جمہوری نظام میں نااہل وزرا عملاً ہوشیار بیوروکریسی کے زیر اثر ہوتے ہیں،حاجی حنیف طیب کا ایک یادگار انٹریو

353

ہمارے ملک میں جمہوریت اور آزادی کی نیلم پری مارشل لا کے بھاری بوٹوں تلے اتنی بار اور اتنی دیر تک کچلی گئی ہے کہ پہچان میں نہیں آتی۔ کانٹے کا سوال جس پر بحث ایک بھنور سی بن جاتی ہے کہ مارشل لا کے آنے یا لانے کا ذمہ دار کون ہے؟ نالائق‘ نااہل‘ مفاد پرست سیاست داں یا طالع آزما فوجی جرنیل؟

ملک میں اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کی ملی بھگت سے پہلا مارشل تب لگا کہ آئین بن چکا تھا اور انتخابات ہونے والے تھے۔ صدر اسکندر مرزا کو اندیشہ کھائے جاتا تھا کہ انتخابات ہو گئے تو ان کی صدارت کا کیا بنے گا؟ آرمی چیف جنرل ایوب خان کی پریشانی یہ تھی کہ مدتِ ملازمت پوری ہو چکی تھی اور دل میں اقتدار کی ہوس انگڑائیاں لیتے نہ تھکتی تھی۔ لاہور میں مارشل لا لگا کر عوامی ردعمل جاننے نیز جمہوری سیٹ اَپ اور سول انتظامیہ کے مقابلے میں فوج کی کارکردگی کے شان دار مظاہرے کے لیے پنجاب میں قادیانی مسئلہ پیدا کرکے امن وامان کی صورت حال اتنی مخدوش کی گئی کہ مذکورہ منصوبہ بندی کو روبہ عمل لانے کا راستہ ہم وار ہو گیا۔ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو ناکام بنانے کے لیے غذائی قلت کا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا اور خواجہ صاحب کے امیج کو جو سادگی اور شرافت کا پیکر تھے‘ بنگالی بھی تھے‘ تباہ کرنے کے لیے ’’قائد قلت‘‘ (بروزنِ قائد ملت) کا خطاب بھی دلا دیا گیا۔ سب کچھ نہایت ہوشیاری اور عیاری سے کیا گیا۔ لاہور کے اوّلین مارشل لا کے ایڈمنسٹریٹر جنرل اعظم خان نے طاقت کے زور پر امن و امان بحال کر دیا اور پھر بجائے بیرکوں میں واپس جانے کے بازاروں اور درس گاہوں تک کی تعمیر و اصلاح کے عظیم مشن پر خود کو مامور کر لیا۔ لہٰذا جب اسکندر و ایوبی مارشل لا ’’قوم و ملک کے عظیم تر مفاد‘‘ میں لگایا گیا‘ آئین کو قتل اور جمہوریت و آزادی کی نیلم پری کو فوجی بوٹوں سے روند دیا گیا تو سیاست دانوں سے تنگ آئے عوام نے اسے ’’انقلاب‘‘ اور دانش وروں نے امید کی ’’نئی کرن‘‘ سے تعبیر کیا۔ کم ہی لوگوں میں وہ مومنانہ فراست تھی کہ یہ جان سکتے کہ ملک کو تاریک سرنگ میں دھکیل دیا گیا ہے جس کے دوسرے پر بھی اندھیرے ہیں۔ ملک دو لخت ہوا تو ایک شرابی جنرل کے ہاتھوں‘ سیاچن ہاتھوں سے گیا تو ایک نمازی جنرل کے زمانۂ اقتدار میں۔ کارگل سے ہم محروم ہوئے تو ایک طالع آزما جرنیل کے نام ایڈونچر ازم کے نتیجے میں۔ ستم ظریفی سے سارے جرنیل آئین کو منسوخ یا معطل کرنے کا اعلان ’’ملک میں حقیقی جمہوریت کے نفاذ‘‘ کے وعدے کے ساتھ آئے اور پھر ان کے نوے دن کبھی نو سال اور کبھی گیارہ برسوں پر پھیلتے چلے گئے۔ نہ حقیقی جمہوریت کا چہرہ ’’عزیز ہم وطنو‘‘ کو وہ دکھا سکے اور نہ ملک کی حالت ہی بدلی۔ نت نئے تجربات‘ کبھی بنیادی جمہوریت‘ کبھی غیر جماعتی انتخابات اور کبھی ناظمین کا نظام۔ عوام مارشل لا کے مقدس آپریشن ٹیبل پر پڑے کراہتے رہے۔ سو آج بھی وہ کراہ ہی رہے ہیں۔ ہر چند کہ جمہوریت ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے جب محسن کشی کا مظاہرہ فرمایا (جیسا کہ جنرل ضیا اپنے محسن ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ فرما چکے تھے) اور کئی جرنیلوں پر سبقت دے کر انہیں آرمی چیف بنانے والے وزیراعظم کو حوالۂ زنداں کرکے قوم کے سامنے خود کو مثلِ ’’کمال اتاترک‘‘ پیش کرنے میں کوشاں تھے تب میں نے ایک سیاسی رہنما اور اس سے زیادہ سیاسی کارکن حاجی حنیف طیب سے ملاقات کی اور جنرل مشرف کے اعلانات و اقدامات کے بارے میں پائے جانے والے تحفظات پر تفصیلی گفتگو کی۔

