قیصروکسریٰ قسط(121)

322

وہ گھاس پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ گئے… اور فسطینہ نے کچھ دیر سر جھکا کر سوچنے کے بعد کہا۔ ’’میں اسی دن کے لیے دعائیں کیا کرتی تھی۔ اور میری سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ مرنے سے پہلے ایک بار تمہیں دیکھ لوں۔ مجھے یقین تھا کہ تم ضرور آئو گے۔ اب مجھے خدا کے ساتھ اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے تمہارے سہارے کی ضرورت ہے۔ میری بات غور سے سنو عاصم! اپنے باپ کی المناک موت کی خبر سننے کے بعد میں نے یہ محسوس کیا تھا کہ انہیں میرے گناہ کی سزا ملی ہے اور میرا گناہ یہ تھا کہ میں نے ایک راہبہ کی مقدس زندگی پر دُنیاوی زندگی کی لذتوں کو ترجیح دی تھی۔ میں نے یروشلم کی سب سے بڑی خانقاہ کے بشپ کی باتوں کا مذاق اُڑایا تھا۔ میں نے راہبہ بننے سے اس لیے انکار کیا تھا کہ میرا باپ ایران کی فوج کا ایک بہت بڑا عہدہ دار تھا۔ اور میں ایک عیسائی ماں کی بیٹی ہونے کے باوجود ایک فاتح قوم کے ساتھ تعلق رکھتی تھی۔ میری ماں کو بھی یہ بات پسند نہ تھی کہ میں جیتے جی اس دنیا سے کنارہ کش ہوجائوں۔ وہ خانقاہ کو قبر سے زیادہ بھیانک سمجھتی تھی۔ لیکن مرتے وقت اسے بھی اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ مجھے راہبہ بننے سے روکنا اس کی زندگی کا سب سے بڑا گناہ تھا۔ ماں کی موت کے بعد میں اپنے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کا فیصلہ کرچکی تھی۔ صرف تمہارا خیال میرا راستہ روکے ہوئے تھا۔ انطونیہ مجھے سمجھایا کرتی تھی کہ جب عاصم واپس آئے گا تو تمہارے بغیر اس کا کیا حال ہوگا۔ راہبہ بننے کے بعد تم اس کے ساتھ بات تک نہیں کرسکو گی… پھر جب تم نہ آئے تو میں نے یہ محسوس کیا کہ تمہاری قید کی طوالت بھی شاید میرے گناہ کا نتیجہ ہے۔ قدرت کو یہ منطور نہیں کہ ہم ایک دوسرے کو دیکھ سکیں۔ چناں چہ میں ایک دن خانقاہ میں چلی گئی… لیکن وہاں میں ن خواب میں دیکھا کہ تم آگئے ہو اور میں وہاں سے بھاگ آئی… لیکن خانقاہ چھوڑتے وقت میں نے یہ حلف اُٹھایا تھا کہ اگر تم واپس آگئے تو میں راہبہ بن جائوں گی۔ آج خدا نے میری دُعائین سن لی ہیں اور میں خدا کے ساتھ اپنا وعدہ پورا کروں گی۔ اگر اب میرا ارادہ متزلزل ہوا تو میرا انجام عبرتناک ہوگا۔ میں شاید اپنے لیے ہر سزا برداشت کرسکوں۔ لیکن میں یہ گوارا نہیں کروں گی کہ میری وجہ سے تم عذاب میں مبتلا ہوجائو‘‘۔

عاصم نے کرب انگیز لہجے میں کہا۔ ’’میرے لیے اس سے بڑا عذاب کیا ہوسکتا ہے کہ میں زندہ رہوں لیکن میری آنکھیں تمہیں نہ دیکھ سکیں اور میرے کان تمہاری آواز نہ سن سکیں‘‘۔

فسطینہ کرب انگیز لہجے میں چلائی۔ ’’عاصم خدا کے لیے میری طرف اس طرح نہ دیکھو… دُنیا میں صرف تم ہی مجھے اپنی زندگی کی سب سے بڑی آزمائش میں پورا اُترنے کے لیے سہارا دے سکتے ہو… میں آج غروب آفتاب سے قبل خانقاہ میں چلی جائوں گی اور اس سے قبل میں تمہاری زبان سے صرف یہ سننا چاہتی ہوں کہ تم مجھے بھول جائو گے‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’ایک انسان اپنی موت سے پہلے نہیں مرسکتا اور ابھی شاید میری موت کا وقت قریب نہیں آیا۔ فسطینہ! میری بات غور سے سنو۔ قید کے ایام میں میری زندگی کا کوئی لمحہ تمہارے تصور کے بغیر نہ تھا۔ تاہم اگر مجھے اس بات کا یقین ہوجائے کہ تم میرے بغیر زیادہ خوش رہ سکتی ہو تو میں یہیں سے اُلٹے پائوں واپس چلاجائوں گا۔ ویرانوں میں بھٹکنا میرے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ تمہاری خانقاہ کی تاریکیاں میرے قید خانے کے اندھیروں سے زیادہ بھیانک ہوں گی۔ تم سین کی بیٹی ہو اور میں تمہیں ان راہبوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر نہیں جائوں گا جو انسانیت کی تذلیل کو سب سے بڑی نیکی سمجھتے ہیں‘‘۔

’’لیکن یہ تذلیل میرے گناہوں کا کفارہ ہوگی‘‘۔

’’فسطینہ!‘‘ اس نے جوش میں آکر کہا۔ ’’تم نے کوئی گناہ نہیں کیا اور دنیا میں کسی کو یہ حق نہیں کہ تمہیں جیتے جی قبر میں دے دے۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں فسطینہ! اور تمہاری خانقاہ میرا دل ہے۔ تمہیں انطونیہ اور کلاڈیوس نے یہ نہیں بتایا کہ خانقاہوں میں انسانوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے…؟ تم نے ان راہبوں کو نہیں دیکھا جن کی صورتیں بگاڑ دی جاتی ہیں۔ فسطینہ مجھ سے یہ تو ممکن ہے کہ میں کسی شہزادے کو پکڑ کر تمہارے سامنے لے آئوں اور یہ کہوں کہ یہ مجھ سے زیادہ حسین، زیادہ بہادر اور زیادہ متمول ہے اور اس کی رفاقت میں تمہیں وہ راحتیں مل سکتی ہیں جو مجھ جیسا غریب الدیار نہیں دے سکتا۔ لیکن خدا کی قسم! اگر یہ خانقاہوں کے راہب ہوا میں اُڑ کر دکھائیں تو بھی میں یہ تسلیم نہیں کروں گا کہ وہ خدا کی طرف سے ایک حسین صورت کو مسخ کرنے کا حق لے کر آئے ہیں۔ تم جس خانقاہ میں جائو گی اس کے آہنی دروازے بھی میرا راستہ نہیں روک سکیں گے۔ میں اپنی بے بسی اور بے چارگی کے باوجود تمہیں یہ یقین دلا سکتا ہوں کہ تم صرف میری لاش پر پائون رکھ کر وہاں جاسکو گی…‘‘

فسطنیہ نے آب دیدہ ہو کر کہا۔ ’’میرا خیال تھا کہ تم مجھے حوصلہ دو گے۔ لیکن تم میری مشکل میں اضافہ کررہے ہو‘‘۔

عاصم نے اس کے قریب ہو کر اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’فسطنیہ! آج تم اس لڑکی سے زیادہ نادان ہو، جس نے میرے ساتھ یروشلم سے دمشق تک سفر کیا تھا۔ اور آج تمہیں میری رفاقت کی زیادہ ضرورت ہے… میں تمہارا ہر گناہ اپنے سر لینے کے لیے تیار ہوں۔ تم میری ہو فسطنیہ ‘‘۔

