فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کاہولناک منصوبہ

323

غزہ کے نہتے عوام پر اسرائیلی بمباری کے خلاف پوری دنیا احتجاج کرتی رہی اور تواتر سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا کہ رفح کراسنگ کھول دی جائے، مگر دنیا کے اس مطالبے پرعالمی برادری کے کان پر جوں تک نہ رینگی، پھر اچانک 18اکتوبر کو امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے دورۂ اسرائیل کے دورا ن دنیا کو یہ یقین دلایاکہ مصر غزہ تک امداد پہنچانے کے لیے رفح کراسنگ کھول دے گا۔ دورے سے واپسی پر جب جوبائیڈن اپنے طیارے ایئر فورس ون پر سوار ہوئے تو انہوں نے سیسی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ،اس موقعے پر طرفین نے غزہ کے لیے امداد پہنچانے پر اتفاق کیا ،اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے بھی اس امر کی تصدیق کی کہ اسرائیل کراسنگ کے ذریعے غزہ جانے والی انسانی امداد کو نہیں روکے گا۔پھر مصر نے جوبائیڈن کے دورے کے دو دن بعد 21اکتوبر کو رفح کراسنگ کھول دیا۔

خطے کی صورتِ حال پر گہری نگاہ رکھنے والوں کو اس اچانک تبدیلی اور پیش رفت پردال میں کچھ کالا محسوس ہوا، باخبر حلقوں نے اس معاملے پر خدشات کا اظہار کیا،ان کا کہنا تھا کہ اس پیش رفت اور اتفاق میں اسرائیل کے مفادات کا تحفظ پنہاں ہے۔ مگر اس حقیقت سے پردہ حماس تحریک کے ایک سرکردہ رہنما نے ”الجزیرہ“ کو یہ بتاتے ہوئے اٹھایا کہ امریکہ اور اسرائیل غزہ پر قبضے کے منصوبے کے تحت یہاں کی نصف آبادی کو مصر منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ جب کہ ذرائع کا کہنا تھا کہ امریکی صدر اس منصوبے کو قبول کرنے کے لیے مصر پر دباؤ ڈالنے کے لیے خطے میں آئے تھے، جس سے اشارہ ملتا ہے کہ اس منصوبے کو قبول کرنے کے بدلے میں مصر کواُس کے قرضےختم کرنے کی پیشکش کی جائے گی ۔

بادی النظر میں ان اندیشوں اور خدشات کا اظہاررفح کراسنگ کے کھلنے کے تناظر میں کیا جاتا رہا، تاہم بعد کی اطلاعات نے اس امر کی تصدیق کی کہ بہرحال غزہ کے عوام کو فلسطین سے بے دخل کرنے کے ہولناک منصوبے بنائے جاچکے ہیں۔

بدھ 24اکتوبر کواسرائیلی اخبا رکیلکالسٹ (Calcalist) کی رپورٹ میں ایک خفیہ دستاویز کا انکشاف ہوا ہے جو کہ اسرائیلی انٹیلی جنس وزیر گیلا گمالیل کی ایک سفارش تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ کے رہائشیوں کو ”زبردستی“ سینائی منتقل کیا جانا چاہیے۔ مذکورہ اخبار نے یہ معلومات منگل کو حاصل کی گئی دستاویز کی بنیاد پر شائع کیں۔ اخبار کے مطابق گمالیل کی دستاویز میں سینائی منتقلی کے حوالے سے تین تجاویز پیش کی گئی ہیں،ان تجاویز میں 4 مراحل شامل ہیں:

غزہ کی پٹی کے جنوب مغرب میں جزیرہ نما سینائی میں خیمہ شہروں کا قیام۔

آبادی کی مدد کے لیے انسانی ہمدردی کی راہداری کا قیام۔

شمالی سینائی میں شہروں کی تعمیر۔

اسرائیل کے ساتھ سرحد کے جنوب میں مصر کے اندر کئی کلومیٹر چوڑا کنٹرول زون قائم کرنا ، تاکہ بے دخل کیے گئے باشندے واپس نہ آ سکیں۔

اس دستاویز میں دیگر ممالک کی ممکنہ بڑی تعداد کے ساتھ تعاون پیدا کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے، تاکہ وہ غزہ سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو حاصل کر سکیں، تاہم گمالیل کی دستاویز کے مطابق، بین الاقوامی قانون میں مصر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آبادی کی منتقلی کی اجازت دے۔

واضح رہے غزہ کے عوام کو مصری سینائی میں آباد کرنے کا منصوبہ آج کا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے،برسوں سےاسرائیلی طاقتور حلقوں کے اندریہ بات ہوتی رہی ہے کہ غزہ کے لوگوں کو ایک حل کے طور پر مصری سینائی میں رہنے پر مجبور کیا جائے۔ یہ تجویز 1950کی دہائی میں اقوامِ متحدہ میں بھی پیش کی گئی تھی۔ اُس وقت مصر میں جمال عبد الناصر کی حکومت تھی۔ تاہم اقوام متحدہ میں اس تجویز کی شدید مخالفت کی گئی تھی اور اس کے خلاف زبردست احتجاج بھی ہوا ۔

ادھر مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال پر نظر رکھنے والی ایک ویب سائٹ Middle East Eye نے بھی لکھا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کے مہاجرین کی میزبانی کے لیے مصر کے قرضے معاف کرنے کی تجویز پیش کی،اسرائیل کی Ynetویب سائٹ کے مطابق اسرائیل نے مصری صدر سیسی کو بے گھر فلسطینیوں کے لیے اپنے دروازے کھولنے پر آمادہ کرنے کے لیے عالمی بینک کے ذریعے مصر کے بین الاقوامی قرضوں کا ایک بڑا حصہ معاف کرنے کی تجویز بھی پیش کی ہے،ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ اسرائیل نے اس ضمن میں یورپی ممالک کے ذریعے مصر پر دباؤ بڑھانا شروع بھی کردیا ہے۔واضح رہے کہ مصر اس وقت قرضوں کے بحران میں گھرا ہوا ہے،اور قرض کی ادائیگیوں میں سب سے ناکام ریاستوں میں یوکرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔

دوسری جانب امریکی ویب سائٹ وکی لیکس نے بھی غزہ کی فلسطینی آبادی کو بے دخل کرکے مصر کے علاقے جزیرہ نما شمالی سینائی میں منتقل کرنے کے منصوبےسے متعلق اسرائیلی حکومت کی خفیہ دستاویز جاری کردی ہیں،جس سے اس باب میں رہا سہا ابہام بھی دور ہوگیا۔

ایک اطلاع یہ ہے کہ مصر نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شہریوں کو سینا کی طرف بھاگنے کی ترغیب دینے کے بجائے پٹی سے نکلنے کے لیے محفوظ راہداری کھولے، دوسری جانب یہ خبر ہے کہ شمالی سینائی کے گورنر نے کہا ہے کہ وہ زخمی فلسطینیوں کو وصول کرنے کے لیے تیار ہیں۔جبکہ کئی ہزار فلسطینی اسرائیلی بمباری سے بچنے کے لیے شمالی سینائی کے العریش شہر میں پناہ گزین ہیں۔

تاہم قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے غزہ کی پٹی سے جزیرہ نما سینائی میں فلسطینیوں کی نقل مکانی کو دوٹوک الفاظ میں مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر ضروری ہو توفلسطینیوں کو سینا کے بجائے اسرائیل کے صحرائے نیگیو میں منتقل کیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم پر دباؤ ڈالا گیا تو پوری مصری قوم میری پشت پر ہوگی۔ اس حوالے سے گزشتہ جمعہ کو پورے مصر میں زبردست مظاہرے کروائے گئےجن کا سب سے نمایاں عنوان تھا” سینائی ایک سرخ لکیر ہے،فلسطینیوں کے بے گھر ہونے کے لیے نہیں“۔ سیسی نے جرمن چانسلر اولاف شولز کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ”فلسطینیوں کی جبری بے گھری کی اجازت نہیں دی جاسکتی“۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کوغزہ سے مصر اور ویسٹ بینک سے اردن منتقل کرناانہیں بے گھر کرنے کے مترادف ہے۔سیسی نے واضح کیا کہ مصر فلسطینی کاز کو ختم کرنے اور فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے کو مسترد کرتا ہے۔سیسی کا کہنا ہے کہ بے دخلی کے اقدام سے سینائی اسرائیل کے خلاف حملوں کے اڈے میں تبدیل ہو جائے گا۔

