زیتون کا آٹھواں سالانہ قومی دن

582

پاکستان اب آنے والے دنوں میں زیتون کی کاشت کا ایک بڑا ملک بننے جارہا ہے

قومی دن کا چکر:پاکستان میں زیتون کا قومی دن ہر سال ستمبر کے آخری اتوار کو ترتیب دیا گیا ہے۔ اس مناسبت سے تقریب یا کوئی میلہ بھی سجایا جاتا ہے۔ زیتون کی کاشت سے لے کر اس کے فروغ کے لیے کام کرنے والوں کو سراہا جاتا ہے۔ صرف زیتون ہی نہیں بلکہ پاکستان میں پیدا ہونے والے تمام اہم پھلوں کے لیے اس طرح کے ایام مختص کیے گئے ہیں جن کی مجموعی تعداد 90 تک ہوگئی ہے۔ یعنی آپ یہ سمجھ لیں کہ سال کے اب کم از کم 90 دن پاکستانی پھلوں کی کاشت کے فروغ کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ ان سب میں حکومت بالخصوص پنجاب حکومت کی سرپرستی شامل ہے۔

4 اکتوبر کو مونگ پھلی کا قومی دن منایا جائے گا۔

امسال کلرکہار کی خوبصورت، سرسبز و شاداب وادی میں واقع سہگل فارم کی حدود میں زیتون کے ڈھیروں درختوں کے درمیان زیتون کے آٹھویں سالانہ قومی دن کی تقریب سجائی گئی۔

زیتون سے تعارف:یوں تو زیتون سے ہمارا پہلا تعارف قرآن مجید سے ہوا۔ بچپن ہی میں تیسواں پارہ شروع کرایا جاتا ہے، پھر اسکول کی دینیات کی کتب میں بھی یہ سورۃ حفظ کے لیے مل جاتی۔ ہمیں تو عربی اُس وقت سمجھ میں نہیں آتی تھی مگر سورۃ التین کی بدولت زیتون ہمارے شعور کا حصہ بن گیا کہ یہ ایک پھل ہے جس کی اللہ نے قسم بھی کھائی ہے۔ کچھ بڑے ہوئے تو انجیر ہمیں بہرحال نظر آگیا، باقی قرآنی پھلوں میں انگور مل گیا۔ شہد و دودھ سے بھی آشنائی ہوگئی، مگرعملاً زیتون سے پہلا تعارف ساسو کے پیلے اور ہرے ٹن کے ڈبے میں تیل کی صورت ہوا، اور یہ معلوم ہوا کہ یہ سب اسپین و اٹلی یعنی باہر سے آتا ہے۔ پھر کئی سال بعد اس کو ہم نے پیزا کے اوپر دیکھا اور بابرکت پھل سمجھ کر پیزا بھی شوق سے کھاتے رہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بھی اٹلی سے آیا ہے۔ اس پیزا کے علاؤہ ہمیں یہ زیتون سلاد کے اوپر شادیوں وغیرہ میں یا ریستوران میں ملتا، بس اور کہیں نظر نہیں آتا تھا۔ بڑے اسٹور میں جانا ہوا تو ہم اس کو اور اس کے تیل کو شیلف میں رکھا دیکھتے، برکت کے لیے ہاتھ لگاتے اور قیمت پڑھ کر واپس رکھ دیتے۔

زیتون کی برکات:نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث مبارکہ بہت بار پڑھی جو کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’زیتون کا تیل سالن کے طور پر استعمال کرو اور اسے (سر اور بدن میں) لگاؤ۔یہ مبارک درخت سے حاصل ہوتا ہے۔‘‘ اب اس کے بابرکت ہونے اور فائدہ مند ہونے پر یقین اپنی جگہ تھا مگر ہم طویل عرصے بطور مالش یا سرپر لگانے کے لیے استعمال کرتے رہے۔یہاں تک کہ 2020ء آگیا۔

