شعیب کی پیدائش امریکہ میں ہی ہوئی آنکھ کھولی تو مما ڈیڈ کو اپنے اپنے کاموں میں مصروف دیکھتا شام کو واپسی میں وہ دونوں اسے ڈے کئیر سے واپس لانے اسے کچھ وقت دونوں کے ساتھ گذارا نصیب ہوتا پھردونوں اگلے دن کی تیاری میں لگ جاتے ایک مشین کی طرح چھٹی والا دن مما ڈیڈ کا اپنے اپنے دوستوں کے ساتھ گزرتا وہ باری باری اسے اپنے ساتھ رکھتے۔
ایک اجنبیت کا ماحول تھا۔ سات آٹھ گھنٹے ڈے کئیر میں گزارنے سے شعیب اپنے ان ساتھیوں سے زیادہ مانوس ہوتا گیا تھا ۔ اب تو وہ گھر آکر اجنبیت طرح محسوس کرتا۔
اسکول میں داخلے کے بعد. تو چھٹی کےبعد بھی. وہ اسکول سے منسلک نرسری میں گزارتا یہ صرف، معاملہ اس کے ساتھ ہی نہیں تھا. بلکہ اکثریت کی زندگی کے معاملات اسی نوعیت کے تھے شعیب کے والد پاکستانی تھے جبکہ اس کی مما کی پیدائش امریکہ کی تھی جس کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی بلکہ کبھی کبھار حامد(شعیب کے ڈیڈ) اپنی بیوی امبرین کو کچھ سمجھانے کی کوشش کرتے تو وہ چڑ جاتی کہ تم پاکستانی نہیں سدھرو گے (حالانکہ اس کا تعلق بھی پاکستان سے تھا) ۔
حامد اس کو سمجھاتا امبرین تم بھی تو پاکستانی ہو لیکن وہ برا سا منہ بنا کر کہتی پاکستانی؟ تمہارے پاکستان میں رکھا ہی کیا ہے؛ سوائے بد امنی کے۔
جب سے حامد اور امبرین کی شادی ہوئی تھی ان دس برسوں میں دومرتبہ اکیلا حامد اپنے والدین سے ملنے پاکستان گیا تھا اور ایک مرتبہ اس کے والدین امریکہ آئے تھے اب جب اس نے اپنی والدہ کی بیماری کا سنا تو امبرین سے بھی پاکستان چلنے کی ضد کی مجبوراً وہ چلنے پر راضی ہوئی لیکن بے دلی سے۔
اٹھارہ بیس گھنٹے کے تھکا دینے والے سفر کے بعد وہ پاکستان پہنچے ایئرپورٹ پر حامد کے. والد بھائیوں اور بہنوئی نے ان تینوں کا والہانہ انداز میں خیر مقدم کیا؛ امبرین کو یہ سب بناوٹ لگ رہا تھا؛ صبح کا سورج طلوع ہوچکا تھا ائیر پورٹ سے گھر تک کے راستے میں جگہ جگہ سبز ہلالی پرچم لہرا رہے تھے۔
شعیب، ڈیڈ، یہ کیاہے ؟؟؟
عاصم چاچو؛؛ بیٹا کل چودہ آگست ہے ہمارا یوم آزادی؛ اس لیے جگہ جگہ تقریبات کا سلسلہ جاری ہے آپ بہت اچھے موقعے پر آئے ہو ۔
گھر پہنچے تو ایک بڑے شاندار گھر کے احاطے میں گھر کی پانچ چھ خواتین اور سات آٹھ بچوں نے آنے والوں سے باری باری بغلگير ہوکر اپنی محبت کا اظہار کیا۔
امبرین ان چیزوں کی عادی نہیں تھی سوچنے لگی کیا ضرورت تھی صبح ہی صبح اتنے سارے لوگوں کو جمع کرنے کی؛ اور اس اماں نے تو بیماری کا بہانہ بناکر ہم سب کو بیوقوف بنایا وہ بیزاری سے سب کے جوابات دے رہی تھی۔“
اماں،” بیٹا نزہت یہ بچے تھکے ہوئے ہیں انہیں انکا کمرہ دکھائو تاکہ یہ آرام کریں“۔
گیارہ بارہ بجے اس کی آنکھ کھلی چاروں طرف دیکھا حامد اور شعیب کمرے میں موجود نہ تھے وہ بھی تیار ہوکر کمرے سے باہر آئی تو لائونچ سے بہت سے لوگوں کے ہنسنے اور بولنے کی آوازیں ارہی تھیں۔
