قیصروکسریٰ قسط(118)

322

ایک دن دوپہر کے وقت وہ حلب سے چند کوس دور دریا کے کنارے ایک بستی میں داخل ہوا اور سرائے سے کھانا کھانے اور گھوڑا تبدیل کرنے کے بعد دریا عبور کرنے کی نیت سے گھاٹ کی طرف چل پڑا۔ لیکن وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ بستی کی تمام کشتیاں دوسرے کنارے جمع ہونے والے مسافروں کو لانے کے لیے روانہ ہوچکی ہیں۔ عاصم جو شام سے پہلے اگلی منزل تک پہنچنے کے لیے بے قرار تھا انتہائی اضطراب کی حالت میں کشتیوں کی واپسی کا انتظار کررہا تھا۔

ایک ساعت بعد پانچ کشتیاں مسافروں اور ان کے گھوڑوں سمیت واپس آرہی تھیں۔ بیشتر مسافر اپنے لباس سے ایرانی فوج کے افسر اور سپاہی معلوم ہوتے تھے لیکن سب سے اگلی کشتی پر آٹھ آدمی رومیوں کا لباس پہنے ہوئے تھے۔

بستی کے چند آدمی جو دریا کے کنارے جمع ہوگئے تھے انتہائی غم و غصہ کی حالت میں ایرانیوں کی طرف دیکھ رہے تھے اور ایک عمر رسیدہ شامی راہب چلا چلا کر یہ کہہ رہا تھا۔ ’’آج ایرانی رومیوں کے دوست بن گئے ہیں لیکن ہم ان ظالموں کو اپنی بستیوں سے گزرنے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔

ایک نوجوان نے آگے بڑھ کر کہا۔ ’’مقدس باپ! اب جنگ ختم ہوچکی ہے اور یہ لوگ اپنے گھروں کو واپس جارہے ہیں‘‘۔

’’نہیں نہیں‘‘۔ راہب چلایا۔ ’’مجوسیوں کے ساتھ ہماری جنگ ختم نہیں ہوسکتی۔ انطاکیہ، حلب، دمشق اور یروشلم کو تباہ کرنے والوں کو زندہ رہنے کا حق نہیں دیا جاسکتا‘‘۔

نوجوان نے برہم ہو کر کہا۔ ’’اگر آپ لڑنا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو روکنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ لیکن ہم آپ کی خاطر مزید خون نہیں دے سکتے۔ رومیوں سے بھی آپ کو یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ آپ کی خاطر مزید قربانیاں دینے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ دیکھیے وہ قریب آرہے ہیں۔ اگر آپ اپنی زبان پر قابو نہیں رکھ سکتے تو یہاں سے تشریف لے جائیے ورنہ…‘‘۔

’’ورنہ کیا ہوگا‘‘۔ راہب نے تلملا کر کہا۔

نوجوان نے جواب دیا۔ ’’ورنہ میں آپ کو دریا میں پھینک دوں گا۔ اور بستی کا کوئی آدمی آپ کی مدد نہیں کرے گا۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ تیرنا نہیں جانتے‘‘۔

راہب نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن اس کی آواز تماشائیوں کے قہقہوں میں دب کر رہ گئی۔ اور وہ غصے سے کانپتا اور گالیاں دیتا ہوا ایک طرف چل دیا۔

کشتیاں قریب آچکی تھیں اور عاصم دم بخود کھڑا سب سے اگلی کشتی پر ایک جانی پہچانی صورت دیکھ رہا تھا۔ یہ ولیریس تھا۔

عاصم کے دل کی دھڑکن کبھی تیز اور کبھی سست ہورہی تھی۔ وہ کبھی مسرت کے ساتویں آسمان پر پرواز کررہا تھا اور کبھی مایوسی کے سمندر میں غوطے لگا رہا تھا۔ ولیریس جو ایک ایرانی سے باتیں کررہا تھا، اچانک ساحل کی طرف متوجہ ہوا۔ اور اس کی نگاہیں عاصم کے چہرے پر مرکوز ہو کرر ہ گئیں۔ اور پھر اس نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کردیئے، کشتی کنارے پر لگی۔ عاصم اپنے گھوڑے کی باگ چھوڑ کر آگے بڑھا۔ اور ولیریس کشتی سے کود کر اس کے ساتھ لپٹ گیا۔

’’خدا کا شکر ہے کہ اس جگہ تم سے ملاقات ہوگئی۔ ورنہ میں تمہاری تلاش میں مدائن جارہا تھا۔ اور وہاں سے نامعلوم مجھے ایران کے کتنے شہروں کی خاک چھاننا پڑتی‘‘۔

عاصم نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کی آواز حلق سے باہر نہ آسکی۔ تاہم اس کی نگاہیں ولیریس کو متاثر کرنے کے لیے کافی تھیں۔

اس نے عاصم کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’عاصم! فسطینہ زندہ ہے‘‘۔ اور عاصم کے سامنے ساری کائنات اپنی حسین مسکراہٹوں کے ساتھ رقص کرنے لگی۔

