بہت پہلے مولانا ماہر القادری کی ایک نظم پڑھی تھی ’’قرآن کی فریاد‘‘ اس نظم میں قرآن حکیم کا یہ شکوہ بڑے مؤثر انداز میں مسلمانوں کے سامنے پیش کیا گیا تھا کہ مسلمان مجھے آنکھوں سے احتراماً لگاتے ہیں‘ چومتے ہیں‘ سوئم اور چہلم میں جمع ہو کر مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے تلاوت کرتے ہیں اور پھر جُزودان میں لپیٹ کر طاق پر دھر دیتے ہیں۔ جس اعلیٰ ترین مقصد کے لیے مجھے اتارا گیا تھا‘ بس اس کے سوا میرا ہر طرح کا استعمال مسلمانوں میں رائج ہے۔
ہم میں سے اکثر مسلمانوں نے اس نظم کا گہرا اثر قبول کیا اور اس اثر کا کم از کم میں نے خود اپنی گناہ گار آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ مولانا ماہر کی اس پُر تاثیر نظم کو بھی نہایت دل کش کتابت کے ساتھ فریم کرا کے اکثر مسلمان بھائیوں نے اپنے ڈرائنگ روم میں آویزاں کر دیا۔
قرآن روح انسانی میں وہ انقلاب برپا کرتا ہے کہ اگر خلوصِ نیت‘ طلبِ ہدایت اور جذبۂ عشق سے اس کو سمجھ کے پڑھا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ آدمی بدل نہ جائے۔ قرآن حکیم معنی کا ایک بے کراں سمندر ہے۔ دنیا کی کتنی ہی زبانوں میں اس کی سینکڑوں جلدوں میں تفسیریں لکھی گئیں‘ آئندہ بھی لکھی جاتی رہیں گی پھر بھی ایک اور تفسیر کی ضرورت رہے گی۔ جی ہاں کروڑوں‘ اربوں تفاسیر لکھ دی جائیں تب بھی۔
جدید سائنس جو قوانین فطرت کی دریافت اور تسخیر فطرت کو اپنا فریضہ جانتی ہے‘ اس کی محیرالعقول ایجادات اور حیرت افزا دریافتوں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں سائنس کی ان کامیابیوں اور فتوحات کے زیر اثر یہ احساس پیدا کیا کہ کیوں نہ قرآن جو خالق کائنات کی نازل کی ہوئی کتاب ہے‘ اس کا مطالعہ کائناتی قوانین کی تفتیش و تحقیق کے نقطۂ نظر سے کیا جائے۔ سر سید احمد خان پہلے مسلمان دانش ور تھے جنہوں نے یہ دلیل دی تھی کہ کائنات خدا کا فعل اور قرآن خدا کا قول ہے۔ خدا کے قول اور فعل میںتضاد ناممکن ہے۔ لہٰذا کیوں نہ غور و فکر کے ذریعے ان کے درمیان تطابق کو تلاش کیا جائے۔
ڈاکٹر دلدار احمد قادری بھی ان ہی اہلِ علم میں ہیں جو قرآنِ حکیم کا مطالعہ اسی روشنی میں عام کرنا چاہتے ہیں‘ غالباً وہ سمجھتے ہیں اس طرح مسلمانوں میں سائنس کے حوالے سے جو انحطاط و زوال کی کیفیت کئی صدیوں سے ہے‘ اس سے وہ باہر نکل سکیں گے اور اپنی الہامی کتاب پر ان کے ایمان و ایقان میں اضافہ بھی ہو سکے گا۔
ڈاکٹر قادری سائنس کے معلم اور کیمیا میں پی ایچ ڈی ہیں۔ انہوں نے یہ سند کراچی یونیورسٹی کے عالم شہرت یافتہ سائنس کے تحقیقی ادارے ایچ اے جی انسٹی ٹیوٹ سے حاصل کی ہے۔ وہ ایک درجن سے زائد کتابیں تصنیف کر چکے ہیں جن میں ’’کائنات‘ قرآن اور سائنس‘‘، ’’قرآنی آیات اور سائنسی حقائق‘‘، ’’علم جدید اور مذہب‘‘، ’’فلسفہ اسلامی انقلاب‘‘ جیسی معلومات افزا اور فکر انگیز کتابیں شامل ہیں۔ انہوں نے گیارہویں اور بارہویں جماعت کے لیے کیمیا کی نظری اور عملی کتابیں بھی لکھی ہیں۔
قرآن اور جدید سائنس کا باہمی تعلق ڈاکٹر صاحب کی دل چسپی کا خصوصی موضوع ہے۔ اکتوبر 1998ء میں آپ نے ’’تحریک آگہی‘‘ کے عنوان سے ایک فکری تحریک کی بنیاد بھی رکھی جس کا نصب العین تفکرِ اسلامی اور تمدن اسلامی کی تجدید اور احیا ہے۔ اس تحریک کے تحت فہم القرآن فائونڈیشن کے نام سے ایک ٹرسٹ قائم کیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد جدید ترین علمی‘ فکری اور سائنسی سطح پر قرآن مجید کی فہم اور دعوت کو فروغ دینا ہے۔
طاہر مسعود: سائنس اور قرآن آپ کے پسندیدہ موضوعات ہیں یہ فرمایئے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ قرآن اور سائنس کے حوالے سے ہمارے ہاں تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ مغرب میں اس موضوع کی طرف محققین نے توجہ کی ہے اور وہاں سائنس کا علم بھی مسلسل ترقی کر رہا ہے۔
ڈاکٹر دلدار قادری: یہ بات بالکل صحیح ہے کہ جدید ترین سائنسی سطح پر جو تحقیقات ہوئی ہیں اور انسان نے جو پیش رفت کی ہے‘ یہ ساری سائنسی تحقیق نزولِ قرآن کا نتیجہ ہے۔ قرآن مجید نے انسان کی توجہ کائنات کی طرف مبذول کرائی اور قرآن مجید میں کل 6 ہزار 3 سو 26 آیات ہیں جس میں سے ساڑھے سات سو آیات کا مطلب ہے قرآن مجید کا 1/8 حصہ۔ اگر آپ قرآن مجید پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ قرآن مجید تکرار کے ساتھ بار بار اپنے پڑھنے والے کی توجہ کائنات اور کائناتی مظاہر کی طرف مبذول کراتا ہے۔ قرآن مجید کے نزول سے پہلے کی جو سائنس ہے جس میں خاص طور پر یونان مرکز ہے‘ وہ استخراجی سائنس ہے جس کو آپ سائنس کے مقابلے میں فلسفہ کہہ لیں۔ قرآن مجید کے نزول نے جس سائنسی منہاج کی بنیاد رکھی‘ وہ ہے استخراجی طریقہ علم جس کے معنی ہیں تجربہ‘ مشاہدہ کائنات پر غور و فکر اور اس کے نتیجے میں اصول و ضوابط۔ مسلمانوں نے قرآن مجید کے اس فہم کو سمجھا‘ اس پیغام کو سمجھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ علمی میدان میں دنیا کی امامت کرنے لگے۔ بڑے بڑے سائنس دان پیدا ہوئے لیکن گزشتہ کوئی ڈھائی سو سال میں امت مسلمہ جس زوال اور انحطاط کا شکار ہوئی‘ اس میں غیروں نے ہمارے نظامِ تعلیم کو بگاڑا اور ہماری تاریخ میں پہلی بار علوم کی تقسیم کی گئی یعنی سائنسی علوم اور مذہبی علوم کو الگ الگ بانٹ دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو لوگ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکل کر آرہے ہیں وہ مذہبی علوم سے ناواقف ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ قرآن مجید کیا کہنا چاہتا ہے اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو دینی مدارس سے نکل کر آتے ہیں‘ بدقسمتی سے دور جدید کے علوم اور دور جدید کے افکار و نظریات اور سائنس سے کلیتاً ناواقف ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا ہے کہ یہ دو الگ الگ دھارے بن گئے ہیں اور ان کا آپس میں کوئی ربط نہیں جس کی وجہ سے یہ ہوا کہ قرآنی علوم اور سائنسی علوم میں ایک خلیج سی پیدا ہو گئی ہے۔ اس خلیج کو پاٹنے کے لیے ضروری ہے امتِ مسلمہ دوبارہ سامنے آئے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ جدید ترقی کے جتنے سوتے ہیں وہ قرآن سے پھوٹتے ہیں اور قرآن کو اس نظر سے پڑھیں تو بڑی خوشی ہوتی ہے کہ کس طرح سے جدید ترین ترقیاں قرآنی افکار کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔
طاہر مسعود: جب ہم سائنسی علوم کی بات کرتے ہیں تو ایک رویہ دیکھنے میں آیا ہے کہ سائنس کی کسی ایجاد‘ کسی دریافت‘ کسی انکشآف کی بنیاد پر ہم قرآن حکیم کی تصدیق کرتے ہیں یعنی ہم یہ کہتے ہیں کہ دیکھیے آج سائنس یہ بات کہہ رہی ہے جب کہ قرآن حکیم نے تو یہ بات چودہ صدیاں پہلے ہی کہہ دی تھی تو گویا سائنس نے قرآن کی تصدیق کی تو ہمارا ایمان بڑھا۔ یہ روّیہ کچھ درست محسوس ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ قرآن حکیم سائنس کی تصدیق کا محتاج ہے؟
ڈاکٹر دلدار قادری: بنیادی بات یہ ہے کہ قرآن مجید صرف احکامات کی کتاب نہیں ہے‘ احکامات‘ فقہ اور روز مرہ کی معلومات کے حساب سے قرآن حکیم میں سوا سو کے قریب آیات ہیں۔ قرآن مجید کی زیادہ تر آیات کا تعلق ان ہی شعبوں سے ہے جسے ہم نفسیات کہتے ہیں جس کو انسان کے سماجی‘ سیاسی‘ معاشی رویے اور وہ تمام شعبے آتے ہیں جن کو آج کی زبان میں اکتسابی علم کہتے ہیں۔ لازمی طور پر یہ بات ہوگی کہ جیسے جیسے انسان کے شعور میں اضافہ ہوگا‘ انسان کی فکری سطح میں بلندی آئے گی تو وہ جب بلند تر انٹی لیکچیوئل سطح پر قرآن کو پڑھے گا تو قرآن مجید کے نئے نئے انکشافات اس کے سامنے آئیں گے جو پہلے کے زمانے کے لوگوں کے سامنے نہیں آئے تھے۔ لہٰذا اس طریقے سے اکتسابی علم قرآنی علم کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ اس کا قطعاً یہ مقصد نہیں ہوتا کہ اکتسابی علم سے ہم قرآن کے علم کی تصدیق کرتے ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ وحی کے ذریعے قرآن میں جو بات آتی ہے تو اکتسابیء علم نے اس علم کو اپنے طور پر حاصل کیا۔ اس طرح سے دونوں علوم ایک دوسرے کے لیے سپلی مینٹری ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھتے ہیں۔
طاہر مسعود: یہ بات کس حد تک صحیح ہے کہ ہم ایجادات اور نظریات کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ چیز تو پہلے سے قرآن میں موجود ہے‘ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم پہلے اسے قرآن میں ہی تلاش کریں اور پھر جب وہ چیز ایجاد یا دریافت ہوتی ہے تو ہمیں قرآن کے حوالے سے اس کا پہلے سے علم ہو‘ شاید ایسا اب تک اس لیے نہیں ہو سکا کہ ہمارے ہاں قرآن کو سائنسی بنیادوں پر پڑھانے کا رواج نہیں ہے۔ اس نہج پر کہیں کوئی کام ہو رہا ہے؟
ڈاکٹر دلدار قادری: ہماری سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ جتنے علما سے ملتا ہوںتو اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن مجید پر غور و فکر کیے بغیر ان کی ایک Assumption ہے‘ ایک مفروضہ ہے کہ اس میں فقہ کے معاملات ہوںگے‘ پردے کے احکامات وضو اور نماز کی باتیں ہوں گی۔ یہ باتیں تو قرآن میں ہیں لیکن اس سے ہٹ کر ہمارا ذہن جاتا ہی نہیں کیوں کہ ہم نے قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھا ہی نہیں اور نہ ہمارے علما نے سمجھانے کی کوشش کی کہ قرآن حکیم تو علوم کا منبع ہے‘ سرچشمہ علوم ہے اور میں آپ سے عرض کروں گا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عبس کا ایک قول پڑھا ہے کہ قرآن مجید وہ کتاب ہے جس کی تفسیر خود وقت اور زمانہ کرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جوں جوں وقت ترقی کرتا جائے گا‘ علم میں ترقی ہوگی‘ انٹی لیکچیوئل لیول بڑھے گا۔ انسان کے پاس زیادہ سے زیادہ معلومات آئیں گی‘ وہ پلیٹ فارم اونچا ہوتا جائے گا جس پر کھڑے ہو کر انسان قرآن مجید کی طرف دیکھے گا تو اس کے علم میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ یہ البتہ ضرور ہے کہ ایسے ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں جو قرآن کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش کریں۔ ہمارے ہاں مذہب کی سیاسی تعبیر نے جو اپنی جگہ پر ایک خاص حوالے سے ٹھیک ہے اور اس کی گنجائش موجود ہے لیکن یہ تعبیر اس قدر ہمارے ذہنوں پر چھا گئی کہ ہم نے اس کے دوسرے پہلوئوں کو نظر انداز کر دیا۔ قرآن مجید اور فقہ اور اس طرح کے موضوعات پر تو بہت تحقیق ہے لیکن قرآن مجید اور سائنس‘ قرآن مجید اور نفسیات‘ قرآن مجید اور کیمیا‘ قرآن مجید اور طبیعات‘ یہ وہ شعبے ہیں جن پر کوئی تحقیق ہے ہی نہیں۔ لے دے کر کچھ کتابیں آئی ہیں تو وہ بھی یورپین نو مسلم کی ہیں۔ مثلاً مورس بوخیلے کی کتاب ’’دی بائبل قرآن اینڈ سائنس‘‘ اس طرح کی کتابیں آرہی ہیں۔جہاں تک تعلق ہے جدی پشتی مسلمانوںکا‘ ان کی توجہ ادھر نہیں ہو رہی ہے۔ خدا کے فضل و کرم سے چند سال پیش تر ہم نے اس طرف توجہ کی اور ’’تحریک آگہی‘‘ کے نام سے ایک پلیٹ فارم بنایا جو خالصتاً قرآن حکیم کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنے کے موضوع پر کام کر رہا ہے اس سلسلے میں ہمارا ارادہ ہے کہ ایک ادارہ ہم ایسا بنائیں جس میں جدید ترین اسلوب کے ساتھ قرآن حکیم پر تحقیق کی جائے لیکن ابھی شروعات ہیں۔ دروس قرآن کا سلسلہ جاری ہے۔ اجتماعات ہو رہے ہیں‘ چھوٹے چھوٹے سیمینار ہم کر رہے ہیں‘ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کامیابی عطا فرمائے۔ علامہ جوہری طلنطاوی جو بیسویں صدی میں مصر کے عظیم مفسر ہیں‘ ان کی تفیسر پاکستان میں دستیاب ہے۔ انہوں نے سائنسی تفسیر لکھی ہے۔ یہ پہلی تفسیر ہے جو دور جدید میں سائنسی حوالے سے لکھی گئی ہے۔ سائنس تو ایک رواں دواں علم ہے جو کسی خاص زمانے میں آگے رکتا نہیں ہے۔ اس تفسیر کے شروع میں انہوں نے لکھا ہے کہ ساڑھے سات سو آیات ایسی ہیں جن کا تعلق کائنات کے مظاہر سے ہے تو یقینا مسلمانوں کو اس طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ قرآن مجید کو ہم جدید ترین علم کے حوالے سے سمجھیں۔
طاہر مسعود: قرآن حکیم کو براہِ راست سمجھنے کے لیے عربی سیکھنے کی طرف توجہ کم دی جاتی ہے۔ کیا صرف ترجمہ پڑھنے سے ہم قرآن حکیم سے قریب ترین مفاہیم اخذ کر سکیں گے جب کہ ترجمہ میں اختلاف معنی بھی کسی حد تک پایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر دلدار قادری: کلام کوئی بھی ہو اس کا ترجمہ بہرحال ترجمہ ہوتا ہے۔ اصل کلام کے برابر نہیں ہو سکتا‘ جہاں تک تعلق قرآن مجید کا ہے تو یہ اللہ کا کلام ہے۔ اللہ کا کلام‘ انسان کے فہم کی رسائی سے بلند تر ہے۔ کوئی شخص بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں نے اللہ کے کلام کو آخری حد تک سمجھ لیا ہے لیکن اس کے باوجود قرآن کو سمجھنے کی کوشش تو کی جائے گی اور ترجمہ ان ہی کوششوں میں سے ایک ہے۔ اس کا مطلب یہ نکلا کہ آپ گہرائی میں جا کر عربی زبان سیکھیں۔ ہونا تو یہی چاہیے لیکن کم سے کم تقاضا ترجمے سے پورا ہو جاتا ہے۔ ترجمہ قرآن کا بدل تو نہیں لیکن ترجمہ قرآن کی ایک سطحی سیر تو کرا دیتا ہے۔ قرآن مجید کے مضامین سے واقف کرا دیتا ہے۔ ہمارے ہاں دو انتہائی ہیں‘ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ قرآن مجید کو سمجھے بغیر پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہتے ہیں کہ ترجمہ پڑھنے کا کوئی ثواب ہی نہیں ہے۔ یہ دو طبقے ہیں‘ اصل زاویہ‘ نظر یہ ہونا چاہیے کہ درمیانی سوچ ہونی چاہیے۔ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے‘ اگر آپ اسے سمجھے بغیر بھی پڑھیں گے اور ایمان اور ثواب کی نیت سے پڑھیں گے تو ثواب ملے گا لیکن قرآن مجید کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ اس کو تلاوت کرتے رہیں۔ قرآن مجید آیا اس لیے ہے کہ اسے سمجھا جائے‘ اس پر غور و فکر کیا جائے‘ اس کو اپنایا جائے۔ ہم اسے اپنا نہیں سکتے جب تک اسے سمجھیں گے نہیں اور سمجھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے ہم ترجمہ پڑھیں۔ اردو میں جو ترجمے میرے پاس ہے ان کی تعداد 30 سے زیادہ ہے۔ سبھی مکاتب فکر کے علما نے جو ترجمے کیے ہیںکیا وہ علما کے لیے کیے ہیں‘ میرا خیال ہے کہ شاید نہیں۔ یقینا وہ اس لیے کیے گئے ہیں کہ عام آدمی بھی اس سے استفادہ کرے۔ لہٰذا ترجمے بہرحال اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلنے والے لوگوں کو یہ ترجمے اس لیے تشنہ محسوس ہوتے ہیںکہ قرآن کا ترجمہ اور تفسیر کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے جو ایک کمیٹی کرے اور اس کمیٹی میں مختلف علوم کے ماہرین ہوں اور ہر ماہر اپنے اپنے شعبے کے حوالے سے قرآن مجید کا مطالعہ کرے‘ اس کا ترجمہ کرے اور تفسیر لکھے‘ یہ کام ایران میں بھی ہوا ہے اور پاکستان میں بھی ہونا چاہیے۔
طاہر مسعود: آپ کا ادارہ اس حوالے سے کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟
ڈاکٹر دلدار قادری: ہم یہ چاہ رہے ہیں وار میری یہ سوچ ہے کہ جس طرح ’’تفسیر نمونہ‘‘ ایران میں لکھی گئی‘ اسے وہاں کی ایک کمیٹی نے لکھا۔ کوئی بھی شخص قرآن مجید کے سارے مضامین کے اوپر دست رس نہیں رکھ سکتا۔ اگر مختلف علوم کے چوٹی کے ماہرین بیٹھ کر تفسیر لکھیں جو جدید ترین علوم کے تناظر میں ہو تو ’’تحریک آگہی‘‘ کے ایجنڈے میں یہ بات شامل ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ قرآن مجید کو اس طرح پڑھیے جیسے یہ خود آپ پر نازل ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ قرآن مجید کو چودہ سو سال پرانی کتاب سمجھ کر نہیں بلکہ آج کی کتاب جو ابھی‘ اسی لمحے نازل ہوئی ہو‘ سمجھ کے پڑھیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن مجید کے سامنے وہ سارے مسائل‘ سارے افکار موجود ہیں جو آج کے انسان کے سامنے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ جب گلوبل ولیج کے ماہرین قرآن پر لکھیں گے تو وہ آج کے آدمی کے لیے ہوگی۔
طاہر مسعود: آپ کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ قرآن حکیم کا مطالعہ مختلف علوم کی روشنی میں کیا جائے‘ اس میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن حکیم کا موضوع انسان ہے‘ انسان کی زندگی‘ اقس کا ماضی‘ موت کے بعد کی زندگی‘ اس کا اس کے رب سے تعلق وغیرہ۔ قرآن اس لیے نازل ہوا ہے کہ انسان کا اس کے رب سے ٹوٹے ہوئے تعلق کو جوڑا جائے تو اب سوال یہ ہے کہ قرآن مجید جس مقصد کے لیے نازل ہوا ہے‘ اس کو اس حوالے سے سمجھا جائے‘ اس کی تفہیم کی جائے کہ جس کے لیے وہ اترا ہے نا کہ مختلف علوم کی کتاب سمجھ کر اس کو پڑھا جائے۔
