مسئلہ کشمیرہو یا دیگر عالمی مسائل… اہلِ ترکی آزمائش کے ہر مرحلے میں اہلِ پاکستان و کشمیر کے شانہ بشانہ رہے ہیں۔ زلزلہ اور سیلاب کے متاثرین کی بحالی میں بھی ترکیہ حکومت، عوام اور این جی اوز نے ہمیشہ تاریخی برادرانہ کردار ادا کیا۔ تحریک آزادیِ کشمیر کے حوالے سے جب 1990ء کی دہائی میں مقبوضہ ریاست سے بھارتی ریاستی دہشت گردی کے ستائے ہوئے ہزاروں نوجوان بیس کیمپ میں وارد ہوئے اور بھارتی مظالم کی داستانیں سناتے ہوئے اہلِ پاکستان اور عالم اسلام کے تعاون کے متقاضی ہوئے تو ترکیہ نے پاکستان کے شانہ بشانہ بین الاقوامی فورمز پر کشمیریوں کی ترجمانی کی۔
حکومتِ پاکستان معاہدۂ تاشقند اور شملہ معاہدے کے بعد طویل عرصے تک کسی بین الاقوامی پلیٹ فارم پر مسئلہ اجاگر نہ کرسکی، کیونکہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد پاکستان کو اپنی سلامتی کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ افغان جہاد کی وجہ سے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ بالخصوص مسلم دنیا میں اثر رسوخ وسیع ہوا، لیکن بوجوہ بین الاقوامی فورمز پر کشمیر توجہ حاصل نہ کرسکا۔ بہرحال 1990ء میں کشمیری نوجوان جذبۂ جہاد سے سرشار ہوکر اٹھے اور بھارتی استعمار کو ہر محاذ پر چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا، اورپاکستانی قوم اور حکومت سے بھرپور پشتیبانی کا تقاضا کیا تو بدقسمتی سے اُس وقت بھی پاکستان اندرونی سیاسی عدم استحکام اور سیاسی کشمکش کا شکار تھا۔ اس موقع پر مردِ مجاہد قاضی حسین احمد مرحوم آگے بڑھے۔ پہلے انہوں نے قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کا اہتمام کیا جو آج تک تسلسل سے منایا جارہا ہے، اور پھر مسلم دنیا کا ضمیر جھنجھوڑنے کے لیے مئی 1990ء میں ایک کل جماعتی پارلیمانی وفدکے ساتھ بھرپور دورہ کیا۔ اس دورے میں کشمیر سے نمائندگی کا اعزاز مجھے حاصل ہوا۔ ایک ماہ پر محیط اس دورے کے دوران سربراہانِ حکومت، وزرائے خارجہ، ارکان پارلیمنٹ، دانش گاہوں اور عوامی سطح پر بھرپور پروگرامات اور ملاقاتوں کا اہتمام ہوا۔ دورے کا آغاز ترکی سے کیاگیا۔ دورے کو کامیاب بنانے کے لیے ترکی کے مردِ آہن سابق وزیراعظم پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان نے نہایت کلیدی کردار ادا کیا۔ ہماری وزارتِ خارجہ اور متعلقہ سفراء اہم حکومتی شخصیات سے ملاقاتوںکے اہتمام پر معذور نظر آئے لیکن اربکان صاحب نے ترکی کے صدر، وزیراعظم، وزیر خارجہ، اسپیکر اسمبلی، خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین اور قائد حزبِ اختلاف سمیت تمام اہم رہنمائوں سے ملاقاتوں کا اہتمام کرتے ہوئے انتہائی کامیاب دورہ کرایا۔ انہوں نے خود بھی استقبالیوں کے علاوہ ترکی کے شہر ادانہ (ADANA) میں یوم فتح قسطنطنیہ کی نسبت سے 29 مئی کو عالی شان تقریب منعقد کی جس میں لاکھوں لوگ شریک تھے، اس میں قاضی صاحب اور وفد کے ارکان کا تاریخی استقبال کیا گیا۔ پورا مجمع پُرجوش انداز سے مجاہد قاضی، مجاہد اربکان کے نعروں سے گونج اٹھا۔ یہ اجتماع عملاًکشمیر کانفرنس کی شکل اختیار کرگیا۔ استنبول میں اہلِ دانش سے بھی بھرپور ملاقاتوں اور استقبالیوں کا اہتمام رہا۔ موجودہ صدر رجب طیب اردوان اُس وقت رفاہ پارٹی استنبول کے صدر تھے اور ہمارے جملہ پروگراموں کے میزبان بھی، جن کے حسنِ انتظام سے وقت کا ایک ایک لمحہ طے شدہ اہداف کے مطابق بروئے کار آیا اور ہماری ملاقاتیں بھی مفید رہیں۔ لیکن سب سے اہم ملاقات ترکی کے صدر ترگت اوزال سے رہی جو آدھے گھنٹے کے طے شدہ شیڈول کے بجائے پونے دو گھنٹے تک جاری رہی۔ محترم قاضی صاحب، محترم پروفیسر خورشید صاحب اور وفد کے دیگر ارکان نے انہیں بھارتی مظالم اور عزائم سے آگاہ کرتے ہوئے او آئی سی اور اقوام متحدہ کے فورمز پر ترکی سے بھرپور تعاون کا تقاضا کیا۔ بالخصوص چند روز بعد قاہرہ میں مجوزہ او آئی سی اجلاس میں بھارتی مظالم بے نقاب کرتے ہوئے قرارداد کی حمایت کرنے اور دیگر برادر اسلامی ممالک سے اپنے روابط بروئے کار لاتے ہوئے انہیں حمایت پر آمادہ کرنے پر متوجہ کیا۔ صدر اوزال نے ترکیہ کی طرف سے بھرپور تعاون کا یقین دلانے کے ساتھ مصر، سعودی عرب اور دوسرے برادر ممالک کے سربراہان سے رابطوں کی یقین دہانی کرائی۔ چنانچہ ان کی کاوشوں اور حکومتِ پاکستان کے ہوم ورک کے نتیجے میں طویل عرصے بعد پہلی مرتبہ قاہرہ میں منعقدہ او آئی سی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے ایک جامع قرارداد جو پاکستان نے پیش کی، اتفاقِ رائے سے منظور ہوئی۔ یوں مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی افق پر نمایاں ہوا۔ اس سلسلے میں بھارت نے مصر کے ساتھ اپنے دو طرفہ دیرینہ تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے قرارداد رکوانے کی بھرپور کوشش کی، جس پر اُسے منہ کی کھانا پڑی۔ اس دورے کے دوران مصر کے وزیر خارجہ سے بھی محترم قاضی صاحب نے قرارداد کے حق میں حمایت کا وعدہ لے لیا۔ یوں بھارت کی تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود ایک مرتبہ پھر مسئلہ کشمیر بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا۔ اس کے بعد سے مسلسل او آئی سی سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں میں اہلِ ترکیہ نے بھرپور پشتیبانی کا حق ادا کیا۔ صدر اردوان نے اقوام متحدہ کا فورم ہو یا اسلام آباد اور دہلی کے دورے… ہر موقع پر اس دیرینہ مسئلے کے حل کے لیے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی حمایت کی۔ اس عرصے میں بھارت نے تحریک آزادی کے حوالے سے ابہام پیدا کرنے اور مسئلہ کشمیر کی پُرجوش وکالت سے روکنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے لیکن اللہ کے فضل سے اسے ہر محاذ پر ناکامی ہوئی۔ بھارتی پروپیگنڈے اور ہتھکنڈوں کے توڑ کے لیے ترکیہ سمیت مسلم دنیا کے ہم خیال ممالک اور اقوام متحدہ سے مسلسل رابطوں کے اہتمام کی ضرورت ہے۔ یہ روابط سرکاری کے ساتھ عوامی سطح پر بھی ہوں۔ اس ہدف کے پیش نظر ترکیہ پر ہمارا خاص فوکس رہا۔ گزشتہ ساڑھے تین دہائیوں میں جب بھی موقع ملا وہاں کے حکومتی اور عوامی حلقوں کو تازہ ترین صورتِ حال سے آگاہی کا اہتمام ہوتا رہا۔ اس دورانیے میں اس مقصد کے لیے راقم کے پچیس دورے ہوئے۔
