ڈراما نگارزندگی کو جس صورت میں دیکھتے ہیں،دوسروں کو دکھاتے ہیں،حمید کاشمیری کا یادگار انٹریو

365

سرد مگر خشک ہوائیں سردی کی آمد آمد کی نوید سنا رہی تھیں۔ تعطیل کی وجہ سے زیب النسا اسٹریٹ اور دکانیں بند پڑی تھیں۔ عقبی گلی میں بچے کرکٹ کھیلنے میں مگن تھے۔ کھیل کم شور زیادہ مچا رہے تھے۔ کبیر والا سرکار کی دکان کے اوپری فلیٹ کی ریلنگ سے جھکا سفید چمک دار بالوں اور بھوری روشن آنکھوں والا ادھیڑ عمر شخص دل چسپی سے کھیلتے‘ جھگڑتے بچوں کو دیکھ رہا تھا۔ اس شخص کو میں پہلے بھی اسی اسٹریٹ پر آگے جا کر فٹ پاتھ سے متصل کتابوں کی دکان پہ بیٹھ کے کسی نہ کسی کتاب میں غرق دیکھ چکا تھا۔ جان پہچان بھی پرانی تھی۔ کال بیل بجایا تو حمید کاشمیری صاحب نے دروازہ کھولا‘ چہرے پر شناسائی کی جھلک آئی‘ سادگی سے مسکرا کر وضاحت کی ’’معاف کرنا‘ میں ذرا میچ دیکھ رہا تھا۔‘‘ جی چاہا اسی بھولپن سے پوچھوں ’’کون جیتا؟‘‘

اتوار کی خوش گوار صبح تھی۔ وہ مجھے ساتھ لیے قریبی کافی ہائوس میں داخل ہوئے۔ نسبتاً ایک پرسکون میز دیکھ کر بیٹھ گئے مگر سکون کہاں؟ میز کے قریب سے گزرنے والا ہر شخص حمید کاشمیری کو سلام کرتا یا مسکراتا اور ہاتھ ملا کر آگے بڑھ جاتا۔ ایسا اس لیے تھا کہ پی ٹی وی پہ ان کی ڈراما سیریز ’’ایمرجنسی وارڈ‘‘ نے دھوم مچا رکھی تھی۔ میں بھی اپنے اخبار کے لیے اسی حوالے سے ان سے بات چیت کے لیے وقت طے کرکے آیا تھا۔

’’ہاں تو پھر شروع ہو جائیے۔‘‘ انہوں نے چائے کا آرڈر دینے کے بعد کہا۔

’’اے حامد بھائی۔‘‘ عقب سے آواز آئی۔ میں نے مڑ کر دیکھ۔ ایک میمن بھائی کچھ جذباتی عقیدت سے کہہ رہے تھے ’’طوطے والا پلے بوت اچھا تھا‘ ایکسی لینٹ۔‘‘

’’بہت شکریہ‘ مہربانی۔‘‘

حمید کاشمیری اصلاً افسانہ نگار تھے۔ ابھی افسانہ نگری کے ہفت خواں طے بھی نہ کیے تھے کہ پی ٹی وی انہیں اچک لے گیا‘ پھر تو وہ پی ٹی وی ہی کے ہو رہے۔ ڈراموں پر ڈرامے لکھتے رہے۔ کہتے ہیں میڈیا کیا ہے‘ کانِ نمک ہے‘ جہاں جا کے ہر چیز نمک بن جاتی ہے۔ حمید کاشمیری کے ساتھ بھی یہی ہو۔ تخلیقی فن کار کمرشل ہو گیا۔ ٹی وی سے ہٹ کر بعد میں بھی جو کچھ لکھا‘ چاہے اخبار جہاں کے لیے پاپولر ناول ہوں یا بچوں کے رسالے کے لیے کوئی طویل کہانی۔ خوشی تھی کہ ایک اچھا ڈراما نگار ناظرین کو مل گیا‘ افسوس اس کا کہ بہت امکانات رکھنے والا افسانہ نگار چھن گیا۔ میں نے اپنے اس قلق کا اظہار کیا تو انہوں نے تسلی دی:

’’میرے اندر کا افسانہ نگار ابھی مرا نہیں۔‘‘

وہ ساتھ ہی یہ بھی بتا دیتے کہ اندر کے افسانہ نگار پہ کیا بیت رہی ہے؟ تو کچھ ڈھارس بندھ جاتی‘ یہ دھڑکا تو ختم ہو جاتا کہ کہیں آخری سانسیں تو نہیں گن رہا؟ اور کیوں نہ گنے افسانہ نگار‘ تخلیق کار جس معاشرے میں وہ آنکھ کھولتا ہے‘ جس معاشرے کے لیے دکھ بھوگتا ہے‘ جس کے باطن کو بے نقاب کرتا‘ آئینہ دکھاتا‘ تنقیدِ زندگی کرتا ہے‘ وہ معاشرہ کیا دیتا ہے؟ واہ واہ اور سبحان اللہ کے سوا۔ اردو کا سدا بہار افسانہ نگار منٹو کو دیکھ کے اس کے شناسا راستہ بدل لیتے تھے کہ کہیں ادھار نہ مانگ بیٹھے۔ جس سماج میں کرکٹ اسٹار کی سرپرستی کی جاتی ہو اور قلم کاروں کے لیے ’’معذور ادیبوں‘‘ کے امدادی فنڈ قائم کییٌ جاتے ہوں‘ وہاں اگر حمید کاشمیری جیسے افسانہ نگار ڈراما نگار ’’سیٹھ‘‘ کے لیے نہ لکھیں تو بہ قول خود ان کے آخر آخر کو خون تھوکنے لگیں۔

ایک بے مغز‘ ناقدرے اور بے ڈھنگی ترجیحات کے حامل بے حس نظامِ حکومت میں ٹھیک ہی کیا حمیدکاشمیری نے جو کچھ کیا۔ پی ٹی وی کے لیے انہوں نے سائبان‘ کافی ہائوس‘دوسری لڑکی اور ’منٹو نامہ جیسی ڈراما سیریز اور چالیس سے زیادہ ڈرامے لکھے۔ پت جھڑ کے بعد جیسے ڈرامے کو میونخ ایوارڈ ملا اور کھیت کھیت ہریالی جیسا یادگار ڈراما جو آج بھی دیکھنے والوں کو یاد ہے‘ مگر نتیجہ؟ حاصل؟ یہ جاننا ہے تو یہ انٹرویو پڑھیے۔ حمید کاشمیری اور ان کے اہل خانہ کے ’’احساس محرومی‘‘ سے جواب مل جائے گا۔

بادلوں بھری وہ صبح اب بھی بھولی نہیں جب زیب النسا اسٹریٹ کے ایک کیفے میں بیٹھ کے میں نے حمید کاشمیری سے ڈراما‘ادب اور زندگی کے بارے میں جو کچھ پوچھنا چاہا تھا‘ بلاتکلف پوچھا تھا اور انہوں نے بھی اپنا سینہ کھول کے سارے زخم دکھا دیے تھے۔ انہوں نے روٹی روزی کا مسئلہ باعزت طریقے سے حل کرنے کے لیے اسی کیفے کے قریب ‘ سڑک کے دوسری طرف‘ فٹ پاتھ سے متصل کتابوں کی ایک دکان کھول رکھی تھی‘ کبھی وہاں سے گزرتا ہوتا تو تھوڑی دیر کے لیے ان کے پاس ٹھہر جاتا تھا‘ وہ زیر مطالعہ کتاب رکھ کے ازراہ انکسار اٹھ کھڑے ہوتے تھے‘ خوش مزاجی سے باتیں کرتے تھے۔ ان کے سفید گھنے بال‘ چمک دار آنکھیں اور زیر لب تبسم آج بھی افق ذہن پر جھلملاتے ہیں۔ وہ مجسم چہرہ آج بھی یاد آتا ہے۔ اب بھی جب اس سڑک سے گزرتا ہوں تو یہ دیکھ کر دل کی کیفیت عجیب سی ہو جاتی ہے کہ کتابوں کی وہ دکان بند ہوگئی‘ وہ ریلنگ بھی سنسان ہو گئی جس سے ٹیک لگا کے وہ پڑوسی بچوں کو کرکٹ کھیلتے دیکھتے تھے۔ چینلوں پر اب بھی ڈرامے کھیلے جاتے ہیں‘ مگر وہ ’’حامد بائی کہاں؟ جو‘‘ بوت اچھا پلے لکھتا تھا۔ عینی کے افسانے کا ایک سفاک فقرہ یاد آتا ہے ’’زندگی انسان کو کھا گئی‘ صرف کاکروچ باقی رہیں گے۔‘‘