عاصم میں ہمیشہ تمہاری تھی۔ مجھے ایسی جگہ لے چلو جو خوف سے آزاد ہو۔ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔ میں اپنے آپ کو دھوکا دے رہی تھی۔ اگر ہمارے مقدر میں صرف آگ ہے تو ہم ایک ساتھ کیوں نہ جلیں۔ تم میرے ہو۔ تم میرے ہو… اب مجھے کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا۔ میں وہی ہوں جس نے تمہارے ساتھ دمشق تک سفر کیا تھا۔ اسی قدر کمزور اور بے بس۔ لیکن مجھے خوف محسوس نہیں ہوتا۔ تم یہاں کیسے پہنچ گئے۔ تم گھر گئے ہو گے اور بوڑھے نوکر نے تمہیں بتایا ہوگا کہ وہ بیوقوف لڑکی قبرستان میں گھوم رہی ہوگی۔ میں ہرقل کا جلوس دیکھنے نہیں گئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ تم آرہے ہو…‘‘

وہ مسکرا رہی تھی اور عاصم کی آنکھیں آنسوئوں سے لبریز ہورہی تھیں۔

پھر وہ یکایک اُٹھ کر بیٹھ گئی اور اپنے حسین چہرے پر ایک مصنوعی غصہ لاتے ہوئے بولی۔ ’’تم نے یہ کیا کہا تھا کہ تم کسی شہزادے کو میرے سامنے لا کر یہ کہہ سکتے ہو کہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے؟ کیا تم میرے شہزادے نہیں ہو…؟‘‘

عاصم نے اس کے بالوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے جواب دیا۔ ’’مجھے معلوم نہیں کہ میں کیا ہوں۔ لیکن میں تمہارا ہوں‘‘۔

پھر وہ ایک دوسرے کو اپنی اپنی سرگذشت سنا رہے تھے۔ سورج سر پر آگیا تو وہ اُٹھ کر چنار کی چھائوں میں بیٹھ گئے۔

فسطنیہ نے کہا۔ ’’تمہیں بھوک لگی ہوگی۔ چلو گھر چلیں‘‘۔

’’مجھے اب بھوک یا تھکاوٹ کا احساس نہیں رہا۔ اور گھر جانے سے پہلے میں تم سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ تمہیں ایک ایسے آدمی کی بیوی بننا منظور ہے جسے یہ دُنیا تمہاری محبت کے سوا کچھ نہیں دے سکتی‘‘۔

فسطنیہ نے جواب دیا۔ ’’کیا اب یہ سوال بے معنی معلوم نہیں ہوتا؟‘‘

عاصم نے کہا۔ ’’فسطنیہ !میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہماری شادی کب اور کہاں ہوگی۔ اور اس کے بعد تم کہاں رہنا پسند کرو گی؟‘‘