ہر چند کہ پل کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا‘ جنرل پرویز مشرف کی حکومت اور ان کی اعلانات و اقدامات بھی قصۂ پارینہ ہوئے مگر مارشل لا کا دھڑکا اب بھی حساس دلوں کو لگا رہتا ہے۔ فوجی حکومت آتی ہے تو عوام کی امید بندھ جاتی ہے‘ وہ اچھے دنوں کے خواب دیکھنے لگتے ہیں مگر عملاً ہوتا کیا ہے؟ فقط اس کی یاد تازہ کرنے کے لیے حاجی صاحب کا انٹرویو پڑھ لیجیے اور خدارا امید بھری نگاہ سے کبھی کسی طالع آزما جرنیل کی طرف نہ دیکھیے اور پھر بھی حرماں نصیبی سے کوئی بندوق تانے آجائے تو کم از کم مٹھائیاں تو نہ بانٹیے کہ تجربے نے بتایا ہے کہ یہ مٹھائیاں ابتدا میں میٹھی اور آخر میں بڑی زہریلی نکلتی ہیں۔

طاہر مسعود: 12 اکتوبر کا جو واقعہ پیش آیا اور جس کے نتیجے میں ایک فوجی حکومت قائم ہوئی‘ اس فوجی حکومت کے قیام کو بھی سو دن سے اوپر ہو چکے ہیں‘ اب تک قومی سطح پرجو صورت حال رہی ہے اس میں آپ کے اطمینان اور تشویش کے پہلو کیا کیا ہیں؟ کچھ اس بارے میں ارشاد فرمائیں۔

حاجی حنیف طیب: 12 اکتوبر کو جو واقعہ ہوا‘ وہ یقینا بہت افسوس ناک ہے۔ ایک جمہوری حکومت جو چل رہی تھی اچانک اس کو ختم کر دیا گیا۔ یقینا شکایت کے کچھ پہلو بھی رہے ہوں گے لیکن ان شکایات کے پیش نظر پورے جمہوری نظام کو تہ و بالا کر دینا مسائل کا حل نہیں۔ چنانچہ اس حکومت کو بھی مسلسل مسائل کا سامنا ہے اور عوام میں عارضی طور پر جو خوشی کی لہر دوڑی تھی‘ وہ اب مایوسی میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ قتل و غارت گری کے واقعات بڑھ گئے‘ عوام کو امن کی طلب تھی اور توقع تھی کہ فوج آجائے گی تو امن قائم ہو جائے گا لیکن امن بھی قائم نہیں ہوا۔ لوٹ مار کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ آج بھی ہم ایک الم ناک فضا میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ نواز شریف کے وکیل اقبال رعد صاحب کو بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔ دوسرا عوام کا مسئلہ تھا کہ مہنگائی میں کمی آجائے گی۔ اس حوالے سے بھی عوام کی تسلی کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ تیسرا پہلو روزگار کے نہ ہونے کا تھا۔ روزگار کا مسئلہ تو نواز شریف کے دور میں بھی تھا لیکن فوجی حکومت نے آتے ہی اسٹیل مل ہو یا کے ڈی اے‘ ان سے لوگوں کو نکالنا شروع کیا ہے۔ تو بہ حیثیت مجموعی اس وقت تکلیف دہ پہلو زیادہ ہیں۔ پھر ایک روٹین ہے کہ بیورو کریسی بغیر سفارش کے کوئی کام نہیں کرتی تو وہ ایک ٹوٹا پھوٹا نظام جو میسر تھا کہ لوگ عوامی نمائندوں کے پاس چلے جاتے تھے اور جووزرا تھے وہ بھی بیش تر منتخب لوگ تھے تو ان کے پاس آدمی براہ راست بھی چلا جاتا تھا تو اس طرح لوگوں کی کچھ نہ کچھ فریاد رسی ہو جاتی تھی‘ مسائل حل ہو جاتے تھے۔ اس حوالے سے بھی جو افراد موجودہ حکومت نے لیے ہیں اس میں یہ سوچ کار فرما ہے ہی نہیں کہ عوامی رابطے کے لوگ ہوں‘ جو لوگ ہیں ان کا بھی کوئی عوامی پس منظر نہیں ہے کہ عوام کے وہ مسائل جو کسی نہ کسی طریقے سے حل ہو جاتے تھے اس میں بھی دشواری ہو رہی ہے۔ بہ حیثیت مجموعی میں وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ عوام کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ صرف ایک پہلو تسلی کا کسی حد تک ہے کہ عوام چاہتے ہیں کہ جن لوگوں نے اس ملک کو لوٹا ہے ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو ان کا بھرپور طریقے سے احتساب ہونا چاہیے اور ان سے جو ہڑپ کی جانے والی رقومات ہیں وہ واپس آنی چاہئیں‘ کسی حد تک اس میں پیش رفت ہوتی ہے۔ کچھ پیسے واپس آئے ہیں‘ کچھ ری شیڈولنگ ہوئی ہے۔ کچھ پیسے واپس آنے کی توقع بھی ہے اور کچھ اب نئے مقدمات بنائے گئے ہیں۔

طاہر مسعود: لیکن کہا جارہا ہے کہ احتساب کا عمل سست ہے‘ اس میں کوئی گرم جوشی نہیں پائی جا رہی ہے‘ احتساب کا دائرہ بھی وسیع نہیں ہو رہا ہے؟

حاجی حنیف طیب: جس گرم جوشی کا شروع میں اظہار کیا گیا تھا اور جس جوش و خروش سے 16 نومبر کی تاریخ کا چرچا کیا گیا تھا‘ اس وقت عوام کو زیادہ امید تھی کہ زیادہ پیسے نکلیں گے اور احتساب کی زد میں بلا تفریق کوئی بچ نہیں سکے گا لیکن احتساب بہت سست ہے اور احتساب کے نتیجے میں بہت کم پیسے واپس آئے ہیں اور اس طرح سے احتساب کی زد میں جتنے لوگ آنے چاہئیں تھے‘ اس کا دائرہ وسیع ہوا نہیں ہے۔ حکومت بار بار اس عزم کا اظہار تو کر رہی ہے لیکن دستا ویزی ثبوت وغیرہ کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے لیکن بقول ان کے انہوں نے اس معاملے میں سمجھوتا نہیں کیا ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ کم از کم ایک مقصد تو حاصل ہو جائے کہ جنہوں نے بھی لوٹا اور بلاشبہ مختلف ادوار میں مختلف سیاسی جماعتوں نے اس ملک کو لوٹا ہے تو میں نے تو پہلے بھی سابق سینیٹر سیف الرحمن سے ملاقات کرکے کہا تھا کہ آپ نے احتساب کا دائرہ وسیع نہیں کیا اور اس کو ایک آدھ خاندان تک محدود رکھا تو لوگوں کو احتساب پر یقین نہیں آئے گا بلکہ لوگ اسے انتقام سے تعبیر کریں گے۔ اگر موجودہ حکومت نے احتساب کا دائرہ وسیع کیا اور اس کی رفتار کو اسی طرح تیز رکھا جس طرح سمری ٹرائل ہوتی ہے تو پھر لوگوں کو اس حوالے سے کچھ اطمینان ہوگا۔

طاہر مسعود: احتساب سست ہونے کی وجہ جنرل پرویز مشرف یہ بتاتے ہیں کہ قومی دولت لوٹنے والوں کے خلاف ٹھوس شوائس جمع نہیں ہو سکے ہیں۔ تو اگر یہ صورت حال رہی تو احتساب کا عمل ہی رک جائے گا اور آگے نہیں بڑھ سکے گا۔

حاجی حنیف طیب: ظاہر ہے کہ عواماً اس قسم کے کام کرنے والے لوگ اپنے پیچھے شواہد بہت کم چھوڑتے ہیں۔ یہ تو کوئی نہ کوئی طریقہ انہیں نکالنا چاہیے تھا کہ جس سے وہ بات پایہ تکمیل کو پہنچتی۔ خود انہوں نے کہا تھا کہ ہم لوگوں کا معیار زندگی دیکھیں گے کہ ایک آدمی کا بنیادی ذریعہ آمدنی کتنا ہے اور وہ کتنا خرچ کر رہا ہے اور کس اسٹیٹس پر زندگی گزار رہا ہے۔ اب یہ تو ان کی ذمہ داری ہے کہ جب سارا کام انہوں نے اپنے ذمے لیا ہے تو کسی بھی طریقے سے وہ اس بات کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں اور خزانہ لوٹنے والوں کا احتساب کریں‘ اس کی رفتار بھی تیز کریں اور اس کا دائرہ بھی بڑھائیں۔ دائرہ بڑھانے میں شواہد کا کوئی دخل نہیں ہے اور جن کو احتساب کی زد میں انہوں نے لیا ہے ان کے لیے شواہد‘ ان کا معیار زندگی ہے۔ فرض کیجیے ایک سب انسپکٹر کا احتساب ہو رہا ہے اور وہ ڈیفنس میں ایک ہزار گز کے بنگلے میں رہ رہا ہے اور تین تین‘ چار چار گاڑیاں رکھے ہوئے ہے تو اس کے بعد اس کو ثابت کرنا حکومت کا کام ہے۔ یہ تمام چیزیں حکومت کو پہلے سے سوچنی چاہیے تھیں اور سوچنے کا وقت ملا تھا۔ اب تو عوام نتیجے کے منتظر ہیں اور لٹے پٹے مفلوک الحال منتظر ہیں کہ ملک کو لوٹنے والوں کا احتساب ہوگا۔

طاہر مسعود: آپ احتساب کے عمل سے مطمئن ہیں یا نہیں؟

حاجی حنیف طیب: اس وقت تک جس رفتار سے احتساب کا عمل ہو رہا ہے اس پر مجھے اطمینان نہیں ہے۔ یہی توقع ہے کہ اس میں تیزی پیدا کی جائے گی۔ ایک تو سیاسی لوگ ہیں جن کا احتساب ہونا چاہیے۔ ایک بیورو کریسی ہے جس کا احتساب ہونا چاہیے۔ بیورو کریسی نے بھی اس ملک کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ آپ اسلام آباد چلے جایئے‘ فیڈرل گورنمنٹ کے ملازمین کے لیے جو کالونی بنی ہوئی ہے‘ اس کے مکانات کو دیکھیے تو آپ خود اَش اَش کر اٹھیں گے۔ اسی طرح عدلیہ کے بارے میں تو سابق چیف جسٹس صاحبان مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ عدلیہ کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ ایک مقدمہ دو‘ دو سال تک پڑا رہا اور آپ نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ میں نے اپنی سیاسی زندگی میں دو الیکشن پٹیشن کیے ہیں لیکن اسمبلی ٹوٹ گئی اور پھر بھی فیصلہ نہیں ہو سکا اور ایسی چھوٹی باتوں کا فیصلہ نہیں ہوسکا کہ اگر جج مصلے پر بیٹھ کر سوچے کہ میں نے اتنی چھوٹی سی بات کا فیصلہ نہیں کیا تو اپنے آپ کو خود ملامت کرے گا۔ میرے مقابلے میں ایک شخص امیدوار تھا وہ بینک کا ملازم تھا‘ اس کا فیصلہ وہ نہیں کرسکے۔ اس بارے میں حافظ محمد تقی نے اسمبلی کے فلور پر وزیر خزانہ سے سوال کیا اور انہوں نے تحریری طور پر جواب دیا کہ ہاں یہ شخص ہمارے ہاں بینک کا ملازم ہے۔ کورٹ اس کے باوجود بھی دو سال کے اندر اس کا فیصلہ نہیں کرسکی۔ کوئی طبقہ کرپشن سے محفوظ نہیں ہے‘ سب کا احتساب ہونا چاہیے جس کے حقوق ہیں‘ ان کی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ اگر ہم حقوق کی توقع رکھتے ہیں تو ذمہ داریاں کتنی ادا کیں‘ اس کے احتساب کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے۔

