-1 لباس ایسے پہنیے جو شرم و حیا، غیرت و شرافت اور جسم کی ستر پوشی اور حفاظت کے تقاضوں کو پورا کرے اور جس سے تہذیب و سلیقہ اور زینت و جمال کا اظہار ہو۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس نعمت کو ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
’’اے اولاد آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے زینت اور حفاظت کا ذریعہ بھی ہو‘‘۔(الاعراف: 26./7)
ریش دراصل پرندے کے پروں کو کہتے ہیں، پرندے کے پر اس کے حسن و جمال کا بھی ذریعہ ہیں اور جسم کی حفاظت کا بھی۔ عام استعمال میں ریش کا لفظ جمال و زینت اور عمدہ لباس کے لیے بولا جاتا ہے۔
لباس کا مقصد زینت و آرائش اور موسمی اثرات سے حفاظت بھی ہے لیکن اولین مقصد قابل شرم حصوں کی سترپوشی ہے۔ اللہ نے شرم و حیا انسان کی فطرت میں پیدا فرمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ سے جنت کا لباس فاخرہ لیا گیا تو وہ جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنے جسموں کو ڈھانپنے لگے۔ اس لیے لباس میں اس مقصد کو سب سے مقدم سمجھیے اور ایسا لباس منتخب کیجیے جس سے سترپوشی کا مقصد بخوبی پورا ہوسکے۔ ساتھ ہی اس کا بھی اہتمام رہے کہ لباس موسمی اثرات سے جسم کی حفاظت کرنے والا بھی ہو اور ایسے سلیقے کا لباس ہو جو زینت و جمال اور تہذیب کا ذریعہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ اسے پہن کر آپ کوئی عجوبہ یاکھلونا بن جائیں اور لوگوں کے لیے ہنسی اور دل لگی کا موضوع مہیا ہوجائے۔
-2 لباس پہنتے وقت یہ سوچیے کہ یہ نعمت ہے جس سے اللہ نے صرف انسان کو نوازا ہے، دوسری مخلوقات اس سے محروم ہیں۔ اس امتیازی بخشش و انعام پر اللہ کا شکر ادا کیجیے اور اس امتیازی انعام سے سرفرز ہوکر کبھی اللہ کی ناشکری اور نافرمانی کا عمل نہ کیجیے۔ لباس اللہ کی ایک زبردست نشانی ہے۔ لباس پہنیں تو اس احساس کو تازہ کیجیے اور جذبات شکر کا اظہار اس دعا کے الفاظ میں کیجیے جو نبیؐ نے مومنوں کو سکھائی ہے۔
-3 بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔ تقویٰ کے لباس سے باطنی پاکیزگی بھی مراد ہے اور ظاہری پرہیزگاری کا لباس بھی۔ یعنی ایسا لباس پہنیے جو شریعت کی نظر میں پرہیزگاروں کا لباس ہو، جس سے کبر و غرور کا اظہار نہ ہو، جو نہ عورتوں کے لیے مردوں سے مشابہت کا ذریعہ ہو اور نہ مردوں کے لیے عورتوں سے مشابہت کا۔ ایسا لباس پہنیے جس کو دیکھ کر محسوس کیا جاسکے کہ لباس پہننے والا کوئی خداترس اور بھلا انسان ہے اور عورتیں لباس میں ان حدود کا لحاظ کریں جو شریعت نے ان کے لیے مقرر کی ہیں اور مرد ان حدود کا لحاظ کریں جو شریعت نے ان کے لیے مقرر کی ہیں۔
-4 نیا لباس پہنیں تو کپڑے کا نام لے کر خوشی کا اظہار کیجیے کہ اللہ نے اپنے فضل و کرم سے یہ کپڑا عنایت فرمایا اور شکر کے جذبات سے سرشار ہوکر نیا لباس پہننے کی وہ دعا پڑھیے جو نبیؐ پڑھا کرتے تھے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسولؐ اللہ جب کوئی نیا کپڑا، عمامہ، کُرتا یا چادر پہنتے تو اس کا نام لے کر فرماتے:
’’الٰہی تیرا شکر ہے تو نے مجھے یہ لباس پہنایا۔ میں تجھ سے اس کے خیر کا خواہاں ہوں اور اس کے مقصد کے اچھے پہلو کا جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اور میں اپنے آپ کو تیری پناہ میں دیتا ہوں، اس لباس کی برائی سے اور اس کے مقصد کے اس برے پہلو سے جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے‘‘۔ (ابودائود)
دعا کا مطلب یہ ہے کہ الٰہی تو مجھے توفیق دے کہ میں تیرا بخشا ہوا لباس انہی مقاصد کے لیے استعمال کروں جو تیرے نزدیک پاکیزہ مقاصد ہیں۔ مجھے توفیق دے کہ میں اس سے اپنی سترپوشی کرسکوں اور بے شرمی، بے حیائی کی باتوں سے اپنے ظاہر و باطن کو محفوظ رکھ سکوں اور شریعت کے حدود میں رہتے ہوئے میں اس کے ذریعہ اپنے جسم کی حفاظت کرسکوں اور اس کی زینت وجمال کا ذریعہ بناسکوں۔ کپڑے پہن کر نہ تو دوسروں پر اپنی بڑائی جتائوں، نہ غرور اور تکبر کروں اور نہ تیری اس نعمت کو استعمال کرنے میں شریعت کی ان حدود کو توڑوں جو تونے اپنے بندوں اور بندیوں کے لیے مقرر فرمائی ہیں۔
حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا:
جو شخص نئے کپڑے پہنے اگر گنجائش رکھتا ہو تو اپنے پرانے کپڑے کسی غریب کو خیرات میں دے دے اور نئے کپڑے پہنتے وقت یہ دعا پڑھے:
’’ساری تعریف اور حمد اس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے یہ کپڑے پہنائے، جس سے میں اپنی سترپوشی کرتا ہوں اور جو اس زندگی میں یرے حسن و جمال کا بھی ذریعہ ہے‘‘۔
جو شخص بھی نیا لباس پہنتے وقت یہ دعا پڑے گا، اللہ تعالیٰ اس کو زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی اپنی حفاظت اور نگرانی میں رکھے گا۔ (ترمذی)
-5 کپڑے پہنتے وقت سیدھی جانب کا خیال رکھیے۔ قمیص، کُرتا، شیروانی اور کوٹ وغیرہ پہنیں تو سیدھی آستین پہنیے اور اسی طرح پائجامہ وغیرہ پہنیں تو پہلے سیدھے پیر میں پائینچہ ڈالیے۔ نبی اکرمؐ جب قمیص پہنتے تو پہلے سیدھا ہاتھ سیدھی آستین میں ڈالتے اور پھر الٹا ہاتھ الٹی آستین میں ڈالتے۔ اسی طرح جب آپ جوتا پہنتے تو پہلے سیدھا پائوں سیدھے جوتے میں ڈالتے پھر الٹا پائوں الٹے جوتے میں ڈالتے اور جوتا اتارتے وقت پہلے الٹاء پائوں جوتے میں سے نکالتے پھر سیدھا پائوں نکالتے۔
-6 کپڑے پہننے سے پہلے ضرور جھاڑ لیجیے، ہوسکتا ہے کہ اس میں کوئی موذی جانور ہو اور اللہ نہ کرے کوئی ایذا پہنچائے۔ نبیؐ ایک بار ایک جنگل میں اپنے موزے پہن رہے تھے۔ پہلا موزہ پہننے کے بعد جب آپ نے دوسرا موزہ پہننے کا ارادہ فرمایا تو ایک کوا جھپٹا اور وہ موزا اٹھا کر اڑگیا وار کافی اوپر لے جاکر اسے چھوڑ دیا۔ موزہ جب اونچائی سے نیچے گرا تو گرنے کی چوٹ سے اس میں سے ایک سانپ دور جاپڑا۔ یہ دیکھ کر آپؐ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور ارشاد فرمایا: ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ جب موزہ پہننے کا ارادہ کرے تو اس کو جھاڑ لیا کرے۔ (طبرانی)
-7 لباس سفید پہنیے، سفید لباس مردوں کے لیے پسندیدہ ہے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’سفید کپڑے پہنا کرو، یہ بہترین لباس ہے، سفید کپڑا ہی زندگی میں پہننا چاہیے اور سفید ہی کپڑے میں مردوں کو دفن کرنا چاہیے‘‘۔ (ترمذی)