’’وہ کہاں ہے؟‘‘ اس نے لرزتی ہوئی آواز میں سوال کیا اور اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے آنسو اُبل پڑے۔

’’وہ قسطنطنیہ میں ہے اور ہم بہت جلد وہاں پہنچ جائیں گے‘‘۔

اتنی دیر میں چند رومی اور ایرانی ان کے گرد جمع ہوچکے تھے۔ ولیریس ایک معمر آدمی سے جو اپنے لباس سے ایرانی فوج کا کوئی بڑا عہدہ دار معلوم ہوتا تھا، مخاطب ہو کر بولا۔ ’’قدرت نے مجھے ایک طویل سفر سے بچالیا ہے۔ اب ہم یہیں سے واپس چلے جائیں گے۔ عاصم یہی ہے‘‘۔

عمر رسیدہ ایرانی نے آگے بڑھ کر عاصم کے ساتھ مصافحہ کیا اور اس کے ساتھ باری باری اس کی تقلید کرنے لگے۔

تھوڑی دیر بعد عاصم، ولیریس اور دوسرے رومی کشتی پر سوار ہو کر دوسرے کنارے کا رُخ کررہے تھے اور ایرانی جوان کے ساتھ آئے تھے اپنے ہاتھ بلند کرکے انہیں الوداع کہہ رہے تھے۔

ولیریس نے عاصم کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’تم نے یہ نہیں پوچھا کہ فسطینہ قسطنطنیہ کیسے پہنچ گئی‘‘۔

عاصم نے اطمینان سے جواب دیا۔ ’’مجھے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ میرے لیے صرف یہ جان لینا کافی ہے کہ وہ زندہ ہے۔ قید سے رہا ہوتے وقت یہ معلوم ہوگیا تھا کہ فسطینہ اور اس کی ماں قلعے سے غائب ہوگئی تھیں مجھے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ تم لوگ واپسی پر وہاں ٹھہرے تھے۔ اور تم میں سے کسی نے ان کے ساتھ ملاقات بھی کی تھی لیکن جب تم قلعے سے روانہ ہوئے تھے تو وہ تمہارے ساتھ نہیں تھیں۔ میرا خیال ہے کہ سین کے کسی دوست نے انہیں قسطنطنیہ پہنچادیا ہوگا‘‘۔

ولیریس نے کہا۔ ’’خلقدون میں سین کا ایک ہی دوست تھا جس پر ہم اعتماد کرسکتے تھے۔ اور وہ اس کا بوڑھا نوکر فیروز تھا۔ وہ کلاڈیوس کی ہدایت کے مطابق ہماری روانگی سے تیسرے روز شام کے وقت ان کے ساتھ سمندر کے کنارے پہنچ گیا تھا اور رات کے وقت ہم کشتی لے کر وہاں پہنچ گئے تھے۔ قیصر کی پیش قدمی کے ایام میں ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ تمہیں تلاش کرنا تھا۔ کلاڈیوس کو قسطنطنیہ کی حفاظت کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی اور مجھے کئی بار قرطاجنہ سے رسد اور کمک لانے کے لیے جانا پڑا‘‘۔

عاصم نے سوال کیا۔ ’’اب کلاڈیوس کہاں ہے؟‘‘

’’وہ قسطنطنیہ میں ہے… وہ میرے ساتھ آنا چاہتا تھا۔ لیکن طرابزون سے ہرقل کی روانگی کی اطلاع ملی اور اُسے مجبوراً رکنا پڑا۔ میرے ساتھیوں کو اس بات کا ملال تھا کہ وہ قسطنطنیہ میں ہرقل کا جلوس نہیں دیکھ سکیں گے۔ لیکن اب میرا خیال ہے کہ شاہد ہم وقت پر پہنچ جائیں۔ ہمیں انطاکیہ پہنچتے ہی جہاز مل جائے گا۔ اور اگر ہوا موافق ہوئی تو باقی سفر چند دنوں میں طے ہوجائے گا۔ میں گھوڑے کی سواری سے تنگ آچکا ہوں‘‘۔

عاصم نے پوچھا۔ ’’یہ ایرانی خلقدون سے آپ کے ساتھ آئے تھے؟‘‘

’’ہاں‘‘۔ کلاڈیوس ایران کے نئے حکمران کے ساتھ صلح کے بعد خلقدون پہنچا تھا اور ایرانی لشکر کے سپہ سالار سے یہ وعدہ لے کر آیا تھا کہ تمہیں تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ پھر جب ایران کی بیشتر فوج اناطولیہ کے راستے واپس جارہی تھی تو کلاڈیوس کا خیال تھا کہ یہ لوگ کسی تاخیر کے بغیر تمہاری خبر دیں گے لیکن جب کوئی اطلاع نہ ملی تو کلاڈیوس نے مجھے مدائن بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اس عرصہ میں باسفورس کے پار ایرانیوں کا پڑائو قریباً خالی ہوچکا تھا اور سپہ سالار بھی واپس جاچکا تھا۔ یہ ایرانی جو میرے ساتھ آئے تھے ان جنگی قیدیوں میں سے تھے جنہیں جنگ کے ایام میں طرابزون سے قسطنطنیہ بھیجا گیا تھا۔ اب میں تمہیں ایک افسوسناک خبر سناتا ہوں‘‘۔