طاہر مسعود: موجودہ حکومت کے ایجنڈے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا بہت وسیع ایجنڈا ہے اور اس میں ان کو احتساب کی حد تک خود کو محدود رکھنا چاہیے اور باقی معاملات آئندہ آنے والی حکومت پر چھوڑ دینا چاہیے جو منتخب اور جمہوری حکومت ہو۔ لیکن انہوں نے جن مسائل کو اپنے ذمے لیا ہے مثلاً صوبوں اور وفاق کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا‘ اختیارات کے ارتکاز کو ختم کرنا وغیرہ تو یہ بہت پھیلے ہوئے مسائل ہیں جس کے لیے وہ پانچ سال سے بیس سال کا عرصہ مانگ رہے ہیں۔ تو آپ کی کیا رائے ہے کہ یہ ایجنڈا واقع طویل ہے یا یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ یہ سب کچھ کریں۔

حاجی حنیف طیب: ایجنڈا تو واقعی طویل ہے اور اسی طوالت کی وجہ سے جنرل صاحب نے کہہ دیا ہے کہ پانچ سال سے لے کر بیس سال لگ سکتے ہیں۔ اس میں بہت سارے کام ایسے ہیں جو سیاسی حکومتوں کے کرنے کے ہوتے ہیں۔ یہاں میں تھوڑی سی گزارش کروں گا کہ چونکہ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے جمہوری نظام چلنے نہیں دیا گیا۔ پے در پے اس پر حملے ہوئے اس لیے سیاسی جماعتیں اپنا ہوم ورک کے معاملے میں ذرا کمزور ہیں۔ عام جمہوری نظام کے دوران بھی بسا اوقات میں نے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں دیکھا ہے کہ متعلقہ وزیر کامن سینس کے سوال کا بھی جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے جب کہ سوال پہلے بھیجا جاتا ہے اس کا جواب بیورو کریسی تیار کرتی ہے اور بیورو کریسی جو جواب تیار کرتی ہے وہ آخر میں وزیر کے پاس آتا ہے۔ وزیر کو اس کا جواب پڑھنے کی مہلت ہوتی ہے اور اس پر ہونے والے ممکنہ ضمنی سوالات کے جواب کا مٹیریل فائل میں لگا کر دیا جاتا ہے۔ پھر اس کو چھاپ کر جس دن قومی اسمبلی میں سوال ہوتا ہے اس کو ٹیبل میں لگا دیا جاتا ہے۔ لیکن میں نے دیکھا کہ چھپے ہوئے جواب کے ساتھ موجود مواد کے باوجود ضمنی سوال کا جواب نہیں دیا جاسکا۔ اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ سیاسی لوگوں کو بھی اسمبلی یا سینیٹ کے اجلاسوں میں تیار ہو کر جانا چاہیے۔ میں جب وزارتِ محنت اور اوورسیز پاکستانیز کا وفاقی وزیر تھا تو مجھ سے پہلا سوال یہ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں بے روزگاری کب ختم ہوگی؟ بیورو کریسی نے مجھے جواب یہ لکھ کر دیا تھا کہ چھٹے پنج سالہ منصوبے کے خاتمے پر پاکستان سے بے روزگاری ختم ہو جائے گی۔ جب میں نے اس کو پڑھا تو محسوس ہوا کہ یہ جواب درست نہیں ہے لہٰذا میں نے اس کا پہلے جواب تیار کیا پھر ٹیلی فون پر سیکرٹری صاحب سے کہا کہ یہ جواب جن لوگو ں نے تیار کیا ہے ان سب کو آپ کمیٹی روم میں جمع کریں‘ میں ان سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ سیکرٹری نے کہا کہ مجھ سے بات کر لیجیے اگر کوئی خاص بات ہو۔ میں نے کہا کہ نہیں جنہوں نے جواب تیار کیا ہے ان کو بلا کر بٹھائیں‘ میں آتا ہوں۔ میں جب گیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ جواب جو دیا گیا ہے آپ مطمئن ہیں کہ چھٹے پنچ سالہ منصوبے کے خاتمے پر بے روزگاری کا خاتمہ ہو جائے گا؟ انہوں نے کہا نہیں‘ تو میں نے کہا پھر ایسا جواب آپ مجھ سے کیوں دلوانا چاہتے ہیں۔ میں ورکر ہوں تو میں جواب تیار کرکے آیا ہوں اور جب میں نے ان لوگوں کو اپنا جواب سنایا تو انہوں نے کہا کہ یس سر! میں نے کہا یس سر‘ نو سر نہیں اسمبلی بزنس میں تیار ہو کر آیا کیجیے۔ میں نے تین سال میں دیکھا کہ کبھی بھی وہ تیار ہو کر منسٹر کو بریف نہیں کرتے۔ جب تک منسٹر خود فائل کو محنت سے پڑھے۔ یہ ضمناً ایک بات میں نے عرض کر دی کہ ہمیں جو بھی پہلے سے خود کو تیار کرکے اسمبلی میں جانا چاہیے اور سیاسی پارٹیاں یہ دیکھیں کہ ان کا نمائندوں وہاں جا کر کرپشن میں مبتلا نہ ہو جائے۔ جنرل صاحب کے ایجنڈے کا جہاں تک سوال ہے توقع سے زیادہ وہ طویل ہو گیا ہے۔ بہ قول شاعر:

