جمہوریت کا تصور اکثریت اور اس کاحقوق انسانی و سرمایہ داری سے تعلق

327

جدیدیت محض ایک فلسفیانہ سوچ کا نام نہیں یہ ایک عالمگیر فتنہ ہے اس فکر نے صرف معاشی‘ سیاسی‘ سماجی اور اخلاقی شیرازہ بندی میں نفوذ کرکے مغربی دنیا ہی کو تسخیر نہیں کیا بلکہ اپنی سامراجیت کو وسعت دے کر فکر بین الاقوامی صف بندی کے تحت اپنے عالمگیر اثر و نفوذ کے لیے مسلسل کوشاں ہے نتیجتاً مغربی تہذیبی فکری ارتقا کی لہریں جب مشرقی دنیا سے ٹکرائیں تو جدیدیت کو ایک عالم گیر فکر کے طور پر قبول کر لیا گیا۔ یوں تو معاشی اور سیاسی سطح پر جدیدیت کی کئی شکلیں موجود ہیں لیکن سرمایہ داری اور جمہوریت جدیدیت کی وہ سیاسی اور معاشی اشکال ہیں جنہوں نے نہ صرف اہلِ مغرب کو مسخر کیا بلکہ مشرقی فکر کو بھی اپنے قالب میں ڈھال لیا (جو کہ نامیاتی طور پر جمہوریت اور سرمایہ داری کی فطری حریف ہے) سرمایہ داری اور جمہوریت کی غیر مغربی دنیا میں قبولیت کی تین بنیادی وجوہات ہیں:

-1 سرمایہ داری اور جمہوریت کو ایک Value Neutral (لااقداری) معاشی اور سیاسی چیز سمجھنا۔

-2 سرمایہ داری اور جمہوریت کو اس کی اصل تاریخ سے کاٹ کر محض تجریدی حالت میں سمجھنا۔

-3 سرمایہ داری اور جمہوریت کو جدیدیت سے مرعوبیت کے زیر اثر اسلامی جواز پیش کرنا۔

یہ تینوں بنیادی طور پر فکری کمزوریاں ہیں جس کی کئی وجوہات بیان کی جاسکتی ہیں مثلاً

-1 اسلامی علوم و تاریخ کو مغربی (جدیدیت) فکری تناظر میںسمجھنے کی کوشش۔
-2 نوآبادیاتی نظام کی پیداوار غلامانہ سوچ۔
-3 مغربی مادی ترقی سے مرعوبیت۔
-4 تاریخی جبر
-5 مغربی علوم سے ناواقفیت۔
-6 مرعوب و زر خرید مسلم مصلحین۔

ان تمام امور کی کوئی بھی وجہ ہو سرمایہ داری اور جمہوریت مشرقی دنیا میں در آئی اور ہم نے بھی عالمی استعمار میں اپنی جگہ بنانے کے لیے جمہوریت اور سرمایہ داری کو نہ صرف گلے لگایا بلکہ اس کو آیات بنیات بنا کر پیش بھی کرنے لگے۔

جدیدیت کی فکری کمزوریاںخود مغر ب میں بیسویں صدی کی دوسری دہائی سے ہی عیاں ہونی شروع ہوئیں۔ لیکن بیسویں صدی کا وسط اس ضمن میں کلیدی دور ہے۔ یہی وہ دور ہے جس میں پس جدیدیت نے جدیدیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی اور جدیدیت نے اپنی آفاقیت سے رجوع کر لیا۔ اس تناظر میں اگر ہم سرمایہداری اور جمہوریت کے مستقبل کو جانچیں تو یہ بات بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ جدیدیت کی فکری شکست و ریخت کے بعد سرمایہ داری اور جمہوریت فی زمانہ موجودہ فکری منظر نامے میں اپنی آفاقیت سے محروم ہو چکے ہیں۔

سرمایہ داری کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سرمایہ داری کسی بھی بحران سے نبرد آزما ہونے کے بعد جب دوبارہ ابھرتی ہے تو پہلے سے کہیں زیادہ طاقت ور تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔خواہ یہ فسطائیت کی شکل اختیار کرے خواہ اس کی صورت اشتراکیت ہو خواہ قومی اور بین الاقوامی سرمائے کا تصادم ہو یا ریاست اور سرمایہ داری کی باہمی کشمکش بہر طور سرمایہ ہر آنے والے Challange سے کامیابی سے نبرد آزما دکھائی دیتی ہے۔

دوسری طرف جہوریت نے تاریخی طور پر سرمایہ داری کے لیے بہت کم فتوحات حاصل کی ہیں۔ یہ ایک معاشی اور معاشرتی انٹرایکشن ہے پس جدیدیت کے علمی مباحث نے سرمایہ داری کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا کہ خود جہوریت نے پہنچایا۔ آج جمہوریت پر مغربی مفکرین کا ایمان اس طرح راسخ نظر نہیں آتا جیسا کہ سرمایہ داری پر۔دوسری طرف دنیا کے ان ممالک میں جہاں جمہوریت سرمایہ دارانہ معیشت کے زیر سایہ پروان چڑھی وہاں عوام الناس میں جمہوری نظام پر اعتماد کم سے کم تر ہوتا چلا گیا اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میںووٹنگ کا تناسب مسلسل گر رہا ہے۔

مغربی مفکرین کے مطابق غیر مغربی دنیا میں جمہوری نظام خاطر خواہ نتائج فراہم کرنے سے قاصر رہا اس کے برخلاف اس نے مغرب میں سرمایہ داری کی ترویج استحکام اور سرمایہ دارانہ نظام ملکیت کے قیام میں بے مثال کامیابی حاصل کی لیکن آج خود غیر مغربی دنیا میں جمہوری نظام کو بالعموم اور سرمایہ دارانہ نظام کو بالخصوص چند بنیادی خطرات لاحق ہیں۔

٭ الوہیت انسانی سے انکار‘ مذہبی اجتماعیت کا ہونا جو بنیادی طور پر سرمائے کی بڑھوتری کے فطری حریف ہیں۔

٭ خاندانی نظام سرمایہ داری کے فروغ کے لیے بنیادی محرک یعنی Capitalism کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

٭ مارکیٹ کا اقدار کے تعین اور ترویج میں کلیدی کردار ادا نہ کرنا بلکہ اقدار بمع تعین مذہبی روایات سے اخذ کرنا۔

٭ معاشرتی تشکیل کی بنیاد مفاد (Interest) کے سوا اور کچھ ہونا مثلاً خوفِ خدا‘ حب رسول‘ خون‘ برادری وغیرہ۔

٭ مندرجہ بالا خطرات کی موجودگی کے باعث بعض مغربی مفکرین کا یہ خیال ہے کہ غیر مغربی دنیا میں ریاستی جبر کے بغیر جمہوریت اور سرمایہ داری کا دفاع اور فروغ ممکن نہیںمغربی مفکری کے خیال میں یہ ریاستی جبر تین سطحوں پر ہونا چاہیے۔

٭ قانونی سطح پر مثلاً زیادہ سے زیادہ Secularisation of law کے ذریعے۔

٭ سول سوسائٹی کے قیام کے لیے ریاستی احکام کے ذریعے ریاست کو کمزور کرنا اور معاشرہ کو چھوٹی چھوٹی مقامی اکائیوں میں تقسیم در تقسیم کرنا۔

٭ ایسے سماجی اور معاشرتی اداروں کا تحفظ اور فروغ جو در پردہ مذہبی‘ خاندانی‘ روایتی‘ ادارتی اور معاشرتی صف بندی کو کمزور کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوں۔

’’جمہوری نظام غیر مغربی دنیا میں لامحالہ سرمایہ دارانہ نظام کے فروغ کے ذریعے ہی پروان چڑھے گا۔‘‘ مغربی مفکرین اس بارے میں فکر مند نظر آتے ہیں کہ پاکستان میں یہ بالکل ممکن ہے کہ افراد کی اکثریت جمہوری نظام کے ذریعے ہی الوہیت انسانی سے انکار کر دے جمہوری فیصلے کے ذریعے ہمیشہ کے لیے عبدیت خدا ریاستی اصول کے طور پر قبول کر لے‘ جمہوری فیصلے کے ذریعے سرمائے کی بڑھوتری کے واحد وظیفے کو رد کر دے۔

جمہوری فیصلے کے ذریعے خواہشات‘ منکرات اور بے حیائی کو جڑ سے اکھاڑ دے (گو کہ یہ صرف خواہشات ہیں اور جہوریت کے جبر سے ایسے نتیجے کا نکالنا فطری طور پر ناممکن ہے) لیکن ان ہی خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے موجودہ دور میں حقوق انسانی کی بحث اور جدوجہد ہی اہل مغرب اور مغرب زدہ معاشرت‘ ریاست و شخصیت کے لیے واحد قابل عمل طریقۂ کار نظر آتا ہے۔

حقوق انسانی کی جدوجہد دراصل الوہیت انسانی کے قیام کا کام ہے جو اپنی اس شکل کے دھوکے میں الوہیت سرمائے کے قیام کا بہترین قابل عمل ذریعہ قرار پائے۔

مذہبی‘ خاندانی اورروایتی اجتماعیتوں کو پارہ پارہ کرنے اور معاشرتی سطح پر سماجی سالموں (Social atomnization) کے قیام کو حقوق انسانی اخلای بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔

تاریخ انسانی کا مشاہدہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہر تہذیب کے اپنے تصورات ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر کوئی بھی ملت اپنی تہذیبی برتری اقوام عالم میں ثابت کرتی ہے(یا کرنے کی کوشش کرتی ہے) موجودہ دور میں حقوق انسانی کی جدوجہد مغربی تہذیب کی عالمگیریت کا اخلاقی‘ ثقافتی اور معاشی جواز کے سوا کچھ اور نہیں Wold development report برائے 2001ء ایک بڑی اہم دستاویز ہے چونکہ اس کے ذریعے استعمار کے سماجی‘ اقتصادی‘ سیاسی اور قانونی ترجیحات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ جمہوریت کے حوالے سے اگر اس رپورٹ کا مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ حقوق انسانی کے لبادے میں کس طرح جِمہوری نظام سرمایہ داری کو بہترین(اخلاقی اور معاشرتی) دفاع فراہم کرتا ہے (یا کرسکا ہے۔)

رپورٹ کے مطابق جمہوریت سیاسی قوت کی منتقلی کا فی زمانی پُر امن ترین نظام ہے لیکن اس کے باوجود جمہوریت میں ’’اکثریتی جبر‘‘ کے ناقابل تردید امکانات ہر وقت موجود رہتے ہیں جس کے باعث افراد کے لیے بالعموم اور اقلیتوں کے لیے بالخصوص اپنے تصورات خیر و شر کے اظہار کے امکانات معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں لہٰذا رپورٹ میں اکثریتی جمہوریت (Majoriterion Democracy) کے مقابلے میں Inclusive Democracy نفوذ پذیر جمہوریت کے تصور کو فوقیت دی گئی ہے جو کہ جمہوریت کے تحت خود اکثریت کی نفی کا جواز فراہم کرتی ہے۔

رپورٹ میں اس بات کا ادراک بڑی شدت سے پایا جاتا ہے کہ جمہوریت میں حقوق انسانی کے فروغ اور حقیقت کے ادراک کی کوئی لازمی دلیل موجود نہیں بلکہ بہت سی جمہوری ریاستوں میں بھی حقوق انسانی کی پامالی کی اتنی ہی گنجائش موجود رہتی ہے جتنی کہ کسی بھی غیر جمہوری ریاست میں۔ رپورٹ کے مطابق جمہوری ریاست کے قیام کا واحد مقصد حقوقِ انسانی کا فروغ ہے لہٰذا جمہوری ریاست کو حقیقی معنی میں جمہوری بنانے کے لیے رپورٹ کچھ بنیادی نکات پیش کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کسی بھی جمہوری ریاست کے حقیقی جمہوری ہونے کی شرط یہ ہے کہ اس میں چار قسم کے حقوق (حقوق انسانی) کی ضمانت دی جائے۔

-1 سیاسی امور میں شرکت کا حق۔
-2 اظہار رائے کی آزادی کا حق۔
-3 سماجی و شہری حقوق۔
-4 پُرامن بقائے باہمی۔

رپورٹ میں نہ صرف ان حقوق کی نشاندہی کی گئی ہے بلکہ ان حقوق کے حصول کے لیے بھی مخصوص ادارتی صف بندی کی گئی ہیں(بلکہ رپورٹ کے مطابق ان حقوق کے ادراک کو ممکن بھی بنایا گیا ہے) اور اس کی نشان دہی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق:

-1 سیاسی امور میں یکساں شرکت کے حقوق کا اظہار آزادانہ انتخابات کے ذریعے۔

-2 آزادی اظہار کے حق کا اظہار آزاد میڈیا کے ذریعے۔

-3 سول حقوق کے اظہار کا حق ریاستی قوت اور اداروں کی عدم مرکزیت یعنی Decentralzation of state power کے ذریعے۔

-4 پُرامن بقائے باہمی کے حق کا اظہار سول طرز معاشرت (جو کہ معاہدہ عمرانی کے ذریعے وجود میں آئی ہے) کے ذریعے۔

اس طرح رپورٹ ان چار بنیادی حقوق کے ذریعے اکثریتی جمہوریت سے حقیقی جمہوریت کو ممیزکرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اکثریتی جمہوریت میں اور اکثریتی رائے کے تسلط کو جائز گردانتے ہوئے اقلیت پر جبر کو جائز تصور کیا جاتاہے جس کے باعث حقوق انسانی کی پامالی یقینی ہے۔ اکثریتی جمہوریت کا کمیونٹی ٹیرین تصور رپورٹ کے مطابق حقوق انسان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ دوسری طرف حقیقی جمہوریت کو قبول کرنا اکثریتی نمائندگی سے زیادہ اس کی Quality کی نمائندگی پر منحصر ہے جو آگے چل کر حقوق انسانی کی آڑ میں ٹیکنالوجیکل تسلط کی اخلاقی دلیل بنتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اکثریتی رائے کی Accountability محاسبہ نہایت ضروری ہے۔

مثال کے طور پر Free Media سے مراد ہے کہ میڈیا ریاست کے کنٹرول سے باہر چلا جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر میڈیا ریاست کے کنٹرول میں نہ رہے تو پھر کس کے کنٹرول میں رہے؟ ظاہر ہے کہاگر ریاست نہیںتو پھر مارکیٹ ہی اس کی آماج گاہ ہے‘ ریاست کے لیے ممکن ہے کہ وہ سرمائے کی بڑھوتری کے عمل کے خلاف عوامی‘ اکثریتی‘ مذہبی یا ثقافتی بنیادوں پر کوئی ایسا فیصلہ کر دے جو کہ سرمایہ داری کے لیے تباہ کن ہو لیکن مارکیٹ میں جو عقلیت کار فرما ہوئی ہے وہ سرمایہ داری کے فروغ اور سرمائے کی اہمیت کے سوا کچھ اور نہیں۔ ایسی صورت حال میں Free Media کے نام پر ہر جبر کی حیثیت شۂ محض Pure Cormodity سے زیادہ نہیں رہ جاتی اور مارکیٹ میں صرف وہی لوگ غلبہ حاصل کرتے ہیںجن کے پاس سرمایہ ہو اس طرح اس آزادی سے صرف وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو کہ سرمائے کے مخلص ترین خدمت گار ہیں۔ اس طرح Free Media دو کام بیک وقت کرتا ہے

-1 سرمایہ داری کا فروغ۔
-2 مارکیٹ کا ریاست پر تسلط۔

دوسری طرف حقوقِ انسانی کی راہ میں ارتکازِ قوت (ریاستی قوت) کو منتشر کرنے کا اخلاقی جواز پیدا کیا جا رہا ہے۔ اس طرح غیر مرکزیت کے نام پر ریاست کی تقسیم زر اور تخلیق زر کی صلاحیت کو ختم کرنا مقصود ہے تاکہ ریاستی قوت کو عالمی اداروں کے تابع کر دیا جائے اس طرح ایک طرف تو ریاست پر مارکیٹ کا تسلط قائم ہوتا چلا جاتا ہے تو دوسری طرف آزاد عدلیہ کے نام پر بین الاقوامی قوانین کو عوام پر مسلط کرکے استعماری اہداف حاصل کیے جائیں۔

الغرض حقوق انسانی کی مجرد و جدوجہد اخلاقی و سماجی لبادے میں سرمایہ داری کی روحانیت کا پرچار ہے۔حقوق انسانی کے لبادے میں جمہوری نظام سرمایہ داری کو ایک نئی قوت اور اخلاقی اساس فراہم کرتا ہے الحاصل حقوق انسانی کی جدوجہد :

-1 جمہوری نظام میں سرمایہ داری کو لاحق خطرات کا تدارک کرتی ہے۔

-2 جمہوری نظام اور سرمایہ داری کے باہمی گٹھ جوڑ کو عوامی سطح پر قابلِ قبول بنانے کی کوشش کرتی ہے۔

-3 جمہوری نظام کے ذریعے مذہبی اجتماعیت کے کسی ممکنہ خطرے کا تدارک پیش کرتی ہے۔

-4 جمہوری نظام کے ذریعے ریاست کی مارکیٹ پر بالادستی حاصل کرنے کا تدارک کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

-5 حقوق انسانی کے نام پر داخلی (ریاستی) قوانین کو بین الاقوامی قوانین سے ہم آہنگ کرکے عالمی استعمار کی گرفت کو مضبوط کرتی ہے۔

سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد میں مصروف عمل قوتوں کے لیے حقوقِ انسانی کی مجرد و جدوجہد سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا نہایت ضروری ہے اور ان کے مدمقابل اسی جدوجہد کی تشکیلِ نوع جو بیک وقت سرمایہ داری کو بے دخل کرتے ہوئے عالم انسانی کی فلاح کی ایسی تفسیر پیش کرے جو عبدیت انسانیت یعنی الوہیت رسے معمور اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم آہنگ ہو۔نہ کہ عالمی استعمار کے فروغ کا ذریعہ۔

حصہ