ربیع الاوّل کے اہم واقعات

2202

ربیع الاوّل کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ ’’ارتباع‘‘ سے ہے اور ارتباع گھر میں ٹکے رہنے کو کہتے ہیں۔ چوںکہ اس مہینے میں لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے تھے، اس لیے اسے ’’ربیع‘‘ کا نام دیا گیا، اس کی عربی زبان میں جمع’’اربعاء‘‘ جیسے ’’نصیب‘‘ کی جمع ’’انصباء‘‘ آتی ہے ، اسی طرح اس کی جمع ’’اربعۃ‘‘ بھی آتی ہے جیسے ’’رغیف‘‘ کی جمع ’’ارغفۃ‘‘ آتی ہے۔

رسول اکرمؐ اسی ماہ پیدا ہوئے ، مدینہ منورہ ہجرت کی اور انتقال فرمایا۔ ربیع الاوّل کے مبارک مہینے میں بعض ایسے واقعات وقوع پزیر ہوئے جنہوں نے تاریخ کا رخ موڑ دیا جس کی کچھ تفصیل درجہ ذیل ہے۔

رسول اللہؐ کی ولادت با سعادت12ربیع الاوّل بروز پیر 568ء میں ہوئی۔ آپؐ کو نبوت عام الفصیل کے 41 سال بعد ملی۔ 02 ربیع الاوّل 622ء کو آپ نے مدینہ منورہ ہجرت غرض سے غار ثور میں پناہ لی۔ 12ربیع الاوّل کے روز مدینہ منورہ میں داخل ہوئے اور آپ کا وصال بھی بروز پیر 12ربیع الاوّل 11ھ کو ہوا۔

؎غزوہ بواط:
ہجرت کے دوسرے سال قریش کا ایک تجارتی قافلہ اسیہ بن فلف کی قیادت میں ینبع کی طرف آ رہا تھاجو 1500 اونٹوں پر مشتمل تھا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تووہ مدینہ منورہ سے اس کے تعاقب میں چل دیے ۔

غزوہ بدر الاولیٰ:
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کرز بن جابر کی تلاش میں نکلے جس نے مدینہ منورہ کی سرحدوں پر حملہ کیا تھا۔

سریہ محمد بن سلمہ : حضور ؑ نے محمد بن سلمہ کوکعب بن اشرف کے قتل کی غرض سے روانہ فرمایا جو کے حضور ؑ اور مسلمانوں کی ہجو کیا کرتا تھا۔

غزوہ غطفان:
نجد کے علاقہ میں ہجرت کے تیسرے سال پیش آیا جو تقریبا ً15روز جاری رہا۔
٭بنی نضیر نے مسلمانوں کے خلاف سازش اور وعدہ خلافی کی۔ ان کا 15روز محاصرہ کیا گیا۔ پھروہ حضورؐ کی شرائط مان گئے تو معاملہ طے ہوگیا۔ یہ غزوہ بنو نصیر ہجرت کے تیسرے سال پیش آیا۔

غزوہ دومہ الجندل:
یہ غزوہ ربیع الاوّل 05ہجری میں پیش آیا جس میں ایک ہزار سپاہی شریک ہوئے۔ مدینہ منورہ آنے والے تجارتی قافلے جو کھانے کی چیزیں ملک شام سے لائے تھے ان کو روک لیا کرتے تھے حضورؐ اس طرف گئے جب دشمنوں کو خبر ہوئی تو وہ تمام تر مال و دولت چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور مسلمانوں کو خاصا مال غنیمت ملا۔ (دومہ الجندل مدینہ منورہ سے تقریباً 800 کلو میٹر پر ہے)

٭غزوہ بنی لحیان: 4 0 ہجری کو پیش آیا ۔ اس میں دو سو آدمی شریک ہوئے جن میں صرف 20 سپاہی سواریوں پر تھے۔ یہ واقعہ عسفان کے علاقہ میں ہوا جب دشمنوں کو حضورؐ کے آنے کی خبر ہوئی تو وہ پہاڑوں میں منتشر ہو گئے۔ اکثر غزوات میںجب دشمنوں کوحضورؐ کے آنے کی خبر ہوتی تو وہ رعب النبیؐ سے بھاگ کھڑے ہوتے تھے۔

٭حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے12ربیع الاوّل11ہجری کوسقیفہ بن ساعدہ میں بیعت لی۔

٭حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے پہلا کام یہ کیا کہ اسامہ بن زید ؓ کی قیادت میں جن کی عمر 17سال تھی‘ ان کو اپنے والد حضرت زید بن حارث ؓ کا قصاص لینے کے لیے روانہ کیا۔

مسلمانوں نے اس فیصلہ کی مخالفت کی کہ ایسے نامساعد حالات اور کم عمر لڑکے کی قیادت میں لشکر کشی مناسب نہیں لیکن آپؐ نے فرمایا ’’خدا کی قسم اس بات کا کوئی بدل نہیں جس کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حکم فرمایا ہو۔‘‘

٭ حضرت خالد بن ولیدؓ نے 12ھ میں الحیرہ فتح کیا اور جزیہ لے کر ان کو ان کے دین پر باقی رہنے دیا۔ ( الحیرہ کا ذکر قبل از اسلام عرب میں بہت ملتا ہے‘ یہ لخمیوں کا پایہ تخت تھا ۔ پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی میں اس کا شمار تہذیبی شہروں میں ہوتا تھا)

٭ فتح الاوّل بیت المقدس:16ھ میں بیت المقدس فتح ہوا اور اس موقع پر ایک صلح نامہ تیار ہوا جس کی رو سے جزیہ وصول کر کے اہلِ بیت المقدس کی جان و مال کی حفاظت کے ساتھ ان کو ان کے دین پر چھوڑ دیا گیا لیکن شرط یہ رکھی کہ امیرالمومنین خود بنفس نفیس اس عہد نامہ پر مہر لگائیں گے۔ چناچہ حضرت عمر فاروق ؓ مدینہ منورہ سے بیت المقدس تشریف لے گئے اور دستخط فرمایا۔

٭فتح الثانی بیت المقدس: 24 ربیع الاوّل 583ھ کو سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ نے صلیبیوں کو شکست فاش دے کر بیت المقدس کا راستہ کھول دیا۔

٭ شیخ الاسلا م ابن تییتہ ؒ کی پیدائش: 10ربیع الاوّل 661ھ کو ملک شام کے علاقی ’’حرانـــ’’ میں ہوئی جنہوں نے اپنی بے مثال کوششوں سے شرک بدعات کے خلاف محاذ قائم کر دیاآپ نے مسلمانوں کو گمراہی سے نکال کر دینِ نبوی ؐ پر لانے کی قابل تعریف سعی فرمائی۔

ٌٌٌٌٌٌ٭ سقوط اندلس: 12ربیع الاول 897ھ فرانسیسی حکمران فیر ڈینینڈ اپنی ملکہ ازابیلہ کے ہمراہ اندلس (غرناطہ) میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا۔ اس طرح مسلمانوں کے بے مثل اوصاف، شفاف تہذیب کی بساط الٹ دی گئی جہاں امن و امان اور عدل کے ساتھ قومیں رہا کرتی تھی۔ وہاں معاشی طور پر ترقی کا یہ عالم تھا کہ اس زمانے میں برآمدات زوروں پر تھی اور درآمد بہت کم تھی، تعلیم کا یہ عالم تھا کہ ایک ولندیزی ڈوزی نے لکھا کے ’’اندلس میں تقریباً ہر آدمی لکھنا پڑھنا جانتا ہے۔‘‘ یہ اس زمانے کی بات ہے جب نصرانی یورپ میں علم کی مبادیات ہی جانتا تھا۔

حصہ