بڑھائے جا رہے ہیں آپ مدت شامِ ہجراں کی
حقیقت کھل گئی اب تو تمہارے عہد و پیماں کی

انہوں نے جنرل ضیا الحق کے برعکس پہلے ہی سے کہہ دیا کہ میرا کوئی ٹائم فریم نہیں ہے۔ میں اپنا ایجنڈا پورا کروں گا پھر معاملات کو دیکھوں گا۔ جنرل ضیا الحق نے نوے دن کا وعدہ کیا تھا‘ وہ نوے مہینوں پرمحیط ہو گیا۔ اب یہ پانچ سال سے بیس سال کی بات کہہ رہے ہیں۔ اس لیے یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ان کا کہاں تک جانے کا ارادہ ہے۔ سیاسی لوگوں کو سیاسی کام کرنے دینا چاہیے۔ درمیان میں جنرل صاحب کا بیان آیا تھا کہ میں سیاسی لوگوں کی قدر کرتا ہوں‘ اس سے امید ہو چلی تھی کہ وہ جمہوریت کی طرف آنے کا ارادہ کر رہے ہیں لیکن بعد کے بہت سے بیانات سے لگتا ہے کہ ان کا ارادہ جلد جمہوریت کی طرف آنے کا نہیں ہے۔

طاہر مسعود: اچھا ایک سوال یہ بھی ہے کہ موجودہ حکومت کی Validity کیا ہے؟ کس طرح اس کو آئینی حکومت کہا جاسکتا ہے اور جب آئینی حکومت ہے ہی نہیں تو اس کے سارے اقدامات اور فیصلوں کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟

حاجی حنیف طیب: دراصل بات یہ ہے کہ اس عنوان سے سپریم کورٹ میں ایک کیس بھی چل رہا ہے لیکن ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے میری رائے یہ ہے کہ کوئی لیگل Validity تو اس حکومت کی نہیں ہے۔ انہوں نے Might is Right کے حساب سے کام شروع کردیا ہے لیکن ہمارے ہاں براہِ راست مارشل لا بھی لگا ہے اور مارشل لا حکومت ہی کے تحت فیصلے ہوتے رہے ہیں اور مارشل لا کے جانے سے پہلے سارے کاموں کو Validate بھی کرالیا جاتا ہے تو جمہوریت کے استحکام کی خاطر بعض اوقات ضروری ہوجاتا ہے جیسا کہ 1985ء سے 1988ء تک کی اسمبلی تھی جس نے ضیا حکومت کے سارے اقدامات کو Validate کر دیا کیوں کہ 23 مارچ کو مرحوم محمد خان جونیجو نے کہا تھا کہ مارشل لا اور سول حکومت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ میں ان کی کابینہ میں اوّل تا آخر رہا۔ اس حکومت میں فیصلہ ہوا تھا کہ سیاسی عمل کو بحال کیا جائے گا اور سیاسی جماعتوں پر سے پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔ بنیادی حقوق بحال کیے جائیں گے اور ایمرجنسی ختم کر دی جائے گی پھر اس کے بعد مارشل لا اٹھا لیا جائے گا۔ یہ سارے کام 31 دسمبر 1985ء تک کے عرصے میں ہو گیا تھا تو اب ظاہر ہے یہ سارے اقدامات کرانے تھے تو پچھلے سارے اقدامات کو سپریم کورٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی Validate کر دیا تھا۔ موجودہ حکومت کی بھی Validity کوئی نہیں ہے۔ وہ احکامات جاری کر رہے ہیں اور ان پر عمل بھی ہورہا ہے لیکن جب وہ کوئی سسٹم لانا چاہیں گے تو وہ سارے احکامات Validate کروا لیں گے جیسا کہ ہمارے ملک میں رواج رہا ہے۔