ایک اور موقع پر آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’سفید کپڑے پہنا کرو، اس لیے کہ سفید کپڑا زیادہ صاف ستھرا رہتا ہے اور اسی میں اپنے مردوں کو کفنایا کرو‘‘۔ زیادہ صاف ستھرا رہنے سے مراد یہ ہے کہ اس پر ذرا سا داغ دھبہ بھی لگے تو فوراً محسوس ہوجائے گا اور آدمی فوراً دھوکر صاف کرلے گا اور اگر کوئی رنگین کپڑا ہوگا تو اس پر دھبہ جلد نظر نہ آسکے گا اور جلد دھونے کی طرف توجہ نہ ہوسکے گی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ نبیؐ سفید لباس پہنا کرتے تھے، یعنی آپؐ نے خود بھی سفید لباس پسند کیا اور امت کے مردوں کو بھی اسے پہننے کی ترغیب دی۔
-8 پائجامہ اور لنگی وغیرہ کو ٹخنوں سے اونچا رکھیے۔ جو لوگ غرور و تکبر میں اپنا پائجامہ اور لنگی وغیرہ لٹکادیتے ہیں، نبیؐ کی نظر میں وہ ناکام اور نامراد لوگ ہیں اور سخت عذاب کے مستحق ہیں۔ نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ تو ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف نظر فرمائے گا اور نہ ان کو پاک صاف کرکے جنت میں داخل کرے گا بلکہ ان کو انتہائی دردناک عذاب دے گا۔ حضرت ابوذر غفاریؓ نے پوچھا:
کہ یا رسولؐ اللہ یہ ناکام اور نامراد لوگ کون ہیں؟
ارشاد فرمایا: ایک وہ جو غرور اور تکبر میں اپنا تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے۔
دوسرا وہ شخص جو احسان جتاتا ہے۔
اور تیسرا وہ شخص ہے جو جھوٹی قسموں کے سہارے اپنی تجارت کو چمکانا چاہتا ہے۔ (مسلم)
حضرت عبید بن خالدؓ اپنا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں۔ میں ایک بار مدینہ منورہ میں جارہا تھا کہ میں اپنے پیچھے سے یہ کہتے سنا اپنا تہبند اوپر اٹھالو کہ اس سے آدمی ظاہری نجاست سے بھی محفوظ رہتا ہے اور باطنی نجاست سے بھی۔ میں نے گردن پھیر کر جو دیکھا تو نبی کریمؐ تھے۔ میں عرض کیا یا رسولؐ اللہ! یہ تو ایک معمولی سی چادر ہے بھلا اس میں کیا تکبر اور غرور ہوسکتا ہے! نبیؐ نے ارشاد فرمایا کہ کیاتمہارے لیے میری اطاعت ضروری نہیں ہے۔ میں نے نبی کریمؐ کے الفاظ سے تو فوراً میری نگاہ آپ کے تہبند پر پڑی، میں نے دیکھا کہ آپؐ کا تہبند نصف پنڈلی تک اونچا ہے‘‘۔
نبی کریم کا یہ ارشاد کہ: ’’ٹخنوں سے اونچا پائجامہ اور لنگی وغیرہ رکھنے سے آدمی ہر طرح کی ظاہری اور باطنی نجاستوں سے محفوظ ہوجاتا ہے‘‘ بڑا ہی معنی خیز ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کپڑا نیچے لٹکے کا تو راستے کی گندگی سے میلا اور خراب ہوگا پاک صاف نہ رہ سکے گا اور یہ بات ذوق طہارت و نظافت پر نہایت گراں ہے۔ پھر ایسا کرنا کبر و غرور کی وجہ سے ہوت اہے اور کبر وغرور باطنی گندگی ہے اور اگر یہ مصلحتیں نہ بھی ہوں تو مومن کے لیے تو یہ فرمان ہی سب کچھ ہے کہ ’’نبیؐ کی زندگی میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے‘‘ (قرآن)
اور ابودائود کی حدیث میں تو آپؐ نے اس کی بڑی لرزہ خیز سزا بیان فرمائی ہے، آپؐ نے فرمایا:
