’’خدا کے راستے میں شہید ہونے والے کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ میں سچے رب کے رستے پر سو بار لڑوں اور جان دے دوں، پھر لوٹ کے دنیا میں آؤں پھر جام شہادت نوش کروں۔‘‘
دیکھیے تو، جام شہادت پینے والوں کے چہرے کی مسکراہٹ کتنی پیاری ہے۔ موت کی کیفیت دنیا والوں سے چھپی ہوئی ہے، کوئی نہیں جانتا کہ مرنے والے کس کیفیت میں عالمِ ارواح کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ لیکن جامِ شہادت پینے والے اپنے رب سے ملاقات کے لیے اس قدر بے تاب ہوتے ہیں کہ دنیا سے روانہ ہوتے وقت سرشاری چہرے پر رقم ہوجاتی ہے۔ اس شہید کی مسکراہٹ ہمیں کئی طرح کے پیغام دے رہی ہے۔ فلسطین میں بیت المقدس کے محافظ جب جان، جانِ آفریں کے سپرد کرتے ہیں تو مشک کی خوشبو سے غزہ مہک جاتا ہے۔ بیت المقدس صہیونیوں سے آزاد کروانا انہیں دنیا کے عیش و آرام اور دنیاوی لذتوں سے زیادہ عزیز ہے۔ روزانہ سیکڑوں جنازے اٹھانے کے باوجود معصوم بچوں کے بھاری جنازے، جو اعصاب توڑ کر رکھ دیں۔ لیکن وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹتے، اپنے خدا سے تعلق مزید مضبوط کرکے نئے سرے سے ظالم صہیونیوں سے برسرپیکار ہوجاتے ہیں۔ یہ دنیا کیا ہے… اتنی حقیر شے، فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ’’جیسے بکری کا مرا ہوا بچہ۔‘‘
اس دنیا میں اسٹیٹس کی دوڑ، کامیابی کے پیمانے، آسودگی کے معنی و مفہوم ہی بدل ڈالے فلسطینی قوم نے۔
بہارِ تازہ کب آئے گی تُو، خزاں کا موسم گزر چکا ہے
جو کاٹتی تھی سروں کی فصلیں درانتی میں نے وہ توڑ دی ہے
تھی ضرب کاری ہتھوڑے والی وہ ضرب، دشمن پہ موڑ دی ہے
جو میری عزت پہ حملہ کش تھے کلائی ان کی مروڑ دی ہے
اٹھی تھی جو دینِ حق کی جانب وہ چشمِ گستاخ پھوڑ دی ہے
میرے عمل نے غلام قوموں کو حریت کا سبق دیا ہے
یہ وہ سبق ہے جو فلسطین کے شہدا ہمیں دے رہے ہیں کہ غلامی قبول نہیں ہے، اسیری توڑنے کے لیے حمیت ضروری ہے، اور حمیت حریت کا درس دیتی ہے۔
اب وقت ہے کہ جس طرح بھی، جس قدر بھی امت اپنی غلامی کے طوق اتار پھینکے، اپنی کمزوریوں کو دور کرکے جسدِ واحد کی طرح زمین کے سینے پر اپنا وجود مستحکم کرے۔ اب وہ وقت آگیا ہے جب حزب اللہ اور حزب الشیطان بس دو ہی گروہ ہوں گے زمین پر۔ حکمراں جس قدر بھی آئیں بائیں شائیں کریں، امت ان کے رویّے کو پُرجوش طریقے سے مسترد کرے۔
فلسطین کے معصوم بچوں کے جنازے راتوں کو سونے نہیں دے رہے، وہاں بمباری کی تباہ کاریاں دیکھ کر بددعائیں جاری ہیں زبان پر۔ لیکن اس غم کو قوت بناکر امت اپنی صفیں ازسرِنو ترتیب دے۔ یہودی اشیا کا بائیکاٹ کریں۔ لوگوں کو فلسطینی جدوجہد کی تفصیل سنائیں۔ دل کھول کر انفاق کریں۔ جس طرح سے بھی مال میں حصہ نکل سکے، نکالیں۔ تہجد میں دعائیں کریں۔ لکھیں، وڈیو بنائیں۔ بس
حزب اللہ کے گروہ میں شامل ہوجائیں۔
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا