رنج و غم کے آداب

734

-1مصائب کو صبر و سکون کے ساتھ برداشت کیجیے، کبھی ہمت نہ ہاریئے اور رنج و غم کو کبھی حد اعتدال سے نہ بڑھنے دیجیے۔ دنیا کی زندگی میں کوئی بھی انسان رنج و غم، مصیبت و تکلیف، آفت و ناکامی اور نقصان سے بے خوف اور مامون نہیں رہ سکتا۔ البتہ مومن اور کافر کے کردار میں یہ فرق ضرور ہوتا ہے کہ کافر رنج و غم کے ہجوم میں پریشان ہوکر ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے، مایوسی کا شکار ہوکر ہاتھ پیر چھوڑ دیتا ہے اور بعض اوقات غم کی تاب نہ لاکر خودکشی کرلیتا ہے اور مومن بڑے سے بڑے حادثے پر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا اور صبر و ثبات کا پیکر بن کر چٹان کی طرح جما رہتا ہے۔ وہ یوں سوچتا ہے کہ یہ جو کچھ ہوا قتدیر الٰہی کے مطابق ہوا اللہ کا کوئی حکم حکمت و مصلحت سے خالی نہیں اور یہ سوچ کر ’’اللہ جو کچھ کرتا ہے اپنے بندے کی بہتری کے لئے کرتا ہے، یقیناً اس میں خیر کا پہلو ہوگا‘‘ مومن کو ایسا سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ غم کی چوٹ میں لذت آنے لگتی ہے اور تقدیر کا یہ عقیدہ ہر مشکل کو آسان بنادیتا ہے۔

اللہ کا ارشاد ہے:
’’جو مصائب بھی روئے زمین میں آتے ہیں اور جو آفتیں بھی تم پر آتی ہیں وہ سب اس سے پہلے کہ ہمیں وجود میں لائیں، ایک کتاب میں (لکھی ہوئی محفوظ اور طے شدہ) ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بات اللہ کے لیے آسان ہے تاکہ تم اپنی ناکافی پر غم نہ کرتے رہو‘‘۔ (الحدید: 22/57، 23)

یعنی تقدیر پر ایمان لانے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ مومن بڑے سے بڑے سانحے کو بھی قضا و قدر کا فیصلہ سمجھ کر اپنے غم کا علاج پالیتا ہے اور پریشان نہیں ہوتا۔ وہ ہر معاملے کی نسبت اپنے مہربان اللہ کی طرف کرکے خیر کے پہلو پر نگاہ جمالیتا ہے اور صبر و شکر کرکے ہر شر میں سے اپنے لئے خیر نکالنے کی کوشش کرتا ہے، نبیؐ کا ارشاد ہے:

’’مومن کا معاملہ بھی خوب ہی ہے، وہ جس حال میں بھی ہوتا ہے خیر ہی سمیٹا ہے اگر وہ دکھ، بیماری اور تنگ دستی سے دوچار ہوتا ہے تو سکون کے ساتھ برداشت کرتا ہے اور یہ آزمائش اس کے حق میں خیر ثابت ہوتی ہے اور اگر اس کو خوشی اور خوش حالی نصیب ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے اور یہ خوش حالی اس کے لیے خیر کا سبب بنتی ہے‘‘۔ (مسلم)

-2 جب رنج و غم کی کوئی خبر سنیں یا کوئی نقصان ہوجائے یا کوئی دکھ اور تکلیف پہنچے یا کسی ناگہانی مصیبت میں اللہ نہ کرے گرفتار ہوجائیں تو فوراً ’’انا اللہ و انا الیہ راجعون‘‘ (البقرہ) پڑھیے۔ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں‘‘۔

مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے سب اللہ کا ہی ہے، اسی نے دیا اور وہی لینے والا ہے۔ ہم بھی اسی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جائیں گے۔ ہم ہر حال میں اللہ کی رضا پر راضی ہیں۔ اس کا ہر کام مصلحت، حکمت اور انصاف پر مبنی ہے۔ وہ جو کچھ کرتا ہے کسی بڑے خیر کے پیش نظر کرتا ہے۔ وفادار غلام کا کام یہ ہے کہ کسی وقت بھی اس کے ماتھے پر شکن نہ آئے۔

اللہ کا ارشاد ہے:
’’اور ہم ضرور تمہیںخوف و خطر، بھوک، مال و جان کے نقصان اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے اور خوش خبری ان لوگوں کو دیجیے جو مصیبت پڑنے پر (صبر کرتے ہیں اور) کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی اور اس کی رحمت ہوگی اور ایسے ہی لوگ راہ ہدایت پر ہیں‘‘۔(البقرۃ 157-155/2)

نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’جو کوئی بندہ مصیبت پڑنے پر ’’انا اللہ و انا الیہ راجعون‘‘ پڑھتا ہے تو اللہ اس کی مصیبت دور فرما دیتا ہے۔ اس کو اچھے انجام سے نوازتا ہے اور اس کو اس کی پسندیدہ چیز اس کے صلے میں عطا فرماتا ہے‘‘۔

ایک بار نبیؐ کا چراغ بجھ گیا تو آپؐ نے پڑھا ’’’’انا اللہ و انا الیہ راجعون‘‘ کسی نے کہا: یا رسولؐ اللہ کیا چراغ کا بجھنا بھی کوئی مصیبت ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جی ہاں! جس بات سے بھی مومن کو دکھ پہنچے وہ مصیبت ہے‘‘۔

اور نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’جس مسلمان کو بھی کوئی قلبی اذیت جسمانی تکلیف اور بیماری، کوئی رنج اور دکھ پہنچتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جاتا ہے (اور وہ اس پر صبر کرتا ہے) تو اللہ اس کے گناہوں کو معارف فرما دیتا ہے‘‘۔ (بخاری و مسلم)

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’جتنی سخت آزمائش اور مصیبت ہوتی ہے اتنا ہی بڑا اس کا صلہ ہوتا ہے اور جب کسی گروہ سے محبت کرتا ہے تو ان کو (مزید نکھارنے اور کندن بنانے کے لیے) آزمائش میں مبتلا کردیتا ہی، پس جو لوگ اللہ کی رضا پر راضی رہیں اللہ بھی ان سے راضی ہوتا ہے اور جو اس آزمائش میں اللہ سے ناراض ہوں اللہ بھی ان سے ناراض ہوجاتا ہے‘‘۔ (ترمذی)

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا:
’’جب کسی بندے کا کوئی بچہ مرتا ہے تو اللہ اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے کیا تم نے میرے بندے کے بچے کی جان قبض کرلی؟ وہ کہتے ہیں ہاں۔ پھر وہ ان سے پوچھتا ہے تم نے اس کے جگر کے ٹکڑے کی جان نکال لی؟ وہ کہتے ہیں ہاں۔ پھر وہ ان سے پوچھتا ہے تو میرے بندنے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں کہ اس مصیبت میں اس نے تیری حمد کی اور ’’انا اللہ و انا الیہ راجعون‘‘ پڑھا تو اللہ ان سے فرماتا ہے میرے اس بندے کے لیے جنت میں ایک گھر تعمیر کرو اور اس کا نام بیت الحمد (شکر کا گھر) رکھو ‘‘۔ (ترمذی)

-3 کسی تکلیف اور رنج پر اظہار غم ایک فطری امر ہے، البتہ اس بات کا پورا پورا خیال رکھے غم اور اندوہ کی انتہائی شدت میں بھی زبان سے کوئی ناحق بات نہ نکلے اور صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔

نبیؐ کے صاحبزادے حضرت ابراہیمؓ نبیؐ کی گود میں تھے اور جان کنی کا عالم تھا۔ یہ رقت آمیز منظر دیکھ کر نبیؐ کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے اور فرمایا: ’’اے ابراہیم! ہم تیری جدائی میں مغموم ہیں مگر زبان سے وہی نکلے گا جو پروردگار کی مرضی کے مطابق ہوگا‘‘۔ (مسلم)

-4 غم کی شدت میں بھی کوئی ایسی حرکت نہ کیجیے جس سے ناشکری اور شکایت کی بو آئے اور جو شریعت کے خلاف ہو۔ دھاڑیں مار مار کر رونا، گریبان پھاڑنا، گالوں پر طمانچے مارنا، چیخنا چلانا اور ماتم میں سر، سینہ پیٹنا مومن کے لیے کسی طرح جائز نہیں۔ نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’جو شخص گریبان پھاڑتا، گالوں پر طمانچے مارتا اور جاہلیت کی طرح چیختا چلاتا اور بین کرتا ہے وہ میری امت میں نہیں‘‘۔ (ترمذی)

حضرت جعفر طیارؓ جب شہید ہوئے اور ان کی شہادت کی خبر ان کے گھر میں پہنچی تو ان کے گھر کی عورتیں چیخنے لگیں اور ماتم کرنے لگیں۔ نبیؐ نے کہلا بھیجا کہ ماتم نہ کیا جائے مگر وہ باز نہ آئیں تو آپؐ نے دوبارہ منع فرمایا، پھر بھی وہ نہ مانیں تو آپؐ نے حکم دیا ان کے منہ میں خاک بھردو‘‘۔ (بخاری)

ایک بار آپؐ ایک جنازہ میں شریک تھے۔ ایک عورت انگیٹھی لیے ہوئے آئی، آپؐ نے اس کو اتنی سختی سے ڈانٹا کہ اسی وقت بھاگ گئی۔ (سیرت النبیؐ، ششم)

اور آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جنازے کے پیچھے کوئی آگ اور راگ لے کر نہ جائے‘‘۔

عرب میں یہ رسم تھی کہ لوگ جنازے کے پیچھے چلتے تو اظہار غم میں اپنی چادر پھینک دیتے تھے، ایک بار آپؐ نے لوگوں کو اس حال میں دیکھا تو فرمایا: ’’جاہلیت کی رسم اختیار کررہے ہو، میرے جی میں آیا کہ تمہارے حق میں ایسی بددعا کروں کہ تمہاری صورتیں ہی مسخ ہوجائیں‘‘۔ لوگوں نے اسی وقت اپنی اپنی چادریں اوڑھ لیں اور پھر کبھی نہ ایسا کیا۔ (ابن ماجہ)

-5 بیماری کو برا بھلا نہ کیجیے اور نہ حرف شکایت زبان پر لایئے، بلکہ نہایت صبر و ضبط سے کام لیجیے اور اجر آخرت کی تمنا کیجیے۔

بیماری جھیلنے اور اذیتیں برداشت کرنے سے مومن کے گناہ دھلتے ہیں اور اس کا تزکیہ ہوتا ہے اور آخرت میں اجر عظیم ملتا ہے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:

’’مومن کو جسمانی اذیت یا بیماری یا کسی اور وجہ سے جو بھی دکھ پہنچتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے سبب سے اس کے گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتوں کو جھاڑ دیتا ہے‘‘۔(مسلم)

ایک بار نبیؐ نے ایک خاتون کو کانپتے ہوئے دیکھ کر پوچھا، اے ام سائب یا مسیب! کیا بات ہے تم کیوں کانپ رہی ہو؟ کہنے لگیں مجھے بخار نے گھیر رکھا ہے، اس کو اللہ سمجھے! نبیؐ نے ہدایت فرمائی کہ ’’نہیں بخار کو برا مت کہو، اس لیے کہ بخار اس طرح اولاد آدم کو گناہوں سے پاک کردیتا ہے، جس طرح آگ لوہے کے میل کو دور کرکے صاف کرتی ہے‘‘ (مسلم)

حضرت عطا بن رباحؓ اپنا ایک قصہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار کعبہ کے پاس حضرت عباسؓ مجھ سے بولے: ’’تمہیں ایک جنتی خاتون دکھائوں؟‘‘

میں نے کہا، ضرور دکھایئے۔ کہا دیکھو! یہ جو کالی کلوٹی عورت ہے یہ ایک بار نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بولی یا رسولؐ اللہ! مجھے مرگی کا ایساد ورہ پڑتا ہے کہ تن بدن کا ہوش نہیں رہتا اور اس حالت میں بالکل ننگی ہوجاتی ہوں، یا رسولؐ اللہ! میرے لیے اللہ سے دعا کیجیے۔ نبیؐ نے ارشاد فرمایا:’’اگر تم اس تکلیف کو صبر کے ساتھ برداشت کرتی رہو تو اللہ تمہیں جنت سے نوازے گا اور اگر چاہو تو میں اللہ سے دعا کروں کہ اللہ تمہیں اچھا کردے گا‘‘۔ یہ سن کر وہ خاتون بولی یا رسولؐ اللہ! میں اس تکلیف کو توصبر کے ساتھ برداشت کرتی رہوں گی، البتہ یہ دعا فرما دیجیے کہ میں اس حالت میں ننگی نہ ہوجایا کروں، تو نبیؐ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔ حضرت عطا کہتے ہیں کہ میں نے اس دراز قد خاتون ام فرز کو کعبہ کی سیڑھیوں پر دیکھا۔

-5 کسی کی موت پر تین دن سے زیادہ غم نہ منایئے۔ عزیزوں کی موت پر غمزدہ ہونا اور آنسو بہانا ایک فطری امر ہے لیکن اس کی مدت زیادہ سے زیادہ تین دن ہے۔ نبیؐ نے فرمایا: ’’کسی مومن کے لیے یہ جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ منائے، البتہ بیوہ کے سوگ کی مدت چار مہینے دس دن ہے، اس مدت میں نہ وہ کوئی رنگین کپڑا پہنے، نہ خوشبو لگائے اور نہ کوئی بنائو سنگار کرے‘‘ (ترمذی)

حضرت زینبت بنت جحشؓ کے بھائی کا انتقال ہوا تو چوتھے روز تعزیت کے لیے کچھ خواتین پہنچیں۔ انہوں نے سب کے سامنے خوشبو لگائی اور فرمایا مجھے اس وقت خوشبو لگانے کی کوئی حاجت نہیں تھی۔ میں نے یہ خوشبو محض اس لئے لگائی کہ میں نے نبیؐ سے یہ سنا ہے کہ کسی مسلمان خاتون کو شوہر کے کسی عزیز کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں۔

-7 رنج و غم اور مصیبت میں ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کیجیے۔ نبیؐ جب غزوۂ احد سے واپس تشریف لائے تو خواتین اپنے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کا حال معلوم کرنے کے لئے حاضر ہوئیں۔ جب حضرت حمنہ بنت جحشؓ نبیؐ کے سامنے آئیں تو آپؐ نے ان کو صبر کی تلقین فرمائی اور کہا اپنے بھائی عبداللہ پر صبر کرو۔ انہوں نے ’’انا اللہ و انا الیہ راجعون‘‘ پڑھا اور دعائے مغفرت کی۔ پھر آپؐ نے فرمایا اپنے ماموں حمزہؓ پر صبر کرو۔ انہوں نے پھر ’’انا اللہ و انا الیہ راجعون‘‘ پڑھا اور دعائے مغفرت کی۔

حضرت ابو طلحہؓ کا لڑکا بیمار تھا، وہ بچے کو اسی حال میں چھوڑ کر اپنے کام پر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد بچے کا انتقال ہوگیا۔ بیگم ابو طلحہؓ نے لوگوں سے کہہ دیا کہ ابو طلحہ کو اطلاع نہ ہونے پائے۔ وہ شام کو اپنے کام سے واپس آئے تو بیوی سے پوچھا بچے کا کیا حال ہے؟ بولیں پہلے سے زیادہ سکون میں ہی، یہ کر ابو طلحہؓ کے لیے کھانا لائیں۔ انہوں نے اطمینان سے کھانا کھایا اور لیٹ گئے۔ صبح ہوئی تو نیک بیوی نے حکیمانہ انداز میں پوچھا اگر کوئی کسی کو عاریتاً کوئی چیز دے دے اور پھر واپس مانگے تو کیا اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس چیز کو روک لے؟ ابو طلحہؓ نے کہا بھلا یہ حق کیسے حاصل ہوجائے گا، تو صابرہ بیوی نے کہا اپنے بیٹے پر بھی صبر کیجیے (مسلم)

-8 راہ حق میں آنے والی مصیبتوں کا خندہ پیشانی سے استقبال کیجیے اور اس راہ میں جو دکھ پہنچیں ان پر رنجیدہ ہونے کے بجائے مسرت محسوس کرتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کیجیے کہ اس نے اپنی راہ میں قربانی قبول فرمائی۔

حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی والدہ محترمہ حضرت اسماؓ سخت بیمار پڑیں، حضرت ان کی عیادت کے لئے آئے۔ ماں نے ان سے کہا بیٹے! دل میں یہ آرزو ہے کہ دو باتوں میں سے ایک جب تک نہ دیکھ لوں اللہ مجھے زندہ رکھے، یا تو میدان جنگ میں شہید ہوجائے اور میں تیری شہادت کی خبر سن کر صبر کی سعادت حاصل کروں، یا تو فتح پائے اور میں تجھے فاتح دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کروں۔ اللہ کا کرنا کہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے ان کی زندگی میں ہی جام شہادت نوش فرمایا، شہادت کے بعد حجاج نے ان کو سولی پر لٹکادیا۔ حضرت اسماؓ کافی ضعیف ہوچکی تھیں لیکن انتہائی کمزوری کے باوجود بھی وہ یہ رقت انگیز منظر دیکھنے کے لیے تشریف لائیں اور اپنے جگر گوشے کی لاش کو دیکھ کر رونے پیٹنے کے بجائے حجاج سے خطاب کرتے ہوئے بولیں ’’اس سوار کے لیے ابھی وقت نہیں آیاکہ گھوڑے کی پیٹھ سے نیچے اترے‘‘۔

-9 دکھ درد میں ایک دوسرے کا ساتھ دیجیے۔ دوستوں کے رنج و غم میں شرکت کیجیے اور ان کا غم غلط کرنے میں ہر طرح کا تعاون کیجیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:

’’سارے مسلمان مل کر ایک آدمی کے جسم کی طرح ہیں کہ اگر اس کی آنکھ بھی دکھے تو سارا بدن دکھ محسوس کرتا ہے اور سر میں درد ہو تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے‘‘ (مسلم)

حضرت جعفر طیارؓ جب شہید ہوئے تو آپؐ نے فرمایا: ’’جعفر کے گھر کھانا بھجوادو اس لیے کہ آج وفور غم میں ان کے گھر والے کھانا نہ پکاسکیں گے(ابودائود)

حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ نبیؐ نے فرمایا، جس شخص نے کسی ایسی عورت کی تعزیت کی جس کا بچہ مرگیا ہو تو اس کو جنت میں داخل کیا جائے گا اور جنت کی چادر اوڑھائی جائے گی (ترمذی)

اور نبیؐ نے یہ بھی فرمایس جس شخص نے کسی مصیبت زدہ کی تعریف کی تو اس کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا جتنا خود مصیبت زدہ کو ملے گا (ترمذی)

اسی سلسلے میں نبیؐ نے اس کی بھی تاکید کی ہے کہ جنازے میں شرکت کی جائے۔ حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’جو شخص جنازے میں شریک ہوا اور جنازے کی نماز پڑھی تو اس کو ایک قیراط بھر ثواب ملے گا اور جو نماز جنازہ کے بعد دفن میں بھی شریک ہوا تو اس کو دو قیراط ملیں گے۔ ’’کسی نے پوچھا دو قیراط کتنے بڑے ہوں گے؟ فرمایا ’’دو پہاڑوں کے برابر‘‘ (بخاری)

-10 مصائب کے نزول اور غم کے ہجوم میں اللہ کی طرف رجوع کیجیے اور نماز پڑھ کر نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ سے دعا کیجیے۔ قرآن میں ہے:

’’مومنو (مصائب اور آزمائش میں) صبر اور نماز سے مدد لو‘‘۔

غم کی کیفیت میں آنکھوں سے آنسو بہنا، رنجیدہ ہونا فطری بات ہے۔ البتہ دھاڑیں مار مار کر زور زور سے رونے سے پرہیز کیجیے۔ نبیؐ روتے تو رونے میں آواز نہ ہوتی۔ ٹھنڈا سانس لیتے، انکھوں سے آنسو رواں ہوتے اور سینے سے ایسی آواز آتی جیسے کوئی ہانڈی ابل رہی ہو یا چکی چل رہی ہو۔

آپؐ نے خود اپنے غم اور رونے کی کیفیت ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے:

’’آنکھ آنسو بہاتی ہے، دل غمگیں ہوتا ہے اور ہم زبان سے وہی کلمہ نکالتے ہیں جس سے ہمارا رب خوش ہوتا ہے‘‘۔

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ جب فکر مند ہوتے تو آسمان کی طرف سر اٹھا اٹھا کر فرماتے ’’سبحان اللہ العظیم‘‘ (پاک و برتر ہے عظمت والا خدا) اور جب زیادہ گریہ و زاری اور دعا کا انہماک بڑھ جاتا تو فرماتے ’’یاحی یا قیوم‘‘(ترمذی)

