میری بادشاہت

280

گھر اور گرہستی عورت کی پہچان ہے، اور عورت مکمل ’’گرہستن‘‘ تب ہی بنتی ہے جب اُس کے ہاتھ میں گھر کا مکمل انتظام ہو، اور جب تک عورت کے ہاتھ میں اس کا کچن ہوتا ہے وہ اپنے گھر کی ملکہ ہوتی ہے۔ کب کس طرح سودا سلف لانا یا منگوانا ہے، یا کیا چیز ختم ہونے سے پہلے ہی آجانی چاہیے اور کس چیز کے بغیر گزارا ہوسکتا ہے یا گھر کا بجٹ کس طرح سے بنانا ہے… یہ عورت کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے جسے وہ بہ خوشی قبول کرتی اور نبھاتی ہے۔ گھر کے اخراجات میں سے بچت کرکے کمیٹیاں ڈالنا اور پھر اس سے ضرورت کی چیزیں لے کر آنا، بیٹیوں کا جہیز تیار کرنا، بیٹوں کے لیے بری کا انتظام کر رکھنا… یہ سب اس کی بہترین گھرداری کا پتا دیتے ہیں۔ اس کے برعکس جو عورتیں کچن کو ہی بوجھ سمجھتی ہیں وہ گھر بھی ٹھیک طور پر نہیں چلا سکتیں۔ کچن سنبھالنا گویا گھر کی بادشاہت ہے جس کی وجہ سے عورت نہ صرف چاق چوبند رہتی ہے بلکہ اس مصروفیت میں بھی لگی رہتی ہے کہ آج کیا پکانا ہے؟ کل کیا پکے گا؟ اور دعوت کا کیا مینو ہوگا؟ اس سب کے لیے اُس کا دماغ مستقل سرگرم رہتا ہے۔ لیکن جب اس عورت کے ہاتھ میں کچن نہیں رہتا تب وہ اپنے ہی گھر میں مہمان بن جاتی ہے۔

کچھ عورتیں جانتے بوجھتے یہ اختیار اپنی اپنی بہوؤں کے حوالے کردیتی ہیں، لیکن ان کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار رہی ہیں۔ کچھ جگہ تو بہوئیں بہت اچھی طرح سے ساس کو ساتھ لے کر چلتی ہیں، لیکن کچھ جگہ وہ کچن کا بیڑا غرق کردیتی ہیں یہ کہہ کر کہ ہمارا گھر تھوڑی ہے، ساس کا ہے۔ تو نہ کچن اس طرح سے صاف ستھرا نظر آتا ہے جیسا کہ ساس کے زمانے میں تھا اور نہ ہی کوئی چیز ٹھکانے پر ملتی ہے۔ وہ اس بات کو بھول جاتی ہیں کہ ساس کا کچن ہو یا آپ کا، کام تو آپ ہی کررہی ہیں، اور وہاں جو کچھ بھی پک رہا ہے اُس میں سے آپ کے میاں اور بچے بھی کھا رہے ہیں۔ یہی بہو جب اپنے گھر اور کچن کی مالک ہوجاتی ہے تو ہر وقت کچن چمکتا نظر آتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیٹوں کی شادی کے فوراً بعد حکمرانی کے شوق میں بہوؤں سے اپنی مرضی کا کھانا پکوانا، ناشتا بنوانا، ہر ذمہ داری ان کے سپرد کردیتی ہیں، اور جب بہو بچے سنبھالنے یا طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے کچن میں نہیں جاسکتی یا بہوئوں کے گھر الگ ہوجاتے ہیں، تب اُن ساسوں کو دوبارہ نئے سرے سے کچن سنبھالنا بہت بھاری لگتا ہے، کیوں کہ عادت ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ اس لیے بہو کو ساتھ ملا کر کام کرنا چاہیے، نا کہ اس کے حوالے پوری بادشاہت کردی جائے۔

اس کے برعکس کچھ عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن سے یہ اختیار محبت سے چھین لیا جاتا ہے۔ اپنے شریکِ حیات کی زندگی میں جو عورت بہت طمطراق کے ساتھ گھر پر اور کچن پر حکومت کررہی ہوتی ہے، شوہر کی وفات کے بعد اس کی حیثیت اُس ملکہ جیسی ہوجاتی ہے جس کے احکامات سنے تو جاتے ہیں مگر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ بظاہر اس کو آرام دیا جارہا ہوتا ہے مگر ’’آپ کچن میں کیوں آگئیں؟‘‘، ’’آپ کو کچھ چاہیے؟‘‘، ’’کچھ کام تھا؟‘‘، ’’مجھے بتادیتیں، میں کردیتی‘‘ جیسے سوالات سے وہ وقت سے پہلے ہی کمزور اور تنہا ہوجاتی ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی ضرورت اب ختم ہوگئی ہے۔ وہ اپنے ہی گھر میں مہمان بن جاتی ہے۔ پھر اس کا دل چاہے بھی تو فرمائش کرتے ہوئے ڈرتی ہے۔ فریج سے کچھ نکال کر کھاتے ہوئے دس مرتبہ سوچتی ہے کہ کسی اور کے لیے کچھ نہ رکھا ہو۔ جو کچھ پکا، اُس کے آگے رکھ دیا جاتا ہے، وہ خاموشی سے کھا لیتی ہے۔ اس ملکہ سے توقع کی جاتی ہے کہ یا تو وہ صرف اللہ اللہ کرے یا بچوں کو سنبھالنے میں مدد کرے، یا پھر سبزی وغیرہ بنادیا کرے۔ اب ایسے وقت میں جب اس کو اپنے مخصوص کمرے، کونے کی ضرورت ہوتی ہے، اس کو مجبور کیا جاتا ہے کہ سب بچوں کے گھر باری باری رہے تاکہ کسی پر بوجھ نہ بنے۔ کچھ عورتیں اس تبدیلی کو بظاہر خوشی سے قبول کرلیتی ہیں کیوں کہ وہ حقیقت پسند ہوتی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ ایک ماں دس بچوں کو سنبھال سکتی ہے مگر بچے جلد ہی گھبرا جاتے ہیں۔ ایسے میں وہ کسی پر بوجھ بننا پسند نہیں کرتیں۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ بڑھاپے میں اس کا اپنا ایک کونا ہو، اپنے سونے جاگنے اور عبادت کی ایک مخصوص پاک صاف جگہ ہو، کیوں کہ اب اس کی حیثیت درخت کی جڑ کی ہوجاتی ہے جس کے پتّے اور ٹہنیاں پھیل چکی ہوتی ہیں اور پھل پھول رہی ہوتی ہیں۔ ان کا دل چاہتا ہے کہ سب کو معلوم ہو کہ وہ ایک جگہ مقیم ہیں اور جس کو ملنا ہو وہ وہاں آسانی سے آجائے، اور اگر وہ کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر ہوتی ہیں تو خود بھی بے چین رہتی ہیں۔ یقینا ایسا ہر جگہ نہیں ہے، الحمدللہ آج بھی ہمارے گھرانوں میں بزرگوں کی اپنی ایک نمایاں حیثیت اور مقام ہے اور تمام کام اُن کے مشورے سے کیے جاتے ہیں، وہ ہمیشہ گھر کے سربراہ اور بادشاہ/ ملکہ کی حیثیت سے ہی رہتے ہیں۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجے یعنی ’’عزت دو اور عزت لو‘‘، تبھی باشاہت قائم رہتی ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو کتنا ہی سر آنکھوں پر بٹھایا جائے بزرگوں کی عزت کرنا نہیں جانتے۔ بس سامنے ہاں جی ہاں ہوتی ہے لیکن دل میں ’’ساس، ساس ہوتی ہے، ماں نہیں ہوتی‘‘، ’’بہو، بہو ہوتی ہے، بیٹی نہیں ہوتی‘‘ کا یقین ہوتا ہے، اور یہ لوگ پھر خسارہ ہی اٹھاتے ہیں۔

حصہ