”یہ کیا لفظ استعمال کیا تم نے بڑوں سے اس طرح بات کرتے ہیں۔“دادی نے فواد سے سخت لہجے میں کہا۔”دادی اس میں کیا برائی ہے۔“فواد نے بے پروائی سے جواب دیا اس طرح نہیں بولتے میں تمہاری دادی ہوں۔وہ اسے ڈانٹتے ہوئے بولیں،فواد کی زبان پر عجیب قسم کے الفاظ چڑھ گئے تھے وہ دوران گفتگو عامیانہ جملے ادا کرنے لگا تھا۔
”اچھا دادی جان نہیں کہوں گا۔“فواد نے کہا اور کھیلنے کیلئے باہر نکل گیا۔فواد کی امی کی وفات کے بعد دادی جان نے اس کی پرورش کی ذمہ داری سنبھال لی اور اسے کبھی ماں کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا۔ادھر فواد کے والد صہیب اپنے بیٹے کی اچھی تعلیم و تربیت کے لیے سخت محنت کرتے۔لیکن ان کے گھر کے اردگرد کا ماحول اچھا نہ تھا۔زیادہ تر لوگ ان پڑھ اور طرح طرح کی اخلاقی برائیوں کا شکار تھے۔ان لوگوں کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کودنے سے فواد کی پڑھائی‘عادات اور مزاج پر بھی گہرا اثر پڑا۔اب وہ کھیل کود میں زیادہ اور پڑھائی میں کم دلچسپی لیتا۔ایک بڑی پریشانی یہ تھی کہ وہ اپنی گفتگو میں بُرے الفاظ استعمال کرتا اور اپنے دوستوں سے گالیاں دے کر بات کرنے لگا تھا۔دادی اماں نے صہیب کو یہ سب بتایا تو وہ بھی فکر مند ہو گئے۔
ان دنوں فواد کالج میں داخلہ کی کوشش کر رہا تھا اور آج ایک اچھے کالج میں داخلے کیلئے انٹرویو دینے گیا۔
فواد کی باری آئی تو وہ پورے اعتماد سے ان کے سامنے پہنچا۔پرنسپل صاحب سے بات کرتے ہوئے ایک سوال کا جواب فواد نے نہایت عامیانہ انداز میں دیا اور اس دوران بُرا لفظ بھی اس کے منہ سے نکل گیا۔اس پر پرنسپل صاحب نے کہا ہم تم جیسے بد اخلاق لڑکے کو داخلہ دے کر اپنے کالج کا ماحول خراب نہیں کریں گے۔“اب تم جا سکتے ہو۔پرنسپل صاحب نے فیصلہ سنا دیا فواد کمرے سے نکل گیا۔وہ گھر پہنچا تو دادی اس کا اُترا ہوا چہرہ دیکھ کر شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو اس کی آنکھیں بھر آئیں اور اس نے انہیں سب کچھ بتا دیا۔”دیکھو بیٹا!زندگی میں اگر ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اسے دور کر لیں تو یہی بات ہماری کامیابی کی ضمانت بن جاتی ہے۔“دادی نے پیار سے کہا تم کسی دوسرے کالج میں داخلہ لے سکتے ہو اب اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے آگے بڑھو۔کامیابی تمہارا انتظار کر رہی ہے۔دادی نے مسکراتے ہوئے کہا تو فواد نے ان سے معافی مانگی اور کہا کہ وہ اب بُرے لڑکوں کی صحبت سے دور رہے گا اور ہر چھوٹے اور بڑے سے اچھے طریقے سے بات کرے گا۔