…٭…

طاہر مسعود: ایمرجنسی وارڈ کیسا جا رہاہے؟ آپ ناظرین اور فن کاروں کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟

حمید کاشمیری: میں نے ایمرجنسی وارڈ لکھ کر ایک تجربہ کیا ہے۔ تجربے میں حتمی طور پر ناکامی یا کامیابی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ’’ایمرجنسی وارڈ‘‘ کے بارے میں‘ میں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ لوگ اپنی دکانیں اور بازار بند کرکے اسے دیکھیں گے لیکن جس طرح لوگ اسے دیکھ رہے ہیں‘ وہ میری توقع سے زیادہ ہے۔ ’’ایمرجنسی وارڈ‘‘ کا فارمیٹ بالکل نیا ہے‘ لوگوں نے اسے نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے۔

بات یہ ہے کہانیاں کتابوں کے اندر نہیں بلکہ کہانیوں کو تو لو گ اپنے سینوں‘ کندھوں اور سروں پر اٹھائے پھرتے ہیں۔ لہٰذا ’’ایمرجنسی وارڈ‘‘ کی کہانی تو چل ہی رہی ہے لیکن اس وارڈ میں لوگ معمولی معمولی بیماریاں لے کر آرہے ہیں اور ہر بار ان میں سے کسی ایک کی کہانی کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ رہا سوال آرٹسٹوں کے اطمینان کا۔ ’’ایمرجنسی وارڈ میں ایسے آرٹسٹ مطمئن ہوں گے جو ہر بار ایک نئی کہانی اور نئے ڈرامے کے حوالیٌ سے آرہے ہیں لیکن بڑے آرٹسٹ جو سیریل میں کام کر رہے ہیں‘ ممکن ہے ان کی تسلی نہ ہو پا رہی ہو۔ شاید انہیں متفرق ڈراموں کی وجہ سے پرفارمنس کا بھرپور موقع نہیں مل رہا لیکن آگے چل کر میں سیریل ہی لکھوں گا تاکہ ہر بار نئے کھیل کے پیش کرنے کا سلسلہ ختم ہو جائے۔ شاید اسی طرح ان کا احساس تشنگی ختم ہو۔

طاہر مسعود: عام ناظرین بھی ’’ایمرجنسی وارڈ‘‘ کی مرکزی کہانی کے دوران ہر بار ایک نئی کہانی کو بے جا تصور کرتے ہیں کیوں کہ مرکزی کہانی محبت کی کہانی ہے اور لوگ عام طور پر ہلکی پھلکی کہانیاں پسند کرتے ہیں۔

حمید کاشمیری: لوگ تو بعض اوقات فلم کے دوران انٹرویل ہو جائے تو بھی مداخلت تصور کرتے ہیں۔ ’’ایمرجنسی وارڈ‘‘ میں کہانی جب آگے بڑھتی ہے تو بریک آجاتا ہے۔ اس کی کہانی کو میں ایک کلائمکس میں لا کر چھوڑ دیتا ہوں لیکن جب بریک کے اندر بھرپور کہانی آجاتی ہے تو لوگ مطمئن ہو جاتے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ کسی کو پانی پلاتے ہوئے آپ اس سے پانی کا گلاس چھین کر جوس کا گلاس دے دیں تو وہ شکوہ نہیں کرے گا۔

طاہر مسعود: آپ کے ڈراموں میں عموماً سماجی حقیقت نگاری ملتی ہے یعنی لوگوں کے دکھ سکھ‘ سماجی مسائل‘ معاشی ناہمواریاں وغیرہ آپ کے ڈراموں کے عمومی موضوعات ہیں۔ یہ ڈرامے کئی اعتبار سے مؤثر ہوتے ہیں اور لوگ انہیں پسند بھی کرتے ہیں لیکن بہ حیثیت ڈراما نگار آپ نے بھی سوچا ہے کہ آپ کے ان ڈراموں سے سماجی سطح پر کس قدر تبدیلیاں آتی ہیں؟ ظاہر ہے جب ایسا نہیں ہوتا تو کیا ڈراما لکھنے کا عمل آپ کو لاحاصل محسوس نہیں ہوتا؟

