پروفیسر سحر انصاری کا ایک یادگار انٹریو

419

معاشرہ اپنے عمل سے ثابت کررہا ہے کہ اس کو ادب کی ضرورت نہیں،ہمارے گھرانے میں دوستانیں پڑھنے کا رواج
تھا

سدا اپنی روش اہلِ زمانہ یاد رکھتے ہیں
حقیقت بھول جاتے ہیں فسانہ یاد رکھتے ہیں
ہجوم اپنی جگہ تاریک جنگل کے درختوں کا
پرندے پھر بھی اپنا آشیانہ یاد رکھتے ہیں
ہمیں اندازہ رہتا ہے ہمیشہ دوست دشمن کا
نشانی یاد رکھتے ہیں نشانہ یاد رکھتے ہیں
صلہ مانگا نہیں ہم نے خلوص و مہر و الفت کا

کے خالق سحر انصاری نہ صرف دورِ حاضر کے ایک بڑے شاعر ہیں بلکہ اردو شاعری کا ایک معتبر نام ہیں۔ ان کا قلب و نظر جذبۂ حب الوطنی سے سرشار ہے۔ اس کا اندازہ پہلی مرتبہ ان سے ملنے والے کو بھی چند ہی لمحوں میں ہو جاتا ہے۔ آپ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں استاد رہے ہیں۔

سحر انصاری 27 دسمبر 1941ء کو ریاست حیدرآباد کے شہر اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی اور 1950ء میں کراچی آگئے، اور کراچی سے اتنی محبت ہوئی کہ پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ آپ ایم اے اردو، انگریزی اور اسلامیات ہیں۔ آپ کی پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان ’’اردو تنقید پر مغربی تنقید کے اثرات‘‘ ہے، لیکن وہ مکمل نہیں ہوسکی ہے۔ آپ کو بچپن میں ہی ادبی ماحول اپنے گھر میں ملا، آپ کے ننھیال کے بزرگوں میں مولانا اسماعیل میرٹھی شامل تھے اور ددھیال بھی عربی، فارسی اور دیگر علوم سے وابستہ تھا۔

اے اے سید: شاعری کی طرف رغبت کس طرح ہوئی؟

سحر انصاری: ہماری زندگی انتہائی پُرسکون بسر ہو رہی تھی لیکن 11 ستمبر 1948ء کو قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے چار، پانچ دن کے بعد ہندوستانی حکومت نے پولیس ایکشن کے نام پر حیدرآباد پر قبضہ کر لیا تو اس سے وہاں کی فضا بالکل بدل گئی اور ہمیں اندازہ ہوا کہ ہم خطرات میں گھر گئے ہیں اور امن وامان کی فضا نہیں رہی۔ اسی دن سے میرے دل میں ایک جذبہ پیدا ہوا، میں نے کچھ اشعار ایک نظم کی صورت میں اس پر کہے اور یہی میری شاعری کا محرک تھا۔ اس کے بعد ہم پاکستان آگئے تو یہاں کے حالات کچھ اور تھے، نئے وطن میں آنے کی خوشی تھی اور کچھ کر دکھانے کا عزم اور ارادہ تھا۔ اس ملک نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ آج جو کچھ بھی ہماری شناخت ہے وہ پاکستان کے حوالے سے ہے۔ جب یہاں میری تعلیم مکمل ہوئی تو لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ کئی ادبی پرچوں میں مضامین، غزلیں اور نظمیں شائع ہوتی رہیں۔ افکار، فنون، انشا، نیا دور، اقدار، سیپ، تشکیل اور دوسرے پرچے جیسے دنیادار، مکالمہ، قومی زبان، اس کے علاوہ ہندوستان کے کچھ پرچے تھے، اُن میں شائع ہوتا رہا ہوں۔ 1976ء میں پہلا شعری مجموعہ ’’نمود‘‘ آیا تھا جس پر فیض صاحب نے بھی اپنی رائے لکھی۔ فیض صاحب نے کہا کہ یہ جدید شاعری میں ایک معتبر اضافہ ہے اور ایک خیال افروز اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ذہن کی تخلیق ہے۔ اُن کے یہ الفاظ ہمارے لیے ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 30 سال بعد اس کا دوسرا ایڈیشن بھی آیا ہے۔ ایک اور مجموعہ ’’خدا سے بات کرتے ہیں‘‘ زیر طبع ہے، وہ بھی ایک دو مہینے میں آجائے گا۔

اے اے سید: اپنے ہم جماعتوں اور اساتذہ کے بارے میں کچھ بتایئے۔

سحر انصاری: اساتذہ کے بارے میں تو مَیں یہ کہوں گا کہ ہمیں اورنگ آباد میں بھی بڑے اساتذہ ملے۔ ان میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو اور سکھ اساتذہ بھی شامل تھے، وہ بھی بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ ہمارے ایک استاد تھے، انہوں نے بڑی محبت سے ہمیں ڈرائنگ سکھائی، اور ممکن ہے کہ اگر میں سائنس کا طالب علم نہ ہوتا تو مصوری کی طرف جاتا، اب بھی میرا مصوری کی طرف رجحان ہے۔ پاکستان آنے کے بعد میں نے سرکاری اسکولوں میں ہی تعلیم حاصل کی، وہاں بھی تمام اساتذہ بہت اچھے ملے۔ اضافی اوقات میں بھی پڑھاتے تھے، ہماری تربیت پر توجہ دیتے تھے، ہماری تعلیمی صورتِ حال کو بہت قریب سے دیکھتے اور مفید مشورے دیتے تھے۔ ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ اُس زمانے میں اتنے قابل اساتذہ تھے، حالانکہ اُس زمانے میں تنخواہ بھی کم ہوتی تھی۔ ہمارے ایک استاد امداد حسین تھے جو تین ایم اے تھے اور دو ایم اے میں گولڈ میڈل بھی لیا ہوا تھا، لیکن اسکول میں پڑھا رہے تھے۔ تو دراصل ہماری ترقی کا سبب بھی وہی وقت دینے اور توجہ سے پڑھانے والے اساتذہ ہیں، اور ہم بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اے اے سید:کچھ ذکر ہم عصر شعرائے کرام اور اساتذہ سے مراسم کا ہو جائے۔

سحر انصاری: اُس وقت جو سینئر اساتذہ تھے جیسے اورنگ آباد میں مولانا حسرت موہانی تشریف لائے تھے اور اُس وقت کے دوسرے لوگ جیسے مخدوم محی الدین، کیفی اعظمی،سکندر علی وجد وغیرہ، یہ اورنگ آباد آتے تھے، لیکن جو ہمارے سینئر لوگ تھے اورنگ آباد میں، ان میں شفاعت علی شاعر صاحب بطور خاص اہم ہیںجن سے یہاں پاکستان میں ہمارے بڑے قریبی مراسم ہو گئے تھے۔ پھر فراز زید جن کا تعلق بھی اورنگ آباد سے تھا، لیکن ملاقاتیں یہاں ہوئی ہیں۔ اسی طرح بعد میں جو لوگ آئے ان میں عبیداللہ علیم، نصیر ترابی، پیرزادہ قاسم، جاذب قریشی، کشور ناہید ساتھ تھے۔

اے اے سید:اپنے ذوق و شوق کے بارے میں کچھ بتایئے۔

سحر انصاری: بچپن میں مطالعے کا شوق رہا، کھیل ایک مقررہ وقت پر ہی کھیلتے تھے۔ اسی طرح جوانی میں بھی پڑھنے کے لیے وقت ضرور نکالتا تھا۔ کبھی اگر معلوم ہوا کہ کوئی کتاب ہے تو دو، دو راتیں بھی میری گزر جاتی تھیں مطالعے میں، اور میں سوتا بھی نہیں تھا۔ جوانی میں یہ بھی تھا کہ کچھ فلمیں بھی دیکھ لیتے تھے، بعض اور بھی مصروفیات تھیں۔ لیکن اب میں فلم سے گریزاں ہوں کہ تین گھنٹے اس میں صرف کرنے کے بجائے کوئی کتاب پڑھ لی جائے۔ اس بڑھاپے کی عمر میں مطالعے کے لیے وقت بڑھا دیا ہے میں نے، اور تفریحات کا جو عنصر ہے اس کو کم کردیا ہے، اور یہ میرا سب سے بڑا شوق بلکہ جنون ہے۔ اور جنون یہ نہیں ہے کہ کتابوں کی تعداد زیادہ ہوجائے یا کوئی ایسی کتاب جو مجھے نظر آجائے اُسے خرید کر شیلف میں سجا دوں، بلکہ ہوتا یہ ہے کہ علوم کی جہتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ ہر وقت ایک نئی چیز سامنے آجاتی ہے، مثلاًایک بار ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب نے مجھے بتایا کہ حضرت شمس تبریز کے مقالات اور ملفوظات کی کوئی کتاب فارسی میں چھپی ہے اور اس کا وہ ترجمہ کروا رہے ہیں، اور آپ کو تعجب ہوگا کہ اس کے دوسرے ہی دن مجھے اسلام آباد جانا تھا تو کراچی ائرپورٹ پر مجھے چنک کی کتاب نظر آئی ’’رومی اینڈ می‘‘ اور اس میں ان مقالات اور ملفوظات کا ترجمہ تھا۔ اگرچہ وہ 27 سو روپے کی کتاب تھی لیکن جب مجھے پتا چلا کہ وہ واحد کاپی ہے تو میں نے خرید لی۔ تو اس کا مقصد کتاب خریدنا یا اس کو سجانا نہیں ہے بلکہ جو لگن میرے اندر ہے یا میرا جی چاہتا ہے کہ اس جہت میں مزید اضافہ کروں تو اس لیے وہ کتاب میرے لیے ناگزیر ہوئی۔ اسی طرح سے سائنس، تنقید، مذہب، تاریخ، میتھالوجی، انسانیت، لسانیت یہ میرا ذوق ہے۔ تو اب مطالعے کا اتنا دائرہ بن چکا ہے کہ اس سے کام نہیں چلتا کہ میں فکشن پر کچھ جمع کرلوں یا افسانے کی کوئی چیز یا شاعری کی کتاب پر تکیہ کرلوں۔ وہ دائرہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ دوسری کتابوں کی تحصیل اور ان کے مطالعے کا رخ بھی بڑھتا جارہا ہے۔ جب کسی ملک جاتا ہوں تو سب سے زیادہ عذاب یہی ہوتا ہے کہ ان کتابوں کو لائوں کس طرح؟ کئی دفعہ خریدی ہوئی کتابیں بھی چھوڑنی پڑتی ہیں، اس لیے کہ کتابوں کی قیمت اتنی نہیں ہوتی جتنا جہاز کا کرایہ ہوجاتا ہے۔

اے اے سید:آپ کو کن ادیبوں اور کتابوں نے زیادہ متاثر کیا؟

سحر انصاری: ہمارے گھرانے میں داستانیں پڑھنے کا رواج تھا، تو مجھے سب سے پہلے ’’باغ و بہار‘‘ نے متاثر کیا۔ شعرا میں غالب اور علامہ اقبال کو پڑھا جاتا تھا اور وہ مجھے بہت پسند تھے اور اب بھی ہیں۔ نوجوانی میں مخدوم محی الدین تھے، ساحر لدھیانوی، شفیق الرحمن جو ہمیں کالج کے زمانے میں پسند آتے تھے۔ پھر ممتاز صدیقی، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، ن۔م۔ راشد، میرا جی… ان سب کو پڑھا۔

اے اے سید: آپ کی سب سے زیادہ کن شعرائے کرام سے قربت رہی؟ اور ان کی بیٹھک میں حاضری رہی؟

سحر انصاری: سب سے زیادہ جن سے قربت رہی اُن میں عزیز حامد مدنی، قمر ہاشمی، شکیل احمد ضیا، سلیم احمد، قمر جمیل اور بزرگوں میں جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض سے بہت قربت تھی۔ رئیس امروہوی صاحبٖ کا خاص طور پر پورا گھرانا ہی بڑی محبت سے پیش آتا تھا، وہاں بہت وقت گزارا ہم نے۔

اے اے سید: ایک ایسے معاشرے میں جہاں سرمایہ دارانہ اقدار کو غلبہ حاصل ہوگیا ہے اور زندگی کی ساری تگ و دو معیارِ زندگی بہتر بنانے پر صرف ہو رہی ہے اس میں ادب کی کیا ضرورت باقی رہ گئی ہے؟

سحر انصاری: واقعی معاشرہ اپنے عمل سے تو یہی ثابت کر رہا ہے کہ اس کو ادب کی ضرورت نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ چاہے معاشرہ کتنا بھی ادب سے گریزاں ہو، لیکن ادب ہر مقام پر موجود ہے، یعنی اگر آپ چھوٹی سطح پر دیکھیں تو لوگ ایک اشتہار بھی قافیہ اور آہنگ کی صورت تمیں لکھنے کی کوشش کرتے ہیں، تو گویا اس سے تو آپ گریز کر ہی نہیں سکتے۔ ہمارے گانے ہیں، قومی ترانے ہیں، قومی نظمیں ہیں، تو یہ سب ایک ذوق پیدا کرتے ہیں۔ جب اس میں تھوڑا ضافہ ہوتا ہے تو لوگ اصل شاعری کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جس میں رومانیت بھی ہو سکتی ہے، انقلاب بھی ہو سکتا ہے، سماجی مسائل بھی ہوسکتے ہیں۔ تو بظاہر تو لگتا ہے کہ معاشرہ ادب اور شاعری سے گریزاں ہے، کیوں کہ بقول فیض صاحب کے، نہ اس سے بینک بیلنس میں اضافہ ہوتا ہے، نہ کوٹھیاں تعمیر ہوتی ہیں، لیکن انسان کو اپنی مادی ضروریات کے ساتھ ساتھ جمالیات کی بھی ضرورت ہوتی ہے، تو جمالیاتی تسکین ادب اور شعر کے بغیر نہیں ہوسکتی، اس لیے انسان مطالعہ کرنے پر مجبور ہے۔

اے اے سید: آپ کی دل چسپی اور وابستگی کا ایک حوالہ ترقی پسند تحریک تھی لیکن آپ کے ہاں مذہبی اور تہذیبی اقدار سے وابستگی کا بھی ایک سلسلہ ملتا ہے، اس کے برعکس ترقی پسندوں کی ایک کثیر تعداد مذہبی اور تہذیبی اقدار سے بے زاری کا اظہار کرتی ہے، ایک ہی دائرے میں اس فرق کی موجودگی کے کیا معنی ہیں؟

سحر انصاری: دیکھیں بعض لوگ اس کو بہت سرسری سی کیفیت میں دیکھتے ہیں اور وہ حق بجانب ہیں یہ کہنے میں، لیکن آپ اگر غور کریں تو کارل مارکس نے اگر مذہب کو افیون کہا ہے، یا بعض مذاہب کے جو معاملات ہیں ان پر کڑی تنقید کی ہے تو اُس کے پیش نظر عیسائیت ہے۔ آپ کہیں بھی دیکھ لیں اُس نے اسلام اور ہمارے پیغمبرؐ پر تنقید نہیں کی، اگر کی ہو تو ایک لفظ بھی دکھا دیجیے۔ بات یہ ہے کہ مذہب کا وہ رخ جو عیسائیت نے پیش کیا اس کی اصلاح کی تو ضرورت محسوس ہوئی، ورنہ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقے معرضِ وجود میں نہ آتے۔ البتہ برنارڈشا اور کارل مارکس نے یہ بات کہی ہے کہ اسلام نے معاشی نظام دیا ہے، سماجی انصاف کے بارے میں سوچا ہے۔ جب کہ یہ باتیں آپ کو Christianity میں نہیں ملتیں۔ تو مذہب کو مکمل طور پر اگر مسترد کیا ہے تو سیاق اس کا بالکل دوسرا ہے، اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب نے ہمیں اچھے افکار بھی دیے ہیں، مذہبی شخصیات نے ہمیں بہت کچھ سکھایا ہے، بہت کچھ روشنی دی ہے، اور اس کے حوالے سے تاریخ میں جو صوفیائے کرام کا عمل ہے اس کا تو میں بہت قائل ہوں، اور جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا کہ

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری

تو میں اس کا قائل ہوں۔

اے اے سید: مارکسزم کے خاتمے اور کمیونزم کے تحلیل ہونے سے بہت پہلے مجنوں گورکھپوری نے کہا تھا کہ ترقی پسند تحریک ختم ہوگئی ہے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یہ بات کہنے والوں کی تعداد بڑھی ہے، آپ کا اس سلسلے میں کیا نقطہ نظر ہے؟

سحر انصاری: میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ جب سوویت یونین کا انہدام ہوا تھا تو مجھ سے پوچھا گیا تھا اور میری یہ تحریری رائے موجود ہے، جس کو بعد میں اخباروں سے لے کر جماعت اسلامی کے پرچوں میں بھی چھاپا گیا کہ ترقی پسندی یا مارکسزم ایک سائنسی نکتہ نظر ہے، ایک سائنسی اصول ہے۔ آپ کسی سائنسی اصول پر ایک Apparats، ایک مشین بناتے ہیں، اگر وہ Burst ہوجاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اصول غلط ہے، بلکہ Apparats بنانے میں آپ سے کوئی غلطی ہوئی ہے۔ اس لیے جب تک سماجی ناانصافی رہے گی یہ بات رہے گی۔ آپ دیکھیے (ہنستے ہوئے) کہ جماعت اسلامی کے سرکردہ رہنما ہیں، وہ بھی یہ کہتے ہیں کہ ملک سے جاگیرداری نظام ختم ہونا چاہیے، تو فیض نے یہ جو بات کہی تھی کہ:

ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیضؔ گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے

آج ترقی پسند ہو یا غیر ترقی پسند، سب کا ایک ہی نعرہ ہے کہ جاگیرداری نظام ختم کرو اور سرمایہ داری نظام ختم کرو۔ امریکا کے خلاف پہلے صرف ترقی پسند ہوتے تھے، لیکن اب تو میرے خیال میں کئی مذہبی جماعتیں ہیں۔ تو گویا بات وہی ہوئی کہ حقیقت خود کو منوا لیتی ہے، مانی نہیں جاتی۔ تو ہمارے ارضی حقائق یہ ہیں کہ آپ کو اس کی طرف آنا ہی پڑے گا۔ جب تک انسان کے مسائل حل نہیں ہوں گے یہ تحریک موجود رہے گی۔

اے اے سید: ساری دنیا میں جامعات تحقیقی اور تخلیقی حوالے سے پہچانی جاتی ہیں، آپ کا بھی تجربہ ہے اور ہم نے بھی یہ دیکھا ہے کہ ہمارے ہاں یہ کام نہیں ہوتا، کیا کہیں گے آپ؟

سحر انصاری: بھائی یہ تو سارے اسلامی ممالک کا حال ہے، کچھ سال پہلے نیوز ویک میں یہ خبر چھپی تھی کہ 2006ء میں پوری دنیا میں پونے تین سو (275) نئی ایجادات آئیں اور اس میں مسلم دنیا کا کوئی ایک آدمی بھی شامل نہیں تھا اور نہ کوئی اس کی ایجاد تھی۔ تو یہ تو پوری اسلامی دنیا کا حال ہے کہ ہماری ترجیحات میں تحقیق نہیں ہے، جیسے کہ علامہ اقبال نے کہا کہ:

تین سو سال سے ہیں ہند کے مے خانے بند

تو تحقیق تو کسی شعبے میں بھی نہیں ہو رہی، آنکھ بند کرکے اور ایک روایت کے طور پر ہم کچھ چیزیں قبول کرتے ہیں اور انہی کو پیش کر دیتے ہیں۔ تو یہ بات صحیح ہے کہ جس انداز میں ذہنوں کی تربیت ہونی چاہیے، انہیںتحقیق کی طرف مائل کرنا چاہیے، وہ نہیں ہو رہا ہے۔ آپ کی یہ بات صحیح ہے کہ اگر کچھ ہو بھی رہا ہے تو وہ انفرادی طور پر ہے۔ ادارے اس میں کم مدد کررہے ہیں۔

اے اے سید: آپ اس کی وجوہات کیا سمجھتے ہیں؟

سحر انصاری: وجوہات یہ ہیں کہ ایک تو ہمارا تعلیمی نظام درست نہیں ہے۔ اس وقت ہمارے ہاں پانچ تعلیمی نظام چل رہے ہیں، ایک نام نہاد انگلش اسکول، دوسرا ’’A لیول‘‘ اور ’’O لیول‘‘ کا اسکول، تیسرا دینی مدرسے، چوتھا ہمارے پیلے اسکول جنہیں سرکاری اسکول کہتے ہیں، اور پانچواں یہ کہ اگر A اور O لیول والے مطالعہ پاکستان، اردو اور اسلامیات کا پرچہ دے دیں تو انہیں میٹرک اور انٹر کے برابر سند مل جاتی ہے، تو یہ پانچ نظام چل رہے ہیں۔ ان میں کیا تحقیق ہوگی اور کیا ذہن بنیں گے آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔

اے اے سید: پاکستان میں اردو کا مقام کیا ہے، آیا کہ یہ قومی زبان ہے یا قانونی زبان ہے؟

سحر انصاری: نہیں، اردو ایک قومی زبان ہے، اس کو ہم اس حوالے سے قومی زبان کہہ سکتے ہیں کہ جتنے صوبوں کے لوگ ہیں چاہے وہ آپس میں اپنی زبان بولتے ہوں جو کہ ان کا حق ہے، لیکن جب ایک سے دوسری زبان والا بات کرتا ہے تو اُس وقت مشترک اور رابطے کی زبان تو اردو ہی ہے، تو وہ زبان جو کسی بھی ملک کے طول و عرض میں بولی جاتی ہے اس کو قومی زبان یا Lingu Franca کہا جاتا ہے، اس لحاظ سے اردو قومی زبان ہے۔

اے اے سید: آپ کہتے ہیں اردو قومی زبان ہے لیکن ہمارے نظام میں اس کی جھلک نظر نہیں آتی؟

سحر انصاری: ہاں نظامِ تعلیم کے اندر اردو زبان کا اتنا عمل دخل نہیں ہے، اس لیے کہ ہماری حکومت اور نوکر شاہی نے کبھی سنجیدگی سے اس طرف توجہ نہیں دی، حالانکہ تمام دنیا میں انگریزی کی اہمیت کو مانتے ہوئے بھی اپنی زبانوں پر زور ہے مثلاً چین، جاپان، جرمنی، فرانس، ایران، ترکی، انڈونیشیا… یہ تمام ممالک اپنی اپنی زبانوں میں تعلیم دیتے ہیں۔

اے اے سید: انڈیا اور پاکستان کے شاعروں اور ادیبوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے، اگر آپ سے پاکستان اور انڈیا کے تخلیقی ادب کے بارے میں رائے دریافت کی جائے تو اس حوالے سے کیا کہیں گے؟

سحر انصاری: انڈیا میں تو جو بڑے لکھنے والے تھے وہ یکسر دنیا سے رخصت ہو گئے، چند نام رہ گئے ہیں شاعری کی حد تک، لیکن وہاں تحقیق اور تنقید کا کام اعلیٰ سطح کا ہورہا ہے، جب کہ ہمارے ہاں افسانہ، ناول، شاعری پر زیادہ زور ہے، ہمارے یہاں تحقیق اور تنقید کا شعبہ کمزور ہے۔ بھارت میںحال ہی میںجو شعرا رخصت ہوگئے ہیں ان میں مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی، علی سردار جعفری، ندا فاضلی، خمار بارہ بنکوی اور شہریار شامل ہیں۔ اب جو لوگ رہ گئے ہیں ان میں وسیم بریلوی اور بشیر بدر ہی ہیں۔ یہاں مشاعرے کے شاعر ہیں جنہوں نے مشاعرے میں زیادہ شہرت پائی لیکن ہمارے ہاں ابھی بھی اچھی خاصی تعداد شعرا کی موجود ہے، جب کہ سینئر شعرا میں سے کچھ رخصت ہو گئے ہیں جیسے احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی۔ لیکن ان کے بعد کچھ لوگ موجود ہیں۔

اے اے سید: لوگوں کا ادب سے لگائو کم ہو گیا ہے جب کہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اب شعرا کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کتابیں چھپ تو بڑی تعداد میں رہی ہیں لیکن ان کا کوئی معیار نہیں ہے، آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

سحر انصاری: جی ہاں میں بالکل آپ سے متفق ہوں اور اس کے لیے ایک اصطلاح استعمال کروںگا “Quality Control” اس کا ضرور کوئی اہتمام ہونا چاہیے۔ اب تو حقیقت یہ ہے کہ جس کے پاس چار پیسے ہیں وہ کتاب چھاپ لیتا ہے، چاہے اس میں فنی اور زبان و بیان کی کتنی ہی غلطیاں ہوں، اس کا شوق پورا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح سے جو ہمارے اخبارات اور رسالے ہیں وہ اپنے پیٹ بھرنے کے لیے غیر موزوں، معیار سے گری ہوئی، اور جن پر نظم اور شاعری کا اطلاق بالکل نہیں ہوسکتا، وہ چیزیں بھی چھاپ دیتے ہیں۔ اس کا ایک سبب تو شاید یہ ہے کہ جو لوگ چھاپتے ہیں وہ خود فنی رموز سے بے بہرہ ہوتے ہیں، اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ہمارے لکھنے والوں کا حلقہ بڑھے گا۔ تو معیار کے لحاظ سے آپ سے متفق ہوں کہ اس میں بہت کم ترقی ہوئی، جب کہ مقدار کے لحاظ سے زیادہ ترقی ہو رہی ہے۔

اے اے سید: اگر آپ فہرست بنانا چاہیں تو کن لوگوں کو شامل کریں گے جن کو شاعر نہیں ہونا چاہیے تھا بلکہ کوئی دوسرا کام کرنا چاہیے تھا؟

سحر انصاری: کچھ ایسے اخبار اور رسالے ہونے چاہئیں جو نشاندہی کریں۔ ایک زمانے میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ پرانے شعرا ایک دوسرے کی غلطیاں نکالتے تھے، انہیں اس میں کوئی عار نہیں تھا۔ تو وہ پرچے نشاندہی کریں کہ دیکھیں یہ ان کی زبان ہے، یہ ان کے خیالات ہیں، یہ ان کی فنی واقفیت ہے لہٰذا یہ کیا احسان فرما رہے ہیں، اس کے بجائے اگر یہ کوئی اور کام کریں یعنی ادب ہی کا کریں لیکن کچھ اور مثلاً ترجمہ کریں، تبصرے لکھیں… کیا ضروری ہے کہ ہر آدمی، ہر صاحب، ہر شخص شاعر ہی بنے! ایسے شعرا کی فہرست تیار کی جاسکتی ہے جن کی شاعری میں زبان و بیان کی غلطیاں ہیں۔ میرا بھی لکھنے کا ارادہ ہے، لیکن میرے ہاتھ میں کوئی رسالہ یا اخبار نہیں ہے۔ تو اس طرح ایک ٹیم بنائی جاسکتی ہے جو غلطی کرنے والے شعرا کی نشاندہی کرے۔ پہلے خامہ بگوش کے نام سے مشفق خواجہ لکھتے تھے، ابوالخیر کشفی صاحب اور دیگر لوگ لکھتے تھے۔ لیکن اس کا مقصد ذاتی پرخاش اور پگڑی اچھالنا نہ ہوبلکہ صحیح معنوں میں سنجیدگی سے ادبی پیرائے میں اصلاحی رخ پیدا کیا جائے، کیوں کہ ڈاکٹر جانسن نے بھی یہ بات کہی ہے کہ آپ کو چاہیے کہ جو لوگ زندہ ہیں ان کے کلام پر تنقید کریں، ان کی گرفت کریں تاکہ وہ اپنی اصلاح کریں، اور تعریف صرف اُن لوگوں کی کریں جو دنیا سے رخصت ہوگئے ہوں، اس لیے کہ اب وہ نہ اپنے معیار کو بڑھا سکتے ہیں اور نہ گھٹا سکتے ہیں۔ اس پر لکھنے کے لیے ہمت اور جرأت کی ضرورت ہے، اور اگر ایسا ہو تو میرا خیال ہے کہ ایک اچھی ٹیم اور جماعت لکھنے والوں کی بن سکتی ہے۔

(جاری ہے)

حصہ