یہ خاموشی کہاں تک….؟

268

ستمبر کی چلچلاتی گرمی مزاج پر بوجھ بن رہی تھی لیکن حسبِ روایت حریمِ ادب کراچی کی خواتین پُرعزم تھیں۔ آج نہ موسم اُن کی راہ میں حائل ہوا، نہ کوئی اور مسئلہ درپیش رہا۔ اسی ولولے کو اپنے دل میں لیے ہم بھی لمبا سفر طے کرکے آرٹس کونسل پہنچے جہاں حریم ادب کے تحت ڈسکشن فورم بہ عنوان ’’یہ خاموشی کہاں تک، لذتِ فریاد پیدا کر‘‘ شروع ہونے کو تھا۔ علیک سلیک کے بعد ہم بھی اپنی نشست پر بیٹھ گئے اور ہال پر طائرانہ نگاہ کی۔

ایک طرف کراچی نشر و اشاعت کی نگراں ثمرین احمد خواتین کو ہدایات دے رہی تھیں، تو دوسری طرف نگراں حریم ادب عشرت زاہد مہمان خواتین کا گرم جوشی سے استقبال کررہی تھیں۔ سامنے پروگرام کی میزبان اسریٰ غوری اور سمیہ عامر پروگرام کی تیاری میں باحجاب مصروف تھیں۔ گرمی نہیں لگتی کیا انہیں؟ لو بھلا خواتین کی محفل میں کیا وجہ ہے حجاب کی؟ اور اسی وقت پیچھے کونے میں ہمیں وجہ بھی نظر آگئی۔ وہ صاحب شبانہ نعیم کی نگرانی میں مائیک وغیرہ سیٹ کرکے نکل گئے تھے۔ ’’اوہ اچھا…‘‘ ہمارے منہ سے نکلا۔

پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا۔ اسریٰ غوری اور سمیہ عامر نے مہمان خواتین کا تعارف کرایا اور بتانے لگیں کہ آج یہاں جمع ہونے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ نے عورت کو جو مقام عطا فرمایا، رسولؐ نے جو توقیر عورت کو بخشی وہ کہیں کھو گئی ہے۔ آج ایسا کیا ہوا کہ اللہ نے جس کے قدموں تلے جنت رکھی اُس کی اتنی بے توقیری کہ دس سالہ بچی بھی محفوظ نہیں! ایسا کیا ہمارے ہاتھ سے پھسلا، کس چیز کو ہم نے چھوڑ دیا؟

پہلا سوال صدر حریم ادب عالیہ شمیم سے کہ معاشرے میں عورت کے اس انحطاط کا ذمہ دار کون ہے؟

عالیہ شمیم: اللہ نے معاشرے میں مرد و عورت کو توازن کے ساتھ پیدا کیا اور کچھ حدود متعین کردیں۔ خرابی وہاں سے شروع ہوئی جب ہم نے اپنی حدود پار کیں، ہم نے حجاب کو کپڑے کے صرف ایک ٹکڑے تک محدود سمجھ لیا۔ پھر ہوا یہ کہ ہماری تہذیب میں ہندوانہ و غیر اسلامی طرزِ معاشرت پنپی۔ ہمارے حکومتی ذرائع، ماحول، تعلیمی نظام ہر چیز انحطاط کا شکار ہوئی، اس لیے کوئی ایک فرد اس خرابی کا ذمہ دار نہیں ہے۔

اسریٰ بات آگے بڑھاتے ہوئے: پہلے تعلیمی اداروں میں اساتذہ روحانی والدین کہلاتے تھے، معاشرے کا ستون تھے۔ آج کے اساتذہ نوکری کرتے ہیں یا اسے بھاری ذمے داری سمجھتے ہیں۔ آپ کو کیا محسوس ہوتا ہے؟ (اگلا سوال معروف بلاگر، کالم نگار افشاں نوید سے)

افشاں نوید: ٹاپ پوسٹ گریجویشن کے آخری سال میں جب آپ کے بچے ایک دوسرے پر رنگ پھینک رہے ہوتے ہیں، ہولی منائی جارہی ہوتی ہے، انٹرٹینمنٹ کے نام پہ جو پکچرز سامنے آتی ہیں تو ایک ماں افسوس ہی کرسکتی ہے کہ اتنا کثیر سرمایہ اور قیمتی سال بچوں کو خود سے جدا کرکے ان تعلیمی اداروں کو دیے تھے، یونیورسٹیوں کا جو ماحول ہوتا ہے کاش ایک بار کسی استاد نے ان بچوں سے کہا ہوتا کہ قرآن میں سورہ نور بھی ہے۔ کیا وہ مسلمان استاد نہیں ہیں؟ کیا چین، روس اور اسرائیل میں استاد اپنے نظریے کے خلاف تعلیم دیتے ہیں؟ یہاں استاد سائنس، جغرافیہ، طبیعات پڑھاتے ہوئے یہ کہتے کہ ’’قرآن میں سورہ نور بھی ہے‘‘ تو ہمارا تعلیمی ماحول یہ نہ ہوتا جو آج ہے۔ یہ سب حکومت کی ناک کے نیچے ہورہا ہے۔ بقول مولاناؒ ’’ہم نے اپنا سرمایہ اور بچے قتل گاہوں میں اپنے ہاتھوں سے بھیج دیے ہیں۔‘‘

اسی سلسلے کا اگلا سوال غزالہ عزیز سے، جو نائب مدیرہ جسارت اور کالم نگار ہیں، کہ ’’استاد اگر کھویا تو کیا ماں بھی کھوگئی ہے؟‘‘

غزالہ عزیز: اس جواب کے لیے ہمیں اپنے گھروں کا جائزہ لینا ہوگا کہ وہاں ماؤں کی کیا کیفیت ہے۔ ماں کو اپنے بچے کے بارے میں سوچنے تک کا بھی وقت نہیں، کیوں کہ اس کے ہاتھ میں اسکرین ہے جو اس کا سارا وقت کھا جاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ماں کھوئی نہیں بس دور چلی گئی ہے۔ سب سے بڑا رشتہ ماں کا ہے، اس کو واپس لانا ہے۔ معاشرے نے اسے مایوس کیا تو اس کی توجہ کہیں اور ہوگئی۔

اگلا سوال صابرہ شاہد سے تھا کہ ’’کیا ہمارے گھروں کا ماحول سازگار ہے بچوں کی تربیت کے لیے؟‘‘

پروفیسر صابرہ شاہد: پہلے جب بچے جوائنٹ فیملی میں پلتے تھے تو کبھی تائی، پھوپھی، چچی کی گود سے اترتے تو ہر گود سے ایک اچھا میسج لے کر اترتے، مگر آج ان کے ہاتھ میں کھلونا، ٹافی یا کوئی چیز دے کر کہا جاتا ہے کہ ہم سے دور رہو، ہم مصروف ہیں۔ سب کے ہاتھ میں اسکرین ہے۔ دادی کے ہاتھ میں بھی ہے۔ صرف ماں اغوا نہیں ہوئی بلکہ پورا خاندان اغوا ہوگیا ہے۔

پرویز شاہینہ سے سوال کہ ’’اس صورتِ حال میں اساتذہ کا کیا کردار ہے؟‘‘

پرویز شاہینہ: ہم سارا الزام سوشل میڈیا کو نہیں دے سکتے۔ سوشل میڈیا مشکل سے ایک عشرے سے ہوگا۔ یہ بگاڑ بہت پہلے سے ہے، یہ ماؤں سے شروع ہوا اور ان سے پہلے اُن کی مائوں سے۔ آج اگر اساتذہ بچے کو کچھ کہہ دیں تو والدین پہنچ جاتے ہیں کہ آپ کون ہوتے ہیں؟ بچوں کے سامنے استاد کی بے عزتی کی جاتی ہے۔ آج ہم نے استاد سے وہ حق چھین لیا۔ مانا کہ استاد نے اپنی جگہ چھوڑدی، مگر انہیں بھی آج اس طرح نہیں لیا جاتا جو ماضی میں ان کا مقام تھا۔

صارم برنی ٹرسٹ کی چیئر پرسن عالیہ صارم سے سوال تھا کہ ’’ایسے ماحول میں ہم اپنے بیٹے بیٹیوں کی تربیت کس طرح کریں؟‘‘

عالیہ صارم: سوچنا پڑے گا کہ ہم ایسے تھے تو نہیں، اب ایسے کیوں ہوگئے؟ پاکستان جب بنا تھا ہم آزاد ہوئے یہ سوالیہ نشان ہے۔ کیا پرچم کو لہرانا آزادی ہے یا ایٹمی پاور ہونا آزادی ہے؟ تاقیامت میرا پرچم سربلند رہے، لیکن اس کو سربلند کرنے کے لیے جو ہمیں کرنا تھا وہ ہم نے نہیں کیا۔ جس گھر کا مرد جس لمحے کہیں معاشرے میں کوئی گڑبڑ کررہا ہوتا ہے اسی لمحے اس گھر کی عورت کہیں نہ کہیں مکافاتِ عمل سے گزر رہی ہوتی ہے۔ بیٹوں کو سمجھانا اور ان کی تربیت کرنا ضروری ہے۔ عورت کے پاس ایک ہتھیار ہے: انکار کرنے کی صلاحیت۔ ہم نے اس کو بھی مظلومیت میں بدل دیا ہے۔ حجاب والی عورت باعظمت ہے۔ حسن اس کی کمزوری ہے، وہ اپنے حسن کو چھپا رہی ہے۔ مگر جب یہ حجاب علم، ترقی، شادی ہر چیز میں آڑے آئے تو پھر ہر طرف سے معاشرے کو بدلنے کی ضرورت ہے، ایک سرا پکڑنے سے بات نہیں بنے گی۔

اگلا سوال معروف کالم نگار افشاں مراد سے کہ ’’اس کمرشل دور میں قلم کار کی کیا ذمے داری ہے؟‘‘

افشاں مراد: ادیب بھی اپنے آس پاس سے متاثر ہے، اس نے اپنا اصلاح کا پہلو دبا دیا ہے، ترجیحات بدل لی ہیں۔ ادیب وہ لکھنا چاہتا ہے جو چلے، اس کا نام ہو، کیوں کہ نصیحت لوگ پڑھتے نہیں۔ اگر ایک ماں گھر میں تربیت کررہی ہے کیا آپ کے اردگرد کا ماحول اسے قائم رہنے دے گا؟ آج لکھاری سوچتا ہے کہ میری تحریر میں ایسی کیا چیز ہو جس سے لائیک کمنٹس بڑھیں۔ اس چیز نے بھی لکھنے والے پر اثر ڈالا ہے۔

اگلا سوال نادیہ نقی ڈان نیوز کی اینکر پرسن سے کہ ’’موجودہ معاشرہ جس تنزلی کا شکار ہے اس میں میڈیا کا کیا کردار ہے؟‘‘

نادیہ نقی: یقینا میڈیا کا اہم کردار ہے، لیکن لگتا ہے میڈیا نے سارا بوجھ نیوز میڈیا پر ڈال دیا ہے، جب کہ ہمارا کام صرف رپورٹ کرنا ہے، جو واقعہ ہوا اُسے دکھانا ہے۔ ہاں کس انداز سے دکھایا؟ اس پر سوال ہے۔ دوسرا میڈیا کا بڑا کردار انٹرٹینمنٹ چینل کے ڈرامے ہیں جو عورتیں دیکھتی ہیں اور بچے سیکھ رہے ہیں کہ ہمیں بھی اسی طرح عورت پہ ہاتھ اٹھانا ہے۔ جب ہم میڈیا کا ذکر کریں تو دیکھیں کہ وہ کون سی انڈسٹری ہے جو ایسے ڈرامے بنارہی ہے۔ ایک چیز کو پاکستان میں بار بار دکھایا جاتا ہے وہ اس لیے کہ یہاں عدل کا نظام نہیں ہے۔ باہر کم از کم عدل ہے، اس لیے وہاں ایسا نہیں ہوتا۔

اگلا سوال کہ ’’لکھاری آج کی نوجوان نسل کا ذہن تبدیل کرسکتا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: بالکل کر سکتا ہے… مغرب کی استعماری قوتیں اور ان کا سوچا سمجھا ایجنڈا نوجوان نسل میں مایوسی پھیلا رہا ہے۔ یہاں امن ہوگا، عدل و انصاف اور قانون ہوگا تو قلم کار بھی اپنی ذمے داری اسی طرح پوری کرے گا۔

امت الرقیب نے کہا کہ ہمارے زمانے میں جو قرآن میں فیل ہوتا وہ سب پرچوں میں فیل کردیا جاتا تھا۔ آج ہمیں اسی نظام کی ضرورت ہے جو قرآن کو نافذ کرے۔

پروگرام اب اپنے اختتام کی طرف تھا، آخری سوال ناظمہ کراچی اسماء سفیر سے کیا گیا کہ نوجوان نسل کی ترجیحات کا تعین کون کرے گا؟

اسماء سفیر: ریاست اپنا کام نہیں کررہی مگر ہمیں امید نہیں چھوڑنی ہے۔ نبیؐ کے دور میں معاشرہ کتنا گندا تھا، لوگ برہنہ کعبہ کا طواف کرتے تھے۔ کوئی اپنے گھر میں محفوظ نہ تھا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ قرآن نے نقشہ بدل دیا۔ آج ہم اپنی اصل سے دور ہوگئے ہیں۔ قرآن تھام کر ہمیں اپنی نئی نسل کو امید دینی ہے۔ الحمدللہ جماعت اسلامی اسی مشنِ نبویؐ کو لے کر چل رہی ہے۔ تربیت یافتہ افراد اوپر کی طرف جاتے ہیں اور ہماری لیڈرشپ بھی وہی ویژن اور قرآن کا پیغام لوگوں کو پہنچا کر مایوسی سے نکال رہی ہے۔ اہم یہ کہ آج معاشرے کے سدھار کے لیے کون ہے اللہ کا مددگار، جو آگے بڑھ کر اللہ کے نظام کو قائم کرنے میں ہماری مدد کرے۔

میرا گھر خاندان کی اکائی ہے۔ ہم سب کے گھر ٹھیک ہوں گے۔ مشترکہ جدوجہد کریں گے۔ سب نے اس عہد کا اعادہ کیا۔ اس سیشن کا مقصد بھی یہ تھا کہ ہم بیٹھیں اور سوچیں کہ مشترکہ جدوجہد سے کیسے سدھار لایا جائے، اللہ کا نظام قائم ہوگا تو معاشرے کا ہر پہلو سے بگاڑ ختم ہوگا اِن شاء اللہ۔ دعا کے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا۔ ہم نے قلم بند کیا، ڈائری رکھی اور کونے میں رکھی چائے اور دیگر لوازمات کی طرف چل دیے جن کی خوشبو ہرسو پھیلی ہوئی تھی۔

حصہ