زیتون اور سوشل میڈیا: سوشل میڈیا جس نوعیت کا ابلاغ کرتا ہے اس میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ زیتون کے فروغ اور اس کی کاشت کے کلچر کی معلومات پہنچانے اور اس پر ابھارنے میں بہرحال سوشل میڈیا نے مثبت اثرات ڈالے۔ ہمیں بھی 2020ء میں ہمارے دوست ڈاکٹر فیاض عالم کی سوشل میڈیا پوسٹوں کی بدولت یہ معلوم ہوا کہ زیتون کی پاکستان میں خوب کاشت جاری ہے۔ اس کی قلم کاری کے بارے میں خوب ساری معلومات عام ہوئیں۔ یہ جنگلی و دیسی دونوں صورتوں میں بڑے پیمانے پر پاکستان کے کئی علاقوں میں موجود ہے اور قلم کاری کے ذریعے اس پر خاصا کام کیا جارہا ہے۔

پھر آگہی کا بھی ایک سفر شروع ہوا جو کہ براہِ راست خوشگوار مشاہدے و تجربے تک گیا۔ اب صورتِ حال یہ ہوچکی ہے کہ پاکستان میں مستقل حکومتی توجہ کے نتیجے میں ہم نے زیتون کی کاشت و فروغ میں قدم خاصے آگے بڑھے ہیں۔

قومی دن میں کیا ہوا؟

اس قومی دن پر ملک بھر سے زیتون کے کاشت کاروں اور فروغ کنندگان سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کو بھی مدعو کیا گیا۔

تقریب کی مہمانِ خصوصی ڈپٹی کمشنر چکوال قرۃ العین صاحبہ تھیں جنہوں نے افتتاح کیا۔ اسٹالز کے دوروں کے بعد وہ خود بھی حیران و خوش تھیں کہ اتنا ڈھیر سارا کام ہورہا ہے۔ وہاں ان کو زیتون کے صابن، مسواک، کیک، بسکٹ سمیت کئی اشیاء چکھنے اور دیکھنے کو ملیں۔ زیتون کے درخت کی لکڑی سے مسواک ہی نہیں بلکہ اس سے تیار کردہ چمچے اور کئی دیگر مصنوعات بھی دلچسپی کا مرکز بنیں۔زیتون کی ذیلی پروڈکٹس کا معاملہ یہاں تک ہے کہ اس کا تیل نکالنے کے بعد جو کھل بچتا ہے، وہ بھی پولٹری فیڈ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ سے احمد سعید جو بلاشبہ فخر پاکستان ہیں پھلوں کی کاشت کاری میں، وہ اپنی پھلوں کی بیش بہا نرسری کے ساتھ موجود تھے اور شرکاء کو پھلوں کی نت نئی اقسام دکھا کر حیران کررہے تھے۔ اس کے ساتھ ایک اور پروڈکٹ سرکہ، جو ایک مکمل غذا و علاج کے عنوان کے ساتھ ہماری پوری تاریخ میں موجود رہا ہے۔ یہاں بھی زیتون کے سرکے کو اسی اہمیت و افادیت کے ساتھ رکھا گیا تھا۔ زیتون کے ساتھ کئی لوگوں نے انار، بہی، سیب کے بھی خالص سرکے رکھے تھے۔

سرکے کے استعمال سے متعلق کئی احادیثِ نبوی بھی موجود ہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’سالنوں میں سے عمدہ سالن سرکہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)

25 کے قریب زیتون، انجیر، کاشت کاری رہنمائی اور پودوں سمیت اسٹال لگائے گئے تھے۔

ایونٹ میں پاکستانی کے ساتھ مراکش کے زیتون کے تیل کی برانڈ موراولیو بھی متعارف کرائی گئی۔

پروگرام میں ڈی سی صاحبہ نے منتظمین کاشت کار سمیت سب کو سراہا اور اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔

تمام منتظمین اور مہمانوں میں شیلڈ تقسیم کی گئیں۔ کراچی سے ڈاکٹر فیاض عالم کو اس ایونٹ میں محسنِ زیتون عنوان کی شیلڈ یادگار کی صورت میں دی گئی۔

منتظمینِ ایونٹ کا نام نہ بتانا اچھی بات نہیں:فارمر ایسوسی ایشن چکوال اور اولیو فاؤنڈیشن پاکستان کے صدر اور پاک اولیو برانڈ کے چیف ایگزیکٹو سید یوسف شاہ اور ان کے ساتھ جنوبی پنجاب کے صدر، الزیتونیہ کے چیف ایگزیکٹو مدثر حسین اس پروگرام کے روح رواں نظر آرہے تھے۔ کراچی سے میڈیا گرو کے چیف سید عامر علی بطور میڈیا پارٹنر اور ایگری ٹورازم ڈویلپمنٹ کے طارق تنویر بطور آئیڈیا اوریجینیٹر اس ایونٹ کا حصہ تھے۔ بارانی، سیفورٹ چکوال سے ڈاکٹر ظفر اقبال اور ڈاکٹر انصر کے نام کے بغیر زیتون کا کوئی حوالہ مکمل نہیں ہوتا۔

یہی نہیں، پاکستان میں زیتون کے پی ایچ ڈی اور 22 سال سے اس پھل سے وابستہ ڈاکٹر عظمت اعوان، ڈاکٹر طارق بطور نیشنل پروجیکٹ ڈائریکٹر جیسے بڑے نام بھی اس سرگرمی کے مرکزی سرپرست تھے۔

کچھ تاریخی معلومات:2007ء میں کلر کہار کے فارم ہاؤس میں سید یوسف شاہ نے زیتون کی باقاعدہ کاشت کا آغاز کیا۔یوسف صاحب نے 65 ایکڑ کے سہگل فارم پر 29000 درخت لگائے ہیں جن میں 18500 کے قریب زیتون کے ہیں۔ اس وقت 16000 سے زائد زیتون کے درخت وہاں پھل دے رہے ہیں۔

پاکستان، انٹرنیشنل آلیو کونسل کا رکن بننے کے بعد اب آنے والے دنوں میں زیتون کی کاشت کا ایک بڑا ملک بننے جا رہا ہے۔

2009ء میں یوسف شاہ نے کچھ کاشت کار ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک تنظیم بنائی اور پاکستان بھر میں نیٹ ورک قائم کرکے اس کام کو عملاً آگے بڑھایا۔ اللہ نے مستقل اس کام میں برکت بھی ڈالی۔

اقسام اور پھل:زیتون کی دسیوں اقسام ہیں جو اسپین اور اٹلی سمیت دنیا بھر کے مختلف ممالک سے لائی گئی ہیں۔ مختلف اقسام کے پھل دینے کی شرح، پھل کا ذائقہ اور سائز بھی الگ ہوتا ہے۔ شروع میں درخت پر پھل کی شرح کچھ کم ہوتی ہے، پھر آگے ہر سال بڑھتے بڑھتے وہ دسویں سال میں 15 کلو پھل تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ درخت سالہاسال ہرا بھرا رہتا ہے۔

یوسف شاہ نے بتایا کہ یہاں جنگلی زیتون یعنی کہو اس خطے میں پہلے سے موجود تھا، اس پر کام کیا گیا اور قلم کاری کے ذریعے اضافہ کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس سال 8-10 ہزار کلو پھل متوقع ہے۔

زیتون کی کاشت میں بیرونی تعاون:پاکستان میں زیتون کی کاشت میں اٹلی کے ماہرین کا بھی خاصا تعاون رہا۔ پاکستان ان ساری کوششوں سے بین الاقوامی منڈی میں زیتون کی ایکسپورٹ کے لیے معتبر درجہ پا چکا ہے۔ امریکہ کی بھی اس معاملے میں دلچسپی رہی ہے۔

اس میں اٹلی کے شہری مارکو مارٹینی کا اہم نام ہے جو یہاں کلرکہار میں قومی دن پر قومی لباس میں موجود تھے اور اس پوری صورت حال پر خاصے خوش نظر آئے۔

