’’ارے بیٹا!کبھی کبھار تو میرا جانا ہوتا ہے، وہاں پرانے محلے دار ہوں گے، میرا دل ہے کہ شرکت کروں۔‘‘ انہوں نے ملتجی نظروں سے بیٹے کو دیکھا۔
’’ہاں اماں ضرور، میں کچھ کرتا ہوں پروگرام۔‘‘
شہرین کے بدلتے موڈ کو دیکھتے ہوئے اماں سے مزید کچھ بولا نہ گیا۔
شہرین اپنے کمرے میں جاکر سلمان پر پھٹ پڑی ’’آخر بڑھاپے میں ہر جگہ گھومنے کی ضرورت کیا ہے؟ آپ مجھے لے کر جائیں گے یا اماں کو؟ مجھے پارلر سے پارٹی میک اَپ بھی کرانا ہے۔ مجھے پک کریں گے پھر اماں کو چھوڑیں گے، کتنا ٹائم لگ جائے گا مجھے۔‘‘
’’اچھا تو ایسا کرتے ہیں تھوڑی تھوڑی دیر دونوں جگہ شرکت کرلیتے ہیں۔ ویسے بھی تمھاری تقریب میں میرا تو کوئی شناسا ہوگا ہی نہیں۔‘‘
’’آپ کو پتا ہے میں اماں کے ساتھ کمفرٹ فیل نہیں کرتی، اب تو شادی ہال بھی جلدی بند ہونے لگے ہیں۔‘‘
’’اچھا تو راشد سے کہتا ہوں، اماں کو شرکت کروا دے۔‘‘
یہ سن کر شہرین کا پارہ بلندی سے نیچے گرنے لگا اور سلمان چھوٹے بھائی کو کال ملانے لگا۔
راشد نے اماں سے ہال کا پتا معلوم کرلیا تھا۔ مقررہ وقت پر وہ اماں کو آکر لے گیا۔ ادھر سلمان نے شہرین کو پارلر سے پک کیا۔ راستے سے پھولوں کے دو خوب صورت گجرے پیش کرکے گویا اس کی نظر اتاری۔ وہ ایسے وقت ہال پہنچے جب بارات اندر جا چکی تھی۔ تقریبات میں ماحول مخلوط ہونے کے باوجود مرد و خواتین اپنی ٹولیاں الگ بنا ہی لیتے ہیں، سو سلمان مردوں کے ایک جمگھٹے کی طرف بڑھ گیا۔ اتنے میں دو مہمان خواتین آگئیں اور شہرین ان کے ساتھ ہال میں داخل ہوگئی۔ کچھ دیر پچھلی نشستوں پر بیٹھ کر اس نے اسٹیج سے مہمانوں کے ہٹنے کا انتظار کیا، پھر سہیلی کی تلاش کے ارادے سے اسٹیج کی طرف بڑھی۔ باراتیوں کی مخصوص نشستوں پر بزرگ خواتین متمکن تھیں، وہ ان پر اچٹتی سی نظر ڈالتی آگے چلی گئی۔ اس کی دوست سیما دلہن کے ساتھ اسٹیج پر ہی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر کھل اٹھیں۔ نئے رواج کے مطابق کاندھے سے کاندھا ملایا۔ رسمی گفتگو جاری تھی کہ شہرین کی نظر بزرگ خواتین کی نشستوں پر پڑی جہاں اس کی ساس دیگر خواتین کے ہمراہ خوش باش، دمکتے چہرے کے ساتھ براجمان تھیں۔ وہ کچھ دیر کے لیے ہونق سی ہوگئی اور پھر رُخ موڑ کر کھڑی ہوگئی۔ وہ چاہتی تھی کہ اماں کی نظر اس پر نہ پڑے۔ دورانِ تقریب اپنی سہیلیوں کے ہمراہ وہ بظاہر تو گپ شپ لگاتی رہی لیکن اندر ہی اندر سارا وقت اس فکر میں ہلکان رہی کہ کہیں ساس سے سامنا نہ ہوجائے۔
کھانا کھاتے ہی اس نے میاں کو کال ملائی اور واپسی کا کہا۔ جواب میں سلمان کی چہکتی آواز آئی ’’یار! یہاں تو مجھے پرانے دوست مل گئے ہیں، ذرا سی دیر میں چلتے ہیں، اور سنو تمہیں اماں تو مل ہی گئی ہوں گی۔ میں نے راشد کو منع کردیا ہے، اب واپسی میں اماں ساتھ ہی چلیں گی۔‘‘
اس نے مری مری آواز میں ’’اوکے‘‘ کہہ کر کال کاٹ دی۔ جس لمحے سے وہ بچنا چاہتی تھی عجیب طرح سامنے آگیا تھا۔ اس نے دور سے اماں کی جانب دیکھا جو اپنی ہم عمر خواتین کے درمیان بہت مسرور نظر آرہی تھیں۔ اب کچھ بات تو بنانی ہی تھی، لہٰذا وہ اماں کے پاس پہنچ کر مصنوعی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بولی ’’ارے اماں! آپ کو بھی یہیں آنا تھا…؟ اب آپ ہمارے …‘‘
اماں نے اس کا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی کہہ دیا ’’بیٹا! میں نے تو تمہیں اسٹیج پر ہی دیکھ لیا تھا، پھر سلمان کی کال بھی آگئی تھی، اس نے راشد کو منع کردیا ہے، اب ہم سب ساتھ ہی چلیں گے۔‘‘
شہرین سپاٹ سا چہرہ لیے مرے مرے سے قدموں چلتی ان کے ساتھ ہال سے باہر نکل آئی۔