’’عذرا مر گئی۔‘‘
’’اُسے ایک عرصے سے کینسر تھا۔‘‘
یہ دو خبریں میرا دل دہلا گئیں۔ مرنا تو سبھی کو ہے، جو اِس دنیا میں آیا ہے اسے وقتِ مقررہ پر جانا بھی ہے۔ مگر اس طرح…! میں وہیں بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی۔ یادوں کا پنچھی مجھے اپنے ساتھ بہت پیچھے لے گیا۔
وہ تھی تو میری باجی جمیلہ کی سہیلی، مگر میرے ساتھ بھی اس کی گپ شپ ہوجاتی۔ ہمارے گھر کی مشترکہ دیوار تھی۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ باپ کی ایک دو ایکڑ زمین تھی، اس پر ساری گزربسر تھی۔ عذرا شکل صورت کی اچھی تھی۔ صاف ستھری رہتی، کنگھی روزانہ کرتی، سرمہ لگاتی تو گائوں کی دوسری لڑکیوں سے نمایاں لگتی۔ پرائمری تک پڑھنے کے بعد اسکول چھوڑ گئی اور گھرداری میں لگ گئی، مگر خودپسندی مزاج کا حصہ بننے لگی۔ شادی بیاہ میں بڑھ چڑھ کر شرکت کرتی۔ ڈھولک بھی اچھا بجاتی اور ٹپے بھی خوب گاتی۔ گھر میں بیٹھ کر مشین پر کپڑوں کی بھی سلائی کرنے لگی۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے کمائو پوت بن گئی۔ اب ماں اس کی بات زیادہ ماننے لگی تھی۔ وقت گزرتے پتا ہی نہ چلا اور عذرا کے رشتے آنے لگے۔ والدین چاہتے تھے کہ ان کی عذرا اپنے گھر کی ہوجائے، ہم بھی اس کے بچوں کی رونق دیکھیں، اپنے نصیب میں تو صرف عذرا ہی لکھی تھی، اب اُس کے بال بچے ہی ہمارا دل بہلایا کریں۔ مگر عذرا کسی بھی رشتے پہ ہاں نہ کرتی۔ کچھ گائوں کے اندر سے مائوں نے پوچھا، کچھ آس پاس کے گائوں سے رشتے آئے مگر عذرا ہر جگہ انکار کردیتی۔ شاید خودپسندی میں اضافہ ہورہا تھا۔ گائوں کے رشتے تو اُس کے دیکھے بھالے تھے اس لیے انکار کرنا، لڑکے میں خامی نکال دینا اسے بڑا آسان لگتا۔ کسی کا قد چھوٹا ہوتا تو کسی کا ماتھا اسے تنگ لگتا۔ کسی کی چال اسے ناپسند تھی، تو کسی کی آواز ذرا باریک لگتی… اور ماں ہر دفعہ ایک آہ بھر کر خاموش ہوجاتی۔ باپ کا کوئی رعب ہی نہ تھا۔ عذرا کی ماں خوب صورتی کے بل پر ہمیشہ اس سادہ اور شریف کسان پر حاوی رہی، چنانچہ ہر اہم فیصلے کی منظوری ماں بیٹی کے ہاتھ میں تھی۔ آس پاس کی ہمدرد خواتین سمجھاتیں کہ برکت بی بی! ہوش کی دوا کرو۔ بیٹی کی عمر روز بہ روز آگے ہی جانی ہے، اب بیاہ کردو کہیں۔ مگر ماں کا ایک ہی جواب ہوتا کہ بیٹی مانے تب نا۔
اسی طرح سال پہ سال گزرتے رہے۔ اس سے چھوٹی عمر کی لڑکیاں اپنے گھروں کی ہوچکی تھیں، مگر عذرا کو نہ جانے کس شہزادے کا انتظار تھا۔ اس کی معصومیت اور جاذبیت سنجیدگی میں ڈھلتی جارہی تھی مگر خوب سے خوب تر کا سفر جاری تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ماں پہ اس کا وجود بھاری تھا۔ باپ نے شاید خود ہی سارے ماحول سے خود کو منفی کررکھا تھا۔
شادی بیاہ پر رونق لگانے والی عذرا اب ایسی محفلوں میں جانے سے کترانے لگی تھی۔ ہر کسی کی نظریں اسے ایک ہی سوال کرتی محسوس ہوتیں: شادی کب… شادی کب…؟
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب اُس نے گھر سے نکلنا ہی چھوڑ دیا۔ بہت عرصے سے رشتے آنا بھی تقریباً بند ہوگئے تھے۔ تنہائی میں اور بھی گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔
اس کی بچپن کی سہیلی جمیلہ ڈبل ایم اے کرکے اب کالج میں لیکچرار لگ گئی تھی۔ ہمارے والدین کو پڑھائی کا شوق تھا۔ انہوں نے ہاسٹل میں بھیج کر سب بہن بھائیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی تھی۔ میں نے بھی بی اے میں داخلہ لے لیا تھا۔ جب بھی چھٹیوں میں گائوں جانا ہوتا عذرا بھاگ کر ملنے آجاتی۔ پھر ساری روداد باجی جمیلہ کے گوش گزار کرتی۔ یاسمین بھابھی بڑے خلوص سے مشورہ دیتیں:
’’عذرا! ماں باپ کے فیصلے میں برکت، رحمت سب شامل ہوتی ہے۔ خود تنقید کرنا چھوڑ دو۔ اللہ پر بھروسا رکھو۔ جہاں والدین کہیں، سر جھکا دو۔ کب تک انتظار کرتی رہو گی اپنے من چاہے رشتے کا؟‘‘
اب کی دفعہ اس کی باتوں میں تیزی نہ تھی۔ لہجے میں بھی شکستگی سی تھی۔
پھر کچھ ایسا ہوا کہ ایک سال تک گرما کی تعطیلات میں ہم لوگ گائوں نہ جاسکے۔ دوسرے سال گئے تو عذرا کے گھر کے سامنے سے گزرے۔ اگلا ہی دروازہ ہمارے گھر کا تھا۔ بہت دیر تک عذرا ملنے نہ آئی تو سب کو اُس کی کمی محسوس ہوئی۔ دراصل وہ اکیلی ہونے کی وجہ سے ہمارے گھر میں ہمیشہ چاہی جاتی تھی۔ میری سب بڑی بہنیں اُس کا بڑا خیال کرتیں، اور جمیلہ باجی کی تو تھی ہی سہیلی۔
عذرا کے نہ آنے کو سب نے ہی محسوس کیا، مگر کس سے پوچھا جاتا؟
صبح ہم لوگ ناشتے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ عذرا کی ماں آگئی۔
’’بسم اللہ… بسم اللہ… یہاں تو رونقیں لگی ہوئی ہیں۔‘‘
’’چاچی! عذرا کہاں ہے؟‘‘ باجی جمیلہ نے چھوٹتے ہی پوچھا۔
’’وہ اپنے سسرال میں ہے جمیلہ پتر۔‘‘
’’سسرال؟‘‘ سب نے بیک وقت دہرایا۔
’’کب ہوئی شادی؟ کہاں کی؟ آخر اسے کوئی پسند آہی گیا… الحمدللہ۔‘‘
ہم سب نے سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ چاچی برکت کے چہرے پہ خوشی کی کوئی رمق نہ تھی۔ شاید اکلوتی بیٹی کی جدائی پریشانی کا سبب تھی۔
مجھے پنجابی کے کچھ گیت یاد آنے لگے جو عذرا دوسروں کی شادی بیاہ پر ڈھولک پہ گایا کرتی۔
چھلیاں
ماواں دھیاں گلے ملیاں
چارے کندھاں نے جو بارے دیاں بلیاں
’’بہت مبارک ہو چاچی!‘‘
’’کہاں شادی کی ہے؟‘‘
’’نزدیک کے ایک گائوں میں۔ میں نے صبح سویرے ہی عذرا کے ابا کو اُسے لینے بھیج دیا ہے۔ بس آتی ہی ہوگی۔ مجھے رات ہی آپ لوگوں کے آنے کا علم ہوگیا تھا۔‘‘
سب نے ظہر کی نماز پڑھی ہی تھی کہ کھٹ سے گیٹ کھلا۔ دیکھا تو عذرا اندر آرہی تھی گود میں ایک کمزور سی، گہرے سانولے رنگ کی سال ڈیڑھ سال کی بچی اٹھائے ہوئے۔ خود اُس کا اپنا رنگ بھی میلا میلا سا لگ رہا تھا۔ جمیلہ باجی سے ملتے ہوئے اس کی خوب صورت آنکھیں چھلک ہی پڑیں۔
ماحول خاصا افسردہ سا ہوگیا۔ کوئی بھی اسے مبارک نہ کہہ سکا۔
’’یہ بچی کون ہے؟‘‘ آخر یاسمین بھابھی نے سکوت توڑا۔
