معزز قارئین کرام عنوان دیکھ کر آپ حضرات یہی قیاس کر رہے ہوں گے کہ شاید میں باورچی خانے سے متعلق کوئی بات کہنا چاہتا ہوں مثلاً نرگسی کوفتے یا شاہی ٹکڑے بنانے کی ترکیبیں وغیرہ۔ مگر ایسی کوئی بات نہیں ہے یہ تو صرف ایک کہانی ہے‘ اُس بدترین دور کی جب انگریز ہم پر حکومت کرتا تھا اور ظلم بھی، اس کے ظلم کی داستانوں پر تاریخ کے اوراق آج بھی ماتم کناں ہیں۔ کہانی ڈیڑھ سو سال پرانی ہے مگر اس کے کردار آج بھی کرۂ ارض پر موجود ہیں اوران کے ذریعے کہانی بار بار دہرائی جاتی ہے۔
مرزا غیاث الدین بیگ کا تعلق مغلیہ خاندان سے تھا۔ مغل خاندان کے زوال کے بعد خاندانی شیرازہ بکھر گیا۔ جس نے انگریزوں کی غلامی کی‘ اُن کے جوتوں پر پالش کیا وہ تو مزے میں رہے۔ جس نے مخالفت کی وہ راندۂ درگاہ ہوئے۔ مرزا غیاث الدین نے ہوا کا رخ پہچان لیا اور انہوں نے اسی میں خیر سمجھی کہ انگریزوں کی غلامی کرتے رہو اور فائدہ حاصل کرتے رہو۔ لہٰذا مرزا غیاث الدین نے انگریزوں کے سنگِ آستاں پر سجدہ ریزی کی اور اپنے ضمیر کا سودا کر ڈالا۔
مرزا غیاث الدین کی رہائش ایک شان دار کوٹھی میں تھی نام تھا ’’شاہی محل‘‘ جہاں ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔ شرعی احکام
ات کے پابند تھے لہٰذا چار عدد پاک دامن خواتین اُن کے نکاح میں تھیں اور کوٹھی کی زینت میں برابر کی شریک تھیں۔ کوٹھی کا تھوڑا سا احوال بھی سن لیجیے کوٹھی کیا تھی بس یوں سمجھ لیجیے کہ کسی بادشاہ کے محل سے کسی طور بھی کم نہ تھی تبھی تو اس کو ’’شاہی محل‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اندر کی ہر شے شاہانہ معیار رکھتی تھی اور مکیں شاہانہ مزاج۔ مرزا صاحب شام کو اپنے باغ میں اپنی چاروں بیویوں کے ساتھ بیٹھ کر خوش گپیا ں کرتے اور چائے نوش فرماتے۔ کوٹھی میں ملازمین کی تعداد اچھی خاصی تھی ہر طرح اور ہر ڈیزائن کے ملازم اور ملازمہ موجود تھیں۔ مرزا صاحب اور ان کی بیگمات کے اشاروں کے سب منتظر رہتے اشارہ پاتے ہی خدمت میں لگ جاتے۔ مرزا غیاث الدین کھانے ’’پینے‘‘ کے کافی شوقین تھے لہٰذا کوٹھی کا شاہی باورچی خانہ اپنی مثال آپ تھا۔ مرزا صاحب کی توجہ باورچی خانے پر کچھ زیادہ ہی تھی۔ باورچی خانے کا حال یہ تھا کہ ہر طرح کی کراکری‘ جو باہر کے ملکوں میں بنائی جاتی تھیں‘ اس شاہی باورچی خانے میں موجود تھیں۔ اکثر مرزا صاحب باہر کسی ملک میں تشریف لے جاتے تو وہاں میزبان کو چوں کہ ان کے شوق کا پتا ہوتا لہٰذا وہ لوگ تحفے میں باورچی خانے سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہی مرزا صاحب کی خدمت میں پیش کرتے اور وہ انہیں خوشی خوشی قبول کر لیتے۔ اس طرح مرزا صاحب کے شاہی باورچی خانے کی زینت میں مستقل اضافہ ہوتا رہا۔
تمام ملازمین کا ایک ذمے دار تھا عجب خان‘ ہر کوئی اس سے خوف کھاتا تھا۔ اس کی دیانت داری پر مرزا صاحب کو کبھی شک
نہ تھا مگر انسان لالچی اور کمزور واقع ہوا ہے۔ باورچی خانے کی قیمتی اشیاء پر اس کی نیت خراب ہونے لگی اور جو چیز اسے زیادہ اچھی لگی اس نے بڑی صفائی سے اپنے گھر پہنچا دی۔ راز زیادہ دن تک راز نہ رہ سکا اورباقی ملازمین کو اس کی خبر مل گئی لہٰذا انہوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے شروع کر دیے باورچی خانے سے چیزیں نکلتی رہیں مگر مرزا صاحب اس سے بے بہرہ رہے۔ ایک نیا ملازم گل خان ملازموں کی صف میں شامل کیا گیا کچھ دنوں تک تو عجب خان اُس سے خوش رہا مگر بعد ازاں کچھ اختلافات شروع ہو گئے اور عجب خان موقع کی تلاش میں تھا کہ کس طرح اسے رسوا کیا جائے۔ ایک دن باورچی خانے سے ایک چاندی کا چمچ غائب ہو گیا۔ عجب خان کی مرادیں بر آئیں جھٹ اس نے الزام گل خان کے سر تھوپ دیا۔ مرزا صاحب کو معلوم ہوا تو انہوں نے اسی میں بہتری سمجھی کہ اسے عدالت کے روبرو پیش کیا جائے۔
میں شروع میں بیان کر چکا ہوں کہ مرزا صاحب انگریزوں کے غلام تھے اور ان کے پیٹ میں انگریزی شراب دوڑ رہی تھی۔ گل
خان عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا جج ہندوستانی تھا مگر انگریزوں کے زیرِ اثر تھا اس لیے کہ حکومت انہی لوگوں کی تھی لہٰذا جج صاحب کے منہ میں اپنے آقا کی زبان تھی۔ جج وہی فیصلے کرتا جس میں آقا کی خوشی اور مرضی شامل ہوتی۔ لہٰذا جج نے اپنے آقا کی مرضی ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے فیصلہ سنا دیا… دفعہ فلاں فلاں تعزیراتِ ہند کے مطابق گل خان ولد محبت خان کو شاہی باورچی خانے سے چاندی کا ایک عدد چمچ چرانے کے جرم میں پانچ سال قید با مشقت اور پانچ ہزار سکۂ رائج الوقت بطور جرمانہ ادا کرنے کی سزا سنائی جاتی ہے۔
گل خان قید خانے کی دیواروں سے سر ٹکراتا رہا اور دیواروں سے پوچھتا رہا کہ شاہی باورچی خانے سے تو اور لوگ بھی مستفید ہوتے رہے ان کی کبھی کوئی پکڑ دھکڑ نہیں ہوئی نہ ہی ان کا کوئی احتساب ہوا وہ تمام لوگ پاک دامن قرار دیے گئے، تو آخر مجھ پر ہی یہ ستم کیوں؟
سنتے آئے ہیں کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں مگر یہ کبھی نہیں سنا کہ ان کے پاس زبان بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا دیواروں نے گل خ
ان کی شکایت سن تو لی مگر گل خان جواب سے محروم رہا۔
یارب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور