بزمِ قدیر صدیقی کے زیر اہتمام نعتیہ مشاعرہ

403

15 اکتوبر 2023ء کو سعدی ٹائون کراچی میں بزمِ قدیر صدیقی کے زیر اہتمام قدیر صدیقی مرحوم کے شعری مجموعے ’’اپنی تلاش‘‘ کی تعارفی تقریب اور نعتیہ مشاعرے کا انعقاد ہوا۔ عمر وارثی اور فیروز ناطق خسرو اس پروگرام کی مجلسِ صدارت میں شامل تھے۔ احسن قدیر نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ مہمان خصوصی عبیداللہ ساگر تھے۔ تقریب کے پہلے دور میں قدیر صدیقی کے صاحبزادے احسن قدیر نے شعری مجموعے ’’اپنی تلاش‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد کو انگریزی‘عربی‘ فارسی اور اردو زبان پر دسترس حاصل تھی‘ ان کے بیشتر اشعار فارسی میں ہیں۔ وہ مجلسی طبیعت رکھتے تھے‘ ہمارے گھر میں اس زمانے کے قد آور قلم کاروں کی محفلیں ہوتی تھیں۔ وہ انسان دوست تھے‘ وہ سچے عاشق رسول بھی تھے۔ انہوں نے تمام عمر ادبی مشاغل میں بسر کی۔ اختر سعیدی نے کہا کہ بدایوں سے تعلق رکھنے والی نابغۂ روزگار علمی و ادبی شخصیات کی طویل فہرست میں قدیر صدیقی (مرحوم) بھی شامل ہیں۔ قدیر صدیقی نے تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی لیکن غزل ان کی شناخت ٹھہری‘ ان کی غزل ادب کی کلاسیکی روایت سے جڑی ہوئی ہے لیکن لہجے میں جدید طرزِ احساس بھی نمایاں ہے۔ ان کی نعتیہ شاعری حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت و محبت کا مظہر ہے۔ انہیں فارسی کے مطالعے کا بہت شوق تھا۔ فارسی کا اسلوب ان کی شاعری پر حاوی ہے۔ ان کی کتاب پر مستند ناقدانِ فن نے جو تبصرے کیے ہیں وہ ان کے لیے سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ شارق رشید نے کہا کہ قدیر صدیقی میرے تایا تھے‘ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ انہوں نے زندگی بھر علم و ادب کی ترویج و اشاعت میں حصہ لیا وہ جوش ملیح آبادی کے خاص دوستوں میں شامل تھے۔ ان کی غزلیں تروتازہ اور توانا ہیں ان کی نظموں میں زندگی رواں دواں ہے۔ انہوں نے معاشرے کے تمام مسائل پر قلم اٹھایا تاہم وہ غمِ جاناں کے معاملات میں نظم کرتے رہے ہیں۔ عبیداللہ ساگر نے کہا کہ وہ ایک بڑے شاعر تھے‘ انہوں نے بہت خوب صورت اور بامعنی اشعارکہے ہیں۔ ان کے صاحبزادگان نے ان کی کتاب شائع کرکے ایک قابل تحسین عمل کیا ہے۔ فیروز ناطق خسرونے کہا کہ قدیر صدیقی کی غزلوں میں زندگی کا شعور اور اپنے عہد کی سچائیاں نظر آتی ہیں انہوں نے اپنے شعری مجموعے کا نام ’’اپنی تلاش‘‘ رکھا ہے۔ یہ بات معنی خیز ہے کیوں کہ ہر تخلیق کار اپنی ہی تلاش میں رہتا ہے وہ خارجی دنیا سے اپنی ذات کو مربوط کرکے اپنی زندگی کی معنویت آشکار کرتا ہے مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب قارئین ادب کو بہت پسند آئے گی۔ قمر وارثی نے کہا کہ قدیر صدیقی ایک معتبر شاعر تھے ان کے کلام میں غنائیت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے بھرپور زندگی گزاری اور اپنے مشاہدات‘ تجربات کے علاوہ زمانے بھر کے روّیوں پر اشعار کہے‘ میں انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ تقریب کے دوسرے دور میں نعتیہ مشاعرہ ہوا جس میں قمر وارثی‘ فیروزناطق خسرو‘ عبیداللہ ساگر‘ جمال احمد جمال راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ نور سہارن پوری‘ اکرام الحق اورنگ‘ آسی سلطانی‘ یامین وارثی‘ نعیم انصاری‘ م۔م۔ مغل‘ سحر وارثی‘ افضل شاہ‘ ہاشم رشید‘ مقبول زیدی‘ احسن قدیر‘ شارق رشید‘ کاوش کاظمی اور نجیب ناصر نے نعتیہ کلام پیش کیے۔

روٹری کلب لٹریچر کمیٹی کا مشاعرہ

گزشتہ ہفتے روٹری کلب لٹریچر کمیٹی کے زیر اہتمام گورنر آف روٹری سیکرٹریٹ کراچی میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا جس کی صدارت ساجد رضوی نے کی۔ حنیف خان مہمان خصوصی تھے۔ حنیف عابد نے نظامت کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ روٹری کلب کا قیام 1905ء میں ہوا اس وقت 200 ممالک میں اس کی شاخیں قائم ہیں جب کہ اس کے ممبران کی تعداد 15 لاکھ ہے۔ ہمارے گورنر آف روٹری کلب نے لٹریچر کمیٹی قائم کی ہے امید ہے کہ ہم بہت جلد روٹری ادبی فیسٹول کا تین روزہ پروگرام منعقد کریںگے۔ حنیف خان نے کہا کہ میری کوشش ہے کہ روٹری کلب کے تحت زیادہ سے زیادہ سماجی اور ادبی کام ہو سکے روٹری کلب کی خدمات تاریخ میں سنہرے حروف سے رقم ہیں ہم انتہائی دل جمعی کے ساتھ انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ صاحبِ صدر ساجد رضوی نے کہا کہ یہ ادارہ ادبی پروگرام بھی مرتب کر رہا ہے یہ بھی قابل ستائش اقدام ہے انہوں نے مزید کہا کہ آج کل کراچی میں امن وامان کی صورت حال بہت بہتر ہے جس کے سبب ادبی تقریبات کا زور ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شعرائے کرام ہمارے معاشرے کا اہم حصہ ہیں جو ہمیں ذہنی آسودگی فراہم کرنے کے علاوہ ہماری معلومات میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔ مشاعرے میں ساجد رضوی‘ اختر سعیدی‘ حنیف عابد‘ فیاض علی فیاض‘ زاہد حسین جوہری‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ احمد سعید خان‘ تنویر سخن‘ دل شاد زیدی‘ عتیق الرحمن اور شازیہ عالم شازی نے کلام پیش کیا۔

حصہ