لائونچ پورا لوگوں سے بھرا ہوا تھا وہ حیرانی سے انہیں دیکھنے لگی شعیب دادی کی گود میں بیٹھا ہنس ہنس کر یوں سب سے بول رہا تھا جیسے وہ انہی کے درمیان پلا بڑھا ہو؛ جیسے ہی آپا(بڑی نند) کی نظر امبرین پر پڑی وہ والہانہ انداز میں امبرین کی طرف بڑھی گلے لگا کر اسے ساس(اماں) کی طرح پیشانی پر بوسہ دیا؛ جیتی رہیں ہمیشہ آباد رہیں وہ انکا شکریہ ادا کرکے صوفے پر بیٹھ گئی۔
نزہت: ”اماں ناشتہ لگواوں؟“
اماں، ”ہاں بیٹا سب آگئے ہیں _ “۔
جب اسے پتا چلا کہ اس کے ساس سسر اور تینوں بیٹے بہوئیں سب اس چھت تلے اکٹھے رہتے ہیں تو اسے بڑی حیرانی ہوئی.کہ یہ سب کیسے ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہونگے ، یہاں آکر تو اسے اپنے دیس پاکستان کی بہت سی حقیقتیں آشکارا ہوتی جارہی تھی سب کا اکٹھے کھانا پینا، نماز کے لیے مردوں کا اکٹھے مسجد جانا، عورتوں کو ایک دوسرے کو نماز کے لئے یاد دہانی کرنا، پھر تمام بچوں کو دادا اور دادی کی صحبت میں نصیحت آموز باتیں سننا، یہ سب کچھ تو امریکہ میں اسے نہیں ملا تھا۔
شام کو اسد بھائی امبرین حامد اور شعیب کو بھی اپنے بچوں کے ساتھ چودہ اگست کی رونقیں دکھانے لے گئے امبرین بڑا ڈر رہی تھی کہ پاکستان غیر محفوظ ہے؛ لیکن وہ بیٹے کی ضد کی وجہ سے مجبوراً ان سب کے ساتھ چلی گئی، شہر میں جگہ جگہ چراغاں ملی نغمے، لوگوں کا جوش و خروش؛ وہ جیسے کسی اور دنیا میں پہنچ گئی تھی، رات کا کھانا وہ ہوٹل میں کھا کر دیر سے واپس آئے تو پورے گھرانے کو اپنا منتظر پایا، شعیب تو دوڑتا ہو دادا سے لپٹ گیا، دادا جانی آپ بھی چلتے بڑا مزا آیا ہم سب کو، پھر وہ سب کو ان رونقوں کے بارے میں بڑی دلچسپی سے بتانے لگا، امبرین نے تو آج سے پہلے کبھی اپنے بیٹے کو اتنا خوش نہیں دیکھا تھا وہ، خود زندگی میں پہلی بار پاکستان آئی تھی اسکے والدین اور وہ اس امریکہ کے مصنوعی ماحول میں یوں رچ بس گئے تھے کہ کبھی انہیں نہ پاکستان کی یاد آئی نہ انھوں نے پاکستان آنے کا سوچا؛ حامد ان کے والد کا دور پرے کا رشتہ دار تھا اپنی ملازمت کے سلسلے میں امریکہ آیا تو بابا نے انہیں امبرین کے والد سے ملنے کو کہا اس طرح امبرین اور حامد کی مرضی سے یہ دونوں رشتہ ازواج میں منسلک ہوگئے تھے۔ حامد نے سوچا تھا کہ وہ اسے پاکستان شفٹ ہونے کے لیے کوشش کرے گا لیکن وہ ناکام رہا، اس مرتبہ نہ جانے کیسے امبرین پاکستان آنے پر راضی ہوگئی تھی۔
اگلے دن جب اس نے خود یوم آزادی کا جشن دیکھنے کی فرمائش کی تو سب سے زیادہ حامد کو حیرانی ہوئی۔
