سات سمندر پار

267

جہازوں کی مستقل گڑگڑاہٹ نے اسما کو گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کردیا۔ کئی ہوائی جہازوں کو فارمیشن میں ساتھ جاتے دیکھ کر اسے یاد آیا کہ آج سے تو ’’ونگز اوور ہیوسٹن‘‘ کے نام پر ائرشو شروع ہونا تھا۔ وہ نرم نرم ہواؤں کو چہرے پر محسوس کرتے ہوئے آرام سے جھولے پر بیٹھ کر جہازوں کو الٹتے پلٹتے کرتب دکھاتے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ اسی دوران اسے فاطمہ کا خیال آیا، اُس کو بھی آواز دے کر باہر بلا لیا۔

’’واہ کیا شان دار پرفارمنس ہے، کتنی محنت کرتے ہوں گے اس شو کی تیاری کے لیے۔‘‘ فاطمہ ان پائلٹس کی ہم آہنگی اور کرتب سے خوب لطف اندوز ہورہی تھی، اور اسما بیٹی کے ساتھ ہونے پر خوش تھی۔

’’آپ دیکھیں، میں کالج کے لیے نکل رہی ہوں۔‘‘
’’آج جمعہ کو تو تم آف کرتی ہو۔‘‘ اسما نے سوچتے ہوئے کہا۔

’’امی آج دعوہ ٹیبل بھی لگنے ہیں اور میں جمعہ بھی کیمپس میں پڑھ لوں گی۔‘‘ فاطمہ چہرے پر آئے ہوئے بالوں کو ہٹاتے ہوئے مسکرائی۔

’’ہر ہفتے ہی کوئی نہ کوئی فرد اسلام قبول کرلیتا ہے۔ ہماری دعوہ ٹیم ہے بھی تو اتنی مضبوط، ایسے زبردست دلائل سے بات کرتے ہیں کہ بس۔‘‘ فاطمہ نے فخریہ نظروں سے ماں کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہا۔

’’میں تو خود ان سب سے سیکھ رہی ہوں، بڑا ٹیلنٹ ہے ان کے پاس بھی ان پائلٹس کی طرح، اور ہم آہنگی بھی۔ امی آپ سے کہا تھا نا کچھ آئیڈیا دیں ان نومسلموں کو آگے کیسے لے کر چلنا چاہیے، اُن کو اسلام کے ساتھ کیسے جوڑے رکھا جائے۔‘‘

فاطمہ تو اپنی بات مکمل کرکے جانے کی تیاری کرنے چلی گئی، مگر اسما کو اس نے دوبارہ سوچنے پر مجبور کردیا۔ بات تو پہلے بھی کئی دفعہ ہوئی تھی لیکن کوئی کامیاب اور پائیدار راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

فاطمہ انڈر گریڈ کے تیسرے سال میں تھی اور اپنے کالج کے ایم ایس اے کی انٹرفیتھ کی لیڈر بھی تھی۔ پہلی دفعہ ایم ایس اے کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ تھا لیکن خاصی مطمئن تھی۔ پریذیڈنٹ کافی پروفیشنل تھا جس کی وجہ سے تنظیم بھی مضبوط تھی۔ وہ ممبرز کے لیے مستقل تربیتی پروگرام کا اہتمام کرواتا اور ساتھ ساتھ ان کا پروفیشنل اسکل بڑھانے کی طرف بھی خصوصی توجہ تھی۔ اپنی نوجوان نسل کو اس طرح دین کے کاموں میں مشغول دیکھ کر اسما کو اَنجانی خوشی ہوتی تھی۔ خود اپنا آپ تو پندرہ سال بعد بھی اس ماحول میں اجنبی لگتا تھا لیکن بچے جو یہیں پلے بڑھے تھے، اُن سے امید تھی کہ وہ اسلام کا پیغام امریکا میں عام کریں گے۔ وہ یہاں کے مسائل بھی بہ خوبی جانتے تھے اور یہاں کے کلچر اور سوسائٹی کی خوبیوں اور خامیوں کا بھی ادراک رکھتے تھے اور انہیں ایڈریس کرنے کی صلاحیت بھی۔

اسما کے ساتھ فاطمہ پہلے بھی کئی بار ڈسکس کرچکی تھی کہ نوجوان، غیر مسلم بچے دعوہ ٹیبل پر آکر اپنے شکوک و شبہات دور کرتے ہیں، جن کو بات سمجھ میں آرہی ہوتی ہے وہ کئی بار اپنے سوالات لاکر ان کا جواب حاصل کرتے ہیں اور ہر ہفتے کوئی نہ کوئی لڑکا یا لڑکی اسلام قبول بھی کرلیتے ہیں۔ مگر مسئلہ تو اب شروع ہوتا ہے۔ یہ تو اللہ کے راستے میں ابتدائی قدم ہے، اس کے بعد جب ہر طرف سے مخالفت کا طوفان کھڑا ہوتا ہے اور جس طرح اپنی زندگیاں مکمل طور پر تبدیل کرنی پڑتی ہیں وہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے، اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمارے پاس کیا ذرائع ہیں؟ ان نومسلم نوجوان لڑکے لڑکیوں کو کس طرح سپورٹ کیا جائے؟ ان کے گھروں میں پیدا ہونے والے مسائل، خصوصاً لڑکیوںکو کس طرح اس مذہب پر قائم رکھا جا سکتا ہے؟

اسما سوچ سوچ کر پریشان تھی۔ اس کا خود بھی دوستوں کا ایک وسیع دائرہ تھا، وہ بھی اس غیر مسلم سوسائٹی میں مثبت کردار ادا کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ اس نے اپنی دوستوں کے ساتھ بھی اس مسئلے کو ڈسکس کیا مگر کہیں کوئی روشنی کی کرن نظر نہیں آرہی تھی۔ اسے وہ تمام سروے بھی یاد آرہے تھے کہ امریکا میں جتنے لوگ اسلام میں داخل ہوتے ہیں اتنی ہی تعداد میں مسلمان اسلام کے دائرے سے نکل بھی جاتے ہیں، اور وجہ صاف ظاہر ہے کہ گو اسلام کی حقانیت ان کی فطرت کو اپیل کرتی ہے اور وہ اس پر ایمان بھی لے آتے ہیں، لیکن اس پر جمے رہنا جس جہدِ مسلسل کا تقاضا کرتا ہے وہ اکثر کے لیے ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے۔ اس کا دل دکھ سے بھر رہا تھا کہ ہم کیسے مسلمان ہیں کہ اپنی زندگیوں کو دنیا میں کامیاب سے کامیاب تر بنانے کی جدوجہد میں لگایا ہوا ہے! پوٹینشل ہوتا ہے پھر بھی کسی کو اپنا ہاتھ پکڑاتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں پونچھا ہی نہ پکڑ لے۔ دور دور سے ان کو تسلی دیں گے، ان کے اسلام لانے پر خوشی کا اظہار بھی کریں گے، لیکن اپنا کچھ قربان کرنا پڑے، یہ قبول نہ تھا۔

اسما سوچنے کے ساتھ ساتھ کام بھی نبٹا رہی تھی۔ جمعہ کا دن تھا، نہا دھوکر چھوٹے دونوں بچوں کو بھی اسکول سے پک کرنا تھا۔ وہ کام مکمل کرکے گھر سے نکلی تو چھوٹی ہائی وے پر، اور پارکنگ میں لوگ گاڑیاں پارک کرکے فیملیز کے ساتھ ائرشو دیکھ رہے تھے۔ بہت سے تو ٹکٹ لے کر باقاعدہ مزے اٹھا رہے تھے جب کہ اکثریت مفت میں ہی خوش تھی۔

اسما کی نظریں بھی بار بار بھٹک رہی تھیں، اسے گاڑی چلانا کچھ دشوار لگ رہا تھا۔ بچے بہت خوش تھے۔ اس نے بچوں کو بتایا کہ میں اور فاطمہ آپی تو اپنے اپنے بیک یارڈ سے ہی ائرشو کا مزا لے رہے تھے۔

’’امی دیکھیں ان سب نے مل کر اِس بار دل کی شکل بنائی ہے، کتنا زبردست لگ رہا ہے۔‘‘ عنایہ بڑے جوش سے بول رہی تھی۔

’’امی اگلی دفعہ جب یہ شو ہوگا کیا ہم بھی جا کر دیکھ سکیں گے؟‘‘ بلال کو گاڑی میں بیٹھے بیٹھے دیکھنے میں پورا مزا نہیں آرہا تھا۔

’’چلو اگر پہلے سے خیال کرلیا تو پھر ٹکٹ خرید کر جاکر دیکھ لیں گے۔‘‘ اسما نے بلال کو تسلی دی۔

’’کیا آپی آج گھر پر ہیں؟‘‘ عنایہ کو اب آپی کا خیال آیا۔

’’آپی تھوڑی دیر سے گئی ہیں آج۔‘‘ اسما نے گاڑی کو سرخ لائٹ پر روکتے ہوئے جواب دیا۔

’’ہماری انگلش کی نئی ٹیچر آئی ہیں مس زینب، اور انہوں نے اسپیلنگ یاد کرانے کے لیے بڑے مزے کی نظم بنائی تھی۔‘‘ بلال نے تازہ خبر سنائی جو عنایہ شو دیکھنے کے چکر میں بتانے سے چُوک گئی تھی۔