بحمدللہ اسی عرصے میں تمام اہم سیاسی شخصیات، اداروں اور اہلِ دانش سے ایک ذاتی تعلق اور شناسائی کا رشتہ بھی استوار ہوا جسے بروئے کار لانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ ایسا ہی ایک موقع 3 تا10 اگست 2023ء بھی دستیاب ہوا جس کا اہتمام تحریک کشمیر برطانیہ کے صدر برادر راجا فہیم کیانی نے ترکی کی ایک مقامی این جی او انسانی مدنیت ٹرسٹ کے تعاون سے ایک بین الاقوامی کشمیر کانفرنس منعقد کرکے کیا۔ برادرم فہیم کیانی برطانیہ اور یورپ کے تمام اہم دارالحکومتوں میں کہنہ مشق تحریکی رہنما برادر محمد غالب صاحب کی رہنمائی میں ہم خیال اور متحرک نوجوانوں کی ٹیمیں تشکیل دینے میں کامیاب رہے جو تحریک آزادی کے حوالے سے ہر اہم موقع پر نہ صرف کشمیری، پاکستانی کمیونٹی کی وساطت سے جلسے، جلوسوں اور سیمینارز کے ذریعے کشمیریوں کی ترجمانی کا حق ادا کرتے رہے ہیں بلکہ وہاں کی پارلیمنٹ اور منتخب اداروں میں بھی کشمیر کے حق میں ایک مؤثر لابی تیار کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کے نائب برادر محمود شریف نے اٹلی کے محاذ پر نہایت اہم پیش رفت کی اور کمیونٹی کے غیر متنازع رہنما کی حیثیت سے نمایاں مقام حاصل کیا۔ فہیم کیانی نے یورپ کے علاوہ عرب ممالک اور ترکیہ میں اپنے روابط بڑھائے، بالخصوص کویت کے ارکانِ پارلیمنٹ اور انسانی حقوق کے حوالے سے معروف وکلاء اور اسکالرز کو نریندر مودی کے عزائم بے نقاب کرنے کے لیے اپنا ہم نوا بنایا۔ چنانچہ حالیہ کانفرنس بھی اس لحاظ سے اہم تھی کہ اس میں کشمیر، یورپ، ترکیہ کے علاوہ کویت سے اہم ممبر پارلیمنٹ اور انسانی حقوق کے ترجمان اور علَم بردار شریک ہوئے۔
کانفرنس 4 اگست کو انسانی مدنیت تنظیم کے خوبصورت ہیڈکوارٹر میں منعقد ہوئی جس میں آزادکشمیر کے کہنہ مشق رہنما اسپیکر قانون ساز اسمبلی جناب چودھری لطیف اکبر کی قیادت میں وفد نے شرکت کی۔ وفد کے دیگر ارکان حریت کانفرنس کے کنوینر جناب محمود احمد ساغر، حریت کے مرکزی رہنما جناب الطاف احمد بٹ اور راقم پر مشتمل یہ وفد 3 اگست کو استنبول پہنچا۔ ایئرپورٹ پر فہیم کیانی صاحب اور ان کی ٹیم نے استقبال کیا۔ رات پروگرام کی تفصیلات پر مشاورت ہوئی۔ درحقیقت یہ کانفرنس 5 اگست 2019ء کے بھارتی اقدامات کے تناظر میں تھی جن کی رو سے دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی سے کشمیرکی ریاستی حیثیت کا خاتمہ کردیا گیا، اور ریاست کے مسلم اور کشمیری تشخص کے خاتمے کے پے در پے اقدامات جاری و ساری ہیں۔ اہلِ کشمیر عالمی سطح پر اسے یوم استحصالِ کشمیر کا نام دیتے ہیں۔ یوں ترکیہ کے خلافتِ عثمانیہ کے دارالحکومت استنبول میں اس کانفرنس کا انعقاد بجائے خود ایک اہم پیش رفت قرار دیا گیا۔
کانفرنس کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوا، اور کانفرنس کے میزبان برادر احسن شفیق نے کانفرنس کی غرض و غایت عرض بیان کرتے ہوئے مہمانوں کا خیرمقدم کیا۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے اسپیکر چودھری لطیف اکبر صاحب نے بھارتی مظالم اور عزائم کا مکمل احاطہ کیا اور مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل کے لیے اہلِ کشمیرکی جہدِ مسلسل کی تفصیلات رکھیں۔ بھارتی مظالم کی وجہ سے آزادکشمیر اور مہاجرینِ جموں وکشمیر مقیم پاکستان میں پائے جانے والے اضطراب سے آگاہ کیا۔ ترکیہ کی حکومت اور عوام کی مسئلہ کشمیر پر مسلسل حمایت کے علاوہ زلزلہ زدگان کی بحالی کے حوالے سے کاوشوں پر اظہارِ تشکر کرتے ہوئے مزید تعاون کا تقاضا کیا۔ کنوینر آل پارٹیز حریت کانفرنس جناب محمود احمد ساغر نے کشمیر میں ہونے والے مظالم پر قائدینِ حریت کی زندگیوں کو لاحق خطرات اور ریاست کی ہیئتِ ترکیبی کے حوالے سے بھارتی عزائم کی تفصیلات رکھتے ہوئے امتِ مسلمہ اور عالمِ انسانیت سے بھرپور تعاون کی اپیل کی۔ ان کے پُرجوش خطاب نے حاضرین پر خوب اثرات مرتب کیے۔ حریت رہنما الطاف احمد بٹ نے… جن کے ایک بھائی اس تحریک میں شہید ہوچکے اور بڑے بھائی اکبر بٹ دیگر حریت قائدین کے ہمراہ پابندِ سلال ہیں… اپنے بچپن سے لے کر آج تک کے مشاہدے کی بنیاد پر جاری بھارتی مظالم کی تفصیلات بیان کیں اور پوری امت کو اہلِ کشمیر کی پشتیبانی کے لیے ٹھوس کردار ادا کرنے پر متوجہ کیا۔ راقم نے منتظمین تحریکِ کشمیر، انسانی مدنیت ٹرسٹ اور مقامی تحریکی میزبان، احباب برادر احسن شفیق، برادر ڈاکٹر ندیم اور ان کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا اور ترکی اور کویت کے ارکان پارلیمنٹ اور اہلِ دانش کا خیرمقدم کیا، ترکیہ کی حکومت اور عوام کی طرف سے مسلسل حمایت اور پشتیبانی پر اظہارِ تشکر کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر قراردادوں سے آگے بڑھ کر ٹھوس اقدامات کا تقاضا کیا اور یہ واضح کیا کہ جس طرح یوکرائن، روس جنگ میں مغربی ممالک مالی، سفارتی اور جنگی سازو سامان کی شکل میں یوکرائن کی بھرپور مدد کررہے ہیں اسی طرح کشمیریوں کی بھی مدد کی جائے جو غیر ملکی اور غیر انسانی بھارتی تسلط کے خلاف حقِ مزاحمت استعمال کررہے ہیں۔ اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیاکہ کشمیر اور فلسطین پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود عالمِ اسلام اور بین الاقوامی دنیا لاتعلق ہے۔ جارح طاقتوں بھارت اور اسرائیل پر پابندیاں لگانے کے بجائے حریت پسندوں کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے۔ عالم اسلام کے حکمران غیرت کا مظاہرہ کریں۔ وہ بھارت کے خلاف سفارتی اور معاشی پابندیوں کا اہتمام کریں تو یہ مسائل دنوں میں حل ہوسکتے ہیں۔ یہ نکتہ بھی اجاگر کیا کہ مودی کے فاشسٹ فلسفے کا ہدف کشمیر، پاکستان اور بھارتی مسلمان نہیں ہیں بلکہ پورا عالم ا سلام ہے جسے مودی اپنے جارحانہ عزائم کا نشانہ بنا چکا ہے۔ ہمیں اپنے مشترکہ دشمن کے عزائم کا ادراک ہونا چاہیے اور مشترکہ حکمت عملی طے کرنا چاہیے۔ پاکستان کے سفیر ڈاکٹر فیصل نے اپنے خطاب میں پاکستان کے اصولی مؤقف، سیاسی، سفارتی حمایت کا اعادہ کیا اور بھارتی مظالم کی مذمت کی۔
اہم خطابات میں ترکیہ کی تین اہم پارلیمانی جماعتوں کے ارکانِ پارلیمنٹ نے اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلایا۔ حکمران اے کے پارٹی کی نمائندگی استنبول سے ممبر پارلیمان طغبہ عشیق ارچان نے کی، انہوں نے اپنی پارٹی اور ترک عوام کی طرف سے بھرپور تعاون کا یقین دلاتے ہوئے بھارتی مظالم کی شدید مذمت کی، اہلِ کشمیر کی قربانیوں سے لبریز جدوجہد کوخراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اوآئی سی، اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں پر زور دیا کہ وہ بھارت پر مطلوبہ دبائو بڑھاتے ہوئے اسے مظالم سے روکیں اورکشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کو یقینی بنائیں۔(جاری ہے)