میڈیم کوئی بھی ہو قلم کی اہمیت مسلم ہے ،موجودہ ڈرامے نئی نسل کو برباد کررہے ہیں،والدین کو بچوں کا ذہن موبائل سے آزاد کرانا ہوگا،قلم کار طبیب ڈاکٹر بشریٰ تسنیم سے جسارت میگزین کی گفتگو

518

کہا جاتا ہے کہ قلم کار کا ہاتھ معاشرے کی نبض پر ہوتا ہے، اور اگر قلم کار طبیب بھی ہو تو گویا مرض کی تشخیص اور علاج بیک وقت کرنا جانتا ہے۔ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم کی شخصیت بھی دنیائے قلم و قرطاس میں ایسی ہی پہچان رکھتی ہے۔ آپ بطور کالم نویس، افسانہ و خاکہ نگار اور سفرنامہ نگار جانی جاتی ہیں۔ اطفالِ ادب کے لیے بھی گراں قدر کام سرانجام دیا ہے۔ اب تک نصف درجن سے زائد ممالک کا سفر کرچکی ہیں۔ متعدد کتابیں ان کے اعزاز پر ہیں۔ جسارت سنڈے میگزین نے ان سے گفتگو کی جو کہ قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔

سنڈے میگزین: اپنے بارے میں بتائیے… بچپن، خاندان و تعلیمی پس منظر؟

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم: میں نے جہانیاں منڈی ضلع خانیوال میں تحریکی ادب پسند گھرانے میں آنکھ کھولی۔ الحمدللہ میرا بچپن ننھیال، ددھیال اور اساتذہ کی محبتوں اور شفقتوں کے بحر بیکراں میں اس طرح گزرا کہ اب ہر رشتے کو یاد کرتے ہیں تو لگتا ہے وہ خالص محبتوں کا دور تھا جو اب خواب و خیال ہوا۔ میرے آبا و اجداد مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے اور اُن کی ہجرت کی آنکھوں دیکھی کہانیاں سنتے سنتے ہم بڑے ہوئے۔ تعلیم مختلف مقامات سے قسطوں میں حاصل کی اور اس کا سلسلہ شادی کے بعد بھی جاری رہا۔ شادی کے فوراً بعد سعودی عرب میں بارہ سال مقیم رہے۔ صحافت کے حوالے سے گریجویشن کیا اور چار سالہ ہومیوپیتھک ڈپلومہ کیا، سول اسپتال ملتان میں ہاؤس جاب کی اور کچھ عرصہ رضاکارانہ پریکٹس بھی کی۔ شارجہ شفٹ ہوئے تو وہاں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔

سنڈے میگزین: لکھنے کا سفر کیسے شروع ہوا؟

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم: ہماری نانی اماں ایک بہترین کہانی گو تھیں، اور مجھے کہانیاں سننے کا شوق تھا۔ ہجرت کے واقعات سننے میں مجھے خاص دل چسپی تھی۔ نانی اماں ’’ادارۂ بتول‘‘ کی ساری ننھی منی کتابیں ’’الحسنات‘‘ اور ’’نور‘‘ کی نظمیں، کہانیاں ہمیں سناتی تھیں۔ دوسری طرف ہماری والدہ نے اسکول میں داخل کرانے سے پہلے ہی گھر میں بنیادی تعلیمات شروع کروا دی تھیں۔ ان کے سارے بچے اسکول میں داخل ہونے سے پہلے ہی اخبار، حتیٰ کہ اردو ڈائجسٹ تک پڑھ لیا کرتے تھے۔ اسی طرح میری لکھنے کی صلاحیت کو جانچ کر ابتدائی عمر سے ہی لکھنے کی مشق بھی ہماری والدہ نے کروا دی تھی۔ قلم پکڑنے کے ساتھ ہی چھ سال کی عمر میں خط لکھنا سکھانا شروع کیا۔ محلے کی غریب اَن پڑھ عورتیں خط لکھوانے آتیں تو امی جان مجھ سے ہی لکھواتیں اور خود نگرانی اور اصلاح کرتیں۔ خوشی غمی میں کیا جملے لکھتے ہیں، عیادت، تعزیت کن الفاظ میں، اور گھر بلانے یا کھانے کی دعوت کیسے دیتے ہیں، کوئی خفا ہوجائے تو اُسے راضی کیسے کرتے ہیں، معذرت کے لیے کیا الفاظ لکھے جائیں، یہ سب ان کی تربیت نے سکھایا تھا۔ یہ سلسلہ کئی سال چلتا رہا۔ نانی اماں سے کہانیوں کا چسکا ملا تو امی جان نے قلم پکڑنا سکھایا۔ یوں نو سال کی عمر میں پہلی کہانی ’’نور‘‘ میں شائع ہوئی۔ خاندان کے سب بزرگوں اور ان کے احباب نے بھی اس شوق میں معاونت اور حوصلہ افزائی کی۔ گویا ایک بچے کی تربیت میں خاندان کے سب اعزہ و اقربا کا حصہ ہوتا ہے۔