’’ہاں امی! ایفلوامریکن اور ریورٹ مسلم ہیں، اب جب پیرنٹس ٹیچر میٹنگ ہو تو ان سے ضرور ملیے گا۔’’ عنایہ نے ان کے بارے میں بقیہ رپورٹ ماں کی نذر کی۔

اسماکو بھی شوق ہوا کہ ان سے تو ملنا چاہیے، شاید ان کے تجربے سے سمجھ میں آئے کہ ان ریورٹ مسلمز کو کس طرح لے کر چلنا چاہیے۔

روزمرہ کے معاملات میں بات آئی گئی ہوگئی، مگر اسما اپنا ذہن اس سمت دوڑا ر ہی تھی تو ایک دوست نے مشورہ دیا کہ کیوں نا embrace organization کے کسی ممبر سے بات کی جائے جو باقاعدہ نومسلموں کے لیے ہی بنی ہے۔ یہ بات اسما کو پسند آئی کہ واقعی ان کے مسائل وہی جانیں۔ اس نے ای میل ایڈریس لے کر اپنے سوال کو آگے بڑھا دیا۔ جواب بھی جلد آگیا اور اس کو یہ تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوا۔

اسما نے فاطمہ کو ای میل فارورڈ کی کہ تم لوگ خود اپنی میٹنگ ارینج کرکے ان سے مسائل ڈسکس کرو۔ فاطمہ بھی بہت خوش ہوئی اور ایک ہفتے کے اندر اندر آن لائن میٹنگ کرکے embrace کی سسٹر نے ان کو آئندہ کا لائحہ عمل سمجھادیا۔

مہینے کے آخر میں اسکول میں پیرنٹ ٹیچر میٹنگ تھی۔ بچے پہلے ہی جانے کے لیے بضد تھے، اسما نے بھی اس موقع کو غنیمت جانا۔ وہ تو کئی دن سے سسٹر زینب سے ملنے کی منتظر تھی۔ تمام ٹیچرز سے باری باری اُن کے کمروں میں جا کے ملنے کا طے شدہ طریقہ کار تھا۔ مس زینب کے کمرے میں داخل ہوئی تو دو اور بچوں کے پیرنٹس پہلے سے موجود تھے۔ اسما نے اپنی باری کا انتظار کیا۔ اس نے جب بتایا کہ میں عنایہ اور بلال کی والدہ ہوں تو ٹیچر کی آنکھوں میں چمک آگئی۔

’’ہاں بہت پیارے بچے ہیں، عنایہ تو ماشااللہ خوب اچھا کام کررہی ہے، میں نے سب سے نظم لکھوائی تھی، بڑی اچھی لکھی ہے، باہر بورڈ پر لگی ہے، ضرور پڑھ کر جایئے گا۔‘‘

مس زینب نے عنایہ کے لیے تعریفی کلمات مکمل کیے اور بلال کے کھلاڑی ہونے پر ہلکا پھلکا تبصرہ کیا۔ اسما کے ذہن میں جو سوال پچھلے ایک مہینے سے گھوم رہا تھا، اُس نے موقع غنیمت جان کر پوچھ ہی لیا:

’’ اسلام قبول کرنے والے نومسلموں کو ہم کس طرح سپورٹ کر سکتے ہیں؟ آپ نے کیسے اتنی بڑی تبدیلی کے بعد زندگی کو ہموار راستے پر ڈالا؟‘‘

’’سوال تو شاید آسان ہے لیکن جواب تفصیلی ہے، شاید یہ موقع اس کے لیے مناسب نہیں، اگر آپ کل صبح فارغ ہیں تو اسکول آجائیں، میری نو سے دس بجے تک کلاس نہیں ہوتی، اِن شااللہ اس موضوع پر تفصیل سے بات کریں گے۔‘‘

اسما کے پاس بھی یہ وقت فارغ تھا، فوراً راضی ہوگئی۔

اگلے دن وقت پر اسما مس زینب کی کلاس میں داخل ہوئی۔ انہوں نے سلام کا جواب مسکرا کر دیا اور بیٹھنے کے لیے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ اِدھر اُدھر کی رسمی بات چیت کے بعد مس زینب موضوع پر آ گئیں:

’’حقیقت میں یہ سفر بڑا مشکل تھا، لیکن جس کی خاطر شروع کیا تھا وہی ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھاتا رہا۔ کہاں سے شروع کروں سمجھ نہیں آرہا۔ بہرحال اسلام قبول کر نے پر دل آمادہ ہوگیا اور میں نے دیر کرنا مناسب نہ جانا، لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی فیملی کو آگاہ کرنا نہایت مشکل مرحلہ تھا۔‘‘ مس زینب کا چہرہ بالکل سنجیدہ ہوگیا تھا، وہ کھڑکی کے باہر منظر پر نظریں جمائے ہوئے تھیں۔

’’میرے والدین کے لیے میرا یہ فیصلہ بہت پریشان کن تھا حالانکہ اُن کو اس کا تھوڑا بہت میری بات چیت سے اندازہ تھا، لیکن ایک دن میرے منہ سے مذہب تبدیل کرنے کی خبر سن کر وہ شاک میں آگئے اور مجھے فوراً سامان سمیٹ کر نکل جانے کا حکم صادر کردیا۔‘‘مس زینب نے آنکھوں میں آنے والے آنسوؤں کو روکا، مگر ان کی آواز کرب میں ڈھلی ہوئی تھی۔

’’میں نے اپنی دوست کو کال کی، الحمدللہ وہ اپنی گاڑی لے کر آئی اور میں اپنا ذاتی سامان لے کر گھر سے نکل گئی۔ آگے کا مرحلہ انتہائی مشکل تھا کہ کہاں جاؤں؟ کس کے ساتھ رہوں؟ ساری دوستوں کو اپنے ساتھ ہونے والے معاملے کی اطلاع دی اور سب کے سب مل کر میرے لیے شیلٹر ڈھونڈنے میں لگ گئے۔ رمضان کا آخری عشرہ تھا، دو تین راتیں مسجد میں گزاریں‘‘۔ مس زینب کی آواز میں آہستہ آہستہ تازگی آرہی تھی۔ اُن کا تنا ہوا چہرہ کچھ مطمئن نظر آنے لگا تھا۔ انہوں نے بات آگے بڑھائی:’’پھر ایک نو مسلمہ ملی جس کو میں نہیں جانتی تھی، اُس کے پاس رہنے کی جگہ تھی، اُس نے میری پریشانی سمجھتے ہوئے اپنے دل اور اپارٹمنٹ کے دروازے میرے لیے کھول دیے۔ میری زندگی کا یہ ایسا دور تھا کہ میں نے ایک بہترین دوست پالی تھی۔‘‘

تھوڑی دیر کو مس زینب خاموش ہوئیں مگر اسما کے چہرے پر پھیلے تاثرات نے ان کو زیادہ دیر خاموش نہ رہنے دیا۔ ’’میں تین مہینے اس کے ساتھ رہی پھر اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش شروع کی جو الحمدللہ کامیاب رہی۔ مگر اسی دوران ایک دوست نے مجھے اپنے گھر بلایا، اس کے والدین سے ملاقات ہوئی، نہایت اچھے مسلمان تھے، انھوں نے مجھے اپنی بیٹی بنالیا اور ہر اہم موقع پر وہ میرا اپنے قریبی فیملی ممبر کی طرح خیال رکھتے تھے، یہاں تک کہ عید بقرعید پر اپنی بیٹی جیسا میرا سوٹ بھی بناتے۔‘‘ ان کے چہرے کی طمانیت دل کا حال بتا رہی تھی۔

’’پھر اس کے بعد ایک مسلمان لڑ کے سے تعارف ہوا۔ ایک آدھ ملاقات کے بعد ذہنی ہم آہنگی کا اندازہ ہوا اور پھر شادی ہوگئی۔ الحمدللہ میں دو بچوں کی ماں ہوں اور اپنے حال سے بہت مطمئن ہوں۔‘‘ انہوں نے پانی کا ایک گھونٹ بھرا پھر کہنے لگیں ’’مجھے اس مسلم فیملی سے بہت سپورٹ ملی، میری شادی کے موقع پر میرے ولی بھی وہی تھے، میرے ہونے والے شوہر اور اس کے گھر والوں سے معاملات بھی انہی کے ذریعے طے ہوئے۔ میری دلی خواہش ہے کہ کاش ہم میں ایک یا دو فیصد لوگ ایسے ہوں جو نومسلموں کو ایڈاپٹ کرکے اپنی فیملی کا حصہ بنا کر سپورٹ کریں۔ یہ بہت اہم کام ہے جو اس ملک میں بسنے والے مسلمانوں کو نومسلموں کے لیے فرضِ کفایہ سمجھ کر کرنا چاہیے۔‘‘

اسما کچھ دیر بات کرکے وہاں سے رخصت ہوگئی مگر اس کے دل و دماغ نہایت بوجھل ہو رہے تھے، اس کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اتنا چھوٹا سا سوال اس پر ذمہ داری کا کتنا بھاری بوجھ ڈال دے گا۔

حصہ