیٹی کا وفادار ہو تو کس کی جرات کہ ہم سے ہمارے ہی میدان میں ٹورنامنٹ تو درکنار ایک میچ بھی جیت سکے! خیر، جوں جوں وقت گزرتا گیا ایک ایک کر کے تمام ہی ٹیمیں گیند اور بلّے کے نام پر ہونے والی پری پول رِگنگ کو سمجھنے لگیں، آخر کار پھر وہ وقت آگیا جب ہماری ٹیم تو رہی لیکن ہم سے کھیلنے والا کوئی نہ رہا۔“
”عارف میاں! یہ سارا قصہ تمہیں سنانے کا واحد مقصد یہ ہے کہ تم انتخابات میں سیاسی گہما گہمی نہ ہونے سے پریشان نہ ہو، اسے سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ ملک میں ہونے والے انتخابات کے ماحول کو سمجھنے کے لیےجو کچھ بھی میں نے کرکٹ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے بتایا ہے اس کو اسی تناظر میں دیکھ لو،ساری بات سمجھ میں آجائے گی۔میں اپنی بات کی سچائی میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ تمام ہی سیاسی جماعتیں سوائے ایک جماعت کے، فروری میں ہونے والے انتخابات پر(اگر ہورہے ہیں تو) اپنے اپنے تحفظات کا برملا اظہار کررہی ہیں،کوئی کہہ رہا ہے کہ امن وامان کا بہانہ بنا کر ہمیں ریلی نکالنے کی اجازت نہیں دی جارہی، جبکہ دوسری طرف ایک جماعت کو اپنے مفرور قائد کی آمد پر جلسے کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی،اس مجرمانہ عمل پر نہ تو انتظامیہ حرکت میں آئی، نہ ہی الیکشن کمیشن کو کچھ دکھائی دیا، اور نہ ہی معزز عدلیہ نے کوئی نوٹس لیا۔کہیں سے آواز آرہی ہے کہ ہمارے اُمیدواروں کی وفاداریاں تبدیل کروانے کے لیے نہ صرف دباؤ ڈالا جارہا ہے بلکہ پارٹی کے اہم رہنماؤں سے اپنی مرضی کے مطابق پریس کانفرنسیں کروائی جا رہی ہیں، کوئی خودکش دھماکوں کی وجہ سے سوگوار ہے تو کوئی غیر آئینی وغیر قانونی طور پر ہراساں کیے جانے کا الزام لگاتا دکھائی دے رہا ہے،کسی کو سیکورٹی رسک قرار دے کر میدانِ سیاست سے فارغ کیے جانے کا دکھ ہے، تو کہیں سےکسی ایک مخصوص شخصیت کے لیے سیکورٹی کے فول پروف انتظامات پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں،کسی کے دو لفظ بولنےپر قانون حرکت میں آ جائے،کوئی غیر اخلاقی طور پر انسانوں کو جانوروں کے ناموں سے پکار کر بھی اخلاقیات کے دائرے میں ہی رہے،کوئی کراچی کو کرانچی کہے تو شور مچوا دیا جائے، کسی کی جانب سے انسانوں کو زندہ لاش کہہ دینا بھی کوئی جرم نہیں۔
عارف میاں ابھی کچھ بھی نہیں ہوا، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ سنا ہے میڈیا ہاؤسز پر بھی ہوا کا خاصا دباؤ ہے، کئی اینکر پرسنز نے اپنے پروگرام بند کردیے ہیں۔ اصل میں میڈیا مالکان کے گھر کچے ہوتے ہیں، وہ تیز ہوا کا دباؤ کہاں برداشت کر سکتے ہیں! اسی لیے تو ایک جماعت کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی ہے۔“
”طارق بھائی! جو کچھ بھی آپ نے کہا سب سمجھ میں آ گیا ہے،میں آپ کی جانب سے اٹھائے گئے ناکت بتاتا ہوں۔ آپ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں،ایم کیو ایم کےڈاکٹر فاروق ستار،اے این پی کے صدر ایمل ولی،مولانا فضل الرحمان،اور بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ان بیانات کا ذکر کر رہے ہیں جن میں وہ انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کی جانب اشارہ کر رہے ہیں، جبکہ ان میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ میاں نوازشریف وہ واحد لیڈر ہیں جن کے لیے آسانیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔
طارق بھائی! اگر اس ساری صورتِ حال کو آپ کی پیش کردہ کرکٹ اصطلاح کی کسوٹی پر رکھا جائے تو پھر مانناہوگا کہ آنے والے انتخابات اگر فروری میں ہو جاتے ہیں تو وزارت ِعظمیٰ کے مضبوط امیدوار میاں نوازشریف ہی ہوں گے، اور یہ بھی سمجھ لیا جانا چاہیے کہ ملک میں تبدیلی کی ہوا چلا دی گئی ہے جس کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر نئے انداز میں نئے جوش و جذبے کے ساتھ تبدیلی آرہی ہے۔“
”ارے جتنا کہا ہے اس پر ہی بات کرو، اپنا دماغ زیادہ مت چلاؤ ،بات کرکٹ کی اصطلاح تک محدود رکھو۔ بس تم اتنا سمجھ لو کہ اِس مرتبہ بھی انتخابات صاف اور شفاف ہوں گے۔“