حمید کاشمیری: اس بات کو میں اس طرح لیتا ہوں کہ لوگ آسمانی کتابوں سے سبق حاصل نہیں کر رہے ہیں۔ ہماری تحریریں تو انسانی اور افسانوی ہیں۔ لکھنے والا مبلغ یا واعظ نہیں ہوتا۔ ہمارا کام اتنا ہے کہ ہم زندگی کو جس صورت میں دیکھتے ہیں اس کا پَرتو دوسروں کو دکھا دیں۔ میرا کوئی بھی ڈراما یا افسانہ ان میں ایک چیز مشترک نظر آئے گی وہ یہ کہ میں اپنی کہانیوں کو برائیوں سے شروع کرتا ہوں اور کہیں بھی نیکی کی کوئی کرن جو مجھے نظر آتی ہے اسے اجاگر کر دیتا ہوں‘ ہم اک کرپٹ سوسائٹی میں زندہ ہیں لیکن اس کرپٹ سوسائٹی میں بھی نیکی کا عنصر موجود ہے۔ اگر یہ عنصر موجود نہ ہوتا تو سوسائٹی کب کی ختم ہو چکی ہوتی۔ آدمیوں میں ایک آدمی نیکی کی علامت ہے۔ سوسائٹی ایک نیک آدمی کی وجہ سے باقی ہے۔ ننانوے کرپٹ آدمیوں کی وجہ سے نہیں۔ میرے لیے آسان ہے کہ میں ایک مسخرے کو اپنے ڈرامے کا کردار بنا کر ہنساتا رہوں لیکن تب میرے ڈراموں سے حمید کاشمیری غائب ہو جائے گا۔

’’ایمرجنسی وارڈ‘‘ کا پہلا ڈراما ایک اسکول مدرس کی زندگی کے بارے میں تھا جو حالات سے مجبور ہو کر بیرون ملک جانا چاہتا ہے۔ اس ڈرامے کے ٹیلی کاسٹ ہونے کے بعد بہت سی بیویوں اور مائوں نے اپنے شوہروں اور بیٹوں کو مجھے مبارک باد دینے کے لیے بھیجا۔ اس طرح مجھے معلوم ہوا کہ میں لو گوں کے اندر ایک نئی سوچ بیدار کرنے میں کامیاب ہوا ہوں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ سوچ کا فقدان ہی تو ہے۔

طاہر مسعود: ایک رائے یہ ہے کہ آپ کے ڈراموں میں مسائل جتنے حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیے جاتے ہیں اور ان میں جتنی شدت ہوتی ہے‘ ان مسائل کے حل میں اتنی قوت یا جان نہیں ہوتی۔ آپ مرض تو بتا دیتے ہیں علاج تجویز نہیں کرتے۔ کوئی ایسا علاج جو مرض کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔

حمید کاشمیری: میں کوئی مسیحا یا راہ نما تو ہوں نہیں۔ (سوچ کر) فنون لطیفہ ڈراما یا شعر یہ ساری چیزیں آپ کو سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ آپ کے مسائل کا حل صرف آپ کی سوچ میں پوشیدہ ہے۔ میں بہ حیثیت ڈراما نگار اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا۔ میں لوگو ں کو انگلی پکڑ کر چلانے سے معذور ہوں۔ ممکن ہے میرے اندر اس کی صلاحیت نہ ہو۔ میں اپنی صلاحیت سے کچھ زیادہ دینے کی کوشش بھی نہیںکرتا ورنہ میں بھٹک جائوں گا یا بھٹکا دوں گا۔

طاہر مسعود: آپ کے ڈراما لکھنے کے فن کے متعلق ایک تاثر ہے‘ اسے آپ میرا ذاتی تاثر کہہ لیں۔ ہمارے یہاں کئی منفرد ڈراما نگار ہیں مثلاً اشفاق احمد جو ڈراموں کے ذریعے اپنا مخصوص فلسفۂ زندگی پیش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس حسینہ معین ہیں جو ہلکھے پھلکے موضوعات پر ڈراما لکھتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ فنی اعتبار سے آپ کے ڈرامے اشفاق احمد سے کم اور حسینہ معین سے زیادہ بہتر ہوتے ہیں‘ آپ کی کیا رائے ہے؟

