زمانۂ قدیم سے لے کر آج دور جدید میں بھی مشاورت کی اہمیت و افادیت سے کسی کو نہ انکار ہے اور نہ ہی اس کے بغیر کسی بھی منصوبے کو احسن طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔ فردِ واحد چاہے جتنا بھی ذہین اور باصلاحیت ہو‘ اس کا تنہا کیا گیا فیصلہ اور کارکردگی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتی۔ بادشاہوں کا دربار ہو یا انبیائے کرام اور رسولوں کی مجلس شوریٰ‘ فوجی مہمات ہو یا کوئی ترقیاتی منصوبہ، تجارتی ادارے ہوں یا تعمیراتی عمل ہر جگہ اور ہر کام میں باہمی مشاورت اور تبادلہ خیال کے بغیر متفقہ اور مشترک رائے نہیں آتی اور بہتر نتیجہ نہیں نکلتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ لہٰذا جب کسی ایجنڈے اور کام کے لیے باہمی تبادلہ خیال اور مشاورت ہوتی ہے تو بہتر سے بہترین طریقہ سامنے آتا ہے کیوں کہ رائے دینے والے ہر کام کا جائزہ دونوں پہلوؤں سے لیتے ہیں اس میں نفع و نقصان دونوں سامنے رکھ کر رائے زنی ہوتی ہے۔
پتھر کے دور میں بھی قبائلی سردار اپنے فیصلے اپنے خاص بندوں کی مشاورت سے کیا کرتے تھے۔ نمرود نے بھی حضرت ابرہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے سے پہلے اپنی قوم سے رائے لی۔ فرعون نے بھی موسیٰ علیہ السلام کے خلاف قدم اٹھانے سے پہلے اپنے درباریوں سے مشورہ کیا۔ جب ملکہ بلقیس کے پاس حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط آیا تو اس نے اپنے وزرا سے مشورہ کیا اور سرِ اطاعت خم کی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے 12 حوارین تھے جو ہمہ وقت آپ کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ قیصر روم نے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھانے کا فیصلہ قوم کی آرا سے کیا۔ گو کہ بادشاہِ وقت آمر مطلق ہوا کرتے تھے اور آج بھی ہیں مگر وہ کاروبار حکومت اپنے وزرا اور مشیروں کے تعاون اور مشورے سے ہی چلاتے تھے اور آج بھی چلاتے ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو کام باہمی مشاورت سے انجام دیا جاتا ہے اس میں اللہ کی نصرت و تائید حاصل ہوتی ہے۔‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو براہ راست اللہ کی ہدایات ہوتی تھیں مگر پھر بھی آپؐ اپنے فیصلے صحابہ کرامؓ بالخصوص خلفائے راشدینؓ کے مشورے سے کیا کرتے تھے اور اصحاب کی آرا کو اپنے فیصلے میں شامل کیا کرتے تھے۔
میثاق مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی رائے کو ملحوظ خاطر رکھا۔ جنگِ احد کے موقع پر آپ کی رائے تو مدینہ میں رہ کر مقابلہ کرنے کی تھی مگر جب پُرجوش اور نوجوان صحابہؓ کی اکثریت نے مدینہ سے باہر نکلنے کی رائے دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجرے میں گئے اور جب ہتھیار بند ہو کر نکلے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو محسوس ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے فیصلے سے خوش نہیں ہیں تو صحابہؓ نے اپنی رائے سے رجوع کرنا چاہا۔ مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب رسول ہتھیار بند ہو تو فیصلہ نہیں بدلا جاتا ہے۔‘‘
بعد میں قرآن کی آیت میں یہ بات نازل ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہی درست تھا چوں کہ یہ مشاورت سے ہوا اس لیے اللہ کی پکڑ سے تم لوگ بچ گئے۔
جنگ احزاب کے موقع پر مدینے کے اطراف حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورے سے خندق کھودی گئی۔ جنگِ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے کا فیصلہ بھی مشورے سے کیا گیا حالانکہ کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو سب کو قتل کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن فیصلہ مشاورت سے تھا اس لیے اس فیصلے کو اللہ کی تائید حاصل ہوئی۔خلفائے راشدین کی سنت تھی کہ وہ اپنے فیصلے مشاورت سے کیا کرتے تھے جس کو ’’مجلس شوریٰ‘‘ کا نام دیا گیا۔
حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بہت سارے معاملات میں نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورے دیتیں بلکہ آپؐ کی ڈھارس بھی بندھاتی تھیں۔ یہ بات مشاہدے میں ہے کہ کسی خاندان کا سربراہ اگر کسی کام میں اپنی بیوی اور بیٹے‘ بیٹیوں کو مشورے کی غرض سے شامل کرتا ہے تو گھر میں خوش گوار فضا قائم ہوتی ہے اور گھر کے ہر فرد کو احساسِ شمولیت ہوتی ہے اور وہ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں متحرک ہوتے ہیں۔ نیا مکان خریدنا ہو، شادی کے رشتے طے کرنے ہوں یا کوئی نیا کاروبار کرنا ہو تو باشعور لوگ نہ صرف گھر کے افراد بلکہ رشتے دار اور قریبی دوست و احباب سے مشورہ کرتے ہیں۔ مشورے کے بعد خدانخواستہ ناکامی ہو جائے تو پچھتاوا نہیں ہوتا۔
دورِ جدید میں دنیا کی تمام ممالک میں ہر محکمے کے لیے ایک مشاورتی کونسل ہے۔ حکومتیں ملکی معاملات، خارجہ پالیسی، معاشی منصوبے گویا ہر فیصلہ کابینہ کے اجلاس میں کرتی ہیں مگر اس سے پہلے وزارتوں کے سیکرٹریوں سے مشورے اور پالیسی کے خدوخال کی بریفننگ لی جاتی ہے اس کے علاوہ شعبے کے ماہرین مشیر کے طور پر رکھے جاتے ہیں‘ ارکان پارلیمنٹ اور سینیٹ سے منظوری بھی لی جاتی ہے۔ پوری دنیا میں ہر موضوع پر بڑی بڑی کانفرنسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں ماہرین اپنی آرا کو مقالات کی صورت میں گائیڈ لائن کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس لیے کہ کسی بھی ملک کا سربراہ اکیلے ملک کے تمام معاملات کو نہیں چلا سکتا۔ بڑے سے بڑا آمر بھی یہی طریقہ اپناتا ہے۔
دنیا کی تمام سیاسی پارٹیوں میں ان کی اپنی کور کمیٹیاں ہوتی ہیں جو اپنے سربراہ کو پارٹی پالیسی بنانے میں مشورہ دیتی ہیں۔ مذہبی جماعتوں کی مجلس شوریٰ ہوتی ہے جو وقتِ ضرورت اپنے کسی بھی ایجنڈے پر متفقہ یا کثرتِ رائے سے فیصلے کرتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پارٹیاں اور جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔
کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات تو امتحانات کی تیاریاں Study circle کے ذریعے کرتے ہیں۔ اس معاملے میں اسلامی جمعیت طلبہ اپنی شناخت رکھتی ہے جو نہ صرف اپنے ارکان و کارکنان کی بلکہ دیگر طلبہ و طالبات کی بھی تربیت باہمی تبادلہ خیال اور Study circle کے ذریعے کرتی ہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب اس رجحان میں کمی محسوس ہوتی ہے۔
باہمی تبادلہ خیال اور Study circle سے فرد کے اندر نہ صرف بولنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے بلکہ بے باکی اور خود اعتمادی بھی پیدا ہوتی ہے۔ نیز قائدانہ صلاحیتیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ آج جتنے بھی پرانے لیڈر ہیں وہ سب کسی کالج یا یونیورسٹی میں اچھے مقرر رہے ہیں۔
یہ چند اشعار احساس کی صورت پیشِ خدمت ہیں تاکہ قارئین اپنی آرا پیش کریں اس لیے کہ یہ مضمون باہمی تبادلہ خیال پر ہے۔
کشتیاں اب کنارے پر ڈوبنے لگیں
ساحل کے دیوتا نے کفن کی دکان کھولی ہے
بیویاں اب بازاروں میں گھومنے لگیں
مردوں نے چوڑیوں کی دکان کھولی ہے
٭
حاکموں نے اک نیا فرمان جاری کر دیا
آج سے آب و ہوا میں تازگی مت ڈھونڈیئے
پانی‘ بجلی ‘گیس ‘ مہنگائی ‘ امن و امان کی ابتر صورت حال اس پر حکمرانوں کی عیاشیاں اور عوام کی خاموشی کیا اس شعر کے مصداق نہیں؟
بے حسی کا زہر پی کر لوگ کب کے سو چکے
پتھروں کے اس نگر میں آدمی مت ڈھونڈیئے