عمر بن ابی سلمہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا تناول فرما رہے ہیں۔ کھانے کا انداز بے ڈھنگا، کبھی ہاتھ پلیٹ کے کسی حصے میں پڑتا اور کبھی کسی حصے میں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی سے مشاہدہ فرماتے ہیں، پیشانی پہ نہ کوئی بل آیا، نہ زبان سے کوئی سخت الفاظ ادا ہوئے، نہ ٹوکا، نہ ہی کرخت لہجہ ہوا بلکہ نہایت محبت و پیار سے فرمایا ’’پیارے بچے جب تم کھانا کھاؤ پہلے بسم اللہ پڑھ لیا کرو، اور اپنے داہنے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنی طرف سے کھایا کرو۔’’ (بخاری و مسلم)
یہ طریقہ تربیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جھلک ہے کہ کبھی کہیں کسی کی غلطی کو دیکھتے تو براہِ راست متنبہ نہ کرتے بلکہ عمومی گفتگو کے ذریعے اصلاح کرتے ہیں تاکہ دوسرا احساسِ کمتری میں مبتلا نہ ہو۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی غلطی کی طرف توجہ مبذول کروانے کے لیے زبان سے کچھ نہ کہتے بلکہ انداز ایسا اختیار کرلیتے یا اشارتاً مدعا سمجھا دیتے۔ ایک مرتبہ حضرت فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سواری پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے۔ ایک عورت آئی۔ حضرت فضلؓ اور وہ عورت لامحالہ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ اس موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ناگواری کا اظہار نہ فرمایا اور نہایت مدبرانہ انداز اپناتے ہوئے آہستگی سے حضرت فضلؓ کے سر پر ہاتھ رکھا اور ان کا رُخ دوسری جانب موڑ دیا۔ یہ حکمت کا تقاضا تھا کہ فوری ردعمل یا سوال جواب اور ٹوکنا مناسب نہیں تھا، خودداری کو ٹھیس پہنچتی اور شرمندگی کا سامنا بھی ہوتا۔ سو بوقتِ ضرورت اور محض دوستانہ رویّے سے ان کی کوتاہی کی نشاندہی فرما دی۔
تعلیم و تربیت مشنری تصور کے بغیر ممکن نہیں۔ واضح سمت ہی بہترین تعلیم و تربیت کی راہ دکھاتی ہے۔ تعلیم تربیت سے مبّرا نہیں، دونوں ایک دوسرے کے بنا ادھورے ہیں۔ تعلیم عمل میں نہ ڈھلے تو بے سود ہوجاتی ہے، اور تربیت تعلیم کے بغیر مثبت رخ اختیار نہیں کرسکتی۔ تعلیم ہی ہے جو تربیت کے طریقہ کار بتاتی ہے۔ ذاتِ مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے نمونۂ حیات ہے۔ دعوت و تربیت کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اصول زیر نظر رکھے۔ تعلیم و تدریس کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت کا ایک تقاضا یہ بھی تھا کہ لوگوں سے ان کی عقل و ذہنی استعداد کے مطابق گفتگو فرماتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مزاج شناس اور مردم شناس کوئی نہ تھا۔ ہر شخص کی خوبیوں اور کمزور پہلوؤں کا گہری نگاہ سے احاطہ کرتے، طبیعت اور مزاج کا مطالعہ فرماتے۔ اگر کہیں تربیت مقصود ہوتی تو ان کے حالات و معاملات، عادات، کمزوریوں اور مثبت پہلوؤں کے مطابق تربیت کا طریقہ وضع کرتے، یعنی ذہنی ہم آہنگی۔ ایک دوسرے کی بات سننے پہ آمادہ کرنے کے لیے نفسیات کا جاننا گویا پہلا زینہ ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چند جملوں میں اپنی بات کہہ دیتے جو تیر بہ ہدف بھی ہوتی اور یاد بھی رہتی۔ مخاطب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوبارہ بیٹھنے اور مزید سیکھنے کی چاہ بھی رکھتا۔ دورانِ تدریس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب کی توجہ کو مرکوز رکھتے اور اکثر آغاز گفتگو بھی اسی نقطہ سے فرماتے۔ کبھی سوال کے ذریعے مخاطب کو چونکا دیتے۔ طالب علم کے لیے علمی اور سازگار ماحول اوّلین ترجیح ہوتی۔
داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے بحیثیت معلم اپنی ذمہ داریاں کچھ اس طرح نبھائیں کہ مخصوص شعبہ فکر تک محدود نہ رہے۔ ہر قسم کے علوم و فنون کو سیکھنے کی طرف توجہ دلائی۔ صحتِ زبان کی تلقین کی، فنِِ کتابت سیکھنے کے لیے ہدایات دیں، صحابہؓ کو دیگر زبانیں سیکھنے اور تورات کا علم حاصل کرنے پر زور دیا۔ نوجوانوں کی تربیت بھی ہمیشہ مقدم رکھتے۔ ان کے لیے دوڑ اور تیر اندازی کے مقابلے کروائے، میدانِ جنگ میں قلعہ شکن آلات بنانے کی تربیت کروانے کے انتظامات کروائے۔ بچوں کی تربیت کے لیے تحسین و داد کو چنا تاکہ صلاحیت ابھر سکے۔ نہایت مشفق انداز میں آدابِ زندگی سکھائے۔ خواتین کی تعلیم و تربیت پہ خاص توجہ دی اور اس کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مامور فرمایا۔
الغرض سیرتِ مبارکہ معلم العالمین ہے۔ معلم کُل وقتی کام ہے اور خلوص نیت پہلی شرط۔ والدین ہوں یا اساتذہ… تعلیم و تربیت کے لیے طرز تکلم، فکر و رویہ اور عمل اہم کنجی ہے۔ اس کنجی کو کیسے کھولنا ہے اس کے لیے نمونۂ رسولؐ موجود ہے جس کے اصول رہتی دنیا تک لاگو رہیں گے۔