طاہر مسعود: اس حکومت کا جو سول چہرہ ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے این جی او کی ایک ٹیم لے لی ہے۔ ان وزیروں کا رہن سہن طرزِ بود و باش دیسی نہیں ہے تو اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کہ ایسے لوگوں کی ٹیم کس طلرح کامیاب اور مؤثر رہے گی؟

حاجی حنیف طیب: اب تک وقت نے بتایا کہ یہ ٹیم کسی طرح مؤثر نہیں ہے۔ خصوصاً عوامی مسائل کے حل کے حوالے سے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس میں بعض آئی ایم ایف کے پسندیدہ لوگوں کو لے لیا گیا ہے۔ اس لیے سارے قرضوں کی ری شیڈولنگ ہوتی چلی جا رہی ہے لیکن جب تک لوگوں کے مسائل حل نہ ہوں‘ اس لیے کہ حکومت تو لوگوں کے مسائل حل کرنے کی لیے بنائی جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس حکومت کا جو سول چہرہ ہے‘ اس میں سوائے معین الدین حیدر کے کوئی آدمی ایسا نظر نہیں آرہا جو لوگوں سے ملاقات کرتا ہو‘ ان کے مسائل سنتا ہو اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرتا ہو۔ نتیجہ یہ ہے کہ سول چہرہ اس کا‘ اسے سول کہنا بھی مناسب نہیں ہے۔ اس لیے کہ سول لوگ وہی ہوتے ہیں جو لوگوں کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھتے ہوں اور یہاں ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے۔

طاہر مسعود: موجودہ حکومت کے معاملے میں سیاسی جماعتوں کا ردعمل خاصا تعجب خیز ہے۔ پچھلی فوجی حکومتوں کے معاملے میں سیاسی جماعتوں نے مزاحمت کا مظاہرہ کیا تھا لیکن موجودہ حکومت کے بارے میں کچھ سیاسی جماعتوں نے خیر مقدم کیا ہے وہ بھی محض نواز شریف حکومت کے بغض میں۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے غیر مشروط تعاون کا یقین دلایا ہے۔ بعض سیاسی جماعتیں بالکل خاموش بیٹھی ہیں تو سیاسی جماعتوں کے اس ردعمل کے بارفے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

حاجی حنیف طیب: جنرل ایوب خان اور جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دوران ہمارے ملک کا بھارت کے ساتھ اتنا تنائو کا معاملہ نہیں تھا۔ اس وقت تو بھارت کے ساتھ اتنا ٹینشن کا معاملہ ہے اور سرحدوں کی صورت حال بھی اتنی سنگین ہے کہ آج سے پہلے نہ تھی۔ پہلے کبھی 1965ء کی جنگ گزر چکی تھی اور 1968ء میں یہ صورت حال نہیں تھی۔ پھر 1971ء میں ذلت آمیز صورت حال رہی۔ 1977ء کا زمانہ سیاسی زمانہ تھا۔ اور ان سیاسی حالات میں لوگوں کے ردعمل میں سختی موجود تھی۔ اس وقت پاکستان اور بھارت کے تعلقات اچھے نہیں ہیں اور سرحدوں پر کھنچائو ہے اور جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی جماعتوں کے ردعمل میں سختی نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ دوسرا یہ کہ جی ڈی اے میں بھی اس پر اختلاف ہے۔ ایک گروپ کا کہنا یہ ہے کہ ہم نواز شریف کو ہٹانے کی یہ قیمت نہیں دینا چاہتے ہیں کہ پرویز مشرف آجائے۔ دوسرا گروپ جی ڈی اے کا یہ کہتا ہے کہ ہم نواز شریف حکومت کی بحالی کی بات نہیں کرسکتے۔ یہ سیاسی جماعتوں کا باہم اختلاف بھی ایک بڑا عنصر ہے۔ یہ اختلاف باہمی جمہوریت کے لیے کچھ اچھا شگون نہیں ہے۔ یقینا اس سے جمہوری عمل کی ازسرنو بحالی میں دشواری ہوگی۔ سیاست دانوں کو اس سارے معاملے میں یہ سوچنا چاہیے اور جو سیاست دان غیر مشر وط حمایت کی بات کر رہے ہیں تو مجھے ایسے لوگوں کو سیاست دان کہتے ہوئے بھی تکلیف ہو رہی ہے۔

طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے کام کرنے کا اصل وقت وہی ہوتا ہے جب جمہوری عمل معطل ہو۔ عوام سے رابطہ مہم‘ پارٹی میں انتخابات‘ صف بندی‘ تنظیم سازی وغیرہ کے لیے اس وقت فرصت ہے لیکن سیاسی جماعتیں اس طرف سے غافل ہیں اور محض بیان بازیی پر اکتفا کیے ہوئے ہیں؟

حاجی حنیف طیب: آپ نے یہ کہہ کر یاد دلا دیا کہ جنرل ضیا الحق کا جب مارشل لا لگا تھا تو اس وقت جمعیت علمائے پاکستان متحد تھی تو میں اور ظہور الحسن بھوپالی شہید مولانا شاہ احمد نورانی کے پاس گئے۔ اس وقت سیاسی جماعتوں کے دفتر سیل ہو گئے تھے اور مولانا ورلڈ اسلامک مشن کے دفتر میں بیٹھے تھے تو ہم لوگوں نے مولانا سے کہا یہ ہوم ورک کے لیے بہترین وقت ہے۔ تنظیم کا کام بھی کر لیں‘ پارٹی کے اندر الیکشن کا کام بھی کرلیں تو آپ نے فرمایا کہ کام کرنے کا صحیح وقت یہی ہے۔ دو ایک سیاسی جماعتیں ایسا کر بھی رہی ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کی اکثریت نے بھی بس بیان بازی پر اکتفا کیا ہوا ہے۔ یہ سیاست دان نہ علاقوں میں جاتیژ ہیں‘ لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں نہ ان کی مشکلات دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ سیاست دانوں کے روابط بیورو کریسی سے تو رہتے ہیں۔ تو وہ اگر آج بھی چاہیں تو لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کسی سے بھی رابطہ کر سکتے ہیں لیکن وہ اس طرف راغب نہیں ہوتے ہیں اس لیے بے زاری پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ یہ بہت ہی افسوس ناک معاملہ ہے کہ وہ ہمارے مسائل سے غافل ہیں اور ان کا اپنا معیار زندگی بڑھتا جا رہا ہے۔ تو لوگوں میں ظاہر ہے کہ یہ سوچ پیدا ہوتی ہے۔

کیا اس لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے

سیاست دانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے قول و فعل میں ہم آہنگی پصیدا کریں۔

طاہر مسعود: آپ بہ حیثیت سیاست دان عوام سے رابطہ رکھتے ہیں؟ ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں؟

حاجی حنیف طیب: آج جو میں یہاں آیا ہوں تو صبح ڈپٹی کمشنر کے دفتر گیا تھا۔ میرے علاقے کھارادر کا ایک مسئلہ ایڈیشنل ڈپٹی مجسٹریٹ کے پاس اٹکا ہوا تھا۔ تو ڈی ای ایم سائوتھ کے پاس گیا۔ پھر کل ایک نوجوان محمد اقبال کو قتل کر دیا گیا تھا اس کے لیے میں کمشنر کے پاس گیا تو میری روٹین ہے کہ میں مختلف دفاتر جاتا ہوں‘ فون کرتا ہوں یا پرچے لکھتا ہوں۔ ہم سوشل میدان میں بھیء کام کرتے ہیں۔ المصطفی ڈائیگنوسٹک ڈائیلسز سینٹر ہے جس کا جمعیت علمائے پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم اس کے کام کو بھی پھیلا رہے ہیں۔ اسی طرح کمپیوٹر لٹریسی کے لیے حکومت کو کچھ کرنا چاہیے اور حکومت نہیں کر رہی‘ ہم جگہ جگہ اس کے سینٹر کھول رہے ہیں تاکہ لوگوں کو آسانی کے ساتھ مفت کمپیوٹر لٹریسی کی ٹریننگ حاصل ہو سکے۔ میں جس دفتر میں جاتا ہوں میرا کام ہو جاتا ہے کیوں کہ بیورو کریسی جانتی ہے کہ حاجی صاحب کبھی اپنا کوئی ذاتی کام لے کر میرے پاس نہیں آئے۔ لہٰذا کسی بھی مجبور کا کام لے کر جاتا ہوں تو کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو‘ میری بات سنتے ہیں اور حتی الوسع مدد کرتے ہیں۔

حصہ