حمید کاشمیری: میں اپنے بارے میں نہ کوئی رائے قائم کر سکتا ہوں اور نہ اپنا مقابلہ و موازنہ اشفاق صاحب سے کر سکتا ہوں۔ میں ان کا بے حد احترام کرتا ہوں اور ان کا شمار ان لوگوں میں کرتا ہوجنہیں پڑھ پڑھ کر میں نے لکھنا سیکھا ہے۔ میں ان سے کس حد تک اچھا لکھتا ہوں یا برا اس کا فیصلہ مجھے نہیں دوسروں کو کرنا ہے۔ دوسروں کی رائے درست ہوگی۔ خود اشفاق احمد کسی جگہ خود کو بہت بڑا یا بہت چھوٹا ڈراما نگار نہیں کہہ سکتے۔ یہ فیصلہ ہمیں اور آپ کو کرنا ہے۔

طاہر مسعود: ڈراموں کے موضوعات کے سلسلے میں آپ کی اور امجد اسلام امجد کی اپروچ ایک جیسی نظر آتی ہے‘ آپ دونوں ہی زندہ مسائل سے اپنے موضوعات چنتے ہیں اور انہیں حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔

حمید کاشمیری: اس کا ایک بنیادی سبب ہے اور وہ ہے کنور آفتاب احمد۔ میں نے اپنے لکھنے کا آغاز کنور آفتاب احمد کے ساتھ کیا اور لاہور میں امجد نے بھی۔ اسی لیے ہم دونوں کے ڈراموں میں آپ بڑی حد تک یکسانیت محسوس کریں گے۔ میں بھی اپنے ڈرامے کے کسی منظر کو سست رفتاری سے نہیں چلایا یا انہیں ٹھہراتا نہیں ہوں۔ ان کی ٹیمپو تیز ہوتا ہے۔ شاید ہم دونوں ڈراما نگاروں میں ایک ہی منظر کو ٹھہرا کر ناظرین کو بور کرنے کی صلاحیت موجود نہ ہو۔

طاہر مسعود: مناسب ہوگا اگر میں آپ سے یہاں پر یہ پوچھوں کہ افسانہ لکھتے لکھتے آپ اچانک ٹی وی ڈراما نگار کی حیثیت سے کس طرح متعارف ہوئے؟

حمید کاشمیری: جب ٹی وی کراچی میں آیا تو ’’میری پسندیدہ کہانی‘‘ کے عنوان سے ڈراموں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ مجھ سے بھی کہانی مانگی گئی۔ میں نے خواہش ظاہر کی کہ میں اپنی کہانی کی خود ڈرامائی تشکیل کروںگا۔ لیکن جواب میں کہا گیا کہ یہ ٹیکنیکل کام ہے اور آپ کے بس کا نہیں ہے۔ میں پوچھا کہ آپ نے ٹیلی پلے لکھنے والے کہاں سے منگوائے ہیں؟ بہرحال میں نے کہانی دے دی۔ وہ میری شاہ کار کہانی تھی جس کا عنوان تھا ’’خون کے پیاسے‘‘ اس کی ڈرامائی تشکیل کنور آفتاب احمد نے کی۔ یہ ڈراما نشر ہو کر بے حد مقبول ہوا۔ جس کے بعد مجھ سے اور کہانیاں مانگی گئیں تو میں نے خواہش ظاہر کی کہ مجھ سے کہانیاں لینے کے بجائے ڈرامے لکھوائیں۔ ٹی وی والوں نے نیم رضا مندی ظاہر کی جس پر میں نے کنور آفتاب احمد کو ایک ڈراما ’’رہ گزر‘‘ لکھ کر دیا۔ کنور جو میرا بہت اچھا دوست بھی تھا‘ اس نے ڈراما پڑھ کر کہا کہ ’’یہ نہیں چلے گا۔‘‘ مجھے سخت افسوس ہوا کیوں کہ میں نے اس پر بے پناہ محنت کی تھی۔ خیر ڈرامے کا مسودہ دیگر مسترد شدہ مسودات کے ڈھیر میں ڈال دیا گیا۔ لاہور کے ایک پروڈیوسر ظہیر بھٹی کراچی آئے تو وہ ڈراما کرنے کے لیے سارے مسودات اپنے گھر لے گئے اور ان میں سے میرا مسودہ منتخب کر لیا اور جب ’’رہ گزر‘‘ ٹیلی کاسٹ ہوا تو سپرہٹ ہوگیا۔ اگلے دن میں ٹی وی اسٹیشن گیا تو سارے پروڈیوسروں نے مبارک باد دی اور گلے لگایا۔ ان ہی میں کنور آفتاب احمد بھی تھا۔ میں نے اسے گھونسا دکھایا جس پر وہ شرمندہ ہو کر لپٹ گیا پھر میں نے کنور کے ساتھ مل کر بہت خوب صورت اور یادگار ڈرامے کیے ان میں شاہراہ عظیم‘ آپ کہاں جائیں گی؟‘ منٹو نامہ جیسے نہ بھولنے والے ڈرامے شامل ہیں۔ اس کے بعد میرے اندر جتنی صلاحیت تھی‘ وہ سب میں نے خون کی شکل میں ڈرامے کو دے دی۔