’’میں صرف یہ جانتی ہوں کہ یہ باتیں تم مجھ سے بہتر سوچ سکتے ہو‘‘۔

’’عاصم بولا۔ ’’اگر میں یہ کہوں کہ ہمیں آج ہی شادی کرلینی چاہیے تو؟‘‘

’’فسطنیہ نے جواب دیا۔ ’’عاصم میں راہبہ بننے کی قسم توڑ چکی ہوں۔ اب اگر تم کلاڈیوس کے گھر جا کر یہ اعلان کردو کہ ہماری شادی ہوچکی ہے تو بھی میں شرم محسوس نہیں کروں گی۔ لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ تمہاری آمد کی اطلاع ملتے ہی خانقاہ کے راہب میرے پیچھے پڑ جائیں گے۔ اور ان کے عتاب کے خوف سے شہر کا کوئی پادری ہماری شادی کی رسومات ادا کرنے پر آمادہ نہیں ہوگا۔ ہمارے خلاف عام لوگوں کو مشتعل کرنے کے لیے ان کا یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ میں عیسائی ہوں اور تمہارا مذہب مجھ سے الگ ہے۔ کاش میں یہ کہہ کر ان کا منہ بند کرسکتی کہ تم قسطنطنیہ کے تمام عیسائیوں سے بہتر ہو‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’عرب میں میرا مذہب چند ایسی مضحکہ خیز رسومات کا مجموعہ تھا۔ جنہیں اب بیان کرتے ہوئے بھی مجھے شرم محسوس ہوتی ہے۔ ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ربّ کو ماننے کے علاوہ کئی اور خدائوں کے بتوں کو پوجا کرتے تھے۔ اور ان خدائوں کے ساتھ ہماری عقیدت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ہم لوٹ مار، قتل و غارت اور دشمن قبائل سے اپنے قبیلے کی طاقت کا لوہا منوانے کے لیے ان کی اعانت کی ضرورت محسوس کرتے تھے۔ میں بھی یثرب کے دوسرے لوگوں کی طرح مناۃ کے بت کی پوجا کیا کرتا تھا۔ یہ ایک بے جان پتھر تھا۔ لیکن میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ مجھے اپنے دشمن قبیلے کو مغلوب کرنے اور اپنے عزیزوں کے قاتلوں سے انتقام لینے کی قوت عطا کرسکتا ہے۔ اب اپنے قبیلے سے محبت، اطاعت اور وفاداری کے تمام رشتے توڑنے کے بعد میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ عرب کے تمام بڑے اور چھوٹے خدائوں کے ساتھ بھی میرے رشتے ختم ہوچکے ہیں۔ اب مجھے کسی کا خون بہانے کے لیے ان کی اعانت کی ضرورت نہیں۔ تم یہ کہہ سکتی ہو کہ اب میرا کوئی مذہب نہیں، مجھے کسی ایسے دین کی تلاش تھی جو ایک انسان کو دوسرے انسان، ایک قبیلے کو دوسرے قبیلے یا ایک قوم کو دوسری قوم کے ظلم سے بچا سکتا ہو۔ اپنا وطن چھوڑنے سے قبل میں مکہ میں ایک نبیؐ کے ظہور کے متعلق سنا کرتا تھا۔ لیکن میرے لیے یہ بات ناقابل یقین تھی کہ عرب کے صحرا سے کوئی چشمہ پھوٹ سکتا ہے۔ لیکن اس نبی کی ایک بات میرے لیے حیران کن ہے جب کسریٰ پرویز کا غرور اور قیصر کی بے بسی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی تو میں نے یہ سنا تھا کہ اس نے رومیوں کی فتح اور ایرانیوں کی شکست کی پیش گوئی کی ہے۔ مرتے وقت تمہارے باپ کو اس پیش گوئی کی صداقت کا یقین تھا۔ میں نے اس نبی کو نہیں دیکھا۔ لیکن میں عرب کے حالات سے واقف ہوں۔ وہاں کسی ایسے دین کا پنپنا ممکن نہیں جو انسانیت کی بھلائی چاہتا ہو۔ ممکن ہے کہ مکہ کا نبی غیب کے حالات جانتا ہو۔ لیکن اگر وہ ساری دنیا کو سلامتی کا پیغام دینے کی بجائے صرف عرب کے قبائل کے درمیان نفرت کی دیواریں مسمار کرنے میں کامیاب ہوگیا تو بھی میں اسے انسانی تاریخ کا ایک عظیم ترین معجزہ سمجھوں گا۔ بظاہر ہماری زندگی میں ایسا وقت نہیں آسکتا کہ عرب کے ظلمت کدے سے کوئی روشنی نمودار ہو کر مشرق اور مغرب میں پھیل جائے۔ لیکن اگر یہ ہوا تو ایسے دین کا جھنڈا اٹھانا اپنی زندگی کی سب سے بڑی سعادت سمجھوں گا۔ سردست میرے لیے تمام مذاہب ایک جیسے ہیں۔ اور اگر میرے عیسائی کہلانے سے تمہاری الجھن دور ہوسکتی ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں‘‘۔

(جاری ہے)

حصہ