سنڈے میگزین: قلمی سفر میں کیا مشکلات پیش آئیں اور کون سی کامیابیاں سمیٹیں؟

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم : بچپن اور لڑکپن تو سہل ہی گزرا۔ شادی کے بعد دیگر مصروفیات کی وجہ سے بارہ سال سوائے سرکلر اور خطوط کے کچھ نہ لکھا۔ سعودی عرب سے لاہور شفٹ ہوئے تو آپا نیر بانو، ام زبیر اور سید اسعد گیلانی (اللہ تعالیٰ سب پہ رحمت فرمائے) کی شفقتوں اور محبتوں نے چھوڑی ہوئی منزل پر دوبارہ گامزن کردیا۔ الحمدللہ متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں، اور ماہنامہ بتول میں تقریباً بارہ سال سے مستقل کالم ’’گوشی تسنیم‘‘ شائع ہورہا ہے اور اب یہ میری پہچان بن گیا ہے۔

سنڈے میگزین: آپ نے سفرنامے بھی لکھے، اب تک کتنے ممالک کی سیر کرچکی ہیں؟ کون سے ممالک نے حیرت میں ڈالا؟

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم : عمان، قطر، امارات، ایران، سعودی عرب، مصر، ترکی، یونان، سوئٹزرلینڈ، پرتگال، فرانس، اٹلی، اسپین، ہالینڈ، برطانیہ اور جرمنی کی سیر کی ہے، جس کا حال ’’پانیوں پہ سفر‘‘ کے نام سے شائع بھی ہوتا رہا ہے۔

ہر جگہ کی زمین اور آسمان اللہ کی کبریائی کا اعلان کرتے ہیں، اور اس رب کے انداز ہی حیرت کے سمندر میں غوطے لگواتے ہیں کہ وہ اپنی گناہ گار عاجز بندی کے دلِ مہجور کو اپنی طرف کیسے، کب اور کہاں کھینچ کر مبہوت کردیتا ہے۔ ایران کے تخت جمشید کے آثار نے واقعی حیرت میں ڈالا اور اسپین نے بہت رلایا۔ وینس شہر میں دل موہ لینے والی فطری خوب صورتی ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات بہت یاد آئے۔

سنڈے میگزین: آج کل لکھنے اور پڑھنے والوں کا رجحان پرنٹ میڈیا کی نسبت سوشل میڈیا کی طرف زیادہ ہے، کیا دونوں پلیٹ فارم یکساں نتائج دے رہے ہیں؟

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم: ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، اور ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ میڈیا کوئی بھی ہو، بہرحال قلم کی اہمیت مسلمہ ہے۔ وہ قلم انگلی کی شکل میں بھی ہو تو کوئی حرج نہیں۔ دونوں اپنی ذمے داریاں ادا کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں۔ پرنٹ میڈیا کی اہمیت کم نہیں کہی جا سکتی، البتہ وسائل کی کثرت نے مزید آسانیاں بھی فراہم کی ہیں۔ پرنٹ میڈیا کی ارتقائی شکل نیٹ، آڈیو، وڈیو ہے۔ یہ بھی وہی کام کرتے ہیں جو پرنٹ میڈیا کرتا ہے۔ ارتقائی مراحل کو روکا نہیں جا سکتا۔ آڈیوز، ویڈیوز بنانے سے پہلے بہرحال پرنٹ مواد ہاتھ میں ضرور ہوتا ہے۔ کتابیں آن لائن پڑھی جا سکتی ہیں، لاکھوں کتابیں آپ موبائل میں محفوظ کرکے جیب میں لے کر کہیں بھی گھوم پھر سکتے ہیں۔

سنڈے میگزین: نوآموز لکھاریوں سے کیا کہیں گی؟ آپ کے خیال میں قلمکار کے لیے ذاتی کتاب کی اشاعت کا بہترین وقت کون سا ہے؟

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم: نوآموز لکھاریوں کو مطالعہ، مطالعہ اور مزید مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہر صنفِ اَدب کو پڑھنا اور اس کا لبِ لباب ڈائری میں لکھنا چاہیے۔ منظر نگاری لکھنے کی مشق کرنی چاہیے۔ فطرت کے مناظر، جلسے جلوس کا احوال، غمی خوشی کے وقت جذبات کا اظہار کرنے اور مکالمے کی مشق کرنی چاہیے۔ جو کچھ بھی لکھا ہو شائع کروانے سے پہلے کئی بار پڑھا جائے۔ ’’اپنی اصلاح خود‘‘ کے لیے بآوازِ بلند پڑھنا بھی فائدہ دیتا ہے۔ کچھ بھی لکھنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے استعانت طلب کی جائے اور اسی کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت کرنی چاہیے۔ کتاب شائع کروانے کا صحیح وقت وہی ہے جب اس کا مواد جمع ہوجائے اور اس کی ہر لحاظ سے نوک پلک درست ہوجائے، اور کسی مستند لکھاری سے نظرثانی کروالی جائے۔

سنڈے میگزین: موجودہ ادب اور ڈرامے سے مطمئن ہیں؟

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم: ہر دور میں اچھا برا ادب لکھا گیا ہے۔ یہ ملا جلا رجحان ہمیشہ رہتا ہے۔ اچھے برے ادب کا پیمانہ بھی ہر کسی کے نظریے کے مطابق ہوتا ہے۔ چوں کہ ہر فرد اپنے نظریے اور مزاج کے مطابق ہی لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا اور ادب کا مطالعہ کرتا ہے اس لیے اسے سب اچھا لگتا ہے۔ معاشرے میں فواحش عام ہونے کی وجہ سے ادب متاثر ہوا ہے یا معاشرے میں ادب نے فحاشی پھیلائی ہے، شاید دونوں صورتیں ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہیں۔ ابتدا کہیں نہ کہیں شیرے کی انگلی سے ہوتی ہے، وہ شیطان کسی سے بھی لگوا دے۔

موجودہ ڈرامے قوم کو شہوات کا عادی بنا رہے ہیں اور نسلِ نو کو برباد کررہے ہیں۔ اگر کہیں کوئی اچھا سبق دیا بھی جارہا ہو تو اس کو بھی گلیمر کی چکاچوند میں نظر نہیں آنے دیا جاتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے متبادل چیزیں تیار کی جائیں جن میں کشش بھی ہو اور اسلامی تہذیب بھی۔

سنڈے میگزین: آپ کے خیال میں لکھنے کے موضوعات کا رجحان بدلنے کی ضرورت ہے؟ عمومی قلمکار کو کن موضوعات پہ زیادہ لکھنا چاہیے؟