طاہر مسعود: ان ڈراموں نے آپ کو کیا دیا؟ کیا آپ مطمئن ہیں؟ کچھ کھونے کا یا پچھتاوے کا احساس تو نہیں ہوتا؟

حمید کاشمیری: اگر مسئلہ میری ذات کا ہوتا تو میں مطمئن تھا۔ میں قناعت پسند آدمی ہوں‘ میری ذات کی حد تک مجھے بہت کچھ ملا ہے۔ میں کسی گھر میں چلا جائوں مجھے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لوگ میری عزت کرتے ہیں‘ مجھے چاہتے ہیں لیکن یہ سب کچھ میری اولاد کے لیے کافی نہیں ہے۔ میں اپنے بچوں کو اپنے نام‘ اپنی شہرت‘ عزت اور تربیت کے ساتھ کے سوا اور کوئی چیز نہ دے سکا۔ آپ دیکھیں کہ میں نے پوری زندگی کراچی میں گزار دی ہے۔ اس دو کمرے کے کرائے والے فلیٹ میں۔ اس لیے کہ میری اپنے ڈراموں اور کرداروں کے ساتھ جو سچائی وابستہ تھی‘ اس نے مجھے کچھ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ خدا کا شکر ہے کہ میرے بچوں پر بھی میری تربیت کا اثر ہے کہ وہ آج فخر کرتے ہیں اور اسکولوں اور کالجوں میں میرے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے میری استطاعت سے زیادہ کچھ نہیں چاہا۔ انہوں نے کبھی مجھ سے بنگلہ اور کار کی فرمائش نہیں کی کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ میں انہیں بنگلہ یا کار خرید کر نہیں دے سکتا۔

طاہر مسعود: ٹیلی ویژن پر رائٹر کو جتنا معاوضہ ملتا ہے اس میں کس حد تک اضافہ ہونا چاہیے؟

حمید کاشمیری: ٹیلی ویژن پر دس سال کے بعد اب معاوضہ میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر آپ اس معاوضے میں خود کو کُل وقتی ادیب بنا دیں اور اس پر انحصار کرنے لگیں تو آپ زندہ تو رہ سکتے ہیں لیکن آج کی موجودہ سوسائٹی کے ساتھ چلنے کا تصور نہیں کر سکتے۔ سعادت حسن منٹو 43 سال کی عمر میں اس لیے مر گیا کہ وہ اپنی تحریروں پر زندہ تھا۔ وہ پچیس روپے میں اپنا ایک افسانہ بیچتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے خون تھوکنا شروع کر دیا۔ مجھے معلوم تھا کہ میں لکھنے سے باز نہیں آسکتا اس لیے میں افسانے سے ڈرامے کی طرف آگیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید میں بھی خون تھوکنے لگتا۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آرٹسٹ فل ٹائم رائٹر رہے تو موجودہ معاوضے پر ایسا نہیں ہو سکتا۔ آج آپ کو آرٹسٹ با آسانی مل جائیں گے لیکن ٹی وی کا دو عشرہ گزر چکا ہے اور لکھنے والوں کی نئی ٹیم دریافت نہیں کی جاسکی ہے۔ لاہور میں اشفاق احمد‘ بانو قدسیہ‘ منو بھائی‘ امجد اسلام امجد‘ سلیم چشتی اور جمیل ملک لکھ رہے ہیں جب کہ کراچی میں سلیم احمد‘ حسینہ معین اور میرے علاوہ کوئی نیا لکھنا والا نہیں آیا ہے۔ ظاہر ہے لوگ اپنی نوکریاں اور کاروبار چھوڑ کر صرف ٹیلی ویژن کے لیے تو نہیں لکھ سکتے۔