یوسف شاہ نے بتایا کہ مارکو نے اپنی پوری زندگی زیتون کے فروغ اور اس کی خدمت میں لگائی ہے۔ اٹلی والوں نے اس ضمن میں پاکستان کو کئی اقسام کے ڈھیروں پودے بانٹے۔ انہوں نے پوٹھوہار ریجن خصوصاً کلرکہار میں زیتون کے پھلوں کے نتائج دیکھے تو حیران و خوش ہوئے۔ یہاں سے کسانوں کو اٹلی بھی لے کر گئے کاشت کاری سکھانے کے لیے۔

زیتون سپر فوڈ:یوسف شا ہ نے بتایا کہ شہباز شریف کے دور میں سپر فوڈ کے عنوان سے زیتون کے 20 لاکھ درختوں کا پروپوزل پیش کیا۔ ہم نے ان کو یقین دلایا کہ ہم ایک ایک پودا آپ کو گنتی کرکے لگا کر دکھائیں گے۔ یوں بارانی انسٹی ٹیوٹ کے تعاون سے کام آگے بڑھا۔ 2018ء میں عمران خان نے بھی اس پروجیکٹ کو سپورٹ کیا۔ بہاولپور، ڈیرہ غازی خان سمیت ملک کے بیشتر حصوں میں انتہائی سستے داموں یہ پودے دیئے گئے۔ یوں صرف پنجاب میں 20 لاکھ سے زائد زیتون کے پودے لگائے جا چکے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ پھل دینے میں کم از کم چار سال لگتے ہیں لیکن درخت کی اپنی ڈھیروں افادیت سے کون انکار کرے گا! صرف ڈسٹرکٹ چکوال میں ہی9 لاکھ کے قریب درخت ہوچکے ہیں۔ اٹک، خوشاب، میانوالی، سوات، مانسہرہ، کشمیر، لورالائی، ژوب، موسیٰ خیل، جنوبی وزیرستان میں زیتون کے ڈھیروں درختوں کی کاشت کاری کامیابی سے جاری ہے۔

وہ چونکہ اولیو فاؤنڈیشن کے صدر ہیں اس لیے سب سے رابطے میں رہتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے زیتون میں اب تیل کی مقدار بڑھی ہے۔

زیتون کو سال میں ایک بار 150 سے 250 چلنگ گھنٹے چاہیے ہوتے ہیں جو کہ 6+ سے 6- درجہ حرارت تک کے درمیان ہونے چاہئیں۔ یہ پودا زیادہ سردی میں یا برف باری میں جلنے کے باوجود درجہ حرارت کم ہونے پر دوبارہ بھی آگ جاتا ہے۔

اس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ہر قسم کی زمین پر آگ جاتا ہے، البتہ پھل کے لیے کچھ گھنٹے سرد موسم یعنی چلنگ آورز درکار ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ درخت پر پھل آجائے تو پھر یہ مزید مضبوط ہوجاتا ہے۔

اس کے ساتھ اس کی فصل پر بیٹل اور سیلڈ نامی کیڑے بھی حملہ کرتے ہیں، ایک فنگس بھی حملہ کرتی ہے، جس کے لیے ادویہ استعمال ہوتی ہیں۔ کمرشل پیداوار کے لیے فرٹیلائزرز بھی استعمال کیا جاتا یے۔

کیمیکلز سے آلودگی:جس تیزی سے زمین کی تسخیر کے نام پر زمین کو کیمیکلز سے آلودہ کیا جا رہا ہے وہ مسئلہ اپنی جگہ پر ہے۔ اس دورے پر کچھ سنجیدہ کاشت کاروں نے ہولناک تباہی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ پیسٹی سائڈ، فرٹیلائزرز کی مافیاؤں نے زمین کی قوتِ پیداوار پر بدترین اثرات ڈالے ہیں۔ زیادہ کمانے اور زیادہ کمانے کا لالچ زمین کو بانجھ کررہا ہے۔

حصہ