روز کی طرح آج بھی بچے دادی سے کہانی سنانے کی ضد کر رہے تھے ۔ دادی کی طبیعت آج کچھ اچھی نہیں تھی۔ اس وجہ سے وہ طرح طرح کے بہانے بنا رہی تھیں۔
شاہ رخ دوڑتا ہوا آیا اور چھلانگ مار کر دادی کی گود میں بیٹھ گیا۔ شاہ رخ کے پیچھے بھاگتا ہوا اس کا بڑا بھائی فروغ پاس آکر ہانپتے ہے بولا… ’’دادی جان ! شاہ رخ سے کہئے کہ وہ مجھے میری مٹھائی دے دے !‘‘
دادی نے دونوں کی طرف دیکھا اور پوچھا …’’کیا بات ہے ؟ تم دونوں کیوں جھگڑ رہے ہو؟‘‘
’’دادی جان ! امی نے ہم دونوں کو مٹھائی کھانے کو دی تھی، یہ فروغ میرے حصے کی مٹھائی بھی چھین لینا چا ہتا ہے۔ یہ کہتا ہے ، یہ مجھ سے بڑا ہے ، اس لیے اسے مجھ سے زیادہ میٹھائی ملنی چاہیے… یہ ہمیشہ میری چیزیں چھین لیتا ہے ؟‘‘ شاہ رخ نے شکایت کرتے ہوئے کہا۔
’’ فروغ ! یہ بات غلط ہے ! !‘‘ وہ پیار سے بولیں۔
’’لیکن میں زیادہ مٹھائی کھانا چاہتا ہوں، دادی جان !‘‘ فروغ بولا۔
تمھیں لالچ نہیں کرنا چا ہئے ! فروغ ! اگر تم نے یہ بری عادت نہیں چھوڑی تو تم بھی صفدر کی طرح ایک دن پچھتاؤ گے!!‘‘ داری نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
سبھی بچوں نے ایک ساتھ پوچھا۔’’صفدر کون تھا ؟ دادی جان! اس نے کیا لا لچ کیا تھا؟ ہمیں بھی اس کی کہانی سنا ئیے ناں !!‘‘
دادی نے فروغ کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہانی سنانی شروع کر دی۔
پرانے زمانے کی بات ہے ، کسی گاؤں میں عبدل اپنے بیٹے صفدر کے ساتھ مزے سے رہتا تھا۔ عبدل بہت ہی محنتی تھا۔ وہ دھان کی کھیتی کرتا تھا۔ فصل بیچ کر وہ بہت روپے کما لیتا تھا۔وہ دھان کی کھیتی کرنے والا اُس گاؤں کا اکیلا کسان تھا۔مگر پھر بھی اپنے اناج کو مناسب داموں پر ہی بیچتا تھا۔ اتنا ہی نہیں گاؤں کے غریب اور کمزور لوگوں کو مفت غلہ دے کر اُن کی مدد بھی کرتا تھا۔ اسی لیے گاؤں کے سبھی لوگ اُس سے ہمدردی رکھتے۔
صفدر جب بڑا ہو گیا، تب وہ بھی اپنے ابو کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹانے لگا …لیکن صفدر بہت لالچی تھا۔ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ روپے کما لینا چاہتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے ابو سے کہتا۔
’’آپ بہت ناسمجھ ہیں۔ آپ کو زیادہ روپے کمانے نہیں آتے۔ اس گاؤں میں ہم ہی اکیلے دھان پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے ہم چاہیں تو اس کی منہ مانگی قیمت وصول کر سکتے ہیں لیکن آپ ہیں کہ ہمیشہ اناج کو کم قیمت پر بیچتے ہیں اور پھر بہت سارا اناج مفت ہی بانٹ دیتے ہیں۔‘‘
صفدر کی باتیں سُن کر عبدل ہنستے ہوئے کہتا …’’بیٹا ! ہم اتنے ہی رو پیوں میں آرام سے زندگی گزار رہے ہیں ۔ اور پھر اگر ہم اناج کی قیمت بڑھا دیں گے تو بہت سے غریب لوگ اناج نہیں خرید پائیں گے اور اناج ہمارے پاس بے کار پڑا ہے گا۔اس سے تو اچھا ہے کہ اناج کو ہم کم داموں میںبیچ دیں۔ ہمارا اناج بھی بک جائے گا اور غریبوں کی مدد بھی ہو جائے گی!!‘‘
لیکن صفدر کو اپنے ابو کی باتیں سمجھ میں نہ آتیں کیوں کہ وہ لالچی جو تھا ۔ وہ ابو کو بہت سمجھاتا اور اس موقع کی تاک میں رہتا کہ کب اسے کھیتی کرنے کا موقع ملے اور وہ اپنی من مانی کرے۔
جلد ہی صفدر کو یہ موقع مل گیا ۔
ایک دن عبدل سخت بیمار پڑ گیا۔ اب کھیتی کے کام کی ساری ذمے داری صفدر پر آگئی۔ وہ دل ہی دل میں بہت خوش تھا ، کیوں کہ زیادہ روپے کمانے کا اسے موقع مل گیا تھا۔
صفدر کا ایک اختر نام کا دوست تھا، جو اسے ہمیشہ غلط سلط باتیں بتاتا رہتا تھا۔ ایک دن اُس نے صفدر سے کہا۔
’’ تمہارے ابو تو بہت سیدھے ہیں ، لیکن کم سے کم تم تو ہوشیاری سے کام لو۔ اِس بار تم آدھی زمین میں گنا اگاؤ اور آدھی میں دھان ۔ گنے کی کھیتی میں تم زیادہ کماؤ گے اور ہاں دھان آدھے ہی بیچنا، آدھے رکھ لینا ، جب بازار میں دھان کی کمی ہو جائے تب اپنے باقی دھان مہنگے داموں پر بیچنا۔ اس طرح تم بہت جلد دولت مند ہو جاؤ گے۔ میں نے تمھیں فائدے کی بات بتادی… آگے تمہاری مرضی…!‘‘
صفدر کو اختر کا مشورہ اچھا لگا۔ اور اس نے ویسا ہی کیا۔ اس نے آدھا اناج گودام میں جمع کر لیا اور گاؤں والوں سے کہہ دیا… ’’اس بار فصل کم ہوئی ہے !‘‘
صفدر دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ کچھ وقت کے بعد وہ جمع کیے ہوئے اناج کو مہنگے داموں میں بیچ کر خوب دولت مند ہو جائے گا۔ اختر کے مشورے سے صفدر نے آدھے کھیت میں گنے بھی بو دیے تھے اور گنے کی فصل سے بھی اُسےزیادہ آمدنی کی امید تھی۔
مگر افسوس بچو ! صفدر کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی!
’’کیوں ؟‘‘ ارحم نے چونک کر دادی سے پوچھا۔
’’ہوا یوں کہ اس سال اتنی زور دار بارش ہوئی کہ گاؤں میں سیلاب آگیا۔ صفدر نے جس گودام میں اناج بھر رکھا تھا، وہاں پانی بھر گیا، جس کی وجہ سے سارا اناج خراب ہوگیا۔
صفدر نے جب گنے کی فصل دیکھی تو اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ۔ کیوں کہ گنے کی فصل بھی پانی کی وجہ سے برباد ہو چکی تھی!! وہ زمین گنے کی کھیتی کے لئے مناسب ہی نہیں تھی !
صفدر کو اب اپنے کیے پر بہت پچھتاوا ہو رہا تھا۔ اُسے اپنے ابو کی باتیں یاد آنے لگیں اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔
اب صفدر کے پاس اتنے روپے بھی نہیں بچے تھے کہ وہ اپنے ابو کا علاج کروا سکے… لیکن گاؤں کے سبھی لوگ عبدل کی ایمانداری، شرافت، ہمدردی اور اچھے سلوک کو بخوبی جانتے تھے ۔اس لیے سب نے آپس میں روپے جمع کر کے صفدر کو دے دیے، جس سے وہ اپنے ابو کا علاج کروا سکے۔
اب صفدرنے دل ہی دل میں یہ عہد کیا کہ وہ اب کبھی لالچ نہیں کرے گا۔
کہانی ختم کر کے دادی نے فروغ کی طرف دیکھا اور بولیں… ’’کیوں فروغ ! کیا تم اب بھی صفدر کی طرح لالچی بننا پسند کرو گے ؟“
’’نہیں دادی جان !۔۔۔ اب میں کبھی لالچ نہیں کروں گا اور نہ ہی اپنے دوستوں کے غلط مشورے مانوں گا“