’’فسطینہ کی ماں کے متعلق؟‘‘ عاصم نے مضطرب سا ہو کر پوچھا۔

’’ہاں۔ وہ قسطنطنیہ پہنچنے کے تین ماہ بعد فوت ہوگئی تھیں۔ اور چند ماہ بعد ان کا وفادار نوکر بھی وفات پا گیا تھا۔ فسطینہ کے دل پر ان حادثات کا گہرا اثر ہوا ہے۔ کلاڈیوس کی بیوی اور بہن اسے سہارا نہ دیتیں تو خدا معلوم اس کا خیال حال ہوتا۔ ماں کی موت کے بعد اسے یہ احساس ہوگیا تھا کہ خدا اس سے ناراض ہے۔ وہ بار بار یہ کہتی ہے کہ اگر میں یروشلم میں راہبہ بننے سے انکار نہ کرتی تو میرے والدین کا یہ انجام نہ ہوتا۔ اس نے کئی بار راہبہ کی زندگی اختیا رکرنے کا ارادہ کیا۔ لیکن جب کلاڈیوس اور س کی بیوی اسے یہ سمجھاتے کہ عاصم زندہ ہے اور وہ عنقریب تمہاری تلاش میں یہاں پہنچے گا تو اس کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ پچھلے سال ایک روز وہ اچانک کہیں غائب ہوگئی تھی۔ دو دن اس کا کوئی پتا نہ چلا۔ تیسرے دن علی الصباح وہ خود ہی کلاڈیوس کے گھر پہنچ گئی اور یہ معلوم ہوا کہ وہ راہبہ بننے کے لیے خانقاہ میں چلی گئی تھی۔ لیکن رات کے وقت اس نے خواب دیکھا کہ تم واپس آگئے ہو۔ اور وہ صبح بیدار ہوتے ہی وہاں سے بھاگ آئی۔ اس کے بعد اس خانقاہ کے راہبوں نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ وہ اکثر کلاڈیوس کے گھر آکر اُسے تبلیغ کرتے ہیں اور فسطینہ انہیں ہر بار یہ تسلی دیتی ہے کہ میں نے راہبہ بننے کا ارادہ ترک نہیں کیا۔ میں صرف چند دن کی مہلت چاہتی ہوں۔ کلاڈیوس کو ہمیشہ اس بات کا اندیشہ لگا رہتا ہے کہ وہ پھر کسی دن خانقاہ میں چلی جائے گی اور اس مرتبہ اس کے لیے باہر آنے کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہوجائیں گے۔

عاصم نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کے دل و دماغ میں اور س کی نگاہوں کے سامنے فسطینہ کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس کے کان صرف فسطینہ کی سسکیاں سن رہے تھے۔

ولیریس نے کہا۔ ’’میں نے تمہیں ایک بات نہیں بتائی۔ میری شادی ہوچکی ہے‘‘۔

عاصم نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں تمہیں مبارک باد دیتا ہوں۔ اور میرے خیال میں تمہاری دلہن کا نام جولیا ہے‘‘۔

’’ہاں، لیکن اب بھی یہ ایک خواب محسوس ہوتا ہے۔ شادی سے ایک ہفتہ قبل مجھے یہ امید نہ تھی کہ جولیا کا باپ اچانک مجھ پر اس قدر مہربان ہوجائے گا۔ میں جس قدر جولیا سے محبت کرتا تھا۔ اسی قدر مجھے اس بات کا اندیشہ تھا کہ مرقس کا خاندانی غرور ہمارے درمیان ایک آہنی دیوار کی طرح حائل ہے۔ کلاڈیوس کو اپنا بہترین دوست سمجھنے کے باوجود مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس تھا۔ لیکن جب ہم دست گرد کی مہم سے واپس آئے تو مرقس پہلی بار مجھ سے بغل گیر ہو کر ملا۔ اور ہماری سرگزشت سننے کے بعد اس نے کسی تمہید کے بغیر یہ اعلان کردیا کہ اگر قسطنطنیہ پر کوئی نئی مصیبت نہ آگئی تو ایک ہفتہ کے اندر اندر جولیا کی شادی کردی جائے گی۔ میں نے جھجکتے ہوئے دولہا کے متعلق پوچھا تو اس نے جواب دیا۔ ’’وہ ایک بہادر اور قابل اعتماد نوجوان ہے اور اس کا نام ولیریس ہے‘‘۔

ولیریس اپنی شادی کی ساری تفصیلات سنانا چاہتا تھا۔ لیکن عاصم کا چہرہ بتارہا تھا کہ اس کے خیالات کسی اور سمت پرواز کررہے ہیں۔ چناں چہ ولیریس نے اس کی بے توجہی سے پریشان ہو کر گفتگو کا موضوع بدل دیا۔

(جاری ہے)

حصہ