’’یہ میری بیٹی ہے‘‘۔ یہ کہتے کہتے روتے ہوئے اس کی گھگھی بندھ گئی۔
’’بیٹی…؟‘‘ حیرت سے ہمارا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
روتے روتے اب اس کی سسکیاں ختم ہورہی تھیں۔ اس نے اپنے دوپٹے کے پلو سے منہ صاف کیا۔ پاس پڑی چارپائی پہ بیٹھ گئی اور پوچھے بغیر ہی اپنی کہانی سنانے لگی۔ جانتی تھی کہ ہم سب تفصیل جاننے کے منتظر ہیں۔
’’آپ کو تو سب معلوم ہے کہ میں کسی اَن دیکھے شہزادے کی آس لگائے ہر رشتہ ٹھکراتی رہی۔ ماں باپ میری ہاں کے منتظر رہے۔ اس بات نے مجھے اور خودسر بنادیا۔ اب رشتے آنا بند ہوگئے تھے۔ عمر کا پنچھی مسلسل پرواز کرتا جارہا تھا۔ ایسے میں مایوسی نے مجھے اور پریشان کردیا۔ ایک دن میں چولہے کے آگے بیٹھی راکھ کرید رہی تھی کہ باہر کسی فقیر کی صدا نے چونکا دیا۔ وہ بڑی اداس لَے میں میاں محمد بخش کا کلام گا رہا تھا۔ میرے ابا کو بھی اس طرح کے بہت سارے شعر زبانی یاد ہیں۔ میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ کتنی سچائی تھی اس کلام میں:
سدا نہ باغیں بلبل بولے، سدا نہ باغ بہاراں
سدا نہ ماپے، حسن جوانی، سدا نہ صحبت یاراں
میرا دل ٹوٹے ٹوٹے ہورہا تھا۔ کچھ بھی تو میرے پاس نہ رہے گا۔ بس ان ہی دنوں کی بات ہے کہ اسلم کا رشتہ آگیا۔ ایک بچی کا باپ… بیوی اس کو چھوڑ کر میکے جا بیٹھی۔ اپنی بیٹی بھی چھوڑ گئی جو باپ ہی کی تصویر ہے۔ بس اسلم بھی ایسا ہی ہے۔ کالا بھجنگ۔ اس کا رشتہ آیا۔ اماں انکار کرنے والی تھی کہ عذرا تو کبھی نہ مانے گی، مگر میں نے ہاں کردی۔ بندہ جو کچھ بوتا ہے وہی تو کاٹتا ہے۔ اب اسلم کی بھی خدمت کرتی ہوں اور اس کی بچی کو بھی سنبھالتی ہوں۔ آپ سمجھیں کہ وہ عذرا تو کہیں مر ہی گئی ہے۔ میں تو میکے بھی بہت کم ہی آتی ہوں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ گائوں کے در و دیوار، عورتیں، بچے سب میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔ یہ تو صبح ابا نے جاکر مجھے بتایا کہ تمہاری سہیلی جمیلہ اور اس کے بہن بھائی سب آئے ہیں تو میں آپ سب کی محبت میں بھاگی چلی آئی۔‘‘
عذرا ہم سب کو بے طرح اداس کر گئی۔ وقت اپنی مخصوص رفتار سے گزرتا رہا۔ میرے بھائیوں اور بہنوں کی شادیاں ہوگئیں۔ انہوں نے شہر کے اچھے علاقوں میں اپنے اپنے گھر بنا لیے۔ میں بھی تعلیم مکمل کرکے اگلے گھر جا بسی۔ کبھی کبھار کوئی گائوں سے آتا تو سب کی خیر خیریت معلوم ہوجاتی۔ پتا چلا اللہ نے عذرا کو اولاد سے محروم ہی رکھا۔ پھر یاسمین بھابھی نے بتایا کہ عذرا کو کینسر ہوگیا ہے۔ سخت افسوس ہوا، اور آج… آج اس کے مرنے کی خبر بھی آگئی۔
اب میں اس کی کہانی لکھ رہی ہوں تاکہ آئندہ کوئی اور لڑکی عذرا جیسے انجام سے دوچار نہ ہو۔ خود سر نہ ہو۔ والدین بھی اولاد کو اس طرح سر نہ چڑھائیں کہ وہ ان کے ہاتھ سے ہی نکل جائے۔ مناسب وقت پر دیکھ بھال کر رشتے طے کردیا کریں۔ اللہ خیر و برکت دے گا۔