کب تماشا ختم ہوگا

430

دنیا ترقی کی دوڑ میں کہاں سے کہاں پہنچ رہی ہے بھارت کا راکٹ چاند پر پہنچ گیا بھارت نے صوبہ بہار میں شیشے کا پل بنا لیا آئی ٹی کی خدمات دینے میں بھارت دنیا کے دیگرترقی یافتہ ممالک سے کسی بھی اعتبار سے پیچھے نہیں ہے بنگلور اور مدراس میں سافٹ وئر بنتے ہیں اور ان کی مارکیٹ امریکہ میں ہے 14 اگست 1947 میں ہم آزاد ہوئے بھارت 15 اگست کو آزاد ہوا چین میں ماؤزے تنگ کا انقلاب 1949 کے بعد آیا اور آج دنیا اس کی ترقی دیکھ کر محو ِحیرت ہے دونوں ممالک ہمارے پڑوسی ہیں اور انہوں نے ترقّی کا سفر ہمارے ساتھ شروع کیا اور آج یہ دونوں ترقی کی دوڑ میں کتنا آگے ہیں ہم اپنا مقابلہ انہی دونوں ممالک سے کریں گے یورپ سے نہیں کریں گے۔

ہم ابھی تک اتنے پیچھے کیوں ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ ملک میں سیاسی خلفشار، کرپٹ حکمران اور سرکاری محکموں میں نا اہل افراد کی تقرّری ہے ۔جنہوں نے ملک کی مٹی پلید کی ہوئی ہے ہمارے رہنما اپنا بیشتر وقت اپنے رقیبوں کی ٹانگیں کھینچنے میں صرف کر دیتے ہیں جب بھی کوئی نئی سرکار آتی ہے اپنی خرابیوں کو پس ِپشت ڈال کر پچھلی حکومت کو مورد ِالزام ٹھہراتی اور خود کو پاک دامن قرار دیتی ہے۔

ہم ریڈیو پر خبریں سنتے ہیں ہم اس انتظار میں رہتے ہیں کہ شاید کوئی خبر اس طرح کی آ جائے کہ ہمارے ملک نے فلاں شعبے میں کوئی ایسا ترقیاتی کام کیا ہے جو دنیا میں آج تک کہیں نہیں ہوا یا یہ خبر آ جائے کہ ہم نے اتنے ڈیم بنا لیے ہیں کہ اب سیلاب کا خطرہ ٹل گیا ہمیں دنیا والوں کے آگے دامن نہیں پھیلانے پڑیں گے آج صبح کی خبروں میں محترمہ مریم نواز کا ایک بیان سننے کی سعادت حاصل ہوئی کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافوں کی اصل وجہ عمران خان ہے، دریائے سندھ میں سیلاب آیا، نواب شاہ میں ٹرین کا بدترین حادثہ پیش آیا، بٹگرام میں چیئر لفٹ کی رسی ٹوٹ گئی، ان سب کی وجہ موصوفہ نے بیان نہیں فرمائی۔

ہمارے ملک کی اس سے بڑھ کر بدنصیبی اور کیا ہوگی کہ آزادی حاصل کیے ہوئے آج 76 سال ہونے کو آئے ہیں مگر ابھی تک یہ ملک سیاسی استحکام سے محروم ہے نہ تو اس ملک میں سیاسی استحکام ہے اور نہ ہی’’ غیر سیاسی ‘‘بس کسی طرح اللہ میاں اسے چلا رہے ہیں پچھلے دنوں وزیراعظم کی باری مقرّر ہوا کرتی تھی’ اس مرتبہ ہماری اگلی مرتبہ تمہاری‘ اسی فارمولے پر ملک کا نظام گھسیٹا جا رہا تھا ایک پارٹی حکومت کرتی دوسری تماشا دیکھتی اور اپنی باری کا انتظار کرتی اچانک یہ کیا معجزہ رونما ہو گیا کہ دریا کے دونوں کنارے آپس میں مل گئے ایک دوسرے کے حریف ایک دوسرے کے ساتھی بن گئے دراصل ہمارے ملک میں سیاست ایک تماشا ہے ایک کھیل ہے بس کردار بدلتے رہتے ہیں افتخار عارف کی غزل کے دو اشعار یاد آگئے…

کہانی آپ الجھی ہے یا الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہو گا

ہمارے قارئین ماشاء اللہ تعلیم یافتہ افراد ہیں اور شعر فہمی بھی رکھتے ہیں اب انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ تماشا کرنے والوں کو خبر دینے والا کون ہے۔

’’ لاکھ پردوں میں رہوں بھید مرے کھولتی ہے‘ شاعری سچ بولتی ہے‘‘

جب تک عوام میں اتحاد پیدا نہیں ہوگا یہ ظلم و ستم جو ہمارے اوپر ہو رہے ہیں بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں آئے دن اضافے یہ ہوش ربا مہنگائی ان سب کے خلاف عوام احتجاج کرے اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے تو شاید مسئلے کا کوئی حل نکل سکتا ہے ورنہ ساغر صدیقی کے الفاظ میں ہم یہی کہتے رہیں گے…

زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

آج کل ریڈیو پر ایک اشتہار چل رہا ہے ’ علم کی روشنی پھیلاؤ ،پڑھے گا سندھ تو بڑھے گا سندھ‘ بھلا سندھ کیسے پڑھ سکتا ہے اور بڑھ سکتا ہے جبکہ سندھ کے اکثر اسکولوں میں بکریاں اور بھینسیں بندھی ہوئی ہیں نہ اساتذہ ہیں اور نہ ہی بچیّ پھر بھی ہم حکومت ِسندھ کی اس کوشش کو خراج ِتحسین پیش کرتے ہیں کہ اس نے سندھ جیسے علاقے میں جہاں علم کا فقدان ہے اور ڈگریاں باآسانی حاصل کی جا سکتی ہیں اس ظلمت کدے میں علم کی روشنی پھیلانے کی فکر تو کی…’ شمع تو جل جائے سو دھندلی ہی سہی‘

ملک قرض تلے دبا ہوا ہے وزرا اور دیگر افراد جو سرکاری اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں انہیں سادگی اختیار کرنی چاہیے کم از کم اتنا تو ضرور کر سکتے ہیں کہ باہر سے مہنگی گاڑیاں نہ منگوائیں جو گاڑیاں اپنے ملک میں دستیاب ہیں انہی پر سفر کریں اس طرح زرِمبادلہ کی بھی بچت ہوگی اور پٹرول بھی کم خرچ ہوگا اس کا اطلاق پورے ملک میں ہونا چاہیے باہر سے گاڑیاں آنا بند ہونا چاہیے۔ بجلی کے بلوں کی ادائیگی اعلیٰ سرکاری عہدیداران کو بھی کرنی چاہیے ریٹائرمنٹ سے پہلے بھی اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی۔

ہمارے ترقی نہ کرنے کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ طلبہ جو اچھے نمبروں سے امتحان میں کامیابی حاصل کرتے ہیں مگر وطن ِعزیز میں ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور ان کی صلاحیتوں سے دیار ِغیر کے لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ اگر یہ طلبہ اپنے ملک کی خدمات پر مامور کیے جاتے تو یقینا وطنِ عزیز کے لیے ترقی کا باعث ہوتے، ان میں زیادہ تر ڈاکٹر اور انجینئر ہیں۔ ان طلبہ کو وطنِ عزیز میں ملازمتیں نہ ملنے کی وجہ ان کی بد نصیبی نہیں تو اور کیا ہے ان اسامیوں پر ان کے دوسرے بھائی جو کم اہلیت کے حامل ہیں تقرر کیے جاتے ہیں اور ادارے اچھی کارگردگی سے محروم رہتے ہیں۔ یاد رکھیے گا ’’گدھوں پر زین کس دینے سے وہ گھوڑے نہیں ہوتے۔‘‘

اگر آپ چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو تو ایسے نظام کو ختم کرنا ہوگا جس سے دوسروں کی حق تلفی ہو۔ زین گھوڑوں پر ہی کسی جائے گی‘ ہر شہری کو اس کا جائز حق دینا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو ہمارے ماضی میں بھی اندھیرا تھا مستقبل اس سے کہیں زیادہ سیاہ ہو گا۔ ہم سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں‘ خدانخواستہ یہ کشتی ڈوبی تو اس پر سوار تمام افراد پانی کی نذر ہو جائیں گے اور تماشا ختم ہو جائے گا۔

حصہ