-11 رنج و غم کی شدت، مصائب کے نزول اور پریشانی و ضطراب میں یہ دعائیں پڑھیے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کہے ہیں کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا:

’’ذوالنون نے مچھلی کے پیٹ میں اپنے پروردگار سے جو دعا کی وہ یہ تھی:

’’تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تو بے عیب و پاک ہے، میں ہی اپنے اوپر ظلم ڈھالنے والا ہوں‘‘۔

پس جو مسلمان بھی اپنی کسی تکلیف یا تنگی میں اللہ سے یہ دعا مانگتا ہے، اللہ اسے ضرور قبولیت بخشتا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ نبیؐ جب کسی رنج و غم میں مبتلا ہوتے تو یہ دعا کرتے:

’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ عرش عظیم کا مالک ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ آسمان و زمین کا مالک ہے، عرش بزرگ کا مالک ہے‘‘(بخاری، مسلم)

حضرت ابو موسیٰ کا بیان ہے کہ نبیؐ نے فرمایا:
لَاحَوۡلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِااللہِ وَلاَ مَلۡجَأ مِنَ اللہِ إِلاَّ اِلَیۡہِ

’’یہ کلمہ ننانوے بیماریوں کی دوا ہے، سب سے کم بات یہ ہے کہ اس کا پڑھنے والا رنج و غم سے محفوظ رہتا ہے‘‘۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا: جس بندے کو بھی کوئی دکھ یا تکلیف پہنچے اور وہ یہ دعا مانگے، اللہ تعالیٰ اس کے رنج و غم کو ضرور خوشی اور مسرت میںتبدیل فرمادے گا۔

’’الٰہی میں تیرا بندہ ہوں، میرا باپ تیرا بندہ ہے، میری ماں تیری بندی ہے، میری چوٹی تیری ہی ہاتھ (قبضہ قدرت) میں ہے۔ یعنی میں ہمہ تن تیرے بس میں ہوں، تیرا ہی حکم میرے معاملہ میں نافذ ہے، میرے بارے میں تیرا ہر حکم سراسر انصاف ہے، میں تیرے اس نام کا واسطہ دے کر جس سے تو نے اپنی ذات کو موسوم کیا یا اپنی کتاب میں نازل فرمایا یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا یا اپنے پاس خزانہ غیب ہی میں اس کو مستور رہنے دیا۔ تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ قرآن عظیم کو میرے دل کی بہار، میرے آنکھوں کا نور، میرے غم کا علاج اور میری تشویش کا مداوہ بنادے‘‘۔(احمد، ابن حیان، حاکم بحوالہ حصن حصین)

-12 اگر کبھی اللہ نہ کرے مصائب و آلام اس طرح گھیر لیں کہ زندگی دشوار ہوجائے اور رنج و غم ایسی ہیبت ناک شکل اختیار کرلیں کہ آپ کو زندگی وبال معلوم ہونے لگے، تب بھی کبھی موت کی تمنا نہ کیجیے او رنہ کبھی اپنے ہاتھوں اپنے کو ہلاک کرنے کی شرمناک حرکت کا تصور کیجیے۔ یہ بزدلی بھی ہے اور بدترین قسم کی خیانت اور معصیت بھی، ایسے اضطراب اور بے چینی میں برابر اللہ سے یہ دعا کرتے رہے۔

’’الٰہی! جب تک میرے حق میں زندہ رہنا بہتر ہو مجھے زندہ رکھ اور جب میرے حق میں موت ہی بہتر ہو تو مجھے موت دے دے‘‘(بخاری، مسلم)

-13 جب کسی کو مصیبت میں مبتلا دیکھیں تو یہ دعا پڑھیے: حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا جس نے بھی کسی کو مصیبت میں مبتلا دیکھ کر یہ دعا مانگی (ان شاء اللہ) وہ اس مصیبت سے محفوظ رہے گا۔

’’اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس مصیبت سے بچائے رکھا، جس میں تم مبتلا ہو اور اپنی بہت سی مخلوقات پر مجھے فضیلت بخشی‘‘ (ترمذی)

حصہ