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم : زندگی کے مسائل ابدی ہیں۔ اس کی خوشی غمی کے مواقع ہمیشہ سے وہی ہیں۔ سچ اور جھوٹ میں کش مکش وہی ہے۔ رشتے ناتے نبھانے کی پریشانیاں وہی ہیں۔ یہ والے موضوعات نہیں بدلے جا سکتے۔ البتہ تہذیب اور جذبات کی بدلتی اقدار اور غیر مسلم سوچ کی قابلِ گرفت رسائی کو درست سمت رکھنے کے موضوعات پہ زیادہ لکھا جانا چاہیے۔ آدابِ گفتگو تک لوگ بھول چکے ہیں۔ لحاظ، مروت اور وفا کے الفاظ اجنبی ہوتے جا رہے ہیں۔

سنڈے میگزین: افسانہ نگاری، کالم نویسی، خاکہ و سفرنامہ نگاری… کس شعبے میں زیادہ مزا آیا؟ کون سا آج بھی مشکل لگتا ہے؟

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم: لکھنے کے لیے ذہن بن جائے تو کچھ بھی لکھا جا سکتا ہے۔ سفرنامہ لکھنے میں لطف آتا ہے۔ کالم اور خاکہ نگاری لکھنا سہل ہے۔

سنڈے میگزین: کوئی یادگار واقعہ؟

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم: انسان کے لیے چھوٹے بڑے بہت سے واقعات یادگار ہوسکتے ہیں بشرطیکہ یادداشت اچھی ہو۔ کبھی کبھار ایسی فرمائش پہ کچھ یاد نہیں آتا، اور کبھی واقعات قطار میں ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں۔ فی الحال میری شرارت پہ انعام ملنے والے واقعے پر ہی اکتفا کرلیجیے۔

ایک بوڑھی خاتون دوسرے شہر میں مقیم بہو بیٹے سے نالاں تھیں، انہوں نے مجھے اُن کے نام خط لکھنے کو کہا اور کچھ سخت سست جملے اور کچھ دھمکیاں بھی لکھوائیں۔ غرض غصے کی ساری علامات لکھنے کو کہا کہ بس وہ کسی طرح ماں سے ملنے بھاگا چلا آئے۔ ہم نے ہر دھمکی کی جگہ دعا لکھ دی اور ہر سخت سست جملے پہ مامتا کا اظہار کردیا۔ کچھ دنوں بعد وہ خوشی سے بے حال دوڑی چلی آئیں کہ ’’بشریٰ بیٹی نے ایسی زبردست کھنچائی کی کہ میرا بیٹا بھاگا چلا آیا‘‘۔ اس مزے دار شرارت پہ مجھے والدہ کی طرف سے انعام ملا، اُس وقت میں دس سال کی تھی۔

سنڈے میگزین: زندگی گزارنے کا فارمولا؟

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم: زندگی ہر آن غیر متوقع طور پہ ایک نئی جہت کا سامنا کراتی ہے۔ جب مقصدِ زندگی واضح ہو تو زندگی کے ہر لمحے میں رب کو راضی رکھنے کی ترجیح کا تعین کرلینے سے زندگی گزارنے کا بہترین فارمولا ہاتھ آجاتا ہے۔

سنڈے میگزین: کیسے لوگ پسند ہیں؟ پسندیدہ کتاب؟ ادیب؟ موسم؟

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم : وفادار، سنجیدہ، اہلِ بصیرت اور غلطی پہ مجھے تذکیر کرنے والے لوگ پسند ہیں، اور وہ لوگ جن کو دیکھ کر رب کی یاد آجائے اور فکرِ آخرت بڑھ جائے۔ پسندیدہ کتاب ’’منہاج القاصدین‘‘ ہے۔ پسندیدہ ادیب وہ ہے جو سچ لکھے، حقیقت پسند ہو اور معاشرے میں پھیلے ظلم کا علاج بتائے صرف آواز نہ اٹھائے، وہ کوئی بھی لکھنے والا ہوسکتا ہے۔ ہر ادیب اور شاعر کی ہر چیز نہ ہی حرفِ آخر ہوتی ہے اور نہ ہی پسندیدہ۔