طاہر مسعود: ٹیلی ویژن میں نئے لکھنے والوں کے متعارف نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ٹی وی والے لکھنے والوں سے رابطہ قائم نہیں کرتے بلکہ جو لکھنے کی کوشش کرتا ہے‘ اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے مثلاً امجد اسلام امجد کا کہنا ہے کہ جب تک اس کا پہلا پلے مقابلہ میں شریک ہو کر مقبول نہیں ہوا تھا‘ ٹی وی والے اسے گھاس ہی نہیں ڈالتے تھے‘ اسی طرح تاج حیدر نے بھی ایک انٹرویو میں کہا کہ اسے ٹی وی پر لکھنے کا موقع صرف اس لیے دیا گیا کہ چند پروڈیوسر اس کے دوست تھے۔ خود آپ اپنی مثال سامنے رکھیں ظاہر ہے ایسی صورت میں نئے اور اچھے لکھنے والے کس طرح سامنے آئیں گے؟

حمید کاشمیری: آپ کی بات کسی حد تک درست ہے لیکن اس میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایک اچھا افسانہ نگار ضروری نہیں کہ ایک اچھا ٹیلی پلے رائٹر بھی ہو کیوں کہ ٹی وی اسکرین کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں۔ ہاں البتہ امجد کے واقعے کے حوالے سے یاد آیا کہ جن دنوں خواجہ معین الدین زندہ تھے‘ اسلم اظہر نے ان کو ٹی وی اسٹیشن پر مدعو کیا۔ خواجہ صاحب مقررہ وقت پر آئے تو انہیں بتایا گیا کہ اسلم اظہر صاحب ایک ضروری میٹنگ میں مصروف ہیں آپ یہیں انتظار کریں۔ خواجہ صاحب جیسی بڑی شخصیت میں ایک آرٹسٹک انا کا ہونا ناگزیر تھا‘ انہوں نے بہ مشکل دو منٹ انتظار کیا ہوگا اور پھر وہاں سے اٹھ کرف چلے آئے۔ میٹنگ ختم کرنے کے بعد اسلم اظہر صاحب کو معلوم ہوا کہ خواجہ صاحب تو چلے گئے۔ فوراً گاڑی دوڑائی کہ انہیں بلوا لو لیکن خواجہ صاحب کو نہ آنا تھا نہ آئے۔ انہوں نے کہا ’’میاں میں یہیں خوش ہوں۔‘‘ اسی طرح اسکرپٹ ایڈیٹر افتخار عارف صاحب لندن جانے لگے تو مجھ سے کہا کہ ’’حمید بھائی! میرے جانے کے بعد یاد کرو گے کہ کوئی تھا۔ تب تمہیں ٹی وی کے اندر کوئی گھسنے نہیں دے گا۔‘‘ اس کے جواب میں‘ میں نے کہا ’’افتخار عارف! اس کا جواب میں تمہیں نہیں دوں گا‘ وقت دے گا۔‘‘ اور ابھی کچھ دنوں کی بات ہے کہ اسی افتخار عارف نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ حمیدی کاشمیری جیسے ڈراما نگار انگریزوں کے ملک میں ہوتے تو نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہوتے۔‘‘

لیکن کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ افتخار عارف کے ان دو جملوں کے درمیان مجھے کتنا سفر کرنا پڑا۔

طاہر مسعود: ٹی وی کے لیے آئندہ لکھتے رہنے کا پروگرام ہے یا تھک چکے ہیں؟

حمید کاشمیری: مجھ پر دبائو ہے میرے خاندان کا‘ بھائیوں اور بچوں کا‘ ان کا کہنا ہے کہ ٹیلی ویژن کے لیے لکھنا لکھانا کم کردوں اور میں ہر بار انہیں یقین دلاتا ہوں کہ ٹھیک ہے کم کر دوں گا۔ وہ چاہتے ہیں کہ میں کوئی ایسا کام کروں جس سے مجھ پر بوجھ کم پڑے اور میں زیادہ کما سکوں لیکن جس طرح مچھلی پانی کے بغیر نہیں رہ سکتی میں بھی لکھے بغیر نہیں رہ سکتا‘ خواہ اپنے ہی لیے کیوں نہ لکھوں۔