زینب(بڑی دیورانی)؛؛ بھابھی اگر آپ پسند کریں تو آج ہمارے ساتھ بچوں کے اسکول چل سکتی ہیں جہاں یوم آزادی کی تقریب ہے۔ امبرین بیٹے کے ساتھ بخوشی اس تقریب میں شرکت کے لئے راضی ہوگئی۔ تقریب میں امبرین نو نوٹ کیا کہ بڑے مہذب طریقے سے لڑکے اور لڑکیوں نے سبز لباس پہنے ہوئے تھے اور جوش و ولولے سےملی نغمے گار ہے تھے کہ ایک سماں بندھ گیا،وو امریکہ میں بھی مختلف موقعوں پر بیٹے کے اسکول فنکشن میں شرکت کر چکی تھی لیکن وہ بات نہ تھی جو اسے یہاں نظر آئی۔
خصوصاً تقریب سے پہلے تلاوت قرآن پاک اور پرنسپل کا خطاب، سب کا خاموشی سے ادب سے سننا، اس نے بچپن میں کسی خاتون سے قرآن پاک پڑھنا سیکھا تھا لیکن اس کے گھر اور اس پاس کے ماحول میں اسے قرآن کی تلاوت کا.بہت کم موقع ملتا تھا ۔
رات کے کھانے پر سب ہی گھر والے موجود تھے۔
اس نے اس بات کو سب گھر والوں کو بھی بتایا ؛ حالانکہ اس نے جس ماحول میں پرورش پائی تھی وہاں ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی تعلیمی اداروں میں مختصر لباس میں لڑکیوں اور لڑکوں کے ڈانس گانے بولڈ حرکات معمول تھا بلکہ پسند کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا اس کے سامنے پاکستان کی بہت سی خوبیاں بھی سامنے آئی گئی کہ جس طرح بیرون ملک میں پاکستان کی برائیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جارہا تھا درحقیقت پاکستان ویسا نہ تھا اب بھی پاکستان اپنی پرانی معاشرتی خوبیوں سے آراستہ تھا جو اسے یہاں آکر معلوم ہوئیں بلکہ وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی،جیسے اس گھر کے تمام افراد کا مل جل کر اتفاق محبت سے ایک چھت تلے رہنا، اپنے فرائض اور حقوق کی پاسداری کرنا، سب بہووں کے ساتھ مساوات برابری کا برتاؤ کرنا وغیرہ جس کی وجہ سے اس گھر میں امن وسکون کی فضانظر آئی تھی ۔
آج رات بھی وہ سب حسب معمول لائونچ میں بیٹھے ہنس بول رہے تھے۔ _
نزہت بھابھی، امبرین بھابھی آپ سے ملکر ہم سب کو بہت اچھا لگا ہے آپ ہمارے اس گھر کا حصہ ہیں آپ کے جانے کے بعد ہم سب آپ کو بہت مس کریں گے۔
امبرین کی آنکھیں نم ہوگئی رندھی ہوئی آواز میں بولی؛ آپ سے زیادہ میں آپ سب کو مس کرونگی مجھے یہاں آکر محسوس ہوا ہے کہ یہی میرا وطن ہے اور آپ سب جس طرح اس چھت تلے سب محبت سے اکھٹے رہتے ہیں ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شامل ہیں ایسا میں نے کہیں نہیں دیکھا اماں اور بابا کا اس طرح سب کو ساتھ لیکر چلنا؛ (پھر وہ بے اختیار رونے لگی) پھر بولی، اور، اور خصوصاً جس طرح یہاں آکر میرے بیٹے کو اپنی پہچان اور عزت ملی ہے وہ اس سے امریکہ میں محروم تھا َ، میں اسے اس سے دور نہیں کرنا چاہتی لہٰذا مستقبل میں جلد آکر یہی آکر رہیں گے کا ارادہ کیا ہے انشاءاللہ ۔
اماں نے اٹھ کر اسے گلے لگایا، میری بیٹی ہم سب ایک ہیں ہم صرف رشتوں کی رسی میں بندھے ہوئے ہی نہیں ہیں اور بہت سی خوبیوں نے بھی ہمیں ایک دوسرے سے باندھا ہوا ہے انہی خوبیوں کی وجہ سے یہ پاکستان بھی قائم ہے اور رہے گا انشاءاللہ تعالیٰ ۔