بین الاقوامی امور کے ایک عرب ماہرکا کہنا ہے کہ مصر فلسطینی عوام کی جبری نقل مکانی کے خیال کو واضح طور پر مسترد کرتا ہے، مصرکسی بھی صورت اس مسئلے پر سمجھوتہ نہیں کرے گا کیونکہ بین الاقوامی سیاست کے مطابق ریاست ”زمین، عوام اور اختیار“ پر مشتمل ہوتی ہے اور جب نقل مکانی ہوگی تو وہاں کوئی فلسطینی ریاست نہیں ہوگی ، اس لیے بنیادی مقصد مسئلہ فلسطین کو ختم کرنا ہے،معاملہ صرف غزہ سے بے دخلی کا نہیں ہے اس کا تعلق اردن کے مغربی کنارے سے فلسطینیوں کی نقل مکانی سے بھی ہے۔یہ ایک خطرناک معاملہ ہے، اگر مصری سرزمین سے اسرائیل کے خلاف مزاحمتی کارروائیاں کی جاتی ہیں، تو اسرائیل اس کا جواب دے گااور اس طرح یہ مصر کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہو گا، اور اسے تنازعے میں گھسیٹا جاسکتا ہے۔

قاہرہ امن کانفرنس میں بھی سیسی نے اپنے اسی عزم کا اعادہ کیا، جب کہ مصری فوجی اور تزویراتی ماہر میجر جنرل سمیر فراغ نے غزہ کے عوام کو سینائی منتقل کرنے کی تجویز کو مسترد کیا۔

واضح رہے کہ مصر کا جزیرہ نما سینائی تقریباً 67 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل ایک مثلث نما علاقہ ہے جو کہ زیادہ تر ریگستان اور خشک پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اس کے شمال میں بحیرہ روم اور جنوب میں بحیرہ احمر ہے، مغرب میں نہر سوئز اور مشرق میں اسرائیل ہے۔سینائی اور غزہ کے درمیان رفح کراسنگ واحد زمینی راستہ ہے جو اس فلسطینی علاقے میں شامل ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ نہیں۔

اس سارے کھیل میں منصوبہ یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں اسرائیل غزہ میں مسلسل بمباری کے ذریعے دبائو بڑھائے گا تاکہ لاکھوں ستم رسیدہ لوگ بالآخر رفح کراسنگ سے گزر سکیں،دوسرے مرحلے میں جب مصر فلسطینیوں کو سینا میں آباد کرنے پر راضی ہو جائے تو اسرائیل اور امریکہ عالمی برادری ،اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزینوں (UNRWA) اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ اس سلسلے میں فوری طور پر مصر کی اقتصادی مدد کریں تاکہ غزہ کے باشندوں کو مصر میں جذب کرایا جاسکے۔اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے اسرائیل اور مغربی طاقتیں کچھ بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں، ان کا خیال ہے کہ آبادی کو خالی کرنے کا مطلب ایک زبردست فتح ہے جو تمام شعبوں میں ڈیٹرنس بحال کرے گی،اس سے سعودی عرب کے ساتھ امن قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ میں اسرائیل طاقت کا بے محابا استعمال کر رہا ہے۔

مذکورہ خدشات،اطلاعات اور اسرائیلی انٹیلی جنس کی خفیہ دستاویز کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنےکاکون ساکھیل کھیلا جارہا ہے۔یوں تو مصری ڈکٹیٹر کا بیان بظاہرحوصلہ افزا اور فلسطینی عوام کے احساسات و جذبات کا ترجمان محسوس ہوتا ہے،مگرکون معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میںیہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

حصہ