طاہر مسعود: آپ کے اہل خانہ یا بچوں کے جو مطالبات آپ سے ہیں‘ کیا آپ انہیں پورا نہیں کریں گے؟

حمید کاشمیری: ہاں کبھی کبھی چاہتا ہوں کہ ان کے مطالبات پر توجہ دوں مگر بات یہ ہے کہ میں ڈرامے سے فرار حاصل نہیں کرسکتا۔ ڈراما میری زندگی ہے۔ لوگ مجھے ڈراموں سے پہچانتے ہیں۔ یہاں تک کہ مجھے اندیشہ ہے کہ جس دن میں مر جائوں گا‘ اس وقت بھی لوگ یہیں کہیں گے کہ ڈراما کر رہا ہے۔

میں اسٹیج ڈرامے کی طرف آنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن موجودہ اسٹیج کے اندر بھی میں اپنے اسٹائل کے ساتھ آئوں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ اسٹیج کے لیے جو کچھ لکھوں اسے ’’ڈس اون‘‘ نہ کروں۔ اصل میں مجھ سے ایک بہت بڑی چوک ہوئی‘ میرا جب پہلا ڈراما ٹیلی ویژن پر ہوا تو خواجہ معین الدین صاحب نے اپنا ایک آرٹسٹ مجھے مبارک باد دینے کے لیے بھیجا۔ میرے پاس خود آئے اور مجھے گلے لگایا کہ میرے ساتھ آئو ہم اور تم مل کر اسٹیج کو مضبوط بنائیں گے۔ میں خواجہ صاحب کا مداح تھا اور وہ میرا پہلا پلے تھا۔ یہ سن کر میں پریشان ہو گیا اور کہا کہ ’’خواجہ صاحب! جہاں تک اسٹیج ڈرامے کا تعلق ہے ‘میں آپ کی جوتیوں میں بیٹھنے کے لائق ہوں‘ میں آپ کے ساتھ مل کر لکھنے کا تو تصور بھی نہیں کرسکتا۔‘‘ آج مجھے افسوس ہوتا ہے کہ کاش میں ان کا حکم مان لیتا تو آج ان کے بعد ان کا تیار کردہ جو اسٹیج ختم ہو گیا ہے‘ وہ شاید باقی رہ جاتا۔

طاہر مسعود: موجودہ حالات میں اسٹیج کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے سدھار کے لیے آپ کون سے اقدامات تجویز کرتے ہیں؟

حمید کاشمیری: فی الحال ایک ڈراما اکیڈمی کے قیام کی اشد ضرورت ہے۔ یوں دیکھیے تو ہر نوجوان پر جس کی عمر بیس برس ہے‘ ایکٹنگ کرنے کا شوق جنون کی طرح سوا ہے اور وہ بھی کہتا پھرتا ہے کہ اگر مجھے موقع ملے تو میں مارلن برانڈو کو پچھاڑ سکتا ہوں لیکن اسے موقع دیا جائے تو وہ ایک جملہ عمدہ اور صحیح تلفظ کے ساتھ ادا نہیں کرسکتا۔ اس صورت حال کی اصلاح کے لیے اکیڈمی کی شدید ضرورت ہے۔ اس موضوع پر میری اور کمال احمد رضوی کی کئی ملاقاتیں ہوئیں‘ گفتگو ہوئی اور ہم نے جا کر فیریئر ہال کی نچلی منزل کا جائزہ بھی لیا کہ بلدیہ کراچی کے تعاون سے یہاں ایک قومی ادارہ قائم کیا جائے لیکن یہ سارا معاملہ میٹنگ کی حد تک رہا۔ پھر کمال اپنے جھمیلوں میں پھنس گیا اور میں اپنے بکھیڑوں میں‘ بات جہاں سے چلی تھی‘ وہیں پر آکر رک گئی۔

حصہ