گھر کو گھر بنانے میں عورت کا بڑا ہاتھ ہے

622

زرینہ شروع سے ہی اکھڑ اور بد مزاج تھی کبھی نند سے کسی بات پر تکرار تو کبھی جیٹھانی یا دیورانی سے؛ اسی لئے کوئی اسے منہ ہی نہ لگاتا؛ بچیاں بڑی ہورہی تھیں وہ بھی ماں کے نقش قدم پر چل بڑیں۔

اماں’’زرینہ سسرال والوں سے بناکر رکھو ماشاءاللہ تمہاری تینوں بچیاں جوان ہورہی ہیں ان پر بھی اثر پڑ رہا ہے ‘‘۔

زرینہ :تمہارا مطلب ہے میں ان کے آگے پیچھے چمچہ گیری کرتی پھروں تو وہ بھی میں کرچکی دیکھا آپ نے سب نے میری زندگی حرام کردی تھی انہی کے سلوک نے مجھے یہ سکھایا ہے اب دیکھو کیسے سب کو چپ لگ گئی ہے میرے سامنے آنے سے بھی ڈرتی ہیں۔

اماں:بیٹا یہ کوئی اچھی بات تو نہیں ہے کہ وہ سب تجھ سے کتراتی ہیں۔ اب یہ بچیاں۔ ان کے رشتوں کا بھی سوچو ۔

زرینہ:میری بیٹیوں کی فکر مت کریں ماشاءاللہ خوب صورت ہیں اوراعلی تعلیم بھی حاصل کر رہیں ہیں ۔

وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ نورین نے ماسٹر مکمل کرلیا دونوں چھوٹی بھی شادی کے قابل ہوچکی تھی لیکن اپنوں میں سے کوئی آگے نہیں بڑھ رہا تھا تینوں بیٹے بھی جو بہنوں سے بڑے تھے بہنوں کی کی وجہ سے ان کی بھی شادیاں رکی ہوئی تھیں آخر زرینہ نے رشتہ کروانے والی عورتوں سے رجوع کیا ’’ بڑی مشکل سے نورین کا رشتہ ہوگیا اور وہ اپنے گھر کی ہوگئی تو باپ اور بھائیوں نے بھی شکر ادا کیا۔ اب زرینہ کو دونوں دوسری بیٹیوں کی فکر تھی۔

نورین :امی میری تو سانس گھٹتی ہے آپ نے اتنی بڑی فیملی میں مجھے بیاہ دیا _ہر وقت سب کو خوش رکھنا میرے بس کا کام نہیں َ میں نے تو نعمان سے اشاروں کنایوں میں الگ گھر کے لیے کہنا شروع کر دیا ہے؛ میں نے ملازمت کے لئے بھی ایک جگہ اپلائی کیا ہوا ہے بس دعا کریں نوکری لگ جائے تو پھر میرا کام آسانی سے ہو جائے گا ۔

زرینہ :اچھا کیا کب تک ان کی چاکری کرتی رہو گی میری زندگی سے سبق سیکھو ۔

اماں:زرینہ بیٹا تمہیں صرف بیٹیوں کی فکر لگی ہوئی ہے ذرا بیٹوں کا بھی گھر بسانے کا سوچو مجیب کے لیے ایک لڑکی میری نظر میں ہے اگر تم کہو تو۔

زرینہ :میرے سسرال کا تو نام نہیں لیجئے گا۔ اماں : بیٹا تیرے چاچے کی بیٹی سیرت اچھی اور سیدھی سادی لڑکی ہے۔

زرینہ :(منہ بناتے ہوئے) چل رشتے کی بات شروع کر لیکن میں شادی پہلے اپنی بیٹی امبر کی کروںگی۔ مہرین تو ابھی بی اے کر رہی ہے ۔(آج نورین بہت خوش تھی) ’’دیکھا امی آخر میں نے نعمان کو راضی کر لیا کہتا تھا فلیٹ کا کرایہ کہاں سے آئے گا۔ میں نے اس سے کرایہ اپنی تنخواہ میں سے دینے کا وعدہ کیا ہے اور گھر والوں سے یہ کہا کہ مجھے دفتر آنے جانے میں تکلیف ہورہی ہے اس لیے دفتر کے پاس کرایہ پر فلیٹ لیا ہے۔‘‘

زرینہ : چلو شکر تمہارا مسئلہ تو حل ہو گیا۔

چند مہینوں کی کوشش سے امبر کا رشتہ بھی ہوگیا تو اس نے مجبوراً مجیب کی شادی کے لئے بھی حامی بھر لی حالانکہ اس کا ارادہ تو یہی تھا کہ چھوٹی کی شادی کے بعد اس کی شادی کروںگی ۔سیرت کو زرینہ اور اس کی بیٹیوں کے بارے معلوم تھا لیکن اس کی والدہ نے اسے سمجھایا تھا کہ مجیب پڑھا لکھا سمجھدار لڑکا ہےاور اب تو دو نندوں کی شادی بھی ہوچکی ہے اس لیے تمہیں گھبرانا نہیں چاہیے لہٰذا ذہنی طور پر اس صورت حال کے لیے تیار ہوکر اس نے اس گھر میں قدم رکھا تھا کچھ دنوں تک تو ساس کا رویہ صحیح رہا پھر وہ اپنی ڈگر پر آگئی بلکہ بڑی نند کا اکثر پڑاو ماں کے گھر خصوصاً بچے کی پیدائش کے بعد تو وہ اکثر یہیں رہنے لگی۔ تمام دن وہ کام میں لگی رہتی لیکن پھر بھی ساس نندین اس سے خوش نہ تھیں ؛ چھوٹی نند کی شادی کے بعد بڑی نند نے کرایہ کا مکان چھوڑ کر مستقل ماں کے گھر ڈیرہ ڈال دیا کہ بچے کا مسئلہ ہورہا ہے۔اس طرح سیرت کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی جس کا احساس ساس نندوں بالکل نہ تھا۔ منیب کی شادی ہوئی تو اس نے گھر کے حالات دیکھتے ہوئے اپنا تبادلہ لاہور کروایا اور بیوی کے ساتھ لاہور چلا گیا چھوٹے بیٹے زہیب کی تنخواہ بہت کم تھی اس لئے شادی کے بعد اٹھتے بیٹھتے ماں بہنیں طعنے دیتی کہ مفت کی کھا رہے ہو۔( خصوصاً اس کی بیوی کو) الگ رہو تو پتا چلے گا آخر مجبور ہو کر اس نے کرایہ پر چھوٹا سا فلیٹ لیا اور بیوی کے ساتھ وہاں شفٹ ہو گیا اس کی بیوی پڑھی لکھی تھی اس نے گھر کے قریب ایک اسکول میں پڑھانا شروع کردیا شام کو کچھ بچے ٹیوشن پڑھنے بھی جاتے اس کے شوہر نے بھی نئی ملازمت کے لیے ہاتھ پیر مارنے شروع کر دئیے لہٰذا اسے بھی اچھی تنخواہ پر ملازمت مل گئی۔ اس طرح ان کے حالات بہتر ہوگئے۔ وہ دونوں میاں بیوی اکثر و بیشتر ماں باپ سے ملنے آتے رہتے ۔رحیم صاحب اب بیوی کو سمجھانے کی کوشش کرتا کہ تم اب سیرت کے ساتھ اپنا رویہ صحیح رکھو ۔لیکن اس پر کسی کی بات کا اثر نہیں ہوتا۔

ان حالات کے باوجود مجیب اور سیرت ابھی تک اس گھر میں ہی تھے لیکن جب اس کا تبادلہ اسلام آباد ہوا تو اسے بھی یہ گھر چھوڑنا پڑا۔ گھر میں اب بیٹیوں کا ہی راج تھا۔

نورین :امی میں نے اور نعمان نے ایک اپارٹمنٹ منٹ بک کروایا تھا وہ اگلے مہینے ہمیں مل جائے گا تو ہم اپنے فلیٹ میں شفٹ ہوجائیں گے ظاہر ہے امی میرے بھی دو بیٹے ہیں اور پھر ملنا ملانا بھی ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے ہم اگلے مہینے شفٹ ہو جائیں گے ۔

اس طرح وہ گھر جو زرینہ بیگم کا بھرا ہواتھا خالی ہوتا گیا اور گھر میں اب سناٹے کا راج تھا۔ اس سناٹے نے انہیں وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا ۔

وقت کو کس نے تھام کر رکھا ہے گزر ہی جاتا ہے سب کے بچے جوان ہو چکے تھے نورین کے بڑے بیٹے کی شادی تھی گھر میں بہو آگئی گھر میں رونق ہوگئی۔ لیکن ایک چیز جو سب کے سامنے آئی جسے دیکھ کر سب کو حیرانی بھی ہوئی کہ وہ نورین جس نے ماں کے ساتھ مل کر تینوں بھابھیوں کی زندگی اجیرن کردی تھی اس کا رویہ اپنی بہو کے ساتھ بڑا شفقت بھرا تھا۔ جس کی وجہ سے گھر میں سکون تھا۔

امبر: ناظمہ کی شادی فریضہ ادا کرکے بڑا سکون مل گیا ہے بس اب محمود کی شادی کی تاریخ طے کرنی ہے۔لیکن بڑا ڈر لگ رہا ہے نہ جانے آنے والی لڑکی کیسی ہو مجھے تو ابھی ایک بیٹی بہانی ہے۔ماشاءاللہ آپ کی بہو کی شادی کو چار سال ہونے والے ہیں آپ کو ہم سب دیکھتے ہیں کہ آپ نے بڑے سلیقے سے پورے گھر کو سنبھالا ہے نورین(بڑے دکھ سے) میری بہن اللہ ہماری ماں کو جنت میں جگہ دےلیکن آخر میں اماں ابا کے گھر کا کیا حال ہو گیا تھا۔کس طرح وہ دنیا سے رخصت ہو گئے اس میں اماں کا اور ہم بہنوں کا قصور تھا ہمارے تینوں بھائی تو آخر تک کوشش میں لگے رہے لیکن ہم نے انہیں کس طرح دھتکار دیا تھا کاش ہمیں عقل آجاتی تو اماں کا گھر اس طرح بکھر نہ جاتا۔ ایک عوت ہی اپنے گھر کو حقیقی معنوں میں گھر بنا سکتی ہے اور سارے رشتوں کو سمیٹ کر سنبھال کر رکھ سکتی ہے کاش اماں ہماری بھی کوتاہی تھی کہ پڑھ لکھ کر بھی عقل نہیں آئی ۔اس کا آج مجھے اور تمہیں بھی احساس ہے اسی احساس نے ہم تینوں کو بدل دیا ہے۔ آج ہم اپنے مثبت سوچ وعمل سے اپنے رشتوں سے جڑے ہوئے ہیں ۔

حصہ