ڈاکٹر دلدار قادری: بہت خوب صورت بات آپ نے کہی۔ اس سلسلے میں علوم کو ہم دو حصوں میں بانٹ لیں تو آسانی ہو جائے گی۔ ایک تو فزیکل سائنسز اور دوسرے سوشل سائنسز۔ جب ہم کہتے ہیں کہ قرآن مجید کا موضوع انسان ہے تو اس کا مطلب یہ نکلا کہ انسان اس کی سوسائٹی‘ اس کا رہن سہن‘ تہذیب و تمدن‘ کلچر‘ سماجیات وغیرہ۔ یہ سوشل سائنس کا موضوع بن جاتا ہے۔ بدنصیبی سے اس موضوع پر ابن خلدون پر آکر معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ سوشل سائنس کے حوالے سے الماوروی کا کام کتنا بڑا ہے۔ دوسرا شعبہ طبیعاتی علوم کا ہے‘ جس میں نفسیات‘ کیمیا‘ طبعیات‘ طب وغیرہ آتے ہیں۔ ان شعبوں پر بھی قرآن مجید خاموش نہیں ہے۔ بادلوں کا بننا‘ آسمان‘ زمین کی تخلیق‘ کہکشائیں‘ سمندر میں کشتیوں کا چلنا‘ سوال یہ ہے کہ قرآن مجید کا موضوع انسان ہے تو جہاں قرآن انسان کو نہ صرف اس کے معاشرتی رویے درست کرنے کی دعوت و تبلیغ دیتا ہے بلکہ وہ اس کی انٹی لیکچیوئل سطح کو بھی بلند کرنا چاہتا ہے تاکہ انسان کائنات کو سمجھ کر خالق کائنات کی جانب آگے بڑھ سکے اور پھر وہ روحانی ارتقا‘ روحانی بلندی کی منزل پر فائز ہو سکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید اللہ کی معرفت کا ذریعہ ہے اور معرفت نہیں ہوسکتی‘ یعنی اللہ کی ذات تو حواس‘ وجدان وغیرہ سے ماورا ہے‘ اب اللہ کی معفرت کیسے ہو۔ اللہ کی معرفت ہوگی اس کی صفات کی جلوہ گری کے مشاہدے سے اور فزیکل کائنات اللہ تعالیٰ کی ربوبیت‘ اس کی قیومیت‘ اس کی خلاقیت کی مظہر ہے۔ یہ صفات کی جلوہ گری ہے تو جب ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کا مطالعہ کرتے ہیں تو بل واسطہ طور پر ہم اللہ تعالیٰ کی معرفت کے لیے آگے بڑھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اندر اپنی باتوں کو تھوپا نہیں ہے‘ ہمیں بڑی حیرت ہوتی ہے کہ جب قرآن مجید کوئی دعویٰ کرتا ہے تو وہ اسے امپوز نہیں کرتا بلکہ دعوے کے ساتھ دلیل پیش کرتا ہے اور دلیل ہمیشہ کائنات سے دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ کائنات کا مطالعہ اور قرآن کا مطالعہ دونوں ایک ہی چیزیں ہیں۔ کائنات اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے اور قرآن مجید اللہ کا کلام ہے۔ جب آپ کائنات کو پڑھیں گے تو وہ سائنس بن جائے گی اور جب آپ اللہ کے کلام کو پڑھیں گے تو وہ تفسیر بن جائے گی۔ دونوں کا آپس میں تعلق ہے‘ دونوں کو ہم جد انہیں کر سکتے۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ کائناتی علم کے بغیر قرآن مجید کو سمجھنے کا دعویٰ بے بنیاد ہے اور اس طریقے سے کوئی شخص قرآن مجید کو سمجھے بغیر کائنات کو سمجھنے کا دعوے دار ہے تو وہ بھی غلط ہے۔ آج یورپ کی تہذیب کو جس بحران کا سامنا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اس نے ادھورا علم حاصل کیا۔
طاہر مسعود: اچھا یہ فرمایئے کہ جب ہم اس زمانے کا مطالعہ کرتے ہیں جس زمانے میں قرآن نازل ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تبلیغ شروع کی تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے کے سلسلے میں قرآن مجید نے سب سے بنیادی کردار ادا کیا کہ آپؐ آیات پڑھ کر سناتے تھے اور کفار و مشرک مسحور ہوکر ایمان لے آتے تھے۔ اس طرح کے بے شمار واقعات نظر آتے ہیںکہ جس میں قرآن حکیم کی آیات‘ اس کی تلاوت‘ اس کا پیغام اثر انداز ہوئے اور غیر مسلموں نے اسلام قبول کر لیا تو جس قرآن حکیم نے جزیرہ عرب کی تقدیر بدل ڈالی اور جس قرآن کو لے کر مسلمان نکلے اور ساری دنیا پر چھا گئے‘ وہی قرآن ہے‘ وہی آیات اور وہی سورتیں ہیں لیکن آج وہ قرآن ہمارے دلوں میں انقلاب پیدا کرنے سے کیوں قاصر ہے؟
ڈاکٹر دلدار قادری: آپ نے بڑی خوب صورت بات کہی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن مجید کو عملاً چھوڑا ہوا ہے۔ یعنی آپ دیکھیں کہ دنیا میں سوا ارب مسلمان ہوں گے جن میں سے پندرہ بیس فیصد کی زبان عربی ہے‘ باقی تقریباً 50 سے 80 فیصد مسلمان ایسے ہیں جن کی مادری زبان عربی نہیں ہے۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ پہلے مرحلے پر اکثریت قرآن سمجھنے سے قاصر ہے۔ گزشتہ دو ڈھائی صدیوں میں جو نظامِ تعلیم اسلامی ممالک کے اندر آیا‘ اس نے قرآن مجید سے لوگوں کو کاٹ کر رکھا ہوا ہے۔ ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلبہ قرآن سے واقف نہیں ہوتے۔ عام لوگوں کے ہاں قرآن کی صرف تلاوت کی جاتی ہے اور وہ بھی سوئم اور چہلم کے مو اقع پر یا رمضان المبارک کے مہینے میں‘ جب قرآن ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ یہ سب بھی اچھی باتیں ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے لیکن جب تک ہم قرآن مجید کو سمجھیں گے نہیں‘ اسے کیسے اپنائیں گے؟ آج قرآن مجید وہ کردار اس لیے ادا نہیں کر رہا ہے کہ قرآن کو ہم نے اپنی زندگی سے عملی طور پر کاٹا ہوا ہے۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو قرآن کو کتابِ ہدایت سمجھ کر پڑھتے ہیں‘ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے تعلیم کی نظام کی اصلاح کریں۔
طاہر مسعود: ہمارا جو دینی طبقہ ہے جنہیںعلما کہا جاتا ہے جو عربی بھی جانتے ہیں‘ قرآن حکیم کے مطالعے سے ان کے قلوب میں انقلاب کیوں نہیں آتا‘ ان کے کردار میں کوئی تبدیلی کیوں واقع نہیں ہوتی؟
ڈاکٹر دلدار قادری: میں ذاتی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قرآن کو سمجھ کر پڑھتے ہیں اور جس کی وجہ سے ان کی زندگیاں صاف ستھری ہیں بلکہ وہ لوگ جنہیں غیر علما کہتے ہیں وہ اگر قرآن حکیم کو سمجھ کر پڑھتے ہیں تو دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ کاروبار میں ہیں تو اپنے آپ کو پاک صاف رکھتے ہیں‘ وہ جہاں کہیں بھی ہیں‘ ان کی زندگی میں طہارت نظر آئے گی۔ لیکن ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ دین اسلام میں کوئی پروہت‘ کوئی مذہبی اور غیر مذہبی کی تقسیم نہیں ہے۔ کچھ لوگوں نے دین کے کاموں کو سنبھال لیا ہے اور وہ مذہبی کہلانے لگے ہیں لیکن اسلام میں اس قسم کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ ہر شخص جو کلمہ گو ہے وہ برابر کی سطح پر ذمہ دار ہے‘ وہ برابر کے حقوق رکھتا ہے۔