آسائشوں کے بغیر بھی سب ایک تھے

490

بچپن میں بہن بھائیوں کا ذرا ذرا سی بات لڑنا، پھر روٹھنا، پھر ساری ناراضی بھلا کر ایک ہوجانا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ بعض اوقات تو بھائی بہن ایک دوسروں کو تھپڑوں سے بھی نوازتے تھے لیکن چند لمحوں کے بعد پھر سے مل جل کر کھیل کود میں لگ جاتے۔ ہاں اگر کبھی اماں یا ابا کے ہاتھوں کسی بہن یا بھائی کو مار پڑتی تو دوسرا اداس ہوجاتا بلکہ مار کھانے والے سے پہلے دیکھنے والے کے آنسو نکل آتے… اور آج کیسی بے حسی کا دور ہے کہ اکثر گھرانوں میں بھائی بھائی کا دشمن بن گیا ہے۔ دلوں میں بغض و عداوت نے رشتوں میں دراڑیں پیدا کردی ہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر ملنا جلنا تو کیا، بات کرنا بھی ختم کردی جاتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جائداد اور مال کی کھینچا تانی نفرتوں کے بیج بوتی ہے جو بڑھتے بڑھتے تناور درخت بن جاتی ہیں۔ آج چاروں طرف کی یہ صورتِ حال دیکھ کر اپنے بزرگوں کے دور سے موازنہ کریں تو اُن کے زمانے میں یہ گمبھیر مسائل درپیش نہ تھے۔ ایک ہی چھت تلے تین چار خاندان اکٹھے محبت سے رہتے تھے۔ بھائی بھائی کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار رہتا تھا۔ ’’یہ تیرا اور یہ میرا‘‘ والا جھگڑا کم ہی نظر آتا تھا۔ میرے والد مرحوم (اللہ رب العزت ان کے درجات بلند فرمائے) اپنے بچپن اور جوانی کے بارے میں بتاتے تھے کہ دوسو گز پر بنے گھر میں تقریباً 20 افراد پر مشتمل ہمارا خاندان ایک چھت تلے رہتا تھا۔ یہ کس کا ذاتی مکان ہے، اس سے کسی کو غرض نہیں تھی۔ کماتا کون کون ہے یا کون نہیں کماتا، اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ لیکن سب کے بچے پیٹ بھر کر کھانا کھاتے۔ کوئی کسی کو طعنہ نہ دیتا کہ تمہارا باپ نہیں کماتا۔ ایک اور بات یہ کہ سب کے بچوں کی دیکھ بھال کی ذمے داری خاندان کی تمام خواتین کی تھی۔ مثلاً میرے بابا جب پانچ سال کے تھے تو اُن کی والدہ انتقال کرگئی تھیں، تو بابا کی پرورش چچی اور پھوپھیوں نے کی اور انہیں ماں کی کمی کا احساس تک نہ ہونے دیا۔

ہمارے دادا گھر کے بڑے تھے لہٰذا سب کی کفالت کا تقریباً سارا بوجھ انہی کے کندھوں پر تھا۔ ان کی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے بابا نے (جو اُس وقت سندھ مدرسۃ الاسلام اسکول میں میٹرک کے طالب علم تھے) نہ صرف اپنے والد کا کاروبار سنبھالا بلکہ خاندانی ذمہ داریوں کو بھی اپنے والد کی طرح بہ حسن وخوبی انجام دیا۔ کیا آج کل مذکورہ بالا خوب صورتی رشتوں میں نظر آتی ہے؟ بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر۔ اپنے بچے بڑے ہوئے نہیں کہ لوگ نظریں چرانے لگتے ہیں۔ مجھے میری ایک بہت پیاری دوست نے (جس کے شوہر کے انتقال کو تقریباً ڈیڑھ برس ہوا ہے) انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ بتایا کہ سب بہن بھائی صاحبِ حیثیت ہیں، لیکن میری تنگ دستی پر کسی نے مدد نہیں کی۔ مجھ سے یوں کترانے لگے ہیں کہ کہیں میں ان سے مالی امداد نہ مانگ لوں۔

ان خاتون کی اس افسوس ناک صورت حال پر مجھے اپنے مرحوم والد کے خاندان کی بات یاد آگئی، اور صرف میرے والد کے خاندان میں ہی یہ خوبی موجود نہیں تھی بلکہ اُس زمانے میں زیادہ تر لوگوں کا طرزعمل ایسا ہی تھا کہ آسائشیں نہ ہونے کے باوجود اپنوں کے دکھ درد میں سب شامل ہوتے تھے۔ اور آج سب کچھ ہوتے ہوئے بھی بہت سے لوگوں کے دل مُردہ ہیں کہ وہ اپنوں کا بھی درد نہیں بانٹ سکتے۔ افسوس صد افسوس۔

حصہ