موسم کے لحاظ سے مجھے بہار پسند ہے، نہ سردی نہ گرمی، جنت والا موسم اور خاموش نیلے سمندر کی اتھاہ گہرائی پہ چھایا نیلا آسمان، کھلی فضا، دریا و آبشار کا بہتا پانی، بارش اور ایسے کسی منظر کے ساتھ تنہائی میں قرآن پاک سننا پسند ہے۔ کبھی دل کا موسم لق و دق صحرا جیسا بھی ہو تو قرآن مجید سننے سے اس میں بہار آجاتی ہے۔

سنڈے میگزین: دن بھر کی مصروفیات؟ لکھنے کا کوئی خاص وقت یا موڈ؟

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم: ہر فرد کی دن بھر کی مصروفیات عمر اور ذمے داریوں کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہیں۔ کبھی بچوں کے کاموں سے فرصت نہیں ملتی تھی، اور الحمدللہ بچوں کی ذمے داریوں سے عہدہ برا کردیا رب العالمین نے، تو اب اپنے ہی دوا دارو اور لکھنے پڑھنے اور آن لائن کلاسز کی مصروفیت رہتی ہے۔ لکھنے کے لیے جب اور جہاں موقع ملے سفر ہو یا حضر، ایسی محفل جو میرے مزاج کی نہ ہو یا تنہائی جس میں خیالات کی رعنائیاں خوش کرتی ہیں۔

سنڈے میگزین:نوجوانوں کو مثبت سوچ پہ کیسے رکھیں؟

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم: نوجوانوں کو مثبت سوچ پہ رکھنے کا آسان طریقہ ہے کہ ان کے ساتھ ان کے بزرگ مثبت رویہ اپنائیں۔ گھر کے بزرگ خواتین و حضرات کے ہاتھ بھی موبائل آگیا ہے اور وہ اپنے اصول ’’مول سے بیاج پیارا‘‘ فراموش کرچکے ہیں۔ محبت فاتح عالم ہے۔ اپنے خون، اپنی نسل اور اپنے مستقبل کے قیمتی سرمائے کی قدر کیجیے۔ ان کو محبت سے قریب کیجیے اور ان کے ذہنوں کو جو موبائل کی نت نئی خرافات نے اغوا کرلیے ہیں، آزاد کروایئے، اور اللہ تعالیٰ سے اپنی اُن کوتاہیوں کی معافی طلب کیجیے جو نوجوانوں کی حق تلفی کی صورت میں ہوئی ہیں، اور ان بچوں کے لیے اپنے رب کے حضور تہجد کے وقت گڑگڑا کر دعا کیجیے کہ وہ ان کا دل بدل دے اور ان میں حکمت و ہدایت کی طرف راغب ہونے کی تمنا پیدا ہوجائے۔ ان کو وقت دیں، قرب عطا کریں۔ اپنے اندر سے اٹھتی سچی نورانی لہریں ان کے وجود کو روحانی تقویت دیں گی۔

سنڈے میگزین: پیغام؟

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم : کسی فرد کے معمولات یا ذاتی معاملات کے متعلق گفتگو کرنے کی کوئی ناگزیر ضرورت ہو تو کیجیے، ورنہ خاموش رہیں۔ انسان کو آخرت میں زبان کے زیادہ استعمال سے کڑے محاسبے کا سامنا ہوگا اور نجات مشکل ہوجائے گی۔ ’’جو خاموش رہا وہ کامیاب ہوا‘‘ آسان حساب کا یہی آسان طریقہ ہے۔

نمائندہ سنڈے میگزین : آپ کے وقت کا بہت شکریہ۔

حصہ