نصیحت

353

لفظ ’’نصیحت‘‘ سننے میں بہت اچھا اور سہل لگتا ہے، پَر سہنے میں بہت مشکل اور دورِ جدید میں شاید نہایت مشکل۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ بیسویں صدی میں پیدا ہونے والے لوگوں میں ایک مسئلہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ نصیحتوں کے بل پر نئی نسل کو خامیوں سے پاک کردیں۔ پَر اس نئی نسل میں ایک بات بہت لاجواب ہے کہ ان کے پاس ہر بات کا جواب ہے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ ہمارے پاس جواب نہیں تھے، جواب یقینا تھے لیکن ہمارے دور میں لحاظ داری کا بھرم قائم تھا، جبکہ اب تو صرف بھرم بازیاں ہی ہیں۔

میری مجبوری یہ ہے کہ میں نے سوشل میڈیا کو زیادہ تر اصلاحی پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا ہے۔ جب کوئی اچھی بات میرے دل میں آئی یا کسی کی کہی کوئی اچھی بات میرے سامنے آئی تو اسے آگے ضرور بڑھایا، اور یقین جانیے کہ زیادہ تر لوگوں نے اس بات کو پسند بھی کیا۔

لیکن گزشتہ دنوں ایک عجیب بات ہوئی، ایک ہی بات پر دو طرح کا ردعمل سامنے آیا پختہ کار اور نوآموز خواتین کی طرف سے۔

ہوا کچھ یوں کہ ایک پوسٹ میری وال پر نمودار ہوئی جس کا عنوان تھا ’’اپنی تمام بیٹیوں کی نذر‘‘۔ جس میں بیٹیوں کے لیے کچھ نصیحت آموز باتیں تھیں جن پر عمل کرکے وہ اپنی عائلی زندگی کو بہتر بنا سکتی تھیں اور معاشرے میں برپا ہونے والے خاندانی انتشار پر قابو پا سکتی تھیں۔ وہ پوسٹ میں نے واٹس ایپ کے دو گروپس میں (جس میں ایک پختہ کار لکھنے والیوں کا تھا اور دوسرا نوآموز لکھاریوں کا) فارورڈ کر دی۔ میں پہلے آپ کو اپنی ان بیٹیوں کا ردعمل بتاتی ہوں جنہیں اصل میں نصیحت کی گئی تھی:

-1 پہلے اپنے بیٹوں کو سمجھائیں۔

-2 بھئی اپنے لڑکوں کو کیوں نہیں سمجھاتیں کہ لڑکی اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئی ہے اس سے اچھا سلوک کریں۔

-3 آج کل کی ساس ایسی تابع داری سے متاثر ہونے والی نہیں۔

-4 ان باتوں پر عمل کرکے ان کو نہیں سمجھایا جا سکتا جو بیٹیوں اور بہوئوں میں فرق رکھتے ہیں۔

-5 بیٹوں کو بھی نصیحتیں کریں کہ بیوی کو ملازمہ نہ سمجھیں۔

اور اب دوسرا رویہ دیکھیے۔ یہ وہ خواتین ہیں جو اب ادھیڑ عمر اور بڑھاپے کی حدوں کو پہنچ چکی ہیں:

-1 یہ سب کتنی پریکٹیکل باتیں ہیں، اللہ ان کی گہرائی سمجھا دے آج کی بچیوں کو کہ کامیابی کے ساتھ خوش گوار زندگی گزار سکیں اللہ کی مدد کے ساتھ۔

-2 بہترین باتیں، کامیاب زندگی کے راز۔

-3 ہر اچھے گھر کی راز ہیں یہ باتیں۔

-4 واقعی سب بیٹیوں کو ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ان کا گھر جنت کا نمونہ بن جائے۔

-5 ہمارے والدین نے یہ باتیں ہمیں سکھائیں تو ہم نے ان باتوں کو اپنے پلو سے باندھ لیا اور عمل سے سسرال میں نام اور عزت و وقار کمایا۔

یہاں میں یہ واضح کرتی چلوں کہ میں اپنی بیٹیوں کے اس مطالبے کے خلاف ہرگز نہیں ہوں کہ اپنے بیٹوں کو بھی سمجھائیں۔ یقینا آج ہمیں اپنے بیٹوں کو بھی سمجھانے کی اشد ضرورت ہے، کیوں کہ وہ خاندانی نظام میں عدل و انصاف کا توازن قائم رکھنے میں ناکام ہورہے ہیں۔ جن سسرالی رویوں کی شکایت بچیاں کررہی ہیں وہ ہمارے معاشرے میں بلاشبہ موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو قوّام بنایا اور قوّام یا قیم اُس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست حالت میں چلائے اور اس کی حفاظت و نگہبانی کرے اور اس کی ضروریات مہیا کرنے کا ذمے دار ہو۔ پَر ہمارے زیادہ تر مرد جانب دار ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جو قوانین اور نظام اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کے لیے وضع کیے ہیں وہی بہترین ہیں، ان سے انحراف کرکے نہ تو کوئی فرد خوش رہ سکا ہے، نہ کوئی خاندان پھلا پھولا ہے، اور نہ ہی کوئی معاشرہ ترقی پا سکا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارا معاشرتی رویہ یہ ہے کہ کوئی بھی خود کو غلط سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ میاں بیوی کا معاملہ ہو تو بیوی کہتی ہے پہلے شوہر کو سمجھائیں، جب کہ شوہر کہتا ہے پہلے بیوی کو سمجھائیں۔ اولاد کا معاملہ ہو تو بیٹی کہتی ہے پہلے اپنے بیٹے کو سمجھائیں، بیٹا کہتا ہے پہلے بیٹی کو سمجھائیں۔ ساس بہو کا معاملہ ہو تو بہو کہتی ہے پہلے ساس کو سمجھائیں، ساس کہتی ہے پہلے بہو کو سمجھائیں۔ غرض ہمارے خاندان مخالفت برائے مخالفت کے اصول پر چلنے سے برباد ہورہے ہیں۔

میں آج اپنی بیٹیوں کو یہ بات سمجھانا چاہتی ہوں کہ عورت کو زندگی میں جن محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے وہاں تلوار یا بندوق کام نہیں آتی۔ خاندانوں میں ناموری ہمیشہ اُن کو ملی جنہوں نے نرمی، عاجزی اور برداشت کو اپنا شعار بنایا۔ پَر افسوس آج ہر دوسرے گھر میں بربادی کی کوئی داستان رقم ہوتے دیکھ کر بھی ہماری بچیاں یہ باتیں سمجھنے کو تیار نہیں۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کسی بھی میدان میں کامیابی کے لیے مستقل مزاجی سے محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ مردوں کا مقابلہ کرنے میں اپنی صلاحیت اور طاقت نہ گنوائیں بلکہ اپنا مقام ان سے الگ بنائیں۔ مرد پر بہترین معاشرہ بنانے کی ذمے داری ہے تو عورت کی ذمے داری اس سے بھی بڑھ کر ہے کہ اسے بہترین نسل تیار کرنی ہے۔ حُسن و جوانی چند دن کی کہانی ہے، پھر اسے زوال ہے۔ پَر آپ کا حُسنِ عمل آنے والی کئی نسلوں میں باقی رہے گا۔

میری دعا ہے اللہ ہماری بیٹیوں اور ہمارے بیٹوں کے نصیب اچھے کرے۔ انہیں محنت کی طاقت اور حُسنِ عمل کی خوبی عطا کرے۔ نصیحت قبول کرنے والا اور اس پر عمل کرنے والا بنائے، آمین۔

حصہ