’’مومن کا تہبند آدھی پنڈلی تک ہونا چاہیے اور اس کے نیچے ٹخنوں تک ہونے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں لیکن ٹخنوں سے نیچے تہبند کا جتنا حصہ لٹکے گا وہ آگ میں جلے گا اور جو شخص غرور اور گھمنڈ میں اپنے کپڑے کو ٹخنے سے نیچے لٹکائے گا، قیامت کے دن اللہ اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے گا‘‘۔
-9 ریشمی کپڑا نہ پہنیے، یہ عورتوں کا لباس ہے اور نبیؐ نے مردوں کو عورتوں کا سالباس پہننے اور ان کی سی شکل بنانے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’ریشمی لباس نہ پہنو کہ جو اس کو دنیا میں پہنے گا وہ آخرت میں اس کو نہ پہن سکے گا‘‘ (بخاری، مسلم)
ایک بار نبیؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا:
’’اس ریشمی کپڑے (یہ کپڑا کیدر، رومہ کے حکمران نے تحفے میں بھیجا تھا)کو پھاڑ کر اور اس کے دوپٹے بناکر ان فاطمائوں (فاطمائوں سے مراد یہ تین قابل احترام خواتین ہیں) میں تقسیم کردو‘‘ (مسلم)
اس سے معلوم ہوا کہ خواتین کے لیے ریشمی کپڑا پہننا پسندیدہ ہے، اسی لیے آپؐ نے حکم دیا کہ خواتین کے دوپٹے بنادو ورنہ کپڑا تو دوسرے کاموں میں بھی آسکتا تھا۔
-10 عورتیں ایسے باریک کپڑے نہ پہنیں جس میں سے بدن جھلکے اور نہ ایسا چسپ لباس پہنیں جس میں سے بدن کی ساخت اور زیادہ پرکشش ہوکر نمایاں ہو اور وہ کپڑے پہن کر بھی ننگی نظر آئیں۔ نبیؐ نے ایسی آبرو باختہ عورتوں کو عبرتناک انجام کی خبر دی ہے۔
’’وہ عورتیں بھی جہنمی ہیں جو کپڑے پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں، دوسروں کو رجھاتی ہیں اور خود دوسروں پر رجھتی ہیں۔ ان کے سر ناز سے بختی اونٹوں کے کوہانوں کی طرح ٹیڑھے ہیں، یہ عورتیں نہ جنت میں جائیں گی اور نہ جنت کی خوشبو پائیں گی، درآنحالیکہ جنت کی خوشبو بہت دور سے آتی ہے‘‘ (ریاض الصالحین)
ایک بار حضرت اسماؓ باریک کپڑے پہنے ہوئے نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، وہ سامنے آئیں تو آپؐ نے فوراً منہ پھیرلیا اور فرمایا:
’’اسما! جب عورت جوان ہوجائے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ منہ ہاتھ کے علاوہ اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے‘‘۔
-11 تہمد اور پانجامہ وغیرہ پہننے کے بعد بھی ایسے انداز سے لیٹنے اور بیٹھنے سے بچیے جس میں بدن کھل جانے یا نمایاں ہوجانے کا اندیشہ ہو۔ نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’ایک جوتا پہن کر نہ چلا کرو اور تہمد میں ایک زانو اٹھا کر اکڑوں نہ بیٹھو اور بائیں ہاتھ سے نہ کھائو اور چادر پورے بدن پر اس انداز سے نہ لپیٹو کہ کام کاج کرنے پر نماز وغیرہ پڑھنے میان ہاتھ نہ نکل سکیں۔ اور چت لیٹ کر ایک پائوں کو دوسرے پائوں پر نہ رکھو‘‘ (کہ اس طرح بھی ستر پوشی میں بے احتیاطی کا اندیشہ ہے)
-12 لباس میں عورتیں اور مرد ایک دوسرے کا سا رنگ ڈھنگ اختیار نہ کریں۔ نبیؐ کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ نے ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کا سا رنگ ڈھنگ اختیار